-
راستے خود ہی بنانے ہونگے
- سیاسی
- گھر
راستے خود ہی بنانے ہونگے
1021
M.U.H
20/01/2020
0
0
سراج نقوی
دلّی کے شاہین باغ سے شروع ہوکر پورے ملک کو اپنی گرفت میں لینے والا سی اے اے اور این پی آر مخالف احتجاج اس اعتبار سے ہندوستان کی تاریخ کا انوکھا احتجاج ہے کہ اسے کسی اپوزیشن پارٹی نے نہیں بلکہ ملک کے سیکولر اور انصاف پسند عوام نے طاقت اور حمایت دی ہے۔ شاہین باغ کی طرز پر ہونے والے مظاہروں کا سلسلہ پورے ملک میں پھیل چکا ہے اور حکومت کی لاکھ کوششوں بلکہ ہتھکنڈوں کے باوجود یہ مظاہرے کم ہونا تو درکنار بڑھ رہے ہیں۔بہار ،مغربی بنگال،تلنگانہ ،کرناٹک اور اتر پردیش جیسی ریاستوں میں ان مظاہروں میں بڑھتی ہوئی عوامی شمولیت نے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ صرف مسلمان ہی نہیں ملک کے تمام طبقات اور مذاہب کے ماننے والے اس کے خلاف سڑکوں پر اتر آئے ہیں۔مظاہروں اور احتجاج کا یہ پہلو بی جے پی،سنگھ پریوار اور اس کی حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
اتر پردیش کے کانپور،وارانسی اور علی گڑھ سمیت بیشتر شہروں میں ہونے والے مظاہرے یوگی سرکار کی پولیس کے مظالم کے باوجود بڑھتے ہی جا رہے ہیں،لیکن جہاں تک خود کو سیکولر کہنے والی پارٹیوں کا تعلق ہے تو ایسا لگتا ہے کہ انھوں نے بھگوا طاقتوں کے سامنے ہتھیا ڈال دیے ہیں۔یہی سبب ہے کہ اتر پردیش میں پولیس کے مظالم کے خلاف کسی بھی اپوزیشن پارٹی نے مظاہرین خصوصاً مسلمانوں کے حق میں کھڑے ہونے سے دامن بچا لیا ۔ان میں کانگریس،سماجوادی پارٹی اور بی ایس پی بھی شامل ہیں۔بلکہ مسلم ووٹوں کی بھیک پر دلت لیڈر بننے والی مایاوتی اور ان کی پارٹی نے تو اپنی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ اور لوک سبھا میں پارٹی کے لیڈر کنور دانش علی کو اس عہدے سے ہٹاکر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ان کی مسلم دوستی محض ایک ڈھونگ ہے۔کنور دانش علی امروہہ سے بی ایس پی کے ٹکٹ پر رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئے ہیں۔انھیں کشمیر سے دفعہ ۳۷۰ ہٹانے پر پارٹی لائین سے ہٹ کر بولنے کی پاداش میں مایاوتی پہلے بھی اس عہدے سے ہٹاچکی ہی،لیکن کچھ دن بعد ہی انھیں دوبارہ لوک سبھا میں پارٹی لیڈر کے عہدے پر بحال کر دیا گیاتھا۔مایاوتی ماضی میں مودی کی انتخابی مہم میں شرکت کے لیے گجرات تک جا چکی ہیں اور اب بھی اپنے اوپر چلنے والے بد عنوانی کے مقدمات سے بچنے کے لیے کہیں درپردہ تو کہیں کھلے عام بی جے پی کی پالیسیوں کی حمایت کر رہی ہیں۔کشمیر سے متعلق دفعہ ۳۷۰ کی بی ایس پی نے جس طرح لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں کھلی حمایت کی اور مودی حکومت کے مذکورہ فیصلے کو جس طرح کشمیر کے بودھ شہریوں کے مفادات سے جوڑا اس سے واضح ہو گیا تھا کہ مایاوتی کس کے مفادات کو ترجیح دے رہی ہیں۔اب ایک مرتبہ پھر مایاوتی کا ا[یہ دوغلا چہرہ سامنے آ رہا ہے۔سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت کرنے والوں کو دسمبر کے دوسرے ہفتے میں اتر پردیش پولیس نے جس بے شرمی اور ظالمانہ طریقے سے نشانہ بنایا اس پر بھی مایاوتی کا رد عمل محض رسم ادائیگی جیسا تھا۔اتر پردیش کی پولیس کے ذریعہ مسلمانوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور انھیں زد و کوب کیے جانے،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں گھس کر پولیس کے زریعہ مارپیٹ اور تشدد پر بھی مایاوتی اور ان کی پارٹی نے احتجاج کی ضرورت محسوس نہیں کی۔اب جبکہ سی اے اے ،این آر سی اور این پی آر کی مخالفت کا دائرہ بڑھ رہا ہے اور ملک کے کمزور طبقات بشمول دلت اس تحریک کا حصہ بن رہے ہیںتو مایاوتی کو شائد یہ خوف ستا رہا ہے کہ مسلمانوں اور دلت و پسماندہ طبقات کے تعلق سے ان کا رویہ کہیں زوال آمادہ بی ایس پی کا وجود ہی ختم نہ کردے۔یہی سبب ہے کہ اب مایاوتی نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شہریت ترمیمی قانون کو واپس لے اور تمام سیاسی پارٹیوں و اہم لوگوں سے مشورہ کرکے ہی نیا قانون بنائے۔
