دہلی میںبین الاقوامی کتاب میلہ جاری ہے ۔اس میلے میں ’خسروفائونڈیشن ‘ کے تحت ایک پروگرام منعقد ہواجس میں ترکی نژاد امریکی اسکالر احمد ٹی کورو کی کتاب ’اسلام آمریت اور پسماندگی:ایک عالمی اور تاریخی موازنہ ‘ کے ہندی ایڈیشن کا اجراعمل میں آیا۔اس پروگرام میں متعدد اسکالر موجود تھے جن میں قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال نے بھی شرکت کی ۔احمد ٹی کورو کی کتاب پر تو یہاں اظہار رائے کا موقع نہیں ہے کیونکہ اگر’خسروفائونڈیشن ‘ کسی کتاب کا ہندی ایڈیشن شائع کررہاہے تو اسی سے باورکرلیناچاہیے کہ اس کتاب میں اسلامی تعلیمات کو کس رنگ میں پیش کیاگیاہوگا۔اس پروگرام میں اکثر مقررین نے مسلمانوں کی فرسودہ خیالی اور نئےزمانے کے تقاضوںسے عدم ہم آہنگی کو موضوع گفتگو قراردیا۔قومی سلامی مشیر اجیت ڈوبھال نے کہاکہ ’ ہر زمانے میںمحدود فائدے اور دبدبے کے لئےاسلام کی غلط تشریح کی جاتی رہی ہے ،جس کا مقصد نئے خیالات اور سوچ کی راہ کو تنگ کرنا ہوتاہے ،مگر ہمیں یادرکھناچاہیے کہ کچھ معاشرے جمود کا شکارہوگئے کیونکہ وہاں نئے خیالات کو جگہ نہیں دی گئی ۔‘اجیت ڈوبھال نے تاریخی تناظر میں یہ بات کہی ہے جس کو یک قلم مسترد نہیں کیاجاسکتا۔کیونکہ ہمیشہ اسلام کے ساتھ یہی ہوتاآیاہے جس کی بنا پرآج معترضین مسلمانوں کے کارناموں کو دلیل بناکر اسلامی تعلیمات کو ہدف تنقید بناتے ہیں ۔
گذشتہ چند سالوں میں انہی بنیادوں پر مسلمانوں کے تعلیمی اداروں اور تہذیبی تشخص پر حملے ہوئےہیں ۔خاص طورپر مدارس کو جس طرح فرسودہ نظام تعلیم کا آئینہ دار بناکر پیش کیا گیااس نے مسلمانوں کو بھی ان تعلیمی مراکزسے بدگمان کردیا۔اس میں توکوئی شک نہیں ہے کہ آزادی کے بعد مسلمانوں نے نصاب تعلیم پر زیادہ غوروخوض کرنے کی زحمت نہیں کی جس کا شکوہ مولانا آزاد کو بھی رہا۔اہل مدارس نے جہاں دیگر مصیبتوں کو دعوت دی ،ان میں مدارس کا حکومت سے انسلاک بھی تھا ۔اسی طرح حجاب،طلاق ،قانون میراث اور دیگر شرعی احکامات پر تنقید کرکے اسلامی تعلیمات کو ناقص کہاجاتاہے ۔اس کے برعکس یہ گروہ اپنے مذہبی آئین کو بیان کرنے سے گریز کرتاہے ورنہ طلاق ،میراث ،اور عبادت کے جو طریقے ان کی کتابوں میں موجود ہیں ان پر بھی ایک زمانےسے اعتراض ہوتا آیاہے ۔اب ہم مذہب کی غلط تشریح اور مسلمانوں کو کوسنے کی روایت کی طرف رخ کرتے ہیں ۔ہر زمانے میں مذہب کے پیروکاروں نے اس کی غلط تشریح کی ہے اور اس سے کوئی مذہب مستثنیٰ نہیں ہے ۔کیا آج ہندوستان میں فاشسٹ طاقتیں ہندودھرم کی غلط تشریح کرکے ہندوئوں کو گمراہ نہیں کررہی ہیں؟ورنہ ہندودھرم کی بنیادی کتابیں اور ان کا فلسفہ فاشسٹ طاقتوں کے نظریات اور ’ہندوتوا ایجنڈے ‘ کی صریحی مخالفت کرتاہے ،اس لئے تنہا مسلمانوں پر اسلام کی غلط تشریح کا الزام عائد نہیں کیاجاسکتا۔ورنہ ہندودھرم کا طبقاتی نظام جو منوسمرتی نے پیش کیاہے کوئی آئیڈیل نظام نہیں ہے ۔اس لئے نئے زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لئے کیا منوسمرتی کی تدریس اور مطالعے پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے ،ہرگز نہیں !کیونکہ یہ اس مسئلے کا حل نہیں ہے ۔
