-
ایک عظیم رہنما کی یاد میں
- سیاسی
- گھر
ایک عظیم رہنما کی یاد میں
511
m.u.h
03/06/2022
0
0
تحریر:عادل فراز
رہبر انقلاب اسلامی امام خمینی ؒ ایک طلسماتی شخصیت کے مالک تھے ۔ایسی شخصیتیں بہت کم پیدا ہوتی ہیں یا یوں کہوں کہ ایسے افراد اللہ کی طرف سے مبعوث ہوتے ہیں تاکہ عالم انسانیت ان سے درس عبرت حاصل کرسکے ۔امام خمینی کے قبل و بعد متعدد تحریکیں اور انقلاب معرض وجود میں آئے ہیں مگر انقلاب ایران میں جو آفاقیت اور تاریخ سازی کا دم خم موجود تھا وہ کسی دوسری تحریک اور انقلاب میں نظرنہیں آتا ۔ہر انقلاب اپنے لیڈ کی فہم و فراست اور نظریے کی بنیاد پر پہچانا جاتاہے ۔لہذا دیگر انقلابات کا امام خمینی کے انقلاب کے ساتھ موازنہ کرکے دیکھا جاسکتاہے کہ دنیا کےدیگر انقلابات سے اس انقلاب کے کیا بنیادی امتیازات ہیں ۔یہ امتیازات روحانی بھی ہیں دنیوی بھی ۔اس انقلاب کا سارا دارومدار اسلامی نظریے پر ہے ،جو آج تک دنیا کی نظروں میں کامیاب حکومتی نظریہ نہیں سمجھا جاتا ۔استعماری نظریہ ساز مختلف زمانوں میں شکلیں بدل کر نت نئے نظریات کو دنیا پر تھوپتے رہے ہیں تاکہ دنیا کو اپنا نظریاتی غلام بناکر رکھا جائے ۔کمیونزم سے لے کر جدید جمہوری نظریات تک استعماری مفکرین نے اسلامی نظریے کے بالمقابل ہر طرح کا ہتھکنڈا استعمال کیاہے لیکن آج بھی جمہوری نظریہ دراصل کچھ طاقتور افراد کا تمام انسانوں پر حکومت کے نظریے سے جدا نہیں ہے ۔جمہوری نظام ہر ملک میں ناکامی سے دوچار ہے ۔سرمایہ داروں کے ہاتھوں میں زمام حکومت ہے اور وہ جب چاہتے ہیں جمہوری نظام میں جمہوری قدروں کو بدل دیتے ہیں یا یکسر مسخ کردیتے ہیں ۔اس لئے اسلام کا جمہوری نظام دنیا کے تمام جمہوری نظاموں سے ممتاز اور منفرد ہے ۔بشرطیکہ اس کو سمجھا جائے اور ایسے افراد کے ذریعہ اس کی تفہیم کی کوشش کی جائے جو اسلامی جمہوری نظام کی قدروں کا ادراک رکھتے ہوں ۔
امام خمینیؒ متعدد متضاد صفات کے حامل تھے۔انہوں نے کبھی حالات سے سمجھوتہ نہیں کیا بلکہ حالات کو بدلنے کی کوشش کی ۔اس جدوجہد کا دائرہ ایران ،عراق ،پیرس اور فرانس تک پھیلا ہواہے ۔آج ہمارے بعض لیڈران جب انقلابی تحریکات سے تھک کر یا عاجز آکر آمروں اور ظالموں کے سامنے جھک جاتے ہیں تو اسے وقت کا تقاضا کہہ کر عوام کو فریب اور اپنے پریشان ضمیر کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔جس وقت امام خمینی قیطریہ کی جیل میں مقید تھے ،اس وقت ایرانی انٹلی جنس کا سربراہ ان کے پاس آیا اور کہاکہ شاہ ایران آپ سے ملاقات کا خواہاں ہے، اس ملاقات کے بعدتمام مسائل حل ہوجائیں گے۔امام خمینی نے ملاقات سے انکار کردیا ۔اس کے اصرار پر امام خمینی نے جواب دیاکہ شاہ ایران جھوٹا ہے اور اس ملاقات کے بعد بھی وہ اپنے جھوٹ پر مصر رہے گا ،لہذا ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ۔اس معمولی سے واقعہ میں ہمارے ملّی قائدین کے لئے ایک بڑا پیغام موجود ہے ،بشرطیکہ امام خمینی کی زندگی کو رہنمائی حاصل کرنے کے لئے پڑھا اور سمجھا جائے ۔شاہ ایران کے خلاف ایسا موقف وہی شخص اختیار کرسکتاہے جس میں شجاعت اور دوراندیشی ہو ۔افسوس آج ہمارے ملّی قائدین میں ایسی شجاعت اور بیباکی کی کمی ہے ۔امام خمینی کی زندگی اور فیصلے فقط استخارے کے سہارے پر نہیں تھے ۔بعض لوگ استخارہ اپنی ذمہ داریوں سے فرار کے لیے بھی دیکھتے رہتے ہیں ۔امام خمینی بہت کم استخارہ کرتے تھے ۔ان کا خدا کے ساتھ ایسا روحانی رابطہ تھا جس کے نتیجے میں انہیں استخارہ کی ضرورت بہت کم ہوتی تھی ۔
انقلاب ایران کی کامیابی کے بعد قیطریہ تہران کے کچھ تاجروں نے امام خمینی کو کھانے پر مدعوکیا ۔دسترخوان پر ایک تاجر نے دعوت کا سبب بیان کرتے ہوئے کہاکہ آغا ان تاجروں نے آپ کی خاطر یہ اہتمام کیا ہے ۔گویا وہ یہ کہنا چاہتا تھا کہ آپ حکومتی سطح پر ان کے مفادات کا خیال رکھیں ۔کیونکہ ہر ریاست بغیر تاجروں کی اعانت کے کامیاب ریاست نہیں بن سکتی ۔مگر امام خمینی ایک خداترس اور جہاں دیدہ شخص تھے ۔انہوں نے فوراً جواب دیا کہ اگر انہوں نے یہ سب میری ذات کے لئے کیاہے تو بے سود اور غلط ہے ۔اگر یہ زحمت خدا کے لئے اٹھائی ہےتواس کے اجروثواب کی امید بھی خدا ہی سے رکھیں ۔اور اگر میری خاطر یہ اہتمام کیاہے تو میرے پاس کچھ نہیں ہے جو ان زحمتوں کے بدلے دے سکوں ‘‘۔ آج کے حاکم سرمایہ داروں کے زیردست ہوتے ہیں ۔بلکہ حکومتیں سرمایہ داروں کے اشاروں پر بنتی اور بگڑتی ہیں ۔مگر امام خمینیؒ کبھی سرمایہ داروں کے تصرف میں نہیں رہے بلکہ انہوں نے اسلامی اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے حکومت کرنے کو اپنا فریضہ سمجھا ۔ایرانی انقلاب کمزورں اور مستضعفین کا انقلاب تھا ،لہذا امام خمینیؒ نے ہمیشہ مستضعفین اور مظلوموں کی خوش حالی اور فلاح کے لئے منصوبہ سازی کی ۔یہی امتیاز انقلاب اسلامی ایران کا اصلی امتیاز تھا اور ہے ۔
امام خمینیؒ کی زندگی کے لاتعداد واقعات ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ۔ایران میں ان کا زمانۂ طالب علمی ،شاہ کے خلاف جدوجہداور اس کے بعد جلاوطنی کی زندگی ہمارے لئے نمونۂ عمل ہے ۔مگر افسوس ہم ہر سال 3 جون کو امام خمینیؒ کی برسی تو مناتے ہیں مگر ان کے افکاروخیالات پر عمل کرنے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ہمیں ان کے روز مرّہ کے اصول ،خانوادہ کے ساتھ زندگی گذارنے کے طورطریقے ،سماجی مسائل میں دوراندیشی ،سیاسی معاملات میں فہم و فراست ،عالمی صورتحال پر باریک نظراور خدا پر بے حساب توکل سے اپنی زندگی کو بدلنا چاہیے ۔ایسا شجاع ،بیباک اور بابصیرت لیڈر صدیوں میں پیدا ہوتاہے ۔ہمیں اس انقلاب کی قدر کرنی چاہیے جس نے عالمی سطح پر اسلام اور مکتب تشیع کو نئی شناخت دی ہے ۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتاہے چمن میں دیدہ ور پیدا
علامہ اقبال