ممتاز میر
اموی بادشاہ عبدالملک بن مروان نے خاندان بنو امیہ کے استحکام کے لئے سلطنت کی تمام ذمے داریان حجاج بن یوسف کو سونپ دی تھیں اپنی بہت سی خوبیوں کے باوجود حجاج بن یوسف تاریخ میں ایک ظالم و جابر حاکم کے طور پر جانا جاتا ہے۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس نے ایک عورت کی فریاد پر اپنے لائق بھتیجے محمد بن قاسم ؒکو ایک لشکر دے کر سندھ بھیجا تھا۔اور محمد بن قاسمؒ نے سندھیوں کے جسم ہی نہیں دل بھی فتح کئے تھے۔ دوسری طرف گورنر افریقہ موسیٰ بن نصیر بھی حجاج کے ہی آدمی تھے جن کے غلام طارق بن زیاد نے اسپین فتح کیا تھا۔
اموی سلطنت میں حجاج کے رسوخ کا یہ عالم تھا کہ اس نے بادشاہ عبدالملک سے سلیمان بن عبدالملک کو اپنا جانشین بنانے کی مخالفت کی تھی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ عبدالملک کے بعد سلیمان تخت پر بیٹھے۔مگر اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہوئی۔حجاج بن یوسف تو سلیمان بن عبدالملک کی تخت نشینی سے پہلے ہی فوت ہو گیا۔ مصیبت اس کے اعزہ و اقربہ اور اس کے مقرر کردہ حکام پر آئی۔سلیمان نے محمد بن قاسم کو سندھ سے بلوا کر قتل کروادیا اور موسیٰ بن نصیر کے آخری ایام افریقہ کی سڑکوں پر بھیک مانگتے گزرے۔ان کے علاوہ بھی عالم اسلام کے بہت سے سپہ سالار اور دیگر حکام ایک ولی عہد کے انتقام کا شکار ہوئے۔ یہ 1300 برس پرانے ایک ولی عہد کی مختصر داستان تھی۔ مگر 1300 سالوں مین کچھ بھی نہیں بدلا۔ آج کے ولی عہد بھی ایسے کیا اس سے بھی بدتر ہوتے ہیں ۔
نومبر 1963 میں پیدا ہونے والے جمال مبارک مصر کے سابق ڈکٹیٹر حسنیٰ مبارک کے چھوٹے فرزند ہیں ۔باخبر ذرائع کہتے ہیں کہ حسنیٰ مبارک کے زوال میں جمال مبارک کا بڑا حصہ ہے۔پہلے تو ان کا مصر کی سیاست سے کچھ لینا دینا نہیں تھا۔مگر یہ بات بڑی مشہور ہے کہ جو کھوٹا سکہ کہیں نہ چل سکتا ہو وہ سیاست میں چل جاتا ہے۔ حسنیٰ مبارک نے بھی اپنے اس کھوٹے سکے کوفروری 2000 میں اپنی پارٹی کا جنرل سیکریٹری بنا دیا۔ اب اسے قدرت کی ستم ظریفی کہئے کہ چند ماہ بعد جون 2000 میں شام کے حافظ الاسد انتقال فرما گئے اور ان کے شہزادے بشارالاسد ان کے جانشین قرار پائے۔ (دیکھئے اس ولی عہد نے شام کا کیا حال کر دیا ہے) یہ دیکھ کر مصر کے دونوں باپ بیٹوں کے دلوں میں بھی امنگیں جاگ اٹھیں ۔حسنیٰ مبارک نے بھی جمال مبارک کو ولی عہد بنانے کی کوششیں شروع کردی۔ فروری 2005 میں مصری دستور مین ایسی تبدیلی لائی گئی کہ جمال مبارک کی جانشینی کی راہ ہموار ہو سکے۔ جانشین بننے کے بعد جمال مبارک نے بدعنوانیوں میں اپنے باپ کے بھی کان کاٹنے شروع کر دئے۔اس طرح دھیرے دھیرے اس نے حسنیٰ مبارک کے زوال کو قریب لادیا۔ 2011 میں دونوں باپ بیٹے اپنے انجام کو پہونچے۔
بالکل یہی رول سیف الاسلام قذافی نے اپنے ڈکٹیٹر باپ کرنل قذافی کے لئے لیبیا میں انجام دیا۔سیف الاسلام قذافی لیبیا کے آمر کرنل معمر قذافی کے دوسرے فرزند تھے۔یہ حضرت پیشے سے انجینئرتھے ا وربرطانیہ سے سے پی ایچ ڈی کے بھی دعویدار ہیں جو آج بھی مشکوک ہے۔انھوں نے کبھی کوئی سیاسی عہدہ اپنے پاس نہیں رکھا۔اور ہمیشہ اپنے باپ کے جانشین ہونی کی خبروں کو رد کیا۔مگر یہ عملاً لیبیا کی دوسری طاقتور ترین شخصیت تھے۔اور لیبیا کے وزیر اعظم کا کردار ادا کر رہے تھے۔ لیبیا کے weapons of mass destruction یا نیوکلئر پروگرام کی بساط لپیٹنے میں سیف الاسلام قذافی ہی کا اہم کردار تھا۔ جس کی بنا پر عوام ان سے ناراض ہوئی۔
