سنگھ کو صرف اور صرف مندر مطلوب ہے اور وہ پھوٹی آنکھوں سے بھی مسجد کو برداشت نہیں کرنا چاہتا۔
اتر پردیش میں یہ سوال تو وزیراعلیٰ کے طور پر یوگی آدتیہ ناتھ کےپہلے ایودھیا سفر کے وقت سے ہی پوچھا جا رہا تھا کہ ایودھیا اور اس کے مندر-مسجد تنازعہ کو لےکر ان کے اور وزیر اعظم نریندر مودی کے سر اتنے الگ الگ کیوں ہیں۔حال ہی میں دیوالی پر ‘ تریتا کی واپسی ‘ کے یوگی کی پیش قدمی کے بعد یہ بھی پوچھا جانے لگا ہے کہ بی جے پی 2014 کے برعکس 2019 کا پارلیامنٹ انتخاب ہندو توا کے ایجنڈے پر لڑےگی یا اس سے پہلے ان کو وزیراعلیٰ کےعہدے سے ہٹا دےگی؟
حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کےاندرونی اختلافات سے جڑا یہ سوال مودی حکومت کی حکمت عملی اورپالیسی کو لےکر ان کے ‘اندرباہر ‘سب کچھ ٹھیک نہ ہونے، گجرات میں وکاس کے پاگل ہونے، معیشت کے نام نہاد گجرات ماڈل کا بھانڈا پھوٹ جانے اور مودی کے گجرات تک میں ان کے متوازی یوگی کے استعمال کے مدنظر لگاتار زیادہ دھاردار ہوتا جا رہا ہے، مگر ابھی تک لا جواب ہے۔اس سبب بی جے پی میں بڑے الٹ پلٹ کا اندازہ لگانے والےیہاں تک کہنے لگے ہیں کہ 2019 تک مودی اس طرح لڑکھڑا جائیںگے کہ ان کی عظمت یوگی پر عائدکر کےان کو لال کرشن اڈوانی کی طرح الگ تھلگ کر دیا جائے گا۔ اس لئے کہ گجرات کے نتائج صاف کر دیںگے کہ مودی کی ‘ کاٹھ کی ہانڈی ‘ آگے اور چڑھنے والی نہیں ہے۔
جو بھی ہو، ایودھیا میں ابھی تک اس حقیقت کو کسی راز کی ہی طرح دیکھا جا رہا ہے کہ بی جے پی کے وزیر اعظم کے عہدے کے امیدوارکا اعلان ہونے سے پہلے ہی اپنی شبیہ بدلنے کی کشمکش میں پڑے نریندر مودی خود کو ہندو توا سے جوڑنے، ایودھیا آنے اور رام مندر کے مسئلے پر منھ کھولنے سے بچتے رہے ہیں۔ اس لئے اپنے وزیر اعظم کے ابتک کے تین سال سے زیادہ کی مدت میں وہ ایک بار بھی ایودھیا نہیں آئے ہیں۔بھلےہی مندر تحریک کے نایکوں رام چندرداس پرم ہنس اور رام جنم بھومی ٹرسٹ کے صدر مہنت نرتیہ گوپال داس سے منسلک مختلف تواریخ پر ان کو ‘ مودبانہ مدعو ‘ کیا جاتا رہا ہے۔
2014 کے پارلیامنٹ انتخاب میں وہ ایودھیا کے جڑواں شہر فیض آباد میں بی جے پی امیدوار للّو سنگھ کی حمایت میں ریلی کو خطاب کرنے آئے بھی تو انہوں نے ایودھیا مسئلے پر منھ نہیں کھولا تھا۔
گزشتہ اسمبلی انتخاب میں تو وہ ایودھیاباشندوں سے ووٹ مانگنے تک نہیں آئے، جبکہ پوری ریاست میں گھوم گھوم کر اکھلیش کی حکومت پر قبرستان اور شمشان اور ہولی، دیوالی اور عید میں جانبداری کرنے جیسے الزام عائدکرتے رہے۔اس کے برعکس یوگی آدتیہ ناتھ وزیراعلی عہدے کا حلف لینے کے بعد سے ہی کسی نہ کسی بہانے بار بار ایودھیا آتے اور ہندو مذہب کے مبینہ ایجنڈے کو رفتار دیتے رہتے ہیں۔
