تحریر:پروفیسر علامہ سید علی محمد نقوی صاحب قبلہ ، مسلم یونیورسٹی ،علی گڑھ
بدقسمتی سے ہر دور میں مسلمانوں میں ایک ایسا مختصر سا گروہ موجود رہا ہے جس کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ حقیقی اسلام سے عام مسلمان آشنا نہ ہونے پائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے چونکہ یہ شرط اول ہے کہ اسلام حقیقی کے وہ زندۂ جاوید مرقعے جو ہمیشہ مسلمانوں کے لئے شمع راہ رہے ہیں نظروں سے اوجھل کردئیے جائیں، اس لئے اس گروہ کی پوری کوشش رہی ہے کہ مسلمان اپنے عظیم تاریخی آثار کو فراموش کردیں۔ چونکہ امام حسین ؑ کی شخصیت اور کربلا کی قربانی ایسے ہی مرقعوں میں سے ایک ہے اس لئے ان افراد کی تمام ترذہنی کاوشیں اور پورا زورِ قلم ذکرِحسین ؑ اور ہر اس چیز کی جو کربلا کا نقش مسلمانوں کے ذہنوں میں ابھارسکے مخالفت کرنے میں صرف ہوا ہے۔ مگر چوں کہ اپنی اسلام دشمنی کو عیاں کرکے یہ مختصر سا گروہ، عام سیدھے سادے مسلمانوں کوا پنے مکروفریب میں گرفتار نہیں رکھ سکتا اس لئے اس کی طرف سے عزاداریٔ مظلوم اور ذکر حسین ؑ کو مختلف پردوں میں چھپانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کبھی یاد قربانی کربلا کے مختلف مظاہر کو بدعت بتاتے ہوئے روکا گیا۔ کبھی تعزیہ داری کو شرک کہہ کرخالص مذہبی چولے میں اس کی مخالفت کی گئی۔ کبھی اقتصادی نقطۂ نظر سے اس پر حملہ کیاگیا۔
موجودہ دور میں اس طبقہ نے ایک بالکل نئے زاویہ سے ذکر حسین ؑ پر حملہ شروع کیا ہے۔ جو دراصل اسی کوشش کا ایک حصہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کے تاریخی سرمایہ سے بے خبر کردیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ آج جب مسلمان کشمکشِ روزگار کا شکار ہے، جب اس کو نہ صرف اپنی اجتماعی حیات، بلکہ انفرادی وجود ہی کا بچانا مشکل ہورہا ہے، اس دور میں سب سے زیادہ تو ضرورت اس کی ہے کہ اپنے حال اور مستقبل کی فکر کی جائے، یہ سوچا جائے کہ کیا ہونا ہے، اور کیسے ہونا ہے، تیرہ سو سال پہلے کیا ہوا؟ اس کے مسلسل ذکر سے فائدہ ہی کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ماضی کا ذکر عموماً انسانی ذہن کو حال اور مستقبل سے بیگانہ بنا دیتا ہے، اس کے قوائے عمل شل ہو جاتے ہیں۔ اور اسے صرف پرانے قصوں ہی میں مزہ آنے لگتا ہے۔ دلائل کی یہ تان عموماً ہم سے اس مطالبہ پر ٹوٹتی ہے کہ
ع مستقبل کی سوچ، اٹھا یہ ماضی کی پارینہ کتاب
چونکہ اس قسم کے دلائل، ان مسلمان نوجوانوں کے ’’ترقی یافتہ‘‘ ذہن کو زیادہ متاثر کرتے ہیں جو مغرب کی خیرہ کن کامیابیوں سے چکاچوندھ ہوکر، اپنی قوم کو بھی مغربی اقوام کے دوش بدوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ جن کی نظر میں ایک متحرک حال اور ایک تابناک مستقبل کسی بھی دوسری چیز سے اہم تر ہے۔ اس لئے زیادہ بہتر یہ محسوس ہوتا ہے کہ مغربی مفکرین ہی کے نظریات پر اس خیال کو پرکھنے کی کوشش کی جائے۔