1969 سے لیبیا کے اقتدار پر قابض کرنل معمر قذافی کا2011 اقتدار کا ہی نہیں زندگی کا بھی آخری سال تھا جس میں سب سے زیادہ انٹرویوز اور سب سے زیادہ بیانات و اعلانات جناب سیف الاسلام قذافی ہی کے تھے۔ عوام یا باغیوں کو سب سے زیادہ دھونس اور دھمکیاں انھوں نے ہی دیں ۔اور یوں اپنے خاندانی اقتدار کے تابوت میں کیل ٹھونکنے میں بڑا سرگرم حصہ لیا۔
کچھ یہی رول احمد علی فرزند علی عبداللہ صالح نے یمن کے اقتدار سے اپنے باپ کا بستر گول کرنے میں ادا کیا۔ مگر محمد بن سلمان ولی عہد سلمان بن عبدالعزیزشاہ سعودی عرب کی بات ہی کچھ اور ہے۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے تخت اقتدار پر براجمان ہوتے ہی اپنے اس فرزند کو سعودی شاہی روایات کے بر خلاف نائب ولی عہد بنا دیا۔یہی نہیں ، یہ دنیا کے سب سے کم عمر وزیر دفاع بھی بنے۔ اب انھیں ولی عہد بننا تھا۔ اس کے لئے سعودی عرب کی کسی شخصیت سے رجوع ہونے کی بجائے یہ امریکی ارباب اقتدارسے رجوع ہوئے۔ایک پاکستانی صحافی کے مطابق امریکیوں نے پوچھا کہ محمد بن نائف بھی تو ہمارا ہی آدمی ہے تم اس سے بڑھ کر ہمیں کیا دے سکتے ہو؟جناب نے کہا کہ میں اقتدار میں آکر اسرائیل کو تسلیم کر لوں گا۔یوں محمدبن نائف کا پتہ کاٹ کر انھیں ولی عہد بنوادیا گیا۔ سعودی عرب کی حالیہ گرفتاریوں کو اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہئے۔مستقبل کا بادشاہ اپنے اقتدارکی متوقع رکاوٹوں کو دور کر رہا ہے۔اور یہ ہماری تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔خلافت تو ۱۳۵۰ سال پہلے ختم ہو گئی تھی۔محلاتی سازشیں تو صدیوں سے ہماری تاریخ کا طرہ امتیاز ہیں ۔
مغلیہ دار میں بھی ہمایوں کو اپنے اقتدار کے لئے اپنے بھائیوں سے لڑنا پڑا تھا۔ اورنگزیب عالمگیرؒ جیسے شخص نے پہلے اپنے بھائیوں کا صفایا کیا تھا۔ ایک ترکی صحافی نے اپنے حالیہ مضمون میں لکھا ہے کہ وہ جلد ہی سعودی عرب میں Palace Coup ہوتے دیکھ رہے ہیں۔
محمد بن سلمان جنھیں مغرب میں MBS کے نام سے جانا جاتا ہے، نے وزیر دفاع بنتے ہی سعودی عرب کو یمن کی جنگ مین دھکیل دیا جس نے سعودی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا۔34 یا 42 ملکوں کا فوجی اتحاد بھی محمد بن سلمان کا Brain Child ہے۔ جس کے مقاصد آج تک واضح نہیں ہیں ۔چند مہینوں پہلے قطر پر الزامات کی بوچھار بھی انہی شہزادے صاحب کا کمال ہے۔ اب یہ جناب سعودی عرب میں ماڈریٹ اسلام کی فصل اگانا چاہ رہے ہیں جس کے لئے وہ 500 ارب ڈالر کے اخراجات سے سعودی عرب میں ایک شہر بسا کر دنیا کو دکھائیں گے کہ ماڈریٹ اسلام کی ’’برکتیں ‘‘ کیا ہوتی ہیں ۔
آپ سوچئے کہ جو سعودی عرب آج کوڑی کوڑی کا محتاج ہو رہا ہے اس کے پاس ۵۰۰ ارب ڈالر کہاں سے آئین گے ؟ظاہر ہے عالمی سود خوروں سے۔ اس کا انجام کیا ہوگا؟ویسے انھوں نے سارے سعودی عرب کو ماڈریٹ اسلام سے روشناس کرانے کے لئے پرانے سعودی قوانین میں تبدیلیاں لانی شروع کردی ہیں ۔۔پاکستانی صحافی لکھتے ہین کہ جلد ہی شاہ سلمان کو چلتا کر دیا جائے گا۔یا تو ریٹائر منٹ کے ذریعے یا مار کر۔اور پھر نئے خادم الحرمین شریفین کے مبارک ہاتھوں سے سعودی عرب کو بھی چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تبدیل کر دیا جائے گا۔اور تمام ہی خلیجی ریاستیں اسرائیل کی باج گزار بن کر رہیں گی۔ ہم بھی برسوں سے سعودی شاہی اقتدار کے خاتمے کی تمنا کر رہے ہیں مگر اس طرح نہیں ۔یہ تو وہ نقشہ ہے جو صیہونی مقتدرہ کا تیار کردہ ہے۔ ہم تو اللہ کی چالوں کے منتظر ہیں ومکروا مکرللہ واللہ خیر الماکرین۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)