حزب مخالف اس کو کبھی بی جے پی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا داخلی انتشار بتاتی ہیں، کبھی دونوں کی سازش اور کبھی سوچی سمجھی حکمت عملی۔ان کی مانیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کہ وزیر اعظم نے خود چپ رہکر دوسری قطار کے بی جے پی رہنماؤں کو ایودھیا مسئلے کو بھرپور گرمانے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، جو مسئلے کو اتفاق رائے سے یا کہ بات چیت سے حل کرنے کی بات کرتے ہیں توبھی لگتا ہے کہ دھمکی دے رہے ہیں۔
بی جے پی اورسنگھ کو مخالف کے ایسے رد عمل بہت موافق لگتے ہیں کیونکہ یہ بات ان کے حق میں جاتی ہے کہ مخالف ان کے داخلی انتشار کی اصل شکل کو نہ سمجھ سکے ۔ہاں، یہ داخلی انتشار کھلیں نہیں، اس کے لئے سنگھ پریوار کی تنظیم ان دنوں ایودھیا میں خود کو رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ کے خوش آئند حل کا سب سے بڑا پیروکار ‘ ثابت ‘ کرنے میں لگے ہیں۔
اس کارعظیم میں ان کی ‘عالی ظرفی ‘ کا حال یہ ہے کہ وہ تنازعہ سے متعلق اکثر ہر سوال کا جواب ‘ابھی تو معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے ‘ کہہکر ٹال دیتے ہیں اور بہت ہوا تو اتفاق رائے بنانے یا بات چیت کرنے اور عدالتی فیصلے کا انتظار کی بات کہہ دیتے ہیں۔جیسے چھ دسمبر، 1992 کو بابری مسجد کے انہدام کے وقت ان بیچاروں کو تنازعہ کے عدالت میں زیر التوا ہونے کی جانکاری ہی نہیں تھی!
ایسے میں، جب عدالت عظمی تک تنازعہ کو آپسی بات چیت سے کورٹ کے باہر حلکر لینے کا مشورہ دے چکی ہے،عام طور پر بدگمانی پھیلانے میں والی ان تنظیموں کو یوں ‘سدھرتے ‘ دیکھنا ایودھیاباشندوں کے لئے خوشی کی بات ہو سکتی تھی۔ویسے بھی شاید ہی کوئی عام ایودھیاباشندہ ہو، جو اس تنازعہ کا خوش آئند حل نہ چاہتا ہو۔ لیکن بدقسمتی سے نہ تو ان تنظیموں کی خیرسگالی کی کوئی تاریخ ہے اور نہ ہی ان کو نیک نیتی کی تشہیر کی اس سے پہلے کی کوئی مشق۔ اس سبب ان کے کرتب ابھی بھی ایسے ہیں کہ نیک نیتی قائم ہونے جا رہی ہو توبھی نہ ہو۔
دراصل وہ سمجھتے ہی نہیں ہیں کہ نیک نیتی، صلح یا سمجھوتہ کی کوشش تنازعہ کے سارےفریقوں کے درمیان برابری کے برتاؤ، ‘ایک قدم ہم چلیں، ایک قدم تم ‘والی سمجھداری اور لین دین کے جذبات سے کامیاب ہوتے ہیں، نہ کہ دوسرےفریق سے مکمل خود سپردگی کی دو رخی خواہش سے چلی جانے والی شاطر چالوں سے۔
اس لئے ان کی نیک نیتی کی پیروکاری میں سارا زور مسلم بھائیوں کو رام مندر تعمیر کی دریادلی کا مظاہرہ کرنے کے لئے راضی کرنے پر ہے۔کہا جا رہا ہے کہ ہندو اکثریت والے اس ملک میں مسلمانوں کو بڑا دل دکھانا اور ہندوؤں کے عقیدے کی عزّت کرنا چاہیے۔
ظاہر ہے کہ ان کی اس ‘ چاہ ‘ میں مسلمانوں کے عقیدہ کے لئے کوئی عزّت نہیں ہے اور ‘اٹ بھی میری، پٹ بھی میری اور انٹا میرے بابا کا ‘بول بالا ہے۔ اس لئے نیک نیتی کا اصل جذبہ ہی ختم ہوا جا رہا ہے۔ہاں،اس پیروکاری کی کامیابی میں دسمبر2002 میں اس وقت کے سرسنگھ چالک کےایس سدرشن کی پہل پر تشکیل شدہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی حوصلہ مندانہ معاون تنظیم مسلم راشٹریہ منچ ان کے بہت کام آ رہی ہے۔