اگر ہم اس قسم کے دلائل وخیالات کا تجزیہ کریں تو محسوس ہوگا کہ ان کی پوری عمارت ایک بنیادی مفروضے پر قائم ہوتی ہے۔ تصور کیا جاتا ہے کہ دور گزشتہ کے واقعات کا حال اور مستقبل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ فرض کیا جاتا ہے کہ تاریخ کسی تسلسل یا مربوط حقیقت کا نام نہیں۔ بلکہ وہ مختلف طبقات اور حصوں میں تقسیم کی جاسکتی ہے۔ ایسے حصے جن میں کوئی قابل حیثیت ربط یا یک رنگی نہیں پائی جاتی۔ ماضی کو ایک ایسے منجمد اور مردہ پیکر میں دیکھا جاتا ہے، جو ممکن ہے، دلکش ہو حسین ہو یا افسردہ کن ہو مگر بہرحال مردہ ہے۔ اور حال یا مستقبل سے کوئی جاندار رشتہ نہیں رکھتا۔ اگر یہ مفروضہ صحیح ہو تویقینا کربلا اور دوسرے واقعات گزشتہ کا تذکرۂ فضول وقت گزاری کا ایک مشغلہ قرار دیا جاتا ہے، چونکہ وہ ایسے واقعات کا تذکرہ ہے جن سے اب ہم بے تعلق ہوچکے ہیں۔ جن کو نہ اب ہم کوئی نئی کروٹ دے سکتے ہیں اور نہ ان میں کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ فلسفۂ تاریخ کی روشنی میں یہ مفروضہ صحیح ثابت نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تاریخ کوئی منجمد (Constant) چیز نہیں۔ بلکہ ایک بہتا ہوا دھارا ہے جو وقت کے ساتھ رواں دواں ہے۔ کاروان انسانی ہمیشہ ایک ہی منزل پر نہیں رہتا، بلکہ مسلسل مصروف سفر ہے۔ انسان بعض حیثیتوں سے ہمیشہ بدلتا رہتا ہے، ایک عہد قدیم کا یونانی باشندہ، قرون وسطیٰ کے ایک عرب سے مختلف نظر آتا ہے۔ اور قرون وسطیٰ کا ایک عرب، دورجدید کے ایک مغربی شہری سے بڑی حد تک جدا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان وقت کے گزرنے کے ساتھ نہ صرف خارجی حالات (Objective Environment)پر اثرانداز ہوتا ہے بلکہ خود بھی ان سے ہم آہنگی کی خاطر بدلتا رہتا ہے۔ تاریخی تبدیلیاں دراصل اسی دوطرفہ، ’عمل‘ اور ’ردعمل‘ کا منطقی نتیجہ ہیں۔ جس کی بنا پر ہیگل (Hegel)نے تاریخ کو ’’عملِ مطابقت‘‘ (Process of Adjustment)سے تعبیر کیا ہے۔ تاریخ یقینا کوئی جامد شئے نہیں، بلکہ ویلز کے الفاظ میں ایک تدریجی ارتقاء (Dialectical Progress)کا دوسرا نام ہے۔مگر اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ ماضی اور حال میں کوئی تعلق نہیں، یا ماضی ہمارے لئے بے مصرف ہے اس لئے کہ ہم اس منزل سے آگے بڑھ چکے ہیں صحیح نہ ہوگا۔ چونکہ انسان اپنے خارجی حرکات اور عمل کے مظاہر کے لحاظ سے یقینا بدلتا رہتا ہے مگر اپنی فطرت کے بنیادی عنصر کے لحاظ سے کبھی تبدیل نہیں ہوتا۔
مشہور جرمن ماہر فلسفۂ تاریخ ڈِلتھے (Dilthey) نے انسانی شخصیت کو چار بنیادی عناصر میں تقسیم کیا ہے: احساسات، جذبات، خیالات اور عمل وکردار۔ ان میں جوچیز مسلسل تبدیل ہوتی رہتی ہے وہ عمل کی صورتیں ہیں۔ ایک عہد قدیم کے انسان اور ہم میں خارجی حیثیت سے زمین وآسمان کا تفاوت ہے۔ یہاں تک کہ کھانے پینے اور دوسرے ضروریات زندگی کو پورا کرنے کے طریقوں تک میں نمایاں فرق محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اگر صرف طریقہ ہائے عمل اور آلہ ہائے کار کا سوال ہو تو یقینا ماضی، حال اور مستقبل سے بالکل مختلف ہے اور اس لئے اس میدان میں یقینا موجودہ مسائل کے حل میں گزشتہ ادوار کچھ زیادہ مدد نہیں دے سکتے۔ کربلا کا ذکر اگر کوئی اس لئے کرلے کہ جس طرح تلواروں اور نیزوں اور تیروں سے حسین ؑ نے ظلم کا مقابلہ کیا تھا، انھیں صورتوں سے، انھیں ہتھیاروں سے ہم بھی مقابلہ کریں تو یقینا یہ عقل وخرد کی کوتاہی کا ایک کرشمہ ہوگا۔ چونکہ زمانے کے ساتھ عمل کی صورتیں بدل چکی ہیں۔ آج تلواروں اور نیزوں کی جگہ توپوں اور طیاروں نے لے لی ہے۔ اس معنی میں یقینا تاریخ ہمیشہ بدلتی رہتی ہے، اور اس معنی میں وہ مائل بہ ارتقاء ہے۔
انسانی شخصیت کے دوسرے تعمیری عنصر یعنی خیالات کے متعلق بھی یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ جزئی حیثیت سے وہ ہر دور کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ مگر ’’مفرد خیالات‘‘ ہر فرد، ہر تہذیب، ہر خطہ اور ہر زمانے کے ساتھ ممکن ہے بدلتے رہیں۔ لیکن اسلوبِ خیال کبھی نہیں بدلتا۔ انسان جن خطوط پر دورِ قدیم میں سونچتا تھا۔ انھیں خطوط پر آج بھی سونچتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ابتدائے آفرینش سے شیطان اور آدم ؑ، یا خالص انسانی سطح پر ہابیل اور قابیل نے انسانی ذہن کے جن خطوط پر گردش کرنے کی نشان دہی کی تھی، کروروں اربوں سال گزر جانے کے باوجود آج بھی انسانی ذہن انھیں خطوط پر گردش کررہا ہے۔
دور قدیم میں افلاطون(Plato) میکیادی (Machiavelli) اور جناب موسیٰؑ کے لے لیجئے۔ کیا ان کے ذہن جن سمتوں میں رواں تھے، ان کے علاوہ اب تک کسی نئی سمت کا انکشاف ہو سکتا ہے؟ افلاطون کی ذہنی کاوشیں اس کوشش میں صرف ہوئی تھیں کہ کس طرح انسان ایک بامعنی اور خوش حال دنیاوی زندگی گزار سکتا ہے۔ سیکڑوں سال بعد مور (Thomas More) بھی اپنی کتاب (Utopia) میں بھی اسی سمت میں سونچتا ملتا ہے، اور آج تک دنیا کے تمام فلسفیوں اور سائنسدانوں کی ذہنی جولانیاں اسی راہ میں جاری ہیں۔ میکاوی کی تمام ذہنی کوششیں، جائز یاناجائز طریقے سے انسان کے خالص مادی اور ذاتی مفاد کی کامیابی کے حصول کی جستجو میں صرف ہوئی تھیں۔ مگر کیا یہ اسلوبِ خیال زمانے کے ساتھ بدل سکا؟ ہم کو ہیرڈ (Herod)، یزید، متوکل، ہلاکو اور ہٹلر سب انھیں خطوط پر گردش کرتے نظرآتے ہیں۔ جناب موسیٰؑ، بلکہ ہمارے نزدیک تو حضرت آدمؑ کے دور سے روحانی رہنما جو تعلیم دیتے چلے آرہے تھے، اس کے بنیادی عناصر زمانہ کے ساتھ نہ کبھی بدل سکتے اور نہ کبھی فرسودہ ہوسکے۔جس پیغام کو لے کر نوحؑ آئے، اسی کو ابراہیمؑ، موسیٰؑ وعیسیٰؑ لے کر آئے۔ اسی کی رسالت کے فرائض ہمارے رسولؐ نے انجام دیے۔ اور اسی کی حفاظت اور تبلیغ بعد کی دینی رہنما کرتے رہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلوب خیال اور انداز فکر کے لحاظ سے انسان کبھی نہیں بدلتا۔ اور اس لحاظ سے اس کے ماضی وحال میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔
انسانی مرکب کے دوسرے اجزاء احساسات وجذبات بھی بنیادی حیثیت سے کبھی زمانے کے ساتھ نہیں بدلتے۔ جذبۂ محبت و نصرت، جذبۂ مسرت وغم اور اسی طرح کے دوسرے جذبات جس طرح کروڑوں سال پہلے فطرت انسانی کا جزو تھے، اسی طرح آج بھی ہمارے خمیر میں داخل ہیں۔ ابتدائے تاریخ سے یہ اصول رہا ہے کہ یہ جذبات یاانسان کی عقل عمومی (Common Sense) کے تابع رہتے ہیں یااسے مغلوب کرلیتے ہیں۔ جب تک وہ حدود کے اندر رہتے ہیں انھیں مستحسن قرار دیا جاسکتا ہے، جب حدود سے تجاوز کرجاتے ہیں وہی جذبات تباہ کن بن جاتے ہیں۔
جس طرح خیالات دو قسم کے ہوتے ہیں، اچھے اور برے۔ اسی طرح انسان کے جذبات واحساسات بھی دونوں صورتیں اختیار کرسکتے ہیں اور جس طرح دونوں قسم کے خیالات جیسے ابتدائے آفرینش میں تھے اسی طرح آج بھی موجود ہیں۔ اسی طرح اچھے اور برے جذبات کی کارفرمائیاں جس طرح دور قدیم میں ہوتی تھیں اسی انداز سے آج بھی جاری ہیں۔ روزازل سے ہی انسان کے ان بنیادی اجزا کو ’’خیر‘‘ اور ’’شر‘‘ کے دو واضح خانوں میں بانٹا جاسکتا ہے، جن میں ہمیشہ سے کشمکش رہی ہے۔ ہزاروں لاکھوں سال گزر جانے کے باوجود آج تک نہ انسانی جذبات بدل سکے ہیں اور نہ یہ اصول۔ آج بھی’’خیر‘‘ اور ’’شر‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔’’حق‘‘ اور ’’باطل‘‘ اسی انداز سے متصادم ہیں جس طرح ہابیل اور قابیل کے دور میں تھے۔
اس جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسانی شخصیت کے چار اجزاء میں سے ایک، یعنی عمل کی شکلیں ہیں جو دور بدور تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ اور جن کے لحاظ سے تاریخ ہمیشہ بدلتی رہتی ہے، اور ماضی کو حال اور حال کو مستقبل کے لئے نمونہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اور ایک دور، دوسرے دور میں بے مصرف بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے اجزاء، سوچنے کی راہیں اور جذبات واحساسات کے تقاضے کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔ اور ان کے لحاظ سے ماضی کبھی درحقیقت ماضی بنتا ہی نہیں۔ بلکہ تاریخ ایک تسلسل ہے، ایک موج ہے جوایک رفتار اور ایک انداز کے ساتھ ابتدائے آفرینش سے بہتی چلی آرہی ہے۔ جس میں نہ کوئی قابل ذکر تبدیلی ہوئی ہے اور نہ مستقبل قریب میں ہونے کے آثار نظر آتے ہیں۔
اور یہ یاد رکھنا چاہئے کہ عمل وکردار کی صورتیں بذات خود کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ اصل اہمیت اسلوب فکر اور جذبات واحساسات ہی کی ہے عمل خارجی دنیا میں انھیں چیزوں کی ایک علامت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تاریخ میں کبھی حقیقت بدلتی ہی نہیں، صرف علامات بدلتے ہیں، ’پیکر‘ وہی رہتا ہے صرف لباس تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ روح وہی رہتی ہے صرف اجسام بدلتے رہتے ہیں۔
یہ کوئی فرضی دعویٰ نہیں بلکہ وہ حقیقت ہے جس کو یورپ کے ماہرین تاریخ نے تسلیم کیا ہے۔ فلسفۂ تاریخ کے طالب علموں جانتے ہیں کہ یورپ میں اس ’’نظریۂ ارتباط تاریخی‘‘ (Coherence Theory) کے ثابت کرنے میں کتنا زور قلم صرف کیاگیا ہے۔ اس صدی کے مشہور مفکر اوکشوٹ (Oake Shott) نے بھی اپنی کتاب Experience and its Modes میں اس پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ وہ جس نتیجہ پر پہنچا ہے یہ ہے:
"It is wrong to think that the past is a complete and virgin world, streching out behind the present, fixed, finished and independent, waiting only discovery............... The fact is that the past in the history rests upon the present, is present"٭
نہ صرف اوکشوٹ بلکہ مشہور فرانسیسی مفکر Croceکا بھی یہی خیال ہے۔ جب اس نے کہا تھا کہ:
"All history is contemporary history"*
تووہ اسی حقیقت کا اعلان کررہا تھا کہ یہ سمجھنا کہ ماضی کے واقعات ہمارے لئے بے مصرف ہیں یا ماضی سے ہم بے تعلق ہوچکے ہیں غلط ہے۔ چونکہ جب انسان وہی ہے جوماضی میں تھا، جب بنیادی حالات وہی ہیں جو ماضی میں تھے، جب بنیادی اقدار وہی ہیں جو ماضی میں تھے، تو پھر ماضی کی حیثیت ہمارے لئے وہی ہونا چاہئے جو حال کی اور جب ان کی حیثیت وہ ہوگی تو ان کی اہمیت بھی وہی ہوگی جوحال کے واقعات وحالات کی ہوسکتی ہے۔ ماضی صرف ماضی ہی نہیں بلکہ ہمارے ’’حال‘‘ کا ایک حصہ بھی ہوتا ہے۔ چوںکہ حال وماضی میں بنیادی حیثیت سے کوئی فرق نہیںہوتا۔
اب اس نقطۂ نظر سے کربلا پر نظر کیجئے۔ کربلا کے ٹکرائو کے پس پشت جو خیالات وجذبات واحساسات کام کررہے تھے، کربلامیں جن اقدار کی بات تھی کیا آج وہ تبدیل ہوچکے ہیں؟ اگر وہ خیالات بدل چکے ہیں، اگر وہ احساسات وجذبات آج دنیائے آب وگل میں کارفرما نہیں، اگر آج ان اقدار کا چرچا نہیں تو ممکن ہے کربلا کی یاد، حسین ؑ کا ذکر، حق وباطل کی اس کش مکش کا تذکرہ بلا مصرف ہو۔ لیکن اگر آج بھی انسانی ذہن کے پردوں میں اسی قسم کے خیالات نہاں ہیں، اگر آج بھی اسی قسم کے جذبات واحساسات کی ریشہ دوانیاں جاری ہیں، اگر آج بھی وہی اقدار دائوں پر لگے ہوئے ہیں، تو پھر حسین ؑ اور کارنامۂ حسینی کی یاد بے سود کیسے قرار پاسکتی ہے!!
