جنرل قاسم سلیمانی اور ابومہدی المہندس کی شہادت کو ایک سال مکمل ہوگیا ۔ان کی شہادت کے بعد جس طرح عالمی سطح پر سیاسی ،سماجی اور ثقافتی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہ زندہ انسانوں کو دعوت فکر دیتی ہیں ۔اس واقعہ کے فوراََ بعدکورنا جیسی وبا عذاب کی صورت میں ساری دنیا پر مسلط ہوگئی ۔کورونا نے عالمی طاقتوں کے خدائی دعوئوں کی پول کھول کر رکھدی ہے اور اس وقت دنیا اقتصادی بحران کی زد میں ہے ۔ان کی شہادت کے بعد ایک پل کے لئے بھی دنیا نے سکون کا سانس نہیں لیا ۔یقیناََ یہ شہید کی مظلومانہ شہادت کا بولتاہواانتقام ہے جو اللہ کی طرف سے لیا جارہاہے ۔دنیا کے حالات دگرگوں ہیں اور کسی کو اس عذاب ناگہانی سے نکلنے کی تدبیر نہیں سوجھ رہی ۔کورونا وبا نہیں بلکہ ایک قدرتی آفت ہے جس نے عالمی طاقتوں کے غرور اور تکبر کو زمیں بوس کردیا ۔جس طرح جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد عراق میں امریکی ائیر بیس پر ایرانی میزائلوں کےشدید حملے نے امریکی فوجی طاقت کے دبدبے کو ختم کردیا تھا ۔آج ہر چھوٹی سے چھوٹی طاقت بھی امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کررہی ہے ،یہ انقلاب جنرل سلیمانی اور ان کے رفقاء کی شہادت کے بعد دیکھنے میں آیاہے ۔امریکہ چھوٹی چھوٹی تنظیموں ،گروہوں اور منجھولی طاقتوں سے مذاکرات کی کوششیں کررہاہے تاکہ اس کی بچی کھچی ساکھ پر حرف نہ آئے ۔افغانستان میں طالبان سے امریکی مذاکرات نے اس کے سیاسی وجود پر سوالیہ نشان کھڑ ا کردیاہے ۔
جنرل سلیمانی اور ابومہدی المہند س کو شہید کرنا یہ بتلا رہاہے کہ دشمن ان کی جرأت اور حوصلے سے کتنا خوفزدہ تھا ۔دونوں شہید آمنے سامنے کی لڑائی میں یقین رکھتے تھے ۔ان کی زندگی میدان جنگ میں گذری تھی لہذا دشمن اگر صاحب جرأت ہوتا تو ان کا مقابلہ میدان جنگ میں کرتا ۔مگر رات کے اندھیرے میں بزدلانہ حملہ یہ بتلا رہاہے کہ دشمن میں ان کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی ۔امریکہ یہ سمجھ رہا تھاکہ جنرل سلیمانی کو شہید کرکے وہ ایرانی فوج کی قائدانہ صلاحیت کوختم کردے گا مگر ان کی شہادت کے فوراََ بعد اسماعیل قاآنی کا قدس فورس کے جنرل کے عہد ے پر تقررہونا دشمن کے لئے واضح پیغام تھاکہ ایران میں قاسم سلیمانی جیسے عظیم مجاہدوںکی کمی نہیں ہے ۔ان کی شہادت یقیناََ ایرانی فوج اور ملت کا بڑا نقصان ہے ۔ ان کا متبادل ممکن نہیں!مگر ان کے پاس جرأت مند اور باصلاحیت قیادت کا فقدان نہیں ہے ۔وہ ہر شعبے میں قیادت کی متعدد نظیریں رکھتے ہیںجس کا دشمن کے پاس کوئی جواب نہیں ۔
استعماری طاقتیں یہ سمجھ رہی تھیں کہ جنرل سیلمانی کو شہید کرکے انہوں نے ایرانی فوجی طاقت اورسیاسی نظام کو پوری طرح تہس نہس کردیاہے ۔انہیں یقین ہوچلا تھا کہ ایک بار پھر وہ اپنے دہشت گرد گروہوں کو عراق ،شام اور یمن جیسے مسلم ملکوں میں متحرک کردیں گے ۔کیونکہ جنرل سلیمانی دہشت گرد تنظیموں کے وجود کے لئے سب سے بڑا خطرہ تھے جنہیں دشمن اپنے زعم ناقص میں ختم کرچکا تھا ۔مگر بہت جلد انہیں یہ اندازہ ہوگیاکہ جنرل سلیمانی کا جسم ختم ہواہے مگر ان کی فکر اورارادےاسی تابناکی اور طاقت کے ساتھ زندہ ہیں۔ان کی راہ پر چلنے والے بیشمار ایسے جیالے مجاہد موجود ہیں جو استعماری طاقتوں کی سازشوں اور منصوبوں کو کبھی پنپنے نہیں دیں گے ۔