اندریش کمار کی رہنمائی اور محمد افضال یا کہ افضل کی قیادت میں چل رہی اس تنظیم نے ایودھیا میں عام مسلمانوں کے نام پر اپنے ہی تنظیم کے کچھ ایسے چہرے آگے کر دئے ہیں، جو آگے بڑھکر مسلمانوں سے متنازعہ مقام پر دعویٰ چھوڑ دینے اور مندر تعمیر کرنےکا راستہ ہموار کر کےاس کے لئےکارسیوا کرنے وغیرہ کی حمایت اور ان کے لئے اپیلیں وغیرہ جاری کرتے رہتے ہیں۔
ان کی سرگرمیوں کو عام مسلمانوں کی سرگرمیوں کی شکل میں مشتہر کرکے سنگھ کی دوسری تنظیم اپنی حمایتی میڈیا کی معرفت غلط فہمی پھیلاتے ہیں کہ اب تو مسلمان ‘راضی ‘ہو گئے ہیں اور محض نام نہاد سیکولر ہی مندر تعمیر میں خلل ڈال رہے ہیں۔سنگھ کی تنظیموں کی سمجھ ہے کہ اس وقت ملک کے ساتھ ہی ریاست کے اقتدار پر بھی بی جے پی کے قبضے سے مسلمان اپنے مستقبل کو لےکر ڈرے ہوئے ہیں اور ان کے اس ڈرکا نفسیاتی فائدہ اٹھاکر ان کو مندر کی تعمیر کی طرف داری میں لایا جا سکتا ہے۔
یہ بتاکر کہ اس سے آگے اور کوئی ہنگامہ نہ برپا ہوگا اور ان کے بال بچّوں کا مستقبل خطرے میں نہ پڑےگا۔اس سلسلے میں شیعہ وقف بورڈ کی طرف سے بھی رام مندرکی تعمیر کی حمایت اور مسجد کے لئے اختیاری جگہ مل جانے پر وہ متنازعہ مقام پر دعویٰ چھوڑنے کی بات مشتہر کرائی جا رہی ہے، جس کا فی الحال کوئی دعویٰ وجود میں ہی نہیں ہے۔ظاہر ہے کہ یہ تنظیم اپنی نیک خواہشات میں بھی سب کچھ اپنی مرضی سے طے کرنا چاہتے اور دوسرے فریق کا اعتماد جیتنے میں لگنے کے بجائے اس سے مکمّل خود سپردگی کی توقع رکھتے ہیں۔
پھر اس میں نیا کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ کچھ بھی نہیں۔ اس لئے ان کے اور مسلم راشٹریہ منچ کے درمیان چل رہی نیک نیتی کی شاطر نمائش کو کئی لوگ سنگھ پریوار کے ذریعے کھیلا جا رہا ‘ خود سے خود کی نیک نیتی قائم کرنے کا کھیل ‘ قرار دے رہے ہیں۔سنگھ پریوار میں عدم اتفاق کا اعتماد جیتنے یا کرنے کا ذرا بھی جذبہ ہوتا توعام ایودھیاباشندوں کے ذریعے کوئی تین دہائی پہلے کیے گئے تنازعہ کے معقول حل کی کوشش ناکام نہیں ہوتی، کیونکہ تب ایودھیا اور اس کے جڑواں شہر فیض آباد کے دونوں فرقوں کے لوگوں نے ملکر حل کا ‘ نہ سانپ مرے نہ لاٹھی ٹوٹے والا ‘ فارمولا طے کر لیا تھا۔
اس حوالے سے 1984 میں وشو ہندو پریشد کے ذریعے تالوں میں بند بھگوان رام کی آزادی کے نعرے پر سیتامڑھی سے ایودھیا تک رتھ یاترا سے پہلے اس تنازعہ میں ایودھیاباشندوں کی زیادہ دلچسپی ہی نہیں تھی اور وہ اس سے عام زمینی تنازعات جیسا ہی سلوک کر رہے تھے۔لیکن 1986 میں متنازعہ ڈھانچے کے تالے کھولے جانے کے بعد جیسے ہی تنازعہ کے ناسور بننے کے نشان بڑھتے دکھے، ایودھیا اور اس کے جڑواں شہر فیض آباد کے شہری اس کے پر امن حل کے لئے فعال ہو گئے۔ ان کو معلوم تھا کہ تنازعہ جتنا بڑھےگا، اتنی ہی ان کے سینہ پر مونگ دلی جائےگی۔