کچھ لوگ مذہب کو سائنسی اور عقلی دلائل سے متضاد سمجھتے ہیں ۔اس کا مکمل تاریخی پس منظر ہے جہاں مذہب اور سائنس میں تصادم نظر آتاہے ۔دراصل یہ ٹکرائو مذہب اور سائنس کے مابین نہیںبلکہ مذہبی رہنمائوں اور سائنس کے درمیان تھا۔مذہبی رہنمائوں نےنہ صرف سائنسی اور عقلی نظریات کو قبول نہیں کیابلکہ سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کی ۔اس کے پس پردہ مذہبی رہنمائوں کی سیاسی اور سماجی بالادستی تھی ۔وہ نہیں چاہتے تھے کہ معاشرے میں ان کے علاوہ کسی دوسرے طبقے کو اہمیت دی جائے اور ان کی بالادستی پر ضرب لگے ۔اس لئے عقلی اور سائنسی بنیادوں پر تحقیق کرنے والوں کو مذہب مخالف قراردے کر سزائیں دی گئیں ۔رفتہ رفتہ علم اور سائنس کی روشنی نے نام نہاد مذہبی رہنمائوں کی حکمرانی کا تختہ پلٹ دیااور معاشرہ کی تعمیر عقلی بنیادوں پر ہونے لگی ۔اس کے باوجود کہیں نہ کہیں مذہبی طبقے کی بالادستی کا تصور موجود رہا۔عوام کے لاشعور میں بھی ان کی حکمرانی کا عنصر موجود تھااس لئے وہ بھی اس نظریے کو یکسر مسترد نہیں کرسکے ۔مذہبی رہنمائوں نے بھی سائنسی اورعقلی نظریات کو اپنانا شرو ع کردیاتھا۔اس کے باوصف وہ ان نظریات کو مذہبی بنیادوں پر جانچنے اور پرکھنے لگے ،جبکہ انہوں نے بذات خود اس میدان میں کوئی پیش رفت نہیں کی ۔اگر مذہبی رہنما مذہبی اور سائنسی علوم کے درمیان اتفاق کی راہیں تلاش کرتے تو شاید زیادہ آسانیاں پیداہوتیں ،مگر ایسانہیں کیاگیا۔اس لئے نوجوان نسل تیزی کے ساتھ مذہب سے دور ہوتی گئی اور معاشرے میں لادینی نظریات نے فروغ پاناشروع کردیا۔لبرل اور سیکولر طبقے نے مذہب کی مخالفت کو دانشوری کی بنیاد قراردیدیااور جس کو مذہب کی صحیح تعریف بھی معلوم نہیں تھی وہ مذہب کی مخالفت کرکے دانشوروں کی صف میں شامل ہوگیا۔
اسلا م کےساتھ بھی تقریباً یہی صورت حال کارفرمارہی ۔وہ مذہب جو اپنی ابتداسے نئے خیالات اور عقلی بنیادوں کا حامی تھااس کو کٹھ ملائیت اور فرسودہ نظام کا آئینہ دار بناکر پیش کیاگیا۔اسلام جو ہمیشہ عقلی اور سائنسی علوم کی دعوت دیتارہا وہاںبھی مذہبی رہنمائوں نے کلیساکی طرز پر اپنی بالادستی کے استقرار کے لئے نئے زمانے کے تقاضوں کوسمجھے بغیر دین کی غلط تشریح پیش کی ،جس نے اسلام کا نیا چہرہ دنیا کےسامنے پیش کیا۔اس گروہ نے اپنے مفادات کے حصول اور تحفظ کے لئے اسلام کی تشریح پیش کی ،جس سے بادشاہی نظام نے بھی سوئے استفادہ کیا۔اگر آج اجیت ڈوبھال جیسے افراد یہ کہتے ہیں کہ ہر زمانے میں مفاد اور اقتدار کے لئے اسلام کی غلط تشریح کی جاتی رہی ہے ،تو ان کا یہ کہنا تاریخی تناظر میں بے بنیاد نہیں ہے ۔