-
شیعہ سنی جنگ یا سیاسی اقتدار کی سازش؟
- سیاسی
- گھر
شیعہ سنی جنگ یا سیاسی اقتدار کی سازش؟
1245
M.U.H
19/12/2018
0
0
ڈاکٹر ساحل بھارتی
عراق سے شروع کی گئی نفرت کی خونی جنگ انسانی خون کو ارزاں کرنے سے باز آنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔عرب ممالک کی یکے بعد دیگر مذہب کی نام پر بربادی، تباہی اور خوں ریزی کہیں نہ کہیں اسلام اور مسلمانوں کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کر دیتی ہے۔ پوری دنیامیں امن کا پیغام دینے والے مذہب کے نام پر نفرت اور انتہا پسندی کی ایسی خونی روایت پر عرت دنیا کی اپنی ذاتی مفاد پر مبنی خاموشی اس راہ تخریب کو مزید وسیع کرتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔خالص انانیت، سیاسی مفاد اور اقتدار کے لئے مذہب کے استعمال کی جنگ پر کبھی مسلک اور اور مشرب کی شرمناک چادر ڈالی جاتی ہے تو کبھی خودداری اور خوداعتمادی کے نام پر مذہب اور اسلام کی حرمت ناموس کی حفاظت کے لئے اس تشدد کو جہاد کا نام دے دیا جاتا ہے۔ اس سے اخذ ہونے والے نتائج میں ہر طرح اسی مظلوم قوم کا نقصان ہوتا جسے جسے ظالم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ مارنے والا خدا کی تکبیر کا تعرہ بلند کرتا ہے اور مرنے والا بھی توحید ورسالت کے اقرار پر دم توڑتا ہے۔ اس کے باوجود تنگ نظر آنکھیں انہیں کلمہ گو کو اس تباہی کے لئے مورد الزام ٹھہراتی ہیں۔ ہرقوم میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں۔ نفرت، تشدد اور انتہا پسندی کا اپنا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ اسے کہیں سے بھی راستہ مل سکتا ہے۔ اپنی ہی فکر وروایت سے بغاوت کر خود کو صحیح اور باقی کو غلط کہنے کی ضد سے کہانی شروع ہوتی ہے اور خود کے علاوہ سبھی واجب القتل پر بھی تشفی نہیں ہوتی۔
یہ دنیا کو کون سمجھائے کہ ایک قوم ظالم اور مظلوم ایک ساتھ کیسے ہو سکتی ہے۔ اس دہشت گردی کا سب سے زیادہ نقصان خود اسلام اور مسلمانوں کو ہوا ہے۔ اس حقیقت کو آج دنیا جانتی تو ہے کہ ماننے کو تیار نہیں ہے۔یہ انکار ہی دہشت ووحشت کی اس فکر کو مزید طاقتور بناتی ہے۔آج کے حالت کا اگر جائزہ لیا جائے اور بین الاقوامی سیاست پر نظر ڈالی جائے تو آنے والے دنوں میں شیعہ سنی کی تکرار بڑھ سکتی ہے۔ ایسے مدعے اٹھائے جا سکتے ہیں جس سے دونوں ہی فریق جذباتی ہو جائیں۔ حالانکہ کہ اب صوفیوںاور خود ایران نے اس کا خیال رکھا ہے کہ ایسے موقف کا عوامی اظہار نہ کیا جائے جس کی وجہ سے آپسی تنازع کے مذیدبڑھنے کے امکانات پیدا ہو جائیں۔ جیسے کہ خود ایرا ن کا تبرا پر پابندی عائد کرنا اور جامعۃ الازہر کے موجودہ شیخ الازہر ڈاکٹر احمد طیب نے خلفاء اور بالخصوص چاروں اولین خلیفوں کو لیکر پیچیدگی پر بڑا بیان جاری کر کے اختلاف کو کافی حد تک پس پشت ڈال دیا۔ لیکن موجودہ سیاسی سرگرمیاں اس اختلاف کو ہوا دینے کا کام کریں گی۔ سیریا کی جنگ کئی چہرے مثال بنے ہیںان کے ایک چہرا نادیہ کا ہے۔
نادیہ کا نا م کچھ ہی دنوں پہلے اس وقت میڈیا کی سر خیوں میں آیا جب اسے افریقہ کے ایک ڈا کٹر کی شرکت کے ساتھ امن کا نوبل پرائز حاصل ہو۔ ا نادیہ عراق کی وہ لڑکی ہے جو اس کی قوم کی سیکڑوں لڑکیوں کو ساتھ داعش کے ظلم و ستم کا شکار ہوئی۔یہ عراق میں یژدی فرقے سے تعلق رکھتی ہے۔یژدی فرقے کی شہرت بھی اس وقت ہو ئی جب نام نہاد خلیفہ بغدادی کی اسلامی اسٹیٹ کا عراق کے بڑے حصے پر قبضہ ہو چکا تھا۔اس سے پہلے کبھی ’یزیدی‘ بھی لکھ دیتے ہیں اور کبھی یزدی۔اس کااسلامی تاریخ کے یزید سے کوئی تعلق نہیں۔