-
حرابن یزید الریاحی ۔ بیدار ضمیر مجاہد کربلا
- سیاسی
- گھر
حرابن یزید الریاحی ۔ بیدار ضمیر مجاہد کربلا
773
M.U.H
17/08/2021
0
0
تحریر: تقدیس نقوی
معرکہ کربلا میں حضرت امام حسین علیہالسلام کی نصرت کے لئے جوانان بنی ہاشم کے علاوہ جن مجاہدوں نے دین اسلام کی بقا کے لئے روز عاشورہ اپنی بے مثل قربانیاں پیش کیں ان کے بارے میں امام عالی مقام کا یہ قول مشہور ہے کہ جیسے اصحاب مجھے ملے ویسے نہ میرے نانا کو ملے اور نہ میرے بابا اور بھائی کو ملے۔ ان تمام اصحاب حسینی کی عظمت کی سند کے لئے اک یہی بات کافی ہے کہ وہ سب جاں نثار اس حقیقت سے بخوبی واقف تھے کہ نصرت امام کا مطلب جام شہادت نوش کرنا ہے جہاں کسی طرح بھی موت سے مفر ممکن نہ تھا۔ امام کی نصرت کرنے سے قبل وہ یہ بھی جانتے تھے کہ امام کا ساتھ دینے کے عوض انہیں مال دنیا سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے۔
امام حسین علیہالسلام کے یہ جلیل القدر ناصر آپکی نصرت کرنے کے لئے دو ادوار میں شام ہوئے تھے۔ پہلے وہ لوگ تھے جو امام عالی مقام کے قافلہ میں مکہ مکرمہ سے رخصت کے بعد کربلا میں ورود سے قبل شامل ہو ئے تھے اور دوسرے وہ جاں نثار تھے جو امام عالی مقام سےارض کربلا پہنچنے کے بعد ملحق ہوئے تھے۔ پہلے گروہ کےاصحاب میں جناب زہیر ابن قین کا نام سر فہرست ہے۔ اصحاب حسینی کے دوسرے گروہ میں جناب حبیب ابن مظاہر الاسدی، وہب کلبی وغیر ہ شامل ہیں۔ یہ تمام اصحاب وہ تھے جن سے شب عاشور امام نے اپنی بیعت اٹھاکر یہ فرمایا تھا کہ وہ انہیں کربلا میں تنہا چھوڑ کر چلے جائیں کیونکہ یزید کو صرف انکا سر مطلوب ہے۔ مگر ان وفاداروں نے اپنی اپنی تلواریں اپنی گردنوں پررکھ کرجواب دیا تھا کہ اگر آپ فرمایئں تو ہم اپنی گردنیں اپنے ہاتھوں سے خود ہی کاٹ لیں۔ ان کے اس عظیم اور پاک جذبہ قربانی کے جواب میں امام کے پاس انہیں دعائیں دینے اور انہیں گلے لگانے کے سوا اورکچھ نہ تھا۔ ان انصار حسینی کو بھی کسی چیز کی طلب نہ تھی کیونکہ وہ معرفت امام کی دولت سے مالامال ہو چکے تھے۔
مگر ان دونوں گروہ کے علاوہ اک منفرد بیدار ضمیر جاں نثار حسین (ع )ایسا بھی تھا جو شب عاشورتک تو فوج یزید میں موجود تھا مگر صبح عاشور امام مظلوم کی خدمت میں آکرانکے قدموں میں اپنا سر رکھ کر معافی کا طلبگارہورہا تھا ۔ وہ تھا حر ابن یزیدالریاحی تمیمی۔
حر کوفہ کے بن تمیم قبیلہ کا اک بہادر سردار تھا۔ ابن زیاد کو جب اس کے مخبروں نے یہ اطلاع دی کہ امام حسین علیہالسلام کوفیوں کی دعوت پر اپنے اقرباء اور رفقا کے ہمراہ عازم کوفہ ہیں تو اس نے حصین ابن نمیر کو حکم دیا کہ وہ قادسیہ کے مقام پر پہنچ کر اپنے فوجی دستوں کی مدد سے کوفہ آنے والے تمام راستے مسدود کردے۔ تاکہ امام حسین علیہالسلام کوفہ میں داخل نہ ہوسکیں۔ حصین ابن نمیر نے مختلف فوجی دستے چاروں سمت روانہ کردئے۔ ساتھ ہی کوفہ کے اک بہادر سردار حر بن یزید الریاحی کو ایک ہزار کا لشکر دیکر امام حسین علیہالسلام کو راستے ہی میں روکنے یا انہیں گرفتار کرکے کوفہ ابن زیادکے پاس لے آنے کا حکم دیا۔ حر یہ لشکر لے کر منزل شراف کے قریب امام حسین علیہالسلام کے قافلہ تک پہنچ گیا۔
جس وقت حر اس مقام پر پہنچا جہاں امام کا قافلہ رکا ہوا تھا اسکے لشکر کے پاس پانی ختم ہو چکا تھا اور ان کا پیاس کی شدت سے برا حال تھا۔ جس نیت سے حراوراسکا لشکر وہاں پہنچے تھے وہ امام اور انکے ساتھیوں سے مخفی نہ تھا۔ گو کہ دونوں گروہ میں ابھی کوئی گفتگو نہیں ہوئی تھی مگرحر کے لشکر کے وہاں اچانک پہنچ جانے سے اسکیقافلہ حسینی سے دشمنی اور بدنیتی صاف ظاہر ہورہی تھی۔اس کی اک وجہ یہ بھی تھی کہ حر کا لشکر امام حسینعلیہالسلامکے قافلہ کے عین سامنے آکر کھڑا ہوگیا تھا۔
اسی اثنا امام حسین علیہالسلامنے دیکھا کہ حر اور اس کے لشکر کی شدید پیاس کے باعث حالت متغیرہورہی ہے۔ اگر کچھ دیر اور انہیں پانی نہ ملے گا تو یہ سب لوگہلاک ہوجائینگے۔بظاہر یہ امام کے اور ان کے ساتھیوں کے لئے دشمن کو خود بخود ہلاک ہونے دینےکا سنہری موقعہ تھا ۔بفرض محال اگر اس وقت امام کے پاس پانی کی وافر مقدار بھی موجود ہوتی تب بھی جنگی قوانین کے تحت اور اپنی مدافعت کے لئے بہترین جنگی موقعہ سمجھتے ہوئےبظاہر ان کو ایک قطرہ پانی بھیدینے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اس مقام پر امام کی جانب سے حر کے لشکر پرنہ توپانی بند کیا جارہا تھا اور نہ ہی پانی حاصل کرنے کے لئے انکی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا کی جارہی تھی۔ یہاں تو اس وقت اپنے حصہ کا پانی جو خود اپنی بقا کے لئے اشد ضروری تھا اپنی ضرورت کو نظرانداز کرتے ہوئے اور اپنی جان پر کسی دوسرے پیاسے انسان کی جان کو مقدم رکھنے کا سوال تھا۔ جبکہ صورت حال یہ تھی کہ جو پانی آپکےقافلہ والوں کے پاس اس وقت موجود تھا وہ آیندہ منزل تک پہنچنے کے لئے اہل قافلہ کی ضرورت کو بھی مشکل سے پورا کر سکتا تھا۔ قریب کوئی چشمہ آب بھی نہیں تھا۔ اس وقت کی صورت حال کا تقاضہ یہ تھا کہ امام حر کے لشکر کی پیاس سے چشم پوشی کرتے ہوئے خاموشی اختیارکرلیتے۔ مگر امام حسین ع نے ایسا نہیں کیا۔ وہ رحمت للعالمین کے فرزند تھے۔ سیاست نبویہ اور حکومت الہیہ کے قوانین کے محافظ تھے۔ کسی کا طاقت کے ذریعہ حکومت پر قابض ہو جانا عام بات ہے مگر اسلامی قوانین کے نفازاور انسانی اقدار کی حفاظت کرنےکے لئے اپنی اور اپنے بچوں کی جان کی بازی لگانا کوئی معمولی اقدام نہیں ہے۔ امام کے پیش نظر سفین میں انکے بابا کا کردارموجود تھا۔ حقیقی محافظ انسانیت کے لئے پانی جیسی بنیادی ضرورت کے لئے دوست اور دشمن میں تفریق کرنا ممکن نہ تھا۔اس موقعہ پرامام حسین علیہالسلام خلق رسول ص کا ایک بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں۔
بغیر کسی تاخیر کے امام عالی مقام نے اپنے ساتھیوں کوحکم دیا کہ حر کی فوج کے ایک ایک سپاہی اور ایک ایک گھوڑے کو اچھی طرح سیراب کیا جائے۔ یہ بات امام کے رفقا پرعیاں تھی کہ اس منزل پر کوئی چشمہ نہیں تھا اور نہ ہی یہ دریا کا کوئی کنارہ تھا۔ لیکن امام کے حکم کی تعمیل فوری کی گئی۔ حر کے سارے لشکر کو پوری طرح سیراب کردیا گیا۔ دراصل امام حسین علیہالسلام کا یہی اقدام تا قیامت مقصد کربلا بیان کرنے کے لئے کافی رہے گا۔
