-
اعظم خان کے برے دن
- سیاسی
- گھر
اعظم خان کے برے دن
1212
m.u.h
02/08/2019
0
0
’لیڈر ٹائمز ڈیسک‘
ہندوستانی عوام کے ’اچھے دن ‘ آئیں یا نہ آئیں مگر اعظم خان کے ’برے دن‘ ضرور آگئے ۔اب اعظم خان اپنی تمام تر بدعوانیوں اور من مانیوں کی پردہ پوشی کے لئے جوہر یونیورسٹی کے نام پر قوم کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔مگر ان کے تمام حربے ،بے سود ثابت ہورہے ہیں کیونکہ ملت بھی بخوبی جانتی ہے کہ اعظم خان ان کے لئے کس قدر مخلص رہے ہیں۔خان صاحب! ہم پہلے ہی واضح کردیں کہ ہم جوہر یونیورسٹی پر بی جے پی حکومت کی کاروائی کی حقیقت اور انتظامیہ کی نیّت سے بخوبی واقف ہیں ۔بھگوا ذہنیت مسلمانوں کے پاس تعلیمی ادارے اور انسٹی ٹیوشنز دیکھنانہیں چاہتی ۔یہ لوگ مسلمانوں کو ناخوانندہ ،کمزور اور مفلس دیکھنا چاہتے ہیں ،اس کے لئے اگر انہیں جوہر یونیورسٹی ہی نہیں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو بھی برباد کرنا پڑا تو وہ کریں گے ۔ مگر خان صاحب! آپ دوسروں کو کوسنے کے بجائے اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھیں ۔آپ کے گریبان میں سوائے میل کے اور کچھ نظر نہیں آئے گا ۔
خان صاحب! ہمیں جوہر یونیورسٹی آپ سے زیادہ عزیز ہے ۔لیکن ایسا تعلیمی ادارہ قبول نہیں ہے جو کسی غصبی زمین پر قائم ہو۔ہمیں ان تمام افراد سے بھی ہمدردی ہے جنہیں آپ سے صرف اس لئے ہمدردی ہے کہ آپ ایک عظیم یونیورسٹی کے فائونڈر ہیں ۔مگر کیا آپ کے وہ ہمدرد جواب دے سکتے ہیں کہ کیا وقف اور کسانوں کی آراضی ہڑپ کر تعمیر کی گئی یونیورسٹی جائز ہوسکتی ہے ؟۔اگر اس یونیورسٹی میں ایک انچ زمین بھی عمداََ بےایمانی کرکے شامل کی گئی ہے تو ایسے تعلیمی ادارے کو منہدم کردنیا چاہئے ۔خان صاحب!یہ تو آپ بھی اپنے بیانات میں قبول کرچکے ہیں کہ جوہر یونیورسٹی کے ٹرسٹ نے غلط طریقے سے زمین ایکوائر کی ہے ،اگر آپ کے علم میں یہ بے ایمانیاں تھیں تو آپ نے اسی وقت ضروری اقدامات کیوں نہیں کئے ؟۔اب جب کہ آپ کی بدعنوانیاں اور من مانیاں سامنے آرہی ہیں تو اپنا سارا الزام دوسروں کے سرتھوپنے کی کوشش کررہے ہیں۔
اعظم خان کے بہی خواہ اور جاں نثار ہمیں بتانے کی زحمت کریں کہ اعظم خان کب ملت کی حمایت میں سینہ سپر رہے ۔بی جے پی کے دور اقتدار میں اقلیتوں پر کیا ظلم نہیں ہوئے ،اب بھی بی جے پی اور آرایس ایس کی حمایت یافتہ بھیڑ مظلوموں اور بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیل رہی ہے ،کیا اعظم خان کی طرف سے کبھی کوئی ردعمل سامنے آیا؟۔ پارلیمنٹ میں وہ اپنی ایمانداری کا راگ الاپتے رہے مگر ایک بار بھی ماب لنچنگ اور بی جے پی کے ذریعہ کی جارہی من مانیوں پر لب کشائی کی جرآت نہیں کی ۔وہ جب بولتے ہیں صر ف اپنے مفاد میں بولتے ہیں ۔
ہمدردان خان صاحب !اعظم خان نے کبھی قومی مفاد میں کوئی اقدام کیاہو تو بتانے کی زحمت فرمائیں ؟ سماج وادی دور اقتدار میں وہ مختلف وزارتیں سنبھالتے رہے ۔ان کے دور وزارت میں ملت کو کون سے فائدے پہونچے ہیں ابھی تک اس کی خبر نہیں ہے ۔اعظم خان بھی کبھی اپنی کسی تقریر میں اپنی حصولیابیوں پر بات نہیں کرتے ۔لے دے کر ان کے پاس ایک جوہر یونیورسٹی ہے جو ان کی عمر بھر کی کمائی ہے ۔وہ وزیر وقف بھی رہے ۔کیا اعظم خان بتاسکتے ہیں کہ اوقاف کی فلاح و بہبود اور وقف املاک کے تحفظ کے لئے انہوں نے کیا اقدامات کئے ۔جس لکھنؤ میں ان کا دفتر واقع تھا کبھی اس لکھنؤ کی وقف عمارتوں کی صورتحال کا جائزہ لینے کی انہیں فرصت نہیں ملی۔شیعہ اور سنّی وقف کی کتنی زمینوں پر ناجائز قبضے ہیں جن میں سرکار،انتظامیہ اور زمین مافیا شامل ہیں ،ان املاک کی بازیابی اور ان کے تحفظ کے لئے اعظم خان نے کیا پالیسی اختیار کی ؟۔ دوسرے شہروں میں منجملہ الہ آباد،بریلی ،رام پور ،وغیرہ وقف املاک کا یہی حال ہے جو لکھنؤ میں ہے ،اعظم خان نے ان املاک کو سرکار ،انتظامیہ اور زمین مافیائوں کے چنگل سے چھڑانے کے لئے کبھی کوئی قدم نہیں اٹھایا کیونکہ ان املاک سے ہورہی آمدنی کا بڑا حصہ زمین مافیا اور قابض عناصر سرکار اور انتظامیہ کی خدمت میں نذر گذارتے ہیں ۔اعظم خان نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ’’ شیعوں کے لئے بڑا امام باڑہ کافی ہے انہیں دوسرے اوقاف کی کیا ضرورت ہے ‘‘۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے شیعہ وقف بورڈ پر ایک بد عنوان اور بے ایمان شخص کو مسلط کردیا جسے ہمیشہ انکی سرپرستی حاصل رہی ۔شیعہ اوقاف کی تباہی اور بربادی کا کھیل اعظم خان کے دور اقتدار سے ہی شروع ہوا جو اب تک جاری ہے ۔امام باڑوں کی بدحالی اور مسجدوں کی بدتر صورتحال کے لئے اگر کوئی ذمہ دارہے تو وہ اعظم خان ہے ۔کیونکہ اعظم خان انتہا پسند فکر کا حامل ہے ۔اس کا وہی نظریہ ہے جو تکفیری گروہ کاہے ۔وہ جس فکر کے حامل ہیں اس میں امام باڑوں اور درگاہوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے ۔انکی فرقہ پرستانہ ذہنیت سے کون واقف نہیں ہے ،اس کا ننگا ناچ ہم نے اس وقت دیکھا جب انہوں نے روزہ داروں پر لاٹھیاں برسوائیں اور علماء کی اہانت کی ۔
اعظم خان پر مصیبت پڑی تو وہ چیخ پڑے !کیا انہیں یاد نہیں کہ ان کے اڑیل رویےاور آمرانہ مزاج کی وجہ سے کتنوں کو مصیبتوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔کیا وہ اپنے ظلم کی داستان بھول گئے ؟آج انہیں اپنی یونیورسٹی کے تحفظ کے لئے دانشور طبقے کی یاد آرہی ہے اور چلّا چلّا کر کہہ رہے ہیں کہ اس نازک وقت میں ملت کے عظیم سرمایے کو بچانے کے لئے دانشور وں کو ان کے ساتھ آنا چاہئے‘کیا اعظم خان بتانے کی زحمت کریں گے کہ انہوں نے دانشور طبقے کی کب اور کیا مدد کی ؟۔اپنے دوراقتدار میں آپ ایسے دانشوروں سے بات تک کرنا پسند نہیں کرتے تھے بلکہ آپ کی طنز آمیز گفتگو ان کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کرتی تھی ۔آپ نے کبھی کسی فریادی کی فریاد نہیں سنی بلکہ اس کا تمسخر کیا ۔یہی تمسخر آمیز انداز آپ کے دشمنوں میں اضافہ کرتا گیا ۔خان صاحب! اگر آج آپ کو ہندوستان میں کوئی ہمدرد نظر نہیں آرہاہے تو یہ آپ کی کمیاں ہیں۔کوئی ایک ایسا شانہ بھی میسر نہیں ہے جس پر سر رکھ کر آپ آنسو بہالیں ۔بہتر ہو گا کہ آپ اپنا رویہ تبدیل کریں ۔اپنے دشمنوں میں مزید اضافہ مت کریں اوراپنے دوستوں کو خود سے دور نہ ہونے دیں ۔
اور ہاں خان صاحب!
کبھی کبھار مسلمانوں کی حمایت میں ،بھگوادہشت گردی کے خلاف بھی کچھ بولنے کی جرأت کیجیے ۔فقط اپنی نام نہاد ایمانداری کے قصیدے الاپنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