-
’طوفان الاقصیٰ ‘ کے بعدعالمی منظر نامہ
- سیاسی
- گھر
’طوفان الاقصیٰ ‘ کے بعدعالمی منظر نامہ
671
m.u.h
03/01/2024
0
0
تحریر: عادل فراز
مشرق وسطیٰ میں طاقت کا توازن بدل رہاہے ۔روس -یوکرین اور اسرائیل -حماس کے درمیان جاری جنگ نے عالمی نظام کو متاثرکیاہے ۔یک قطبی نظام کا خاتمہ تو بہت پہلے ہوچکاتھا ،اب کثیر قطبی نظام کا عہد ہے ،جس میں بظاہرچھوٹے ممالک اہم کردار اداکررہےہیں ۔غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف جس طرح پوری دنیا نے صدائے احتجاج بلند کی ،اس سے اندازہ ہوتاہے کہ اب صورت حال استعماری طاقتوں کے مفاد میں نہیں ہے ۔خاص طورپر وہ ملک جو امریکہ کے حلیف ہیں ،انہوں نے بھی اسرائیلی بربریت اور غزہ میں نسل کشی کو ناقابل معافی جرم قراردیتے ہوئے اسرائیلی اقدامات کو دہشت گردی سے تعبیر کیاہے ۔امریکہ سمیت دنیا کے تمام ملکوں کے عوام نے اپنی حکومتوں کے موقف کے خلاف جاکر اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی اور بڑے پیمانے پر احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں ۔ان اقدامات سے معلوم ہوتاہے کہ دہشت گردی کا مکروہ چہرہ بہت دنوں تک نقاب میں نہیں رہ سکتا۔اب دنیا عالمی دہشت گردی کے بانیوں کے چہروں کو پہچان چکی ہے ،فرق صرف اتناہے کہ حکومتیں اپنے مفاد کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کررہی ہیں ،لیکن عوام ان ناگفتہ بہ حالات میں اپنی حکومتوں کے موقف کی تائید نہیں کررہے ہیں ،جو ایک خوش آئند خبر ہے ۔جمہوریت میں بالآخر عوام کا کلیدی کردار ہوتاہے ۔اگر عوام اپنی حکومتوں کے موقف کی مذمت اور مخالفت کرنے لگیں تو حکومتیں بھی موقف بدلنے پر مجبور ہوجاتی ہیں ،جیساکہ ہم نے عرب اور مغربی ملکوں کے حکمرانوں کے موقف میں تبدیلی دیکھی ہے ۔اس لئے نئے عالمی نظام میں حکمرانوں کے علاوہ عوام کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیاجانا چاہیے ،بشرطیکہ عوام سیاسی سطح پر مسلسل بیداری کا ثبوت دیتےرہیں۔
اسرائیل اور حماس کےدرمیان جاری خوں ریز جنگ نے یہ ثابت کردیاکہ موجودہ عہد میں جنگ کا آغاز بہت آسان ہے لیکن اس کو کسی منطقی انجام تک پہونچانا بہت مشکل ہے ۔اس کی تازہ ترین مثال روس اور یوکرین کے مابین جاری جنگ سے بھی دی جاسکتی ہے ،جس سے انسانی جانوں کے نقصان کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوا۔یہ الگ بات کہ یوکرین کی حامی طاقتوں نے اس کو آلۂ کار کے طورپر استعمال کرکے روس کو کمزور کرنا چاہا تھا،لیکن روس کی حکمت عملی نے ان طاقتوں کی سیاسی چالوں کو شکست دیدی۔فی الوقت دنیا کی نگاہیں روس اور یوکرین جنگ پر مرکوز نہیں ہیں بلکہ وہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ کے نتائج کی طرف متوجہ ہے ۔ظاہر ہے اس جنگ میں غزہ کا ناقابل تلافی نقصان ہواہے ،لیکن یہ جنگ مستقبل کے فائدوں سے بھی خالی نہیں ہے ۔اس جنگ کے بعد جب بھی مذاکرات کی میز پر فریقین بیٹھیں گے ،اس وقت حماس کی حیثیت ایک فاتح کی ہوگی ،جس نے غزہ میں اسرائیل اور اس کی حلیف طاقتوں کا دلیری کے ساتھ مقابلہ کیا۔اسرائیلی فوجیں غزہ پر پرچم لہرانے کا خواب دیکھ رہی تھیں ،جودیوانے کا خواب ثابت ہوا ۔اب بازی مزاحمتی محاذ کے ہاتھوں میں ہے اور اسرائیل کو عالمی تنہائی کا احساس ستارہاہے ۔