تھوڑی دیر بعد ہی نماز ظہر کا وقت ہوگیا تو امام نے اپنے اک صحابی سے اذان کہنے کا حکم دیا۔ جب نماز کی اقامت کا وقت آیا تو امام اپنے خیمہ سے باہر نکلے اور اک مختصر خطبہ ارشاد فرمایا۔ اللہ کی حمد و ثنا کرنے کے بعد آپ نے فرمایا کہ اے لوگو میں تمہارے پاس اس وقت تک نہیں آیا جب تک تمہارے خطوط اور قاصد مجھے بلانے کے لئے مجھ تک نہیں پہنچے۔اگر تمہیںمیرا آنا ناپسند ہے تو میں اسی جگہ سے واپس چلا جاتا ہوں۔ اس وقت ان لوگوں نے امام کو کوئی جواب نہیں دیا۔ آپ نماز کے لئے کھڑے ہوئےتوآپ نے حر سے پوچھا کہ تم اپنے اصحاب کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتے ہو تو حر نے کہا کہ نہیں بلکہ ہم آپ کے پیچھے ہی نماز پڑھیں گے۔ لہذا امام حسین علیہالسلام نے نمازپڑھائی۔ جب عصر کا وقت ہوا تو امام نے اپنے ساتھیوں کو اس مقام سے کوچ کرنے کا حکم دیا اور نماز عصر کے لئے کھڑے ہوگئے۔ نماز کے بعد ایک بار پھر امام علیہالسلام نے حر کے لشکر کو مخاطب کرکے فرمایا کہ تم اللہ سے ڈرو اور حقدار کا حق پہچانو۔ ہم اہلیبیت محمد ص ہیں ۔ اگر تم انکار کرتے ہو تو یہ اس کے خلاف ہے جس پر تمہارے خطوط اور ایلچی میرے پاس پہنچے ہیں۔ حر نے کہا کہ میں ان خطوط اور ایلچیوں کو نہیں جانتا۔ اس پر امام نے حر کو وہ خطوط منگاکردکھائے۔ حر نے خطوط دیکھ کر کہا کہ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں۔ ہمیں تو یہ حکم دیا گیا ہے ہم جب آپ سے ملاقات کریں تو آپ سے جدا نہ ہوں یہاں تک کہ آپ کو کوفہ میں عبیداللہ ابن زیاد کے پاس تک لے جائیں۔ امام نے فرمایا موت اس کی نسبت تیرے زیادہ قریب ہے۔ پھر آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا یہاں سے واپس چلنے کی تیاری کرو۔جب امام کا قافلہ واپس جانے کے لئے مڑنے لگا تو حر کا لشکر مزاحم ہوا۔ ایک روایت کے مطابق اس وقت حر نے امام کے گھوڑے کی لگام پر ہاتھ ڈالا تو امام نے فرمایا کہ تیری ماں تیرے غم میں روئے تو کیا چاہتاہے۔ حر نے کہا کہ اگر اہل عرب میں سے کوئی شخص آپ کے علاوہ یہ بات مجھے کہتا تو میں بھی اس کی ماں کا نام لیتا مگر خدا کی قسم آپ کی والدہ گرامی کا ذکر سوائے خیر کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ امام نے پوچھا تو آخر تم کیا چاہتے ہو۔
پہلے اس نے کہا کہ میں آپ کو ابن زیاد کے پاس لے جانا چاہتا ہوں جس کے جواب میں امام نے فرمایا کہ پھر تو میں تمہارے پیچھے نہیں چلونگا۔ اس وقت دونوں میں کچھ تکرار ہوئی۔ حر نے کہا کہ اچھا اگر آپ انکار کرتے ہیں تو پھر ایسا راستہ اختیار کیجئے جو نہ کوفہ جاتا یو اور نہ ہی مدینہ۔ میں ابن زیاد کو خط لکھتا ہوں شاید کوئی راہ نکل آئے۔ آپ قادسیہ اور عزیب کی بائیں طرف ہوجائیے۔