سوال یہ ہے کہ شہریت کے تعلق سے کسی نئے قانون کی ضرورت ہی کیا ہے؟کیا مایاوتی اور ان کی پارٹی کا یہ موقف ہے کہ شہریت کے سوال پر کوئی نیا قانون آنا چاہیے؟اگر نہیں تو پھر بات صرف موجودہ قانون کو ہٹانے کی ہی ہونی چاہیے نہ کہ صلاح و مشورے کے بعد کسی نئے قانون کے نفاذ کی۔
مذکورہ قانون پر صرف بی ایس پی ہی دوغلے رویے کی شکار نہیں ہے ۔یا صرف مایاوتی ہی نے مسلمانوں پر ہونے والے یوگی اور مودی سرکار کے مظالم پر اپنی آنکھیں بند نہیں کر لی ہیں بلکہ ۷۰ سال تک مسلم ووٹوں کے دم پر ملک پر حکومت کرنے والی کانگریس اور کئی دہائیوں تک اتر پردیش میں مسلمانوں کے ہیرو رہے ملائم سنگھ یادو،ان کے بیٹے اکھیلیش یادو اور سماجوادی پارٹی کو بھی اپنے کسی بیان میں مسلمانوں کا نام لینے یا ان کا ذکر کرنے میں شائد ڈر لگتا ہے۔سماجوادی پارٹی کے صدر اور سابق وزیر اعلیٰ اکھیلیش یادو نے اے ایم یو کے طلباء پر اتر پردیش پولیس کی زیادتیوں اور گرفتاریوں کے باوجود ان طلباء سے ملنے اوران کی جد وجہد کو حمایت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔خود سماجوادی پارٹی کا مسلم چہرہ کہے جانے والے اعظم خان کو اتر پردیش پولیس اور سرکار جس طرح پریشان کر رہے ہیں اس پر کوئی سخت احتجاج پارٹی کی جانب سے نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ سماجوادی پارٹی بھی بی جے پی اور یوگی حکومت کی آمریت کے سامنے ہتھیار ڈال چکی ہے اور محض فرض ادائیگی کے طور پر ہی فرقہ پرست طاتوں کی غنڈہ گردی کے خلاف لب کشائی کرتی ہے۔
کانگریس کا ہندوتو کے تئیں لگائو بھی اب سب کے سامنے آ چکاہے۔بی جے پی حکومتوں کے ستائے ہوئے ہر شخص کے پاس دوڑ کر پہنچنے والے کانگریس لیڈر راہل گاندھی اور ان کی بہن پرینکا گاندھی نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں دلی پولیس کی کارروائی اور اس سے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سمیت ریاست کے مختلف حصو ں میں سی اے اے مخالف مظاہروں میں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کی گرفتاری پر جو رویہ اختیار کیا وہ مسلمانوں کے تئیں پارٹی کی منافقت کا کھلا ثبوت ہے۔کانگریس کے کسی بڑے لیڈر نے اس خوف میں کسی زخمی مسلمان کی عیادت کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی کہ کہیں اس کے عمل کو ہندو مخالف نہ مان لیا جائے۔حد تو یہ ہے کہ اتر پردیش کے ایک وزیر مملکت نے جب علی گڑھ میں ایک ریلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلباء کو یہ کھلی دھمکی دی کہ اگر انھوں نے ’یوگی اور مودی کے خلاف نعرے لگائے تو انھیں زندہ دفن کر دیا جائیگا‘ توتمام اپوزیشن پارٹیوں نے اس سرکاری فاشزم کے خلاف کوئی پر زور احتجاج کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔
ان تمام منفی حالات کے باوجود سی اے اے اور این پی آر کے خلاف بشمول مسلمان ملک کے کمزور طبقات کھڑے ہو رہے ہیں ۔یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ لوگ سیکولرزم کی مدعی پارٹیوں کے رویے اور ان کی عدم فعالیت کے باجود فاشسٹ طاقتوں کے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں ہیں اور بغیر کسی بڑی سیاسی حمایت کے ایک نئی قیادت کھڑی کرنے کے لیے میدان میں آ گئے ہیں۔عوام اس بات کا عزم مصمم کر چکے ہیں کہ انھیں ا پنی لڑائی خود لڑنی ہوگی اور اپنے راستے خود ہی بنانے ہونگے۔ شاہین باغ کی طرز پر ملک بھر میں مظاہروں اور احتجاجوں کا جو نیا سلسلہ شروع ہوا ہے وہ صرف بی جے پی،آر ایس ایس اور دیگر بھگوا طاقتوں کے لیے ہی وارننگ نہیں کہ وہ اپنے مذموم ارادوں سے باز آئیں، بلکہ یہ تمام سیکولر پارٹیوں کے لیے بھی وارننگ ہے کہ اگر انھیں اپنا وجود بچانا ہے تو فاشزم کے خلاف کھل کر میدان میں آئیں یا پھر اپنے سیاسی زوال کے لیے تیار ہو جائیں۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)