اُدھر حوثی مزاحمتی گروپ نے بحر احمر کو اسرائیلی مال بردار جہازوں کے لئے غیر محفوظ بنادیا۔حوثی مسلسل اسرائیل جارہے مال بردار جہازوں پر حملے کررہے ہیں اور بعض کو اپنی تحویل میں بھی لے لیاہے ۔اس آپریشن میں تنہا حوثی شامل نہیں ہیں بلکہ یمن کی سرکاری فوج بھی ان کے ساتھ تعاون کررہی ہے ۔بحر احمر میں ہورہے حملوں کے لئے امریکہ نے ایران کو ذمہ دار ٹھہرایاہے جبکہ ایران نے اس کی تردید کی ہے۔ہم اس دعوے کو بھی بہت مستند نہیں مانتے کہ بحر احمر میں تنہا حوثیوں نے آبی گذرگاہوں کو اپنی نگرانی میں رکھاہواہے کیونکہ ان کے ساتھ یمن کی فوج بھی شامل ہے۔یمنی فوجیں بخوبی واقف ہیں کہ اگراسرائیل کو اقتصادی چوٹ نہیں پہونچائی گئی تو اس کو شکست دینا اور اسرائیل میں سیاسی بحران کو مزید تقویت دینا آسان نہیں ہوگا،اس لئے بحر احمر کو اسرائیلی جہازوں کے لئے غیر محفوظ بنادیاگیاہے۔یمنی جانتے ہیں کہ اگر استعماری طاقتوں کو کمزور نہیں کیاگیا تو آئندہ ان کے لئے بھی خطرہ بڑھ جائے گا،کیونکہ استعمار ابھی یمن سے دست بردار نہیں ہوا ہے ۔البتہ ایران اور سعودی عرب کے بہتر تعلقات کی بنیاد پر یمن میں امن قائم ہواہے ۔جس طرح شام اور عرب ملکوں کے درمیان خوشگوار تعلقات کا احیاہواہے اور عرب لیگ میں شام کی واپسی نے استعماری طاقتوں کو مایوس کیا۔کیونکہ یمن کی طرح شام میں بھی سیاسی بحران کے لئے یہی طاقتیں ذمہ دار تھیں،جس کو مزاحمتی محاذ نے محسوس کیا اور شام کی بھر پورمدد کی ۔اگر یہ مدد بروقت نہ ہوتی تو آج شام پر استعماری طاقتوںکا تسلط ہوتا۔یہی صورت حال عراق اور افغانستان کے ساتھ پیش آئی تھی ،لیکن اس وقت مزاحمتی محاذ اس قدر مضبوط نہیںتھا،جتنا کہ اب ہے ۔اسی مزاحمتی محاذ نے غزہ کو اسرائیل کے لئے ناقابل تسخیر بنادیا،جبکہ ’طوفان الاقصیٰ‘ کے بعد یہ کہاجارہاتھاکہ غزہ کو صفحۂ ہستی سے نابود کرنا اسرائیل کے لئے ایک کھیل ہے۔لیکن تقریباً۸۵دنوں کی مسلسل جنگ کے بعد اب تک حماس کو شکست نہیں دی جاسکی اور غزہ کے عوام کی مقاومت کوکمزور نہیں کیاجاسکا۔یہ مزاحمتی محاذ کی ایک بڑی کامیابی ہے ،جس میں حزب اللہ ،انصاراللہ اور دیگر مقاومتی تنظیموں کا اہم کردار رہاہے ۔انہی تنظیموں کی مزاحمت کی بنیاد پر اسرائیل مسلسل سیاسی اور اقتصادی بحران کی زد میں ہے ،جس کا اقرار اسرائیلی تجزیہ نگار ، فوجی اور اقتصادی ماہرین بھی کررہے ہیں ۔
