-
تحریک عدم اعتماد کامیاب یا ناکام؟
- سیاسی
- گھر
تحریک عدم اعتماد کامیاب یا ناکام؟
487
m.u.h
16/08/2023
0
0
تحریر:عادل فراز
تحریک عدم اعتماد پارلیمنٹ میں ناکام ہوگئی ۔مودی حکومت نے اعتماد کا ووٹ حاصل کرلیا ۔اسپیکر نے صوتی ووٹوں کے ذریعہ اس تحریک کو ناکام قراردیا ۔لیکن کیا واقعی یہ تحریک ناکام تھی ؟ اپوزیشن کو بھی معلوم تھاکہ سرکارپارلیمنٹ میں اکثریت میں ہے ،اس کے باوجود تحریک عدم اعتماد کیوں پیش کی گئی ،اس کے پس پردہ بہت اہم وجوہات ہیں ،جس کے بارے میں سرکار بخوبی جانتی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ سرکار کے نمائندے پارلیمنٹ میں اِدھر اُدھر کی باتیں کرتے رہے ،لیکن جن مسائل کی بناپر یہ تحریک مودی حکومت کے خلاف پیش کی گئی تھی ،اس پر زیادہ بحث نہیں ہوئی ۔اپوزیشن چاہتا تھاکہ سرکار منی پور پر اپنا موقف عوام کے سامنے رکھے ،لیکن سرکار کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں تھا۔اس لئے تحریک عدم اعتماد پر پارلیمنٹ میں بحث کے دوران’ اپوزیشن اتحاد انڈیا‘‘، کانگریس کے ماضی ،اپوزیشن کی پالیسیوں اور راہل گاندھی کی قیادت کو ہدف تنقید بنایا گیا ۔سرکار کے نمائندوں میں سے کسی ایک نے بھی منی پور تشدد ،اس کے نقصانات ،سرکار کے اقدامات اور انسانیت کے بہیمانہ قتل پرتفصیلی بات نہیں کی ۔پارلیمنٹ کا تمسخراب اس سے زیادہ کیا ہوگاکہ منی پور تشدد پر بات کرنے کے لئے منی پور کے پارلیمانی نمائندوں کو موقع نہیں دیاگیا۔جبکہ منی پور سے عوامی نمائندے پارلیمنٹ میں موجود تھے ۔کانگریس کی طرف سے گوروگوگوئی نے بحث کا آغازکرتےہوئے اپنے موقف کی وضاحت کی اور کہاکہ منی پور پروزیر اعظم مودی کی خاموشی نےانکی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے پر ہمیں مجبور کیا ۔منی پور آج انصاف مانگ رہاہے ۔اگر منی پور جل رہاہے تو ہندوستان جل رہاہے ۔انہوں نے کہاکہ ہم وزیر اعظم سے تین سوالوں کا جواب چاہتے ہیں کہ وہ آج تک منی پور کیوں نہیں گئے؟وزیر اعظم کو منی پور پر بولنے کے لئے۸۰ دن کیوں انتظار کرنا پڑا؟اور انہوں نے اب تک منی پور کے وزیر اعلیٰ کو برطرف کیوں نہیں کیا؟
بی جے پی کی طرف سے نشی کانت دوبے نے لوک سبھا میں تحریک عدم اعتماد پر بحث کا آغازکرتے ہوئے راہل گاندھی کے ساورکر پر تبصرے کو موضوع بحث قرار دیا ۔انہوں نے راہل گاندھی کی سزاپر سپریم کورٹ کےفیصلے کے بارے میں تبصرہ کیا اور کہاکہ سپریم کورٹ نے اب تک کوئی فیصلہ نہیں دیا ہے بلکہ حکم پر روک لگائی ہے۔‘ ‘۔ نشی کانت دوبے کے بیان سے اندازہ ہوتاہے کہ ان کے پاس منی پور پر بولنے کے لئے کچھ نہیں تھا ،ورنہ انہیں گوروگوگوئی کے سوالات کا جواب دینا چاہیے تھا ۔راہل گاندھی کوہدف تنقید بنانا ان کی واضح سیاسی کمزوری کا اظہار تھا۔
راہل گاندھی پارلیمانی رکنیت کی بحالی کے بعدایوان پہونچے تھے ۔ان کی آمد کا خوف سرکار کے نمائندوں کے چہروں سے نمایاں تھا ۔کیونکہ سرکار جانتی تھی کہ راہل گاندھی پارلیمنٹ میں وہ سوال پوچھیں گے ،جس کا جواب سرکار نہیں دے سکتی ۔ہوا بھی یہی ! راہل گاندھی نے منی پور کے سلسلے میں جو سوالات پوچھے اور جن اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ،سرکار کی طرف سے ان کا جواب اور وضاحت نہیں دی گئی ۔راہل گاندھی نے اپنی تقریر کے دوران کہاکہ منی پور میںبھارت ماتا کا قتل ہواہے ۔آپ محب وطن نہیں بلکہ غدار ہیں ۔منی پور ہندوستان کی آواز ہے اور آپ نے منی پور میں ہندوستان کی آواز کا قتل کیاہے ۔یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم منی پور نہیں جاسکتے کیونکہ انہوں نے منی پور میں ملک کا قتل کیاہے ۔آپ بھارت ماتا کے رکھوالے نہیں بلکہ قاتل ہیں ۔‘راہل کے اس بیان پر بی جے پی چراغ پاہواٹھی ۔ظاہر ہے جو پارٹی اپنے علاوہ سب کو غدار سمجھتی ہے اس کی حب الوطنی پر براہ راست سوال اٹھانا معمولی بات نہیں تھی ۔راہل نے مزید کہاکہ’ لنکا کو ہنومان نے نہیں بلکہ راون کے تکبر نے جلایا تھا ۔آپ پورے ملک میں کیروسین چھڑک کر آگ لگارہے ہیں ۔ہریانہ اور پورے ملک میں بھارت ماتا کا قتل کررہے ہیں ۔ہماری فوج منی پور میں ایک دن میں امن قائم کرسکتی ہے مگر آپ اس کا استعمال نہیں کرنا چاہتے کیونکہ آپ ہندوستان کو منی پور میں مارنا چاہتے ہیں ۔آپ نے منی پور کو ہندوستان سے الگ کردیاہے ۔‘راہل گاندھی کی تقریر کا جواب بی جے پی کے کسی لیڈر کے پاس نہیں تھا ۔انہوں نے جوسوالات قائم کئے تھے ان پر کسی لیڈر نے بات نہیں کی ۔راہل کی تقریر کے جواب میں اسمرتی ایرانی کو کھڑا کیا گیا ۔ظاہر ہے اسمرتی ایرانی کو فالتو بولنے کا ہوکا ہے ،اس لئے ان کی تقریر کو اب سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔وہ پوری تقریر کے دوران کانگریس اورراہل گاندھی کو کوستی رہیں ۔خیر کوسنا عورتوں کی طبیعت میں شامل ہے ،اس لئے اس پر برا نہیں ماننا چاہیے ۔اسمرتی ایرانی نے اپنی تقریر میں ایک بار بھی منی پور تشدد کی حقیقت ،عوامی اور سرکاری املاک کے نقصان کے اندازے ،سرکار کی خامیوں اور منی پور کے وزیر اعلیٰ کی ناکامی پر بات نہیں کی ۔یہی طریق کار وزیر اعظم مودی نے اپنایا ۔
بحث کے آخری دن وزیر اعظم مودی اپوزیشن کےسوالوں کا جواب دینے کے لئے ایوان میں حاضر ہوئے تھے ۔مگر ان کی تقریر اور اسمرتی ایرانی کی تقریر میں کوئی زیادہ فرق نہیں تھا ۔جب تک اپوزیشن ایوان میں موجود رہا وزیر اعظم نے منی پور تشدد پر کوئی بات نہیں کی ۔لیکن جیسے ہی اپوزیشن نے ان کی تقریر کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ایوان سے واک آئوٹ کیا،فوراً وزیر اعظم کے لہجے میں خوداعتمادی آگئی اور وہ منی پورکی صورتحال پر تقریر فرمانے لگے ۔دو گھنٹے سے زیادہ وزیر اعظم نے تقریر کی لیکن منی پور کی تازہ صورتحال اور سرکار کی کارکردگی پر زیادہ بات نہیں ۔ایسا محسوس ہورہا تھاکہ جیسے ان کے پاس کہنے کے لئے کچھ نہیں ہے ۔انہوں نے منی پور تشدد کا ذمہ دار کانگریس کی سابقہ پالیسیوں کو ٹھہرایا ،جس کی توقع کی جارہی تھی۔وزیر اعظم نے منی پور سمیت شمال مشرقی ریاستوں کی موجودہ صورتحال کے لئے کانگریس کو ذمہ دار قرار دیا ۔