تب انہوں نے تنازعہ کوعدالت کے باہر معقول حل کے لئے مقامی لوگوں کی ایودھیا گورو کمیٹی بنائی تھی، جس کے صدر مہنت نرتیہ گوپال داس اور سیکریٹری مقامی روزنامہ ‘ جن مورچہ ‘کے مدیر شیتلا سنگھ تھے۔اس کمیٹی میں فیض آباد کے سابق رکن پارلیامنٹ نرمل کھتری اور ایودھیا کے سابق نریش وملیندرموہن پرتاپ مشر سمیت لگ بھگ سارے اہم سادھوسنت شامل تھے، بس سنگھ پریوار کے ونئے کٹیار اور ایک دو غیر کو چھوڑکر۔
ان میں ونئے کٹیار باہری ہونے کے ناطے رکنیت کے اہل ہی نہیں تھے۔ کمیٹی کی طرف سے ایک ٹرسٹ بھی قائم کیا گیا تھا۔جاننا چاہیے کہ اس کمیٹی کے صدر نرتیہ گوپال داس وہی ہیں، جو اب وشو ہندو پریشد کے ذریعے ضمانت شدہ رام جنم بھومی مندر ٹرسٹ کے صدر ہیں۔ تب انہی نرتیہ گوپال داس کی صدارت میں تنازعہ کےدفاعی پرم ہنس رامچندرداس پرمہنس کے دگمبر اکھاڑے میں دونوں فریق کے اجلاس میں حل کا فارمولا بنا تھا۔
اتفاق ہو گیا تھا کہ متنازع ڈھانچے کو چاروں طرف سے اونچی اونچی دیواروں سے گھیر دیا جائے اور اس سے سٹے رام چبوترہ پر مندر کی تعمیر کیا جائے۔نیک نیتی ایسی تھی کہ مسلم فریق نے کہہ دیا تھا کہ وہ یہ بھی نہیں پوچھےگا کہ جن اونچی دیواروں سے ڈھانچے کو گھیرا جا رہا ہے، ان میں دروازہ کدھر ہے۔اس کی شرط بس اتنی تھی کہ ہندوؤں کی طرف سے یہ دعویٰ بھی نہیں کیا جائےگا کہ ان کی جیت ہو گئی ہے یا انہوں نے متنازعہ ڈھانچے پر قبضہ پا لیا ہے۔
اس وقت کےگئورکشک پیٹھادھیشورمہنت اویدناتھ اور پرمہنس رام چندر داس کے ساتھ جسٹس دیوکی نندن اگروال اور داؤدیال کھنّہ وغیرہ ہندو رہنما تو اس سے متّفق تھے ہی، سیّد شہاب الدّین، صلاح الدین اویسی، سی ایچ محمّد کویا اور ابراہیم سلیمان سیٹھ وغیرہ مسلم رہنماؤں کی رائے بھی اس کی طرف داری میں تھی۔مسلم رہنماؤں کا ماننا تھا کہ صلح سمجھوتہ کی بنیاد پر مندر تعمیر کا راستہ ہموار ہونا خود مسلمانوں کے حق میں ہے اور اس سے ان کو ملک کے مرکزی دھارے میں بنے رہنے اور الگ تھلگ پڑنے کے خطرہ سے نمٹنے میں مدد ملےگی۔
دینک ‘ جن مورچہ’کے مدیر شیتلا سنگھ بتاتے ہیں کہ اس اتفاق کے بعد راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ترجمان ‘پانچ جنیہ ‘ اور ‘آرگنائزر ‘نے، غالباً اپنے دسمبر 1986کے شمارے میں خبریں شائع کر کے اعلان کیا تھا کہ ایودھیا تنازعہ ختم ہو گیا ہے، بھگوان رام کی جیت ہو گئی ہے اور مندر تعمیر کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔تب وشو ہندو پریشد کے لیڈراشوک سنگھل نے بھی اس کا استقبال کیا تھا۔ لیکن بعد میں ایک پراسرار واقعہ کے بعد ان کے رہنما وشنوہری ڈالمیا نے خواہش جتائی کہ وہ بھی ایودھیا گورو کمیٹی کے ممبر اور اس کے ٹرسٹ کی ٹرسٹی بننا چاہتے ہیں۔
جب ان کو بتایا گیا کہ اس میں صرف ایودھیا یا فیض آباد کے لوگ ہی شامل ہو سکتے ہیں تو انہوں نے معاملے پر غور وفکر کے لئے دلّی میں جھنڈے والان واقع کیشوکنج میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی مجلس بلائی اور حل کے فارمولے کا استقبال کرنے کے لئے اشوک سنگھل کو بری طرح ڈانٹا۔ان سے کہا کہ رام کے مندر تو ملک میں بہت ہیں، اس لئے ہمیں اس کی تعمیر کی فکر چھوڑکر اس کی تحریک کے ذریعے عوام میں جو شعور جاگ رہا ہے، اس کا فائدہ اٹھاکر ملک کے اقتدار پر قبضہ کرنے میں لگنا چاہیے۔