غزہ میں مسلسل ناکامی کے بعد اب اسرائیل جنگ بندی چاہتاہے ۔مصراور قطر اس میں کلیدی کردار اداکررہے ہیں ۔حماس نے مشروط جنگ بندی کو نامنظور کردیاہے کیونکہ غزہ کو اس وقت انسانی امداد کی بے حد ضرورت ہے۔حماس کا انکار اور اسرائیل کا مسلسل جنگ بندی کا مطالبہ مزاحمتی محاذ کی بڑی کامیابی ہے ۔ایک شہر کےمعمولی مزاحمتی گروپ نے دنیا کی بڑی طاقت کو گھٹنوں پر لادیاہے ،جس کو دنیا نے خود پر مسلط کرلیاتھا ۔اسرائیل فوجوں کی مسلسل شکست،دفاعی نظام کی ناکامی ،ماہر تربیت یافتہ فوجیوں کی لاشوں کا انبار اور تباہ شدہ ٹینکوں نے اسرائیلی طاقت کی پول کھول دی ۔انہوں نے ثابت کردیاکہ اسرائیل مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہے ،لیکن دنیا اور خاص طورپر مسلمان حکمران اسرائیل کو ناقابل تسخیر مانتےتھے،شاید اب وہ خواب غفلت سے بیدار ہوسکیں ۔جس ملک نے انہیں غلامی پر مجبور کردیاتھا،اس کو ’حماس ‘ جیسے معمولی گروپ نےزیر کردیا،اس لئے عرب لیگ کا سیاسی نظریہ بھی بدل رہاہے ۔اگر امریکہ اور اس کے حلیف ملک اسرائیل کی سرپرستی نہ کررہے ہوتے تو اس جنگ کا نقشہ یکسر مختلف ہوتا ،مگر امریکہ نے اسرائیل کی دل و جان سے مدد کی ،جس کی بنیادپر وہ اب تک میدان میں ٹکاہواہے ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ اس جنگ میں غزہ کے عوام کا زیادہ نقصان ہواہے ۔اسرائیلی فوجوں نے بچوں اور خواتین کو خاص طورپر نشانہ بنایا،اس لئے مرنے والوں میں ان کی تعداد زیادہ ہے ۔غزہ میں انسانی نقصان کے اعدادو شمار سرکار کے جاری کردہ ہیں ،جبکہ صورت حال اس سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔یہ اعدادوشمار لاشوں کی دستیابی کی بنیاد پر جاری کئے گئے ہیں۔اس میں وہ مقتولین اور گم شدہ افراد شامل نہیں ہیں جن کے بارےمیں ابھی تک کوئی اطلاع نہیں ہے اور نہ ان کی لاشیں تلاش کی جاسکی ہیں ۔ہزاروں لوگ عمارتوں کے ملبے میں دبے ہوئے ہیں ،جن کی لاشیں نکالنے کا عمل جاری ہے ۔لیکن اس حقیقت سے ابھی انکار نہیں کیاجاسکتاکہحماس نے اسرائیل کو ناقابل تلافی نقصان پہونچایاہے ۔البتہ اس نقصان کی نوعیت بدلی ہوئی ہے ۔اس وقت اسرائیل شدید سیاسی بحران کا شکار ہے ۔یہ بحران گذشہ کئی سالوں سے جاری ہے جس میں اب مزید اضافہ ہواہے ۔اسرائیل کے عوام کا اعتباراب اپنے حکمرانوں پر نہیں ہے کیونکہ انہوں نے ان کے تحفظ کے جو دعوے کئے تھے انہیں حماس کے حملے نے غلط ثابت کردیا۔اس کے علاوہ صہیونی فوجیوں کے مسلسل قتل نے ان کی افزائش نسل کے المیہ کو بھی جنم دیاہے ،جس کے بارے میں اسرائیلی وزارت صحت نے بھی اطلاع دی ہے ۔اس کے علاوہ اقتصادی بحران کا اندازہ لگانا تو آسان نہیں ہے کیونکہ جنگ کی بنیاد پر سب سے زیادہ اقتصادی ڈھانچہ متاثر ہوتاہے ۔اس پر دنیا نے جس طرح اسرائیلی بربریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ،اس نے عالمی سطح پر اسرائیل کو تنہا کردیاہے ۔اس تنہائی میں مزید اضافہ ہوسکتاہے اگر مسلمان حکمران مزید اتحاد کا مظاہرہ کریں اور مسلکی اختلافات کو بھلاکر متحدہ محاذ قائم کیاجائے،لیکن یہ آسان نہیں ہے ۔