کربلا میں دو متصادم طاقتوں کے پس پشت کون سے خیالات کام کررہے تھے؟ کربلا کا معرکہ کن جذبات کا نتیجہ تھا؟ ایک طرف حسین ؑ تھے، دوسری طرف یزید تھا۔ ایک طرف مادی طاقت کے سامنے نہ جھکنے کا عزم تھا، دوسری طرف خالص دنیاوی زور قوت پر ہر چیز کو مسخر کرنے کا ارادہ تھا۔ ایک طرف انسانیت کو بندشوں سے نجات دلاتے اور انسان کو روحانی آزادی سے ہم کنار کرنے کی کوشش تھی، دوسری طرف ظلم واستبداد کے آ ہنی نظام میں ہر فرد کو جکڑنے کی سعی ٔ مسلسل تھی۔ ایک طرف اپنے غلط کار آباواجداد کا انتقام لینے کی آگ تھی، دوسری طرف حق پرستی کے ابراہیمی، موسوی، عیسوی اور محمدیؐ اثاثہ کو محفوظ رکھنے کا جذبہ تھا۔
کربلا میں کن اقدار کے درمیان جنگ تھی؟ ایک طرف مکروفریب کا مظاہرہ تھا، ظلم وبربریت کا عریاں رقص تھا، دوسری طرف شرافت انسانی کی تصویریں تھیں۔ امن وسلامتی کی تدبیریں تھیں، حق پر اعتماد کے مرقع تھے۔ ایک طرف قیصروکسریٰ کا نظام جبرواستبداد تھا، دوسری طرف خدائی نظام تھا۔ ایک طرف سرمایہ پرستی، آمریت اور ملوکیت تھی، دوسری طرف ایزدیّت، مساوات اور صداقت تھی۔ غرض کہ ایک طرف باطل بہ تمام شان وشوکت موجود تھا۔ دوسری طرف حق بہ کمال رعب ودبدبہ جلوہ آرا تھا۔ کیا آج یہ حق وباطل کی طاقتیں ایک دوسرے کے سامنے صف آرا نہیں ہیں؟ کیا آج انسان کو غلام بنانے کی، اس کی آزادیاں سلب کرنے کی، اس کو ظلم وستم کا نشانہ بنانے کی کوششیں نہیں ہیں؟ کیا آج مکروفریب کی گرم بازاری نہیں ہے، کیا آج جہل وکفر، آمریت وسرمایہ پرستی کے سیاہ بادل فضائے عالم پر محیط نہیں ہیں۔ کیا آج نسل وخاندان وقومیت کی برتری کے جذبے مٹ چکے ہیں۔ اگر یہ سب آج بھی موجود ہے، تو پھر کربلا کی یاد، حسین ؑ کا تذکرہ اسی طرح آج بھی ضروری ہے،اسی طرح آج بھی سودمند ہے اور اسی طرح آج بھی بامصرف ہے جیسے پہلے تھا۔
واقعہ کربلا ممکن ہے سطحی نظر کے لئے ماضی کا کوئی گزرا ہوا قصہ ہو، مگر درحقیقت وہ ہمارے دور کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے۔ آج حق وباطل کے ٹکرائو میں کوئی ایسا کردار مشکل سے نکلے گا جس کا نمائندہ کربلا میں موجود نہ ہو، اور کربلا کے میدان میں لڑنے والوں میں شاید ہی کوئی ہو جس کے ’زندہ سائے‘ شخصیت کے خصوصیاتِ امتیازی سے قطع نظر کرتے ہوئے ہماری نظروں کے سامنے نہ ہوں۔ ہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ حق وباطل کے اس درجہ پر نہ ہو، جیسے کربلا کے حسینی اور یزیدی تھے۔ بے شک کربلا کو ظاہری حیثیت سے عالم وقوع میں آئے تقریباً چودہ صدیاں گزر چکی ہیں، حسین ؑکو جام شہادت نوش فرمائے زمانہ گزر چکا ہے، یزید کو واصل جہنم ہوئے عرصہ ہوگیا ہے۔ مگر یزیدیت کی ریشہ دوانیاں آج بھی جاری ہیں۔ حسینیت آج بھی زندہ ہے، حسینیت اور یزیدیت کی کش مکش کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ آج کے انسان کے پیش نظر ہر وقت وہ واقعہ رہے جہاں ان دو طاقتوں کا ٹکرائو اپنے کمال تک پہنچ گیا تھا۔ جہاں حق بھی اپنے نقطۂ عروج پر تھا، اور باطل بھی اپنی انتہا پر تھا۔ تاکہ وہ حق وباطل کی اس کش مکش میں حسین ؑہی کی طرح باطل کو شکست دے سکے، اور تاریخ کو اس موڑ تک پہنچانے میں ایک حصہ لے سکے، جہاں باطل بالکل فنا ہوجائے گا۔ جس کی بشارت قرآن نے دی ہے اور جس کا ہیگل اور کانٹ نے خواب دیکھا ہے۔