بالآخر وشو ہندو پریشد نے ایودھیا اور فیض آباد کے شہریوں کی اس کوشش کو یہ کہہکر پلیتہ لگا دیا کہ فارمولے میں یہی طے نہیں ہے کہ مندر کاگربھ گریہہ کہاں بنےگا، جبکہ وہ گربھ گریہہ سے ہی مندر کی تعمیر کی جانبداری میں ہے۔اتناہی نہیں، اس نے کمیٹی کے سیکریٹری پر یہ کہتے ہوئے عدم اعتماد جتا دیا کہ وہ کمیونسٹ رہے ہیں اور ان کی ماضی میں انتہا پسندی کی وجہ سے ان پر یقین نہیں ہے۔
پھر تو ایسی بھی حالت آئی کہ زمین کے چھوٹے سے حصے کے تنازعہ کو عقیدے کے خطرناک ٹکراؤ کا تنازعہ بنا دیا گیا۔ وہی لوگ جو اس تنازعہ کو عدالت میں لے گئے تھے، کہنے لگے کہ کوئی بھی عدالت اس معاملے کا فیصلہ نہیں کر سکتی۔حالانکہ یہ بات انہوں نے کبھی عدالت کے سامنے نہیں کہی۔ مسئلے کے حل میں اس لئے بھی دقت آئی کہ اس سے منسلک کوئی بھی تنظیم سارے ہندوؤں اور سارے مسلمانوں کی نمائندگی نہیں کرتی اور نہ ہی ان پر اس کا قابو ہے۔
عدالت میں اس تعلق سے جو تنازعہ زیر سماعت ہے، وہ بھی اپنی فطرت میں نمائندگی کے سوال سے جڑاہے۔ہاں، جو لوگ تب اس کے معرفت ملک کے اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے تھے، ان کا منصوبہ اب پورا ہو چکا ہے اور اب بات چیت ہو، جن کی سب سے نئی تجویز شری شری روی شنکر لےکر آئے ہیں، تو وہ اس پر بھی ا نحصار کریںگے کہ ‘ ہندو ‘ آقا اپنی نئی صورتحال کو مخلصانہ حل کے لئے استعمال کریںگے یا ایسےہی دوسرے فریق سے خود سپردگی کرانے کے لئے۔
ابھی تو نیک خواہشات کے لبادہ میں رام مندر تعمیر کے لئے عام اتفاق بنانے اور مسمارشدہ بابری مسجد کو ایودھیا کی چودہ کوسی دائرہ کے علاقے میں کہیں بھی نہ بننے دینے کے شغل میں الجھے ان کے لوگ یہ حقیقت بھی چھپائے رکھنا چاہتے ہیں کہ اب ایودھیا تنازعہ کے حل کی کوئی بھی پہل قانون سازمجلس کی رضامندی کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔حقیقت یہ ہے کہ مرکز نے چھ دسمبر، 1992 کو بابری مسجد کے انہدام کے مہینے بھر بعد سات جنوری 1993 سے ہی تنازعہ کو ختم کرکے سماجی ہم آہنگی اور عوامی نظام کی تشکیل کے مقصدسے متنازعہ مقام اور اس کے آس پاس کی اکہتّر ایکڑ سے زیادہ زمین حاصل کر رکھی ہے۔
اس وقت کے پی وی نرسمہاراو حکومت نے پہلے اس کے لئے فرمان جاری کیا، پھر تین اپریل، 1993 کو ایودھیا کے تعلق سےمحصول کا قانون بنایا تو بابری مسجدفریق نے اس کے حصول کو اس بنیاد پر عدالت عظمیٰ میں چیلنج کیا تھا کہ مذہبی مقام ہونے کی وجہ سے حکومت اس کا حصول نہیں کر سکتی۔مگر سپریم کورٹ نے اس کو منظور نہیں کیا اور حصول کے حکومت کے حقوق کو غیرمحدود قرار دیا تھا۔