یہ سلسلہ تو آج تک جاری ہے ۔ہر فرقہ اور ہر گروہ اپنے لحاظ سے اسلام کی تشریح کررہاہے اور ایک دوسرے کی تشریح سے مطمئن نہیں ہے ۔ایسے حالات میں ہم دوسروں کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر کیسے پیش کرسکتے ہیں ۔آخر کون سااسلام دوسروں کے سامنے پیش کیاجائے ؟ایک وہ اسلام ہے جس کے سچے رہنما پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں ۔اور دوسرااسلام وہ ہے جس کی نمائندگی تہتر سے بھی زائد فرقے کررہے ہیں ۔اس پر لطف یہ کہ سب ایک دوسرے کی تکفیر کا فتویٰ دیتےرہتے ہیں۔حضور ختمی مرتبتؐ کے زمانے میں کسی مسلمان کی اس طرح تکفیر نہیں کی گئی جس طرح اسلام کے نمائندہ فرقے ایک دوسرے کی علی الاعلان تکفیر کے قائل ہیں ۔حتیٰ کہ بعض فرقے تو دوسرے فرقوں کی جان ومال و ناموس میں تصرف کو مباح قراردیتے ہیں؟جب کہ رسول اسلام ؐ کی حدیث کی روشنی میں اسلامی مسلمات کا اقرارکرنے والے کی تکفیر نہیں کی جاسکتی ۔اس کے باوجود یہ سلسلہ بنام اسلام آج تک جاری ہے جس کی زندہ مثالیں تکفیری دہشت گرد تنظیموں کی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔
امتداد زمانہ کے ساتھ مسلمان دنیا کے جدید تقاضوں اور نئے خیالات سے دور ہوتے گئے ۔عیش ونشاط اور شاہی نظام نے انہیں جدیدترین علوم سے بے خبر کردیا۔یہی وجہ ہے کہ جب نئے علوم وفنون اسلامی دنیا میں متعارف ہوئے تو وہ ان سے نابلد تھے ۔نئی صنعت وحرفت سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔مذہبی رہنمائوں نے ان پر نئے علوم وفنون کے دروازے بند کردئیے تھے ۔ان کے لئے فقہ واصول اور تفسیر اور حدیث کے روایتی موضوعات سے زیادہ کوئی دوسراعلم اہم نہیں تھا،جہاں اجتہاد پر پابندی عائد تھی ۔اس لئے جب سائنسی علوم متعارف ہوئے تو مسلمان ان سے بے خبر تھے ۔پہلی بار جب چھاپہ خانہ شروع ہواتو مسلمانوں نے اس سے استفادے کو حرام کہہ دیا۔قرآن مجید کے ترجمے پر بھی ایک زمانے تک پابندی عائد رہی ۔علمااردو زبان میں قرآن مجید کے ترجمے کے قائل نہیں تھے ۔جب اس کی اجازت ملی تو یہ شرط عائد کردی گئی کہ اردوترجمے کےساتھ عربی متن ضرور شائع کیاجائے ۔پھر یہ شرط بھی ختم کردی گئی ۔مذہب اور جدید علوم کے درمیان یہ کشمکش کیسے وجود میں آئی اس پر علمائے دین کو مزید غورکرنا چاہیے ۔
بہترہوگاکہ مسلمان صحیح اسلامی تعلیمات کو دنیا کے سامنے پیش کریں ۔جب تک ان کے درمیان فرقہ واریت اور ایک دوسرے کی تکفیر کے مسائل موجود رہیں گے ،عالمی سطح پر اسی طرح ذلت ورسوائی کاسامنا کرنا پڑے گا۔آخر وہ تعلیم آفاقی کیسے ہوسکتی ہے جو دوسروں کو نیچادکھانے کی ترغیب دیتی ہو۔اس لئے ہمیں قرآن مجید اور سنت پیغمبرؐ کی روشنی میں اپنے افکارونظریات کی ازسرنوتشکیل کرناہوگی ۔علما سے بدگمانی ہرگز اس مسئلے کاحل نہیں ہے ۔کہیں ایسانہ ہو کہ اسلام کی تشریح کے لئے ہمیں اسلام مخالفوں کی نصیحتوں پر عمل کرنا پڑے ۔