اگراسمنزل تک پہنچنے تک کے تمام واقعات کا بغور تجزیہ کیا جائے تو حرابن یزید الریاحی کے کردار میں ایک نمایاں تغیر نظر آتا ہے۔ اب یہ حر وہ حر نہیں تھا جو منزل شراف پر امام حسین علیہالسلام سے پہلی بارملاتھا۔ اس ملاقات سے قبل امام حسین علیہالسلام بھی حر سےبظاہرواقف نہ تھے۔ مگر حر آپ کے اور آپکی رسول کریم ص سے نسبت سے بخوبی واقف تھا ورنہ وہ آپکی مادر گرامی کے بارے میں انتہای مودبانہ الفاظ استعمال نہ کرتا۔ وہ امام کی عظمت کا اس قدر معترف تھا کہ اس نے نماز امام کی امامت میں ادا کرنے کو ترجیح دی۔ امام کی اتنی معرفت رکھنے کے باوجود بھی بظاہرابھی حر پر دنیا کی کشش حاوی نظر آتی ہے۔ لیکن اسی وقت اس کے رویہ میں اچانک تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ کچھ دیر قبل وہ حر جو امام کے لجام فرس پر ہاتھ ڈالنے کی گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے وہی حر کچھ دیر بعد امام کو ابن زیاد کی دسترس سے باہر بھیجنے کی نیت سے کسی ایسی راہ پر نکل جانے کا مشورہ دیتا ہے جو انہیں کوفہ سے دور لے جائے۔ دراصل وہ اتنے کم وقت میں امام کے حسن سلوک اور انسانی جذبہ سے بہت متاثر ہوچکا تھا۔
حر بظاہر زبان سے امام کی مخالفت کررہا تھا مگر دل پر ان کے احسان کی چوٹ کھا چکا تھا جس کی تڑپ کو مٹانا اب اس کے بس میں نہیں تھا۔ اب حر کے سینے میں وہ دل تھا جس پر سبط رسول کے روشن کردار کا نقش ثبت ہوچکا تھا۔ اب اس کے دل کی دھڑکنیں امام حسین ع کی بے گناہی کا کلمہ پڑھ رہیتھیں۔۔ اسی لئے میدان کربلا پہنچ کر شب عاشور میں انکے تمام ساتھی چین کی نیند سورہے تھے مگر حر تن تنہا بے چین و مضطرب خیمہ میں ٹہل رہا تھا۔ اس کی اس بے قراری کو اس کے غلام نے محسوس کر لیا اور اس کے بھائی سے اس کی اس بدلتی ہوئی کیفیت کا ذکر کیا۔ اس کے بھائی نے حر کی اس بے چینی کو دیکھ کر اسے سمجھا یا کہ اسکی اس کیفیت کے بارے میں جب اس کے لشکر والوں کو معلوم ہوگا تو کتنی خفتہوگی۔ یہ سن کر حر نے اپنے بھائی سے کہا کہ اگر تم میری اس کیفیت کی اصل وجہ جاننا چاہتے ہو تو آو میرے ساتھ میدان میں چلو۔ دونوں اپنے گھوڑوں پر سوار ہوکر خیام حسینی کی جانب چلے۔ جیسے ہی دونوں خیام کے قریب ہوئے انکے کانوں میں پیاس سے نڈھالاہلیبیت کے کمسن بچوں کی ' العظشالعطش ' کی آوازیں آنے لگیں۔ حر نے کہا کہ پیاسے بچوں کی ان آوازوں نے میرے دل کو پاش پاشکردیا ہے۔ ان بچوںکو اس حالت میں پہنچانے کا میں ذمہ دار ہوں۔ میں فیصلہ کرچکا ہوں اور یہ کہہ کر وہ گھوڑا دوڑاکر خدمت امام حسین علیہالسلام میں پہنچ گیا اور امام کے قدموں میں سر رکھ کر کہنے لگا ' کیا میری خطا معاف ہوسکتی ہے؟' امام نے کہا حر تیری خطا معاف ہے۔ حر امام سے اجازت لے کر فورا" ہی جہاد کرنے میدان میں چلا گیا۔۔ بہت سے کفار کو وآصل جہنم کرنے کے بعدآخرکارجام شہادت نوش کرلیا۔ امام حسین ع فورا" ہی حر کے لاش پر پہنچ گئے۔امام حسین ع حر کے چہرہ سے گردوغبار صاف کرتے جاتے تھے اور فرماتے تھے " جس طرح تیری ماں نے تیرا نام حر رکھا ہے ویسے ہی دنیا اور عقبی میں تو آزاد ہے"