البتہ اس نے محصول کی وجہ سے ختم ہو گئے ملکیت کے مقدموں کو یہ کہہکر دوبارہ زندہ کر دیا تھا کہ حصول کرنے والی حکومت نے ان کے خاتمہ کا کوئی اختیاری انتظام نہیں کیا ہے، جو فطری انصاف کے اصول کے مطابق ضروری ہے۔اس طرح عدالت عظمی کے ذریعے جائز ٹھہرائے جا چکے ایودھیا محصول قانون میں مقبوضہ زمین پر مندر، مسجد، کتب خانہ، عجائب گھر اور عوامی سہولیات والے پانچ قسم کی تعمیروں کا اہتمام کیا گیا ہے، لیکن ان کی جگہ نہیں طے کی گئی ہے۔
جگہ طے کرنے میں فریقوں سے زیادہ قانون سازمجلس یا اس میں رائےعامہ کی وجہ سے حکومت اور اس کو ہدایت دینے میں اہل عدالت کا کردار ہے اور عدالت عظمی نے سجھا رکھا ہے کہ ملکیت تنازعہ جیتنے والے کو اس کے مذہب کی عبادت گاہ کی تعمیر کے لئے بڑا حصہ دیا جائے اور چھوٹے حصے میں ہارنے والوں کے مذہب کی عبادت گاہ بنے۔اس میں تبدیلی کی طاقت صرف قانون سازمجلس کے پاس ہے اور اس طرح یہ معاملہ قانون سازمجلس کی خواہش سے منسلک ہے۔اس سے صاف ہے کہ سنگھ پریوار مندر تعمیر کے لئے جس قانون کی تعمیر کی بات کہتا رہتا ہے، اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔
وہ قانون تو پہلے سے بنا ہوا ہے اور اس کو بنانے میں کم سے کم اس معنی میں اس کی سیاسی فرنٹ بھارتیہ جنتا پارٹی کی بھی شمولیت ہے کہ ان دنوں اس کے لئے بابری مسجد کے انہدام کی شرم سے پیچھا چھڑانا مشکل ہو رہا تھا، اس لئے اس نے قانون سازمجلس میں اس کی مخالفت نہ کرکے اس کو اتفاق رائے سے منظور ہونے دیا تھا۔لیکن اب سنگھ کی مشکل یہ ہے کہ اس قانون میں عدالت عظمی میں ہارنے اور جیتنے والے دونوں فریقوں کی عبادت گاہوں کی تعمیر کا انتظام ہے، جبکہ سنگھ کو صرف اور صرف مندر مطلوب ہے اور وہ پھوٹی آنکھوں سے بھی مسجد کو برداشت نہیں کرنا چاہتا۔
وہ کیسے ‘ برداشت ‘ کر سکتا ہے کہ مسلمان مقدمہ ہارنے کے بعد بھی مقبوضہ زمین کا چھوٹا حصہ ہی صحیح، مسجد تعمیر کے لئے پا جائیں۔ پھر وہ اپنے مریدین کو کیا جواب دےگا اور اس کے ‘ ہندو ملک ‘ کا کیا ہوگا؟ سنگھ پریوار کی نیک نیتی کی کوششوں کا پول یہیں آکر پوری طرح کھل جاتا ہے۔یہاں یاد رکھنے کی ضروری بات یہ ہے کہ متنازعہ مقام کی ملکیت کےتنازعہ کا فیصلہ جب بھی آئے، چونکہ اس کے حصول کو عدالت جائز ٹھہرا چکی ہے، تنازعہ کے فاتح کو اپنی ملکیت والی زمین کا معاوضہ ہی مل سکتا ہے۔
مقبوضہ زمین تو اب حصول کے وقت بتائے گئے مقاصد کے لئے ہی استعمال کی جا سکتی ہے۔ عدالت عظمی پہلے ہی باور کرا چکی ہے کہ اپنے مقاصد کے لئے زمین حصول کے حکومت کے لیے حقوق غیر محدود ہیں لیکن وہ ایک فرقے کی زمین قبضہ کرکے دوسرے کو نہیں دے سکتی۔سمجھنا چاہیے کہ سنگھ پریوار مندر تعمیر کے لئے قانون بنانے کی بات کہتا ہے تو شاید اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ 1993 کےایودھیا قانون میں ترمیم کرکے اس میں سے مسجد کی تعمیر کے جواز کو نکال دیا جائے۔ ا س کے خطرات کو وقت رہتے محسوس کیا جانا چاہیے۔
(دی وائر)
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے)