اقبال کا یہ شعر نہ صرف ضرب ا لمثل بن چکا ہے بلکہ بڑی حد تک زباں زد خاص و عام بھی ہے کہ
آتجھ کو بتاؤں میں تقدیر امم کیا ہے شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر
طاؤس و رباب جن صفات ِخبیثہ و رَذیلہ کی علامت ہیں اُن پرقرآن کریم کی دو اصطلا حیں پوری طرح صادق آتی ہیں ایک ’مُسرِفین ‘ اور دوسرے ’مُترَفین ‘۔ مُسرِف کے لفظی معنی ہیں اِسراف کر نے والا یعنی حد سے تجاوز کر جانے والا۔ ’’وَ اِنَّ فرعون لَعالِ فی ا لا رض و اِنّہ لَمِنَ ا لمُسرفین۔ فرعون زمین میں غلبہ رکھتا تھا اور وہ مسرفین میں سے تھا (یعنی ان لوگوں میں سے جو کسی حد پر رکتے ہی نہیں (سورہ یونس۔ ۸۳)یہاں مسرفین سے مراد در اصل وہ لوگ ہیں جو اپنی مطلب برآری کے لیے کسی برے سے برے طریقے کو بھی اختیار کرنے میں تامل نہیں کرتے۔ کسی ظلم اور کسی بد اخلاقی اور کسی وحشت و بربریت کے ارتکاب سے نہیں چوکتے۔ وہ اپنی خواہشات کے پیچھے ہر انتہا تک جا سکتے ہیں۔ ان کے لیے کوئی حد نہیں جس تک پہنچ کر وہ رک جائیں (تلخیص تفہیم ص 352) اسی طرح مُترَفین سے مراد وہ لوگ ہیں جو خوش حالی، فارَ غ ا لبالی اور دولت و طاقت کے مالک ہوجانے کے باوجود اللہ کے شاکر بندے بننے کے بجائے کفران ِ نعمت کرنے والے ہوس کے بندے بن جاتے ہیں اور وہ عیش و عشرت، لکژری اور نفس کی لذّتوں میں منہمک ہو کر انسان اور خالق انسان دونوں کے حقوق فراموش کر دیتے ہیں۔ اِنّھُم کانوا قبل ذالک مُترَفین۔ یہ ( جہنمی ) وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اس سے قبل (دنیا میں ) بہت عیش کیے تھے(یا، بہت آرام کی زندگی گزار رہے تھے ) سورہ واقعہ۔ 45)قرآن کریم نے مسرفین و مترفین دونوں کا آخری ٹھکانہ جہنم قرار دیا ہے۔ اللہ ہر مسلمان اور مؤمن کو مسرف اور مترف بن جانے اور مسرفین و مترفین ا ور مفسدین و ظالمین کے ساتھ محشور ہونے سے محفوظ رکھے۔ آج اکیسویں صدی کی اس دوسری دہائی کے آخری برسوں میں مسلمانوں کے جملہ مسائل کا بنیادی سبب یہ ہے کہ حکمراں، اُمرا، اَعیان ِمعاشرہ، علمائے سو، نام نہاد اور بر خود غلط دانشور حصول نعمت و اقتدار کے بعد اللہ کے شاکر بندے بننے کے بجائے’ کافرِ نعمت‘ ہو چکے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو آج غزہ، یمن، عراق، سیریا، میانمار، بنگلہ دیش، بھارت اور پاکستان کے حالات مختلف ہوتے۔
اگر صرف فلسطین و غزہ، عراق اور سیریا اور یمن و لیبیا کے خلاف ہونے والی جارحیت اور دہشت گردی جس میں اسرائل امریکہ اور دونوں کے مسلمان دوست ممالک برابر کے شریک ہیں، ان سبھی قارونوں، فرعونوں اور یزیدوں کایومِ حساب بن جاتی تو آج میانمار، بھارت اورپاکستان میں بھی مسلمان اَمن و سکون سے رہ رہے ہوتے۔ لیکن اُس کے بر خلاف، ہو یہ رہا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان، اَہل ِایمان کے دائمی دشمنوں (المائدہ 82)کی برپا کردہ دہشت گردی کے ساتھ ساتھ خود برادران ِیوسف اور منافقینِ خلق (یعنی اسرائل کے مسلم معاونین اور خوارج وغیرہ )کے مظالم کے بھی شکار ہیں ! جاوید چودھری نے بالکل صحیح لکھا ہے کہ لکژری (یعنی عیش و عشرت، طاؤس و رباب اور اسراف ) وہ دیمک ہے جو دنیا کی بڑی بڑی تہذیبوں اور حکومتوں کو کھا چکی ہے۔ یہ لکژری، آرام طلبی اور سستی کی بنیاد رکھتی ہے۔ سُستی کاہلی اور آرام طلبی انسان کو سمجھوتوں پر مجبور کرتی ہے۔ اس طرح کے سمجھوتے ( جن کی ایک مثال ابھی حال ہی میں دنیا نے دیکھی ہے) میرٹ، مساوات اور انصاف کے اصولوں کو چاٹ جاتے ہیں۔ بے انصافی انسان کو ظلم پر آمادہ کرتی ہے۔ظلم قدرت کے انتقام کو آواز دیتا ہے۔ اور قدرت ان مُسرِف اور مترف افراد اور قوموں سے انتقام لینے کے لیے ان کے اوپر بے ایمان، بد عنوان، لالچی، بے وقوف، نا اہل، دیش دروہی، غدار اور پیدائشی بلندی و پستی کے شیطانی نظریے پر یقین رکھنے والے ظالم، نسل پرست اور جنون عظمت کے شکار حاکموں کو مسلط کر دیتی ہے۔ جیسا کہ آج پوری دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے۔
روم کی سلطنت، ،یو نان کی بادشاہت اور ہسپانیہ کی ریاست ہو یا مغل اور ترک شہنشاہیت دنیا کی بڑی بڑی مملکتیں اسی طرح اور ان ہی اصولوں کے تحت پیوند خاک ہو کر عبرت کا نشان بن چکی ہیں۔ جنوب سے شمال تک اور مغرب سے مشرق تک اہل ایمان کے دائمی دشمن تو پہلے ہی اللہ کی لعنت کے شکار ہیں دنیا میں ان کا سارا عیش و اقتدار اس ڈھیل کا نتیجہ ہے جو انہیں اپنے نامہ اعمال کو سیاہ سے سیاہ تر کرنے کے لیے ملی ہوئی ہے لیکن انشا اللہ صہیونی سامراجی دہشت گرد عالمی حکمرانوں کے ساتھ ساتھ ان کے تمام مسلم اور غیر مسلم غلاموں اور چاکروں کا حال بھی بہت جلد قوم عاد و ثمود، قوم شعیب ؑاور قوم لوط ؑکا سا ہونے والا ہے۔ دنیا بھر کے ان مسرفین و مترفین کا یہ حشر اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے ہم دنیا میں رہیں یا نہ رہیں لیکن دنیا میں اللہ جل جلالہ کی سنت یہی ہے۔ اور اللہ کی سنت کبھی تبدیل نہیں ہوتی۔ رومن امپائر چھے بر اعظموں پر محیط تھی لیکن جب وہاں لکژری اور اسراف کا دور دورہ ہوا تو وہاں ظلم اور نا انصافی بھی شروع ہو گئی اور پھر ایک دن وہ عظیم سلطنت تاریک کے کوڑے دان کا حصہ ہو گئی۔ سکندر اعظم کی سلطنت دنیا کے اکیاون (51) ملکوں پر قائم تھی اور اس نے صرف دس برسوں میں آدھی دنیا کو روند ڈالا تھا لیکن جب ظلم اور ناانصافی حد سے بڑھی تو اس کی حکومت بھی محض تاریخ کے سیاہ اوراق کا ایک حصہ بن کے رہ گئی۔ ایران بھی ایک ایسا ہی ملک تھا۔ وہاں کا بادشاہ کسریٰ کہلاتا تھا۔ اور اس کا حکم بھی کم و بیش آدھی دنیا پر چلتا تھا لیکن لکژری، اسراف اور ظلم نے اسے بھی تاریخ کا جُو ہڑ بنا کر رکھ دیا۔ مغلوں نے بھی بھارت پر قریب چھے سات سو سال حکومت کی لیکن با لآخر طاؤس و رباب اور لکژری اور اسراف انہیں بھی لے ڈوبا۔ انگریزوں نے بہادر شاہ ظفر کی پگڑی کھول کر ان کے گلے میں ڈال دی اور ہندستان کے آخری حکمراں نے جس کی حکومت پہلے ہی دلی سے پالم تک سمٹ چکی تھی اور پھر محض قلعہ معلیٰ تک محدود رہ گئی تھی اپنی عمر کی آخری گھڑیاں رنگون(موجودہ یانگون۔ میانمار،سابق برما ) کے قید خانے گزار دیں اور مرنے کے بعد بھی اسے دلی میں دو گز زمین تک نصیب نہ ہو سکی۔ مسلمان اندلس (ہسپانیہ۔ اسپین ) پر فخر کرتے ہیں اور بے شک انہیں فخر کرنا بھی چاہیے کہ جب لندن، پیرس اور ایمسٹر ڈم (ہالینڈ ) کی گلیوں میں کیچڑ بہتا تھا اُس وقت قرطبہ (موجودہ کارڈوبا ) شہر میں ڈھائی لاکھ پکے مکان، اَسّی ہزار چار سَو دوکانیں، صاف ستھری اور پکی سڑکیں اور گلیاں اور ایک ہزار چھے سو شاندار مسجدیں تھیں۔ جب یورپ جہالت کے اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا اُس وقت قرطبہ کے ہر گھر میں لائبریری ہوا کرتی تھی اور جس وقت آدھے یورپ باسیوں کے پاس پہننے کے لیے کپڑا نہیں ہوتا تھا اس وقت قرطبہ کے ایک فیشن ڈیزائنر ’ریاب قرطبی ‘ نے ٹائی ایجاد کی تھی۔ جی ہاں ٹائی انگریزوں کی نہیں مسلمانو ں کی ایجاد ہے ! اور اس وقت قرطبہ میں خلیفہ کے درباری کوٹ اور پتلون پہنتے تھے۔ جی ہاں۔ کوٹ اور پتلون بھی ہسپانوی مسلمانوں ہی کی ایجاد ہیں، یورپ کی نہیں ! لیکن۔ ۔ہسپانیہ کے ترقی یافتہ، تعلیم یافتہ اور مہذب مسلمانوں کو بھی ان کی لکژری سے بھر پور پُر تَعیُّش زندگی اور اسراف نے انہیں مسرفین و مترفین کے بد نصیب گروہ میں شامل کر کے ان کا بیڑہ بھی غرق کر دیا۔ 28 فروری 1492 کو اُندلس کا آخری بادشاہ اَبو عبد ا للہ محمد، عیسائی بادشاہ فردیننڈ کو ’قصر ِ اَلحمَرا ‘ کی چابیاں سونپ کر مراکش کے شہر ’ فیض ‘ چلا گیا اور وہاں اُس نے اپنی آخری عمربھیک مانگ مانگ کے بسر کی ! اور سقوط ہسپانیہ کے ٹھیک پانچ برس بعد 1497 میں وہاں ایک بھی مسلمان باقی نہیں بچا تھا۔ جو رہ گئے تھے انہوں نے عیسائیت قبول کر لی تھی لیکن پھر بھی وہ’ مور ‘ کہلاتے تھے اور ایک سو سال بعد ان کا بھی نام نشان مٹا دیا گیا تھا۔ بے شک مسلمانوں نے بھی ایک زمانے میں آدھی سے زیادہ دنیا پر حکومت کی ہے۔ مشرقی یورپ، وسطی ایشیا، چین، مراکش (افریقہ) اور بیت ا لمقدس ( فلسطین ) تک پھیلی ہوئی سلطنت آج کہاں ہے ؟ یاد رکھیے جو کل ہو چکا ہے وہی کل پھر ہونے والا ہے۔ جولائی 2017 میں اس کے سارے آثار ہویدا ہیں ! بھارت کے سابق چیف جسٹس کے جی بالا کرشنن نے، 13 دسمبر 2008 کو، اُس وقت کے وزیر اعظم ہند منموہن سنگھ کی موجودگی میں، جب موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، ایک بین ا لا قوامی کانفرنس میں کہا تھا کہ : ’’۔۔۔انصاف ہی وہ ضمانت ہے جو دہشت گردی سے بھی انسانیت کو نجات دلا سکتا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو (سرکاری ) دہشت گردی ( پوری دنیا میں )جاری ہے ، اُس سے بھی ! ‘‘ فَھل مِن مُدَّکِر ؟