جنرل سلیمانی کی شہادت کے بعد استعماری طاقتوں نے عجلت میں ’ صدی معاہدہ‘ کا اعلان تو کردیا مگر ابھی تک اس منصوبےکو عملی شکل نہیں دی جاسکی ۔اسرائیل کو تسلیم کرنے کی سیاست کے پس پردہ استعماری طاقتوں کے شانہ بہ شانہ نام نہاد مسلمان ممالک ضرور شامل ہیں مگر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی موجودہ سیاست کسی نئی حکمت عملی کا حصہ نہیں ہے ۔جو ممالک آج اسرائیل کو تسلیم کررہے ہیں وہ پہلے بھی اسرائیل کے خلاف نہیں تھے ۔یہ مسلمان ممالک استعماری طاقتوں کے غلام ہیں جو ہمیشہ ان کے اشارے پر بھونکتے اور دُم ہلاتے ہیں لہذا ان کا اسرائیل کو تسلیم کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے ۔اسرائیل کا اپنے وجود کو تسلیم کروانے میں عجلت پسندی کا اظہار اس بات کی دلیل ہے کہ وہ آج بھی اپنے وجود کو لیکر مطمئن نہیں ہے ۔یہ عدم اطمینانی اچانک وجودمیں نہیں آئی ہے بلکہ اس کے پیچھے ان شہداء کی قربانیاں کارفرما ہیں جنہوں نے اپنا لہو دیکر مظلومین و مستضعفین کے حقوق کی پاسداری کا فریضہ ادا کیاہے ۔فلسطین کا تحفظ امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے ۔اس ذمہ داری کی ادائیگی میں ایرانی مجاہدین نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیاہے اور کسی بھی طرح کی قربانیوں سے دریغ نہیں کیا ۔قبلۂ اول کی بازیابی جنرل سلیمانی اور ان جیسے ہزار وں لاکھوں مجاہدین اسلام کا خواب ہے جو ان شاء اللہ بہت جلد شرمندۂ تعبیر ہوگا۔
حال ہی میں استعماری آلۂ کاروں کے ذریعہ ایرانی جوہری سائنس داں محسن فخری زادہ کا بہیمانہ قتل دشمن کے خوف کو ظاہر کررہاہے ۔اقتصادی پابندیوں کے باوجود ہر شعبۂ ہائے زندگی میں ایران کی حیران کن پیش رفت نے ان کے ہوش اڑادیے ہیں ۔پابندیوں نے ایران کو خود کفیل بنانے میں اہم کردار ادا کیاہے ۔اگر ایران پر امریکہ کے ذریعہ اقتصادی پابندیاں عائد نہ کی جاتیں تو ممکن ہے کہ ایران اس قدر پیش رفت نہ کرپا تا مگر امریکی آمریت کے خلاف اس کے عوام کی مقاومت نے انہیں ہر میدان میں ترقی کے لئے مہمیز کیا ۔یعنی دشمن کا ہر پانسہ الٹا پڑتا گیا اور آج عالم یہ ہے کہ ایران مشرق وسطیٰ ہی نہیں دنیا کی بڑی طاقتوں میں شامل ہے ۔اس حقیقت کا اعتراف استعماری طاقتیں اور اسکے آلۂ کار نہیں کرسکتے مگر ان کا خوف اور وحشت خود بخود اس حقیقت کو آشکار کردیتی ہے ۔آج بھی ملت ایران اسلامی دنیا کے لئے نمونۂ عمل ہے جس نے عالمی طاقتوں کی آمرانہ پالیسیوں کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کیا بلکہ مقاومت اور مزاحمت کے ذریعہ دشمن کو منہ توڑ جواب دیاہے ۔آج اکثر مسلمان ملک عالمی طاقتوں کی غلامی کررہے ہیں مگر ایران خود مختار ،خودکفیل اور آزاد ملک ہے جسکی سربلندی نظام ولایت فقیہ کی طاقت اور اہمیت کو ظاہر کررہی ہے ۔
جنرل سلیمانی ،ابومہدی المہندس اور ان کے ساتھی شہادت کی تلاش میں تھے ،جسے انہوں نے پالیا ۔شہادت ہر کسی کے مقدر میں نہیں ہوتی ۔شہادت اسے نصیب ہوتی ہے جو اسکی تلاش میں رہتاہے ۔شہادت ایک عظیم مرتبہ ہے جو اللہ کی طرف سے ہر کسی کے مقدر میں نہیں آتا ۔امریکہ کوسمجھ میں آچکاہے کہ شہید کا خون رائیگاں نہیں جاتا ۔عالمی سطح پر جس طرح امریکہ کی رسوائی ہوئی ہے وہ اس دعویٰ کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔جنرل سلیمانی کی شہادت سے پہلے امریکی سیاست اور فوجی طاقت کا دبدبہ تھا مگر ان کی شہادت کے فوراََ بعد امریکی سیاست روبہ زوال ہے اور فوجی طاقت کا دبدبہ ختم ہوچکاہے ۔آج عالم یہ ہے کہ امریکی فوجی ذہنی و نفسیاتی مریض ہورہے ہیں اور عراق سمیت دوسرے ممالک سے ان کا انخلاء جاری ہے ۔مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بدل گیاہے اور استعماری طاقتیں اپنی کھوئی ہوئی طاقت کی بحالی کے لئے ہر ہتھکنڈا آزما رہی ہیں مگر اب ان کے مقدر میں ذلت آمیز شکست کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔وہ دن دور نہیں جب مشرق وسطیٰ ہی نہیں پوری دنیا سے استعماری طاقتوں کی اجارہ داری ختم ہوگی ۔امریکہ اور اسرائیل کی چودھراہٹ تو کب کی ختم ہوگئی ہے اب ان کی عالمی تذلیل کے دن نزدیک ہیں ۔