ہندستان ہی نہیں بلکہ دنیا نے دیکھا کہ ہندستان کے ایوان اعلیٰ (راجیہ سبھا) میں دَلت لیڈر اور بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایا وتی کو دلتوں کے مسائل پر بات کرنے سے بار بار روکا گیا اور ان کی حکمراں جماعت کی طرف سے ہوٹنگ کی گئی۔ اس بیہودہ حرکت پر مایاوتی نے بار بار حکمراں جماعت بی جے پی کے ممبران سے کہاکہ انھیں دلتوں کے سنگین مسائل پر بولنے دیا جائے مگر بی جے پی کے راجیہ سبھا ممبران کی ہٹ دھرمی جاری رہی۔ مایا وتی نے بالآخر عاجز آکر یہ کہتے ہوئے راجیہ سبھا کے اجلاس سے اٹھ کر چلی گئیں کہ جب انھیں دلتوں کے مسائل پر زور زبردستی روکا جارہا ہے تو ایسے سدن یا ایوان میں ان کے رہنے کی قطعاً ضرورت نہیں ۔ انھوں نے نامہ نگاروں کے روبرو انہی باتوں کو دہرایا اور اپنے راجیہ سبھا کے استعفیٰ کے فیصلہ کا اعلان کیا اور بعدمیں راجیہ سبھا کے ڈپٹی اسپیکر کو اپنا استعفیٰ نامہ سونپ دیا۔ اپوزیشن لیڈروں نے بہوجن سماج پارٹی کے سب سے بڑے لیڈر کو منانے کی کوشش کی کہ وہ ایوان سے مستعفی نہ ہوں مگر انھوں نے کسی کی نہ سنی اور استعفیٰ دینے پر مصر رہیں اور اسے سچ کر دکھایا۔ بی جے پی کے لوگ مایا وتی کے اس فیصلے کو ڈرامہ اور اداکاری سے تشبیہ دے رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ کہہ رہے ہیں انھیں مینڈیٹ ملا ہے؛ یعنی وہ منڈیٹ ملنے کی وجہ سے سب کچھ کر سکتے ہیں ۔ بی جے پی کارکنان اورچھوٹے بڑے لیڈران اس وقت جو ہٹلر کی زبان استعمال کر رہے ہیں اس سے پورے ہندستان کی آب و ہوا زہریلی ہوتی جارہی ہے۔ دلتوں اور اقلیتوں کی زندگی تنگ کر دی گئی ہے۔ یہی لوگ اب راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں بھی اپوزیشن کے ممبران کی زبان بندی کے درپے ہوگئے ہیں ۔ اب نہ ان کو شرم ہے اور نہ بے شرمی کا احساس ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی بے شرمی اور بے حیائی کی حد ہوگئی ؎
بے حیا باش ہر چہ خواہی کن (بے حیا ہوجاؤ جو چاہو کرو)۔
مسلمانوں کو جس طرح ظلم و ستم کا شکار بنایا جارہا ہے۔ گھر اور اس کے باہر جس طرح ان کو ستایا اور پریشان کیا جارہا ہے۔ مسلمان یا مسلم لیڈران صبر و تحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں مگر جب صبر کا پیمانہ لبریز ہوگا تو پھر خانہ جنگی کا اندیشہ پیدا ہوسکتا ہے۔ بی جے پی یا سنگھ پریوار والے چاہ بھی رہے ہیں کہ مسلمان بے صبری کا مظاہرہ کریں ۔ مشتعل ہوجائیں پھر ان کو جہاں بھی ہو اجاڑ کر ہی دم لیں ۔ ضرورت ہے کہ مسلمان بے صبری یا گھبراہٹ یا مایوسی کا مظاہرہ نہ کریں اور نہ ان کے سامنے اپنی کمزوری اور بے بسی کا مظاہرہ کریں کیونکہ اہل ایمان کسی کیلئے نرم چارہ نہیں ہوتے۔ مسلمان زیادتی نہیں کرتے لیکن اگر کوئی زیادتی کرتا ہے تو صبر و تحمل کرتے ہیں مگر جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے تو وہ اپنے دفاع کیلئے کوئی کسر باقی نہیں رکھتے۔ملک کا قانون یا شریعت اسلامی مسلمانوں کو اپنے دفاع کی اجازت دیتا ہے۔ ہر کوئی ملکی قانون کے دائرے میں رہ کر اپنا دفاع یا اپنی حفاظت کیلئے مناسب اور کارگر قدم اٹھا سکتا ہے۔ مسلمانوں کے مقابلے میں دلت کم ستائے جارہے ہیں مگر دلتوں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں اور ظالموں سے ہر میدان میں مقابلہ کریں گے۔ سہارنپور میں ان پر سنگین قسم کے مظالم ہوئے جس سے پورے اتر پردیش کے دلتوں میں غیر معمولی ناراضگی پیدا ہوگئی۔ مایا وتی سہارنپور جانا چاہتی تھیں لیکن انھیں یوگی حکومت نے جانے نہیں دیا۔
