-
جامع اسٹریٹجک معاہدہ
- سیاسی
- گھر
جامع اسٹریٹجک معاہدہ
282
m.u.h
08/05/2023
0
0
تحریر: حسن عقیقی
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے دورہ شام کے پہلے دن دونوں ممالک نے ایک جامع اسٹریٹجک اور طویل مدتی تعاون کے پروگرام نیز تعاون کی 14 دیگر دستاویزات پر دستخط کئے۔ ایرانی اور شامی حکام نے بدھ کے روز تجارتی تعاون، تیل و توانائی، انجینئرنگ، ہاؤسنگ، ریل اور ہوائی نقل و حمل، فری زونز، پرائیویٹ سیکٹر، مواصلات، ٹیکنالوجی، زلزلہ، امداد اور حج کے امور میں سہولت کاری جیسے شعبوں سے متعلقہ دستاویزات پر دستخط کیے۔ اگرچہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کا دورہ شام گہرے اور مستحکم تعلقات کی وجہ سے مختلف سیاسی اور سکیورٹی جہتوں کا حامل ہے، لیکن مزاحمت کے بلاک میں دونوں ممالک کے کردار کے ساتھ ساتھ موجودہ اقتصادی حالات میں تعاون کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ اس دورے کا ایک اہم مقصد ایران اور شام کے درمیان اقتصادی تعلقات کو بڑھانا ہے، اسی لئے طویل المدتی جامع اسٹریٹجک تعاون کے پروگرام پر عمل درآمد کے لئے 14 تعاون کی دستاویزات پر دستخط ہوئے ہیں۔ اس دورے کو ان 14 سمجھوتوں کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
ایران اور شام کے درمیان اسٹریٹجک اور طویل مدتی تعاون کے جامع پروگرام پر دستخط
مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ ایران اور شام کے درمیان گہرے سکیورٹی-سیاسی تعلقات کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاملات بہت محدود رہے ہیں۔ مثال کے طور پر گذشتہ دو سالوں میں ایران کی برآمدات 2021ء میں 218 ملین ڈالر سے بڑھ کر صرف 25 ملین ڈالر کے اضافے کے ساتھ 2022ء میں 243 ملین ڈالر تک پہنچیں جبکہ کچھ ممالک جن کے شامی بحران کے عروج پر بشار الاسد حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں تھے، ان کے تجارتی اعداد و شمار ایران سے کہیں زیادہ ہیں۔شام اب سکیورٹی کے بحران سے نکل آیا ہے اور اس ملک میں نسبتاً امن ہے، لیکن پیداوار اور برآمدات کے بنیادی ڈھانچے کی کمزوری اور تباہی کی وجہ سے اس ملک کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ ملک اتحادی ممالک کی شراکت سے اپنی پیداوار اور برآمدات بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران جس نے شام میں دہشت گردوں اور اس ملک کے دشمنوں کو شکست دینے اور اس ملک میں سلامتی کے قیام میں مدد دینے میں ناقابل تردید کردار ادا کیا ہے، اپنے ہمسایوں اور خطے کے ممالک کے ساتھ تعلقات کے فروغ کو اپنی ترجیح قرار دیتا ہے، اسی لئے وہ شام سے اقتصادی شعبے میں آگئے بڑھنا چاہتا ہے۔ ایران اور شام کے درمیان اقتصادی تعاملات کو بڑھانے اور فروغ دینے کا اس وقت بہترین موقع ہے۔ اقتصادی ماہرین کا تخمینہ ہے کہ شام کے لئے ایران کی برآمدات کی صلاحیت نان پٹرولیم شعبوں میں کم از کم 700 ملین ڈالر سالانہ اور تکنیکی اور انجینئرنگ خدمات میں 600 ملین ڈالر سالانہ ہے۔ البتہ ایران اور شام کے درمیان اقتصادی تبادلوں کی سطح کو بہتر بنانے کی راہ میں بعض ایسے چیلنجز بھی ہیں، جو دونوں ملکوں کے درمیان برآمدات اور اقتصادی تعاون میں اضافے کی راہ میں حائل ہیں۔
نقل و حمل کا مسئلہ اور مانیٹری اور بینکنگ ایکسچینج کے مسائل اس لئے زیادہ ہیں، چونکہ دونوں ممالک پابندیوں کی زد میں ہیں۔ ان پابندیوں نے خصوصی طور پر ایران اور شام کے درمیان تجارتی تعلقات کو متاثر کر رکھا ہے۔ شام کے ریلوے نیٹ ورک کے کچھ حصوں کو اس ملک میں حالیہ برسوں کے تنازعات سے نقصان پہنچا ہے اور انہیں دوبارہ تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی وجہ سے ایران، عراق اور شام کے درمیان شلمچہ-بصرہ ریل کے ذریعے شام کی بندرگاہوں تک نقل و حمل کا پراجیکٹ ترجیحات میں شامل ہے۔ اسی طرح مشترکہ ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے قیام نیز ایران اور شام کی بندرگاہوں کے درمیان شپنگ لائنوں کا آغاز دونوں حکام کے ایجنڈے پر ہیں۔
ایران اور شام کے درمیان اقتصادی تعاون کی توسیع دونوں فریقوں کے مفادات میں ہے
واضح رہے کہ ایران اور شام کے درمیان اقتصادی تعاون کی توسیع میں فریقین اور ہمسایہ ممالک کے مفادات شامل ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے دورہ شام کے موقع پر جن دستاویزات پر دستخط کیے گئے ہیں، ان سے یہ بات خاص طور پر واضح ہو رہی ہے۔ اس دورہ میں دونوں ممالک کے سربراہوں نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے ساتھ ساتھ موجودہ رکاوٹوں کو دور کرکے ایک نئے دور کا آغاز کیا جائے، تاکہ ایران اور شام کے درمیان تجارتی اور اقتصادی تعاملات کو موثر بنایا جاسکے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کے دفتر کے سیاسی نائب محمد جمشیدی نے کہا ہے "ان دستاویزات کی شکل میں شام میں ایران کی تجارتی اور اقتصادی نیز نجی شعبے کی موجودگی کو قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاکہ ایرانی قوم اس اسٹریٹجک فتح کے اقتصادی فوائد سے مستفید ہوسکے۔