یہ اسلام کی آمد سے پہلے وہاں موجود تھے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اس عقیدے کے لوگ تھے جن کی ایک بڑی تعداد عراق میں یژدی کو خدا مانتے تھے۔ جب مسلم فوجوں نے عراق فتح کیا تو یہ لوگ اپنے پرانے عقیدے پر ہی قائم رہے۔ مگر ان کو پورے شہری حقوق حاصل تھے۔سبھی مسلم ملک میں مختلف مذہبوں کے لوگ موجود تھے اور کہیںکسی کو کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔یہ پہلی مرتبہ اسلام کے نام پر ایک نیا اسلام ایجاد کرنے والے ایسے عجیب اور غریب لوگ پید ا ہو گئے جنہوں نے ان کو اپنا غلام قرا ر دے دیا اور عورتو ں کو بندی بنایا۔
مگر اب نام نہاد خلیفہ بغدادی اور اسکی اسلامی اسٹیٹ اپنے آخری انجام تک پہنچ گئے ہیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آس پاس کے مسلم ملکوں نے ان کو ختم کرنے کے لئے روس ، امریکہ اور یوروپ کا بھر پور ساتھ دیا اور دیگر ملکوں نے کبھی اس کو صحیح نہیںسمجھا۔ مگران کی جزباتی باتوں نے کچھ عرب ملکوں اور یوروپ کے مسلم نو جوانوں کو ضرور متاثر کیا اور انہوں نے اس جہنم میں اپنے آپ کو جھوک دیا جسے وہ جنت سمجھ کر گئے تھے۔ ابتدائی دنوں میں زیادہ تر مسلمان بھی اس دھوکے میں رہے کہ یہ ایک قسم کی شیعہ ، سنی لڑائی ہے۔ مگر جلد ہی یہ با ت صاف ہوگئی کہ وہ سخت قسم کے گمراہ لوگ ہیں۔ جو صرف اپنے آپ کو صحیح سمجھتے ہوئے دنیا کے تمام مسلمانوں کو غلط سمجھ رہے ہیں۔ حضرت علی ؑومعاویہ کے زمانے کے اسی طرح سے بھٹکے ہوئے کچھ قبیلوں پر مشتمل خوارج نے تشدد کیا تھا۔مگر ایسا لگتا ہے کہ قرآن اور اسلام کو غلط ڈھنگ سے پیش کرنے میں یہ ان سے آگے تھے۔ موجودہ دور کی بڑی طاقتو ں سے اختلاف ہونے کے باوجود ہمیں یہ بات مان لینی چاہیے کہ ان لوگوں کو ختم کرنے میں یہ طاقتیں بیچ میں نہیں آتی تو یہ لوگ آس پاس کے مسلم ملکوں میں زبر دست افرا تفری مچا سکتے تھے۔مگریہ فطری بات ہے کہ سب کے اپنے اپنے مفادات بھی ہوتے ہیں اور وہ آپس میں کس طرح سلجھائیں گے یہ ایک الگ بات ہے۔ہم صرف اس بات پر زور دینا چاہیں گے کہ اس گروپ نے جہاد جیسی اسلامی اصطلاحات کو کس طرح غلط ڈھنگ سے استعمال کیا اور اس کی وجہ سے کتنی بڑی بر بادی کا سبب بنے ،یہ ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے۔ایسا بار بار ہوا ہے کہ اپنے سیاسی مقصد کو پور ا کرنے والے اسلام اور جہاد کا استعمال کرتے رہے ہیں اور اپنے آپ کو مٹاتے رہے ہیں۔ کمزور دماغ کے مسلم نوجوان آگ کی اس بھٹی میں جھوک دئے جاتے ہیں اور یہ طریقہ صرف یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ کئی ملک میں اپنی سیاست کی دکا ن جمانے کے لئے کئی گروہ ایسے ہیں جو اسلام کو دنیا میں غالب کرنے کا نعرہ لگاتے ہوئے قرآنی آیت کو اسکے سیاق وسباق سے ہٹا کر ایسی تشریح کرتے ہیں جس کا نہ قرآن سے تعلق ہوتا ہے نہ اسلامی طریق سے اور چونکہ امت کے علماء و مستند دانشور ان کو ترقی سمجھتے ہیں،اس لئے کہیں کہیں وہ کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔ مگر ان کی فکر مر جاتی ہے۔اور ایسا زیادہ تر اس وقت ہوتا ہے جب وہ مذہب کی بنیاد پر دیگر اہل مذہب کے ان معاملات میں بھی بولنے لگتے ہیں جوسبھی اہل مذاہب کو مشترکہ مفاد
سے جڑے ہوتے ہیں اور وہ انسانوں کی ضرورتوں کہ تکمیل کے لئے سب کی ملی جلی کوششوں کے نتیجے میں ہی پورے ہوتے ہیں اور وہ یقینی طور پر سب کو فائدہ پہنچانے والے ہوتے ہیں مگر کچھ نا سمجھ لوگ ان میں مذہبی الگاؤ کا راستہ ڈھونڈھ لیتے ہیں اور ان کو طرقی کی دوڑ میںپیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)