دلت اس وقت پورے ملک میں سنگھ پریوار سے ناخوش ہیں ۔ ان کے آنسو پوچھنے کیلئے رام ناتھ کووند کو صدارتی امیدوار بنایا گیا اور ووٹنگ جس طرح ہوئی اس سے یقینی طور پر وہ صدر جمہوریہ بن جائیں گے مگر کووند ایسے دلت لیڈر ہیں کہ وہ دلتوں کے ریزرویشن تک کے خلاف ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں پہلے بہار کے گورنر کی کرسی پر بٹھایا گیا۔ اب صدارتی کرسی پیش کی گئی ہے۔ وہ دلتوں کے نام پر اس بڑے عہدہ تک پہنچیں گے مگر دلتوں کو اس سے کوئی خوشی نہیں ہے کیونکہ دلت سماج سے تعلق رکھنے کے باوجود وہ آر ایس ایس کے کٹر حامی ہیں ۔ کرسی پر بیٹھنے کے بعد وہ سنگھ پریوار کیلئے سب کچھ کرنے کو تیار رہیں گے کیونکہ انھیں اس کا احساس ہے کہ وہ سنگھ پریوار کی مہربانی سے اس اونچی کرسی پر پہنچے ہیں ۔ ایک طرف دلت کو صدر بنایا جارہا ہے اور جو بنا رہے ہیں وہ دلتوں کی دشمنی میں بھی پیش پیش ہیں ۔ دلت سماج مسلمانوں سے کہیں زیادہ بیدار ہے اور سیاسی شعور رکھتا ہے، اس لئے وہ سنگھ پریوار کی اس چال سے متاثر ہونے والا نہیں ہے۔ مایا وتی نے دلتوں کیلئے جو راجیہ سبھا استعفیٰ دیا ہے اس سے دلتوں میں اور بھی حوصلہ بڑھے گا۔ مسلمانوں کو دلت سے سبق لینے کی ضرورت ہے۔ مایاوتی نے نہ صرف اپنے سماج کیلئے ایک مثال اور بہادری کا کام کیا ہے بلکہ دوسرے مظلوم سماج کیلئے بھی ایک مثال قائم کی ہے۔ مسلمانوں کو مایا وتی کے اس قدم کی پرزور حمایت کرنا چاہئے۔ اور آج تک مسلمانوں میں کوئی ایسا سیاسی لیڈر نہیں پیدا ہوا ہے جو اپنے سماج یا فرقہ کیلئے اس قسم کی قربانی دی ہو۔ سید شہاب الدین مرحوم کا نام یقینا لیا جاسکتا ہے کیونکہ وہ پارلیمنٹ اور اس کے باہر مسلمانوں اور دیگر مظلوموں کیلئے بولتے تھے۔ نتیش کمار کی پارٹی ’سمتا پارٹی‘ میں بھی وہ رہے مگر جب نتیش نے بی جے پی سے اتحاد کیا تو سید شہاب الدین نے سمتا پارٹی سے استعفیٰ دے دیا۔ اُس وقت موصوف پارٹی کے جنرل سکریٹری تھے۔سی کے جعفر شریف کانگریس پارٹی کی طرف سے لوک سبھا میں ممبر تھے۔ انھوں نے ایک موقع پر کہا تھا کہ اگر بابری مسجد گرائی گئی تو وہ استعفیٰ دے دیں گے۔ کانگریس کی حکومت میں بابری مسجد گرائی گئی اور کانگریسی وزیر اعظم کا مسجد کو گرانے میں ہاتھ تک رہا مگر جعفر شریف نے استعفیٰ دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ جب ان کو ان کے اعلان یا وعدہ کو یاد دلایا گیا تو انھوں نے صاف کہاکہ وہ مسلمانوں کے نمائندہ نہیں ہیں ، کانگریس کے نمائندہ ہیں ۔اب جعفر شریف کرناٹک میں بی جے پی کی طرف مائل ہیں اور نجمہ ہپت اللہ کے نقش قدم پر چلنے کیلئے من بنا رہے ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ آگے ان کا کیا قدم ہوتا ہے۔ مایا وتی جیسے لیڈر کی مسلمانوں میں ضرورت ہے مگر یہ بہادری ان بندھوا مزدوروں میں نہیں آئے گی جو دوسری پارٹیوں میں رہ کر غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ انھیں ایسی پارٹی میں جگہ بنانی ہوگی جو پارٹی انھیں غلامی میں رکھنے کے بجائے آزادی دے۔ ایسی پارٹی اس وقت کوئی سیکولر پارٹی نہیں ہے تو ایسی پارٹی جو مسلمانوں کے کنٹرول میں ہو اس میں رہنا ہوگا جب ہی مسلم لیڈر مایا وتی جیسی قربانی دے سکیں گے۔ جب تک ایسی صورت نہ ہو ایسی پارٹیوں یا لیڈروں کی حمایت مسلمانوں کو کرنی چاہئے جو اپنے لئے اور دیگر مظلوموں کیلئے لڑ رہے ہیں ۔ مایا وتی، ممتا بنرجی، لالو پرساد یادو یا کمیونسٹ لیڈران بی جے پی کی ہٹ دھرمی کے مقابلہ میں کھڑے ہوگئے ان سب کا ساتھ دینا چاہئے۔ وقت کی یہی پکار اور ضرورت ہے۔