سوال یہ ہے کہ مودی سرکار کب تک کانگریس کی سابقہ پالیسیوں اور سیاسی حکمت عملی کا رونا روتی رہے گی ۔گذشتہ آٹھ سالوں میں بی جے پی نے ان ریاستوں میں کیا بدلائو کئے ،اس پر سرکار کیوں بات نہیں کرتی؟اب جبکہ منی پور میں بی جے پی اقتدار میں ہے ،آیا وہ کانگریس کی سیاسی غلطیوں کا ازالہ نہیں کرسکتی؟ یا ان غلطیوں کا ازالہ کرکے وہ منی پور کی صورتحال میں بدلائو نہیں چاہتی ۔وزیر اعظم نے کہاکہ آج بھارت ماتا کے تعلق سے طرح طرح کی باتیں ہورہی ہیں ،جبکہ کانگریس نے ہی بھارت کے دوحصےکرکے ماں کے دوبازوئوں کو الگ کردیا ۔منی پور پر تقریر کرتے وقت وزیر اعظم قہقہے لگارہے تھے اور ان کے چہرے پر ندامت اور افسوس کے آثار نہیں تھے ۔وزیر اعظم کی تقریر پر اظہار افسوس کرتےہوئے راہل گاندھی نے میڈیا سے کہاکہ گذشتہ چار ماہ سے منی پور میں لوگوں کا قتل عام کیا جارہاہے ۔خواتین کی عصمتیں تار تار ہورہی ہیں ۔تاہم وزیر اعظم پارلیمنٹ میں قہقہے لگارہے ہیں ۔راہل نے یہاں تک کہاکہ وزیر اعظم کو اپنے عہدہ کے وقار کا اندازہ نہیں ہے ۔وہ خود کو ہمارا نمائندہ نہیں سمجھتے ۔انہیں چھوٹے موٹے لیڈروں کی طرح بات نہیں کرنی چاہیے ۔راہل نے پارلیمنٹ کے بعد باہر میڈیا کے سامنے بھی یہ سوال دہرا یا کہ آخر وزیر اعظم منی پور تشدد پر قابو پانے کے لئے فوج کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟یا وہ منی پور کو جلنے دینا چاہتے ہیں ۔راہل کے اسی انداز تخاطب سے بچنے کے لئے وزیر اعظم نے ان کے واک آئوٹ کے بعد منی پور پر بولنا شروع کیا،جس سے راہل کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور سیاسی وقار کا بھی اندازہ ہوتاہے ۔
وزیر اعظم نےاپنی تقریر کے دوران راہل گاندھی کوزیادہ ہدف تنقید قرار دیا ۔ایسا محسوس ہورہا تھاکہ جیسے راہل کی مقبولیت اور پارلیمانی رکنیت کی بحالی نے انہیں فکری طورپر متزلزل کردیا ہے۔ایسا متوقع بھی تھاکیونکہ راہل کی رکنیت ختم کرنے کے لئے سرکار نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہوا تھا ۔عوام توقع کررہی تھی کہ وزیراعظم مودی منی پور پر کھل کر بات کریں گے ،مگر انہوں نے بہت رواروی میں منی پور پر بات کی ۔ایسا محسوس ہورہا تھاکہ جیسے وہ منی پور پر بات نہیں کرنا چاہتے ۔لیکن اگر وہ پارلیمنٹ میں منی پور پر نہیں بولیں گے تو پھر کہاں بولیں گے ؟
تحریک عدم اعتماد کا اصل مقصدمنی پور پروزیر اعظم کی خاموشی کو توڑنا تھا ۔اس میں اپوزیشن کامیاب رہا ۔پہلی باروزیر اعظم کو اس قدر گھبراہٹ کا شکار دیکھا گیا جسے وہ قہقہ لگاکر چھپارہے تھے ۔وزیر داخلہ امیت شاہ نے وزیر اعظم کے منی پور نہ جانے پر کوئی واضح بات نہیں کہی لیکن اتنا ضرور کہاکہ اگر وزیر اعظم نہیں گئے تو کیا ہوا میں تو منی پور گیا تھا ۔گویا وزیر داخلہ ،وزیر اعظم نریندر مودی کے منی پور نہ جانے کی توجیہ دے رہے تھے ۔انہوں نے تشدد کا ذمہ دار میانمار کے میتئی قبیلے کو ٹھہرایا جو میانمار سے ہجرت کرکے منی پور کے جنگلوں میں بس گیاہے ،لیکن کیا یہ دلیل سرکار کی ناکامی کے لئےکافی نہیں ہے !