-
اپنی نسلوں کو مذہب کی افیون مت دیجیے
- سیاسی
- گھر
اپنی نسلوں کو مذہب کی افیون مت دیجیے
359
M.U.H
12/02/2024
0
0
تحریر:عادل فراز
اتراکھنڈ اسمبلی نے یکساں سول کوڈبل کو منظوری دیدی ہے ۔اتراکھنڈ ہندوستان کی ایسی پہلی ریاست ہے جس نے اس بل کوقانونی حیثیت دی اور نافذ کرنے لئے پر عزم ہے ۔ہمیں اس بل کی حمایت یا مخالفت سے فی الوقت بحث نہیں ہے کیونکہ یہ ایک لاحاصل بحث ہے ۔مباحثہ وہاں کیاجاتاہے جہاں طرفین کسی ایک نکتہ پر متفق نہ ہوں اور افہام وتفہیم کی راہیں استوار کرنا چاہتے ہوں ۔یہاں توبالکل برعکس ہے ۔یرقانی طاقتیں مباحثے اور مذاکرے کی قائل نہیں ہیں ۔وہ اقتدار کے نشے میں اس قدر دُھت ہیں کہ اپنی رائے اور پسند کو ملک کے عوام پر تھوپنا چاہتی ہیں ۔ایسی طاقتیں کبھی ملک کے مفاد میں نہیں ہوسکتیں ۔یہ ممکن ہے کہ ابتدامیں ایک بھیڑ ان کی کورانہ تقلید کرے ،لیکن اس بھیڑ کامستقبل اور مقدرکیاہوگا،یہ طے کرنا ان طاقتوں کے بس سے باہر ہے ۔کیونکہ اقتدار کا نشہ خودفریبی میں مبتلاکرتاہے اور اس لت کا شکار کبھی تعمیر ی فکر کی تائید نہیں کرسکتا۔اس لئے وہ د ن دور نہیں ہے جب ان طاقتوں کاان کی مقلد جماعتوں اور کورانہ حمایت کرنے والی بھیڑ سے خطرناک تصادم ہوگا۔یہ تصادم امنیت اور سالمیت کے لئے خطرناک ہوسکتاہے لیکن جمہوری قدروں کے لئے فال نیک ثابت ہوگا۔کیونکہ ہندوستان میں جب بھی کسی نے طاقت اور اقتدار کے نشے میں متنوع تہذیب و ثقافت اور افکارونظریات کو چیلینج کیاہے ،اس کا حشر براہواہے ۔
یکساں سول کوڈ پر ہر طبقے اور ہر جماعت کے اپنے تحفظات ہیں ۔سوال یہ ہے کہ اگر یکساں سول کوڈاس قدر ضروری ہے تو پھر اس کو ریاستی سطح پر کیوں نافذ کیاجارہاہے؟جس طرح شہریت ترمیمی قانون اور دیگر غیر ضروری بلوں کو سرکار نے طاقت کے بل پر پاس کروایاہے ،اسی طرح یکساں سول کوڈ کو پاس کیوں نہیں کروالیاگیا؟ اگر اتراکھنڈ ریاست نے اس راہ میں سبقت لے لی ہے تو دیگر ریاستیں جہاں بی جے پی اقتدار میں ہے ،یقیناً اس بارے میں غوروفکر کررہی ہوں گی ۔اس وقت وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ صدمےمیں ہوں گے کیونکہ وہ نہیں چاہتے ہیں کہ کسی بھی متنازع معاملے میں کوئی دوسرا ان پر سبقت لے جائے ۔اس لئے ممکن ہے آئندہ اترپردیش اسمبلی میں اس بل کو پیش کیاجائے۔لیکن اس بل کی منظوری اور عدم منظوری سے یوگی آدتیہ ناتھ کو بہت زیادہ سیاسی فائدہ نہیں مل سکتا۔کیونکہ یہ بل رام مندر کی تعمیر اوراس کے عالیشان افتتاحی پروگرام سے زیادہ اہم نہیں ہے ۔اترپردیش میں رام مندر کا افتتاح ہوچکاہے جس کا پورا کریڈٹ یوگی آدتیہ ناتھ لے رہے ہیں ۔جبکہ رام مندر کی تعمیر کا سب سے زیادہ کریڈٹ سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی کو جاناچاہیے ،اس کے بعد ان طاقتوں کو جنہوں نے عدلیہ کو یہ فیصلہ سنانے پر مجبورکیا۔کیونکہ جس عدلیہ نے فقط ’آستھا‘ کی بنیاد پر مسجد کی زمین یرقانی تنظیموں کی جھولی میں ڈال دی،اسی عدلیہ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی تحریرکیاہے کہ اس بات کے شواہد موجود نہیں ہیں کہ مندر توڑ کر مسجد بنائی گئی ہو۔ا س لئے یرقانی تنظیموں کا جشن بے معنی ہے ۔اگر مسجد کی جگہ مندر بنایاگیاہوتااورعدلیہ نے بھی اس بات کا اعتراف کیاہوتاکہ مندر منہدم کرکے مسجد بنائی گئی ہے ،تب واقعی یہ ایک بڑی فتح ہوتی ۔لیکن اقتدارکے بل پر کسی مسجد،مندرکلیساکی زمین ہتھیالینا،یاقبائیلیوں اور کسانوں کی زمینوں کو طاقت کے بوتے پر کسی کارپوریٹ کمپنی کے حوالے کردینا فتح کی علامت نہیں ہے ۔یہی صورت حال یکساں سول کوڈ معاملے میں بھی سامنے آرہی ہے۔یرقانی تنظیمیں اس بل کو مسلم مخالف بتلاکر پیش کررہی ہیں ،جس کی حمایت ایک بڑا طبقہ کررہاہے ،جس کو اس بل کے نقصانات کا اندازہ بھی نہیں ہے ۔اس لئے بی جے پی ان کی اندھی تقلید کے دم پر ہر بل کو پاس کرواسکتی ہے ،کیونکہ ہندوستان کی تاریخ میں موجودہ صدی کو جمہوری قدروں کی پامالی کی صدی لکھاجائے گا۔اور یہ بھی یادرہے کہ تاریخیں ہمیشہ حکومتوں نے اپنے نظریے کےمطابق لکھوائی ہیں اس کے باوجود تاریخ نے کسی ظالم اور آمر کو معاف نہیں کیا۔
وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی ۷ فروری کو اسمبلی میں تقریرکرتےہوئے کہاکہ ہم نے صرف تین مقامات کا مطالبہ کیاتھا۔گویا وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ اگر مسلمان بخوشی تینوں مقامات ان کے حوالے کردیتے تو آج حالات دگرگوں نہیں ہوتے ۔ان کی تقریر کا ایک مفہوم یہ بھی تھاکہ ہم نے طاقت کے بوتے پر آیودھیا میں رام مندر تعمیر کرلیاہے ،جو ہمارے مطالبے میں سرفہرست تھا۔اب متھرااور کاشی کی باری ہے جن کو حاصل کرنا رام مندر کی تعمیر سےزیادہ مشکل نہیں ہے ۔یوگی آدتیہ ناتھ کو یہ دعویٰ کرنے کا پوراحق ہے کہ وہ ان تمام مقامات کو حاصل کرسکتے ہیں جس کا مطالبہ یرقانی تنظیمیں ایک زمانے سے کرتی رہی ہیں کیونکہ اب زمام اقتدار ان کے ہاتھ میں ہے اورعدلیہ بھی ان کے دائرۂ اثر سے باہر نہیں ہے ۔اس لئے بہترہوگاکہ وہ مسلمانوں کو ڈرانے اور دھمکانے کے بجائے مطلوبہ تمام مقامات کو قانونی یاغیرقانونی طریقے سے ہتھیالیں ،کیونکہ مسلمان بکھرائو کا شکارہیں اور ان کی قیادت گونگی ،بہری اور اندھی بنی ہوئی ہے ۔اکثر قائدین تو آرایس ایس سربراہ کی ڈیوڑھی پر ماتھا ٹیکتے ہیں اور ان کی تنظیموں کے رکن بھی ہیں ۔اس لئے مسلم قیادت سے کسی مزاحمت کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔رواں سال انتخابات ہونے ہیں ،اس لئے بی جے پی کو ایسے تمام موضوعات کی سخت درکارہے جس سے وہ اپنے ووٹ بینک کو مزید متحد کرسکے ۔یوں بھی اس کے ووٹ بینک میں کوئی انتشار نظر نہیں آتاکیونکہ یرقانی تنظیموں کا ایک بڑا کیڈر اس کی حمایت میں کام کررہاہے ۔دوسری طرف کانگریس ہے جو تنہا راہل گاندھی کےسہارے پر ٹکی ہوئی ہے ،جس کی کامیابی کے آثار دوردورتک نظر نہیں آتے ۔کیونہ راہل گاندھی جن لوگوں کو جگانے نکلے ہیں وہ سوئے ہوئے نہیں بلکہ ’مذہب کے نشے ‘ میں دُھت خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں ۔انہیں جگانے سےکوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا،ان کانشہ اتارنے کی ضرورت ہے ،جو فی الوقت راہل گاندھی کے بس سےباہر ہے ۔
اس وقت بی جے پی کی پوری کوشش یہ ہے کہ کسی بھی طرح اقتدار ہاتھ سےنہ جانے پائے ۔اس کے لئےانہوں نے وقت سے پہلے ’رام مندر‘ کا افتتاحی پروگرام منعقد کیاتاکہ انتخابی ریلیوں میں اس فتح کا سہراباندھ کر مخالفوں کو للکارا جائے ۔دوسری طرف یکساں سول کوڈ کامسئلہ ہے ،جس کو اتراکھنڈ اسمبلی نے منظوری دیدی ہے ،جس کو انتخابی ریلیوں میں فخریہ انداز میں پیش کیاجائے گا۔اس کے علاوہ ’لوجہاد‘ اور این.آر.سی.جیسے مسائل ہیں جن پر انتخابی جلسوں میں پوری شدومد کےساتھ بات ہوگی ۔کانگریس کے پاس ان باتوں کا کوئی توڑ نہیں ہے اور نہ دیگر علاقائی جماعتوں کے پاس ہے۔اس پر نتیش کمار اور جینت چودھری جیسے لیڈر بھی ہیں جو کب گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیں ،کسے معلوم ہے ۔کانگریس عوام کے بنیادی مسائل اٹھانا چاہتی ہے جس میں بین الادیان نفرت اور بےروزگاری جیسےاہم موضوعات شامل ہیں،لیکن کیاہندوستان کے عوام ان مسائل پر بات کرنا چاہتے ہیں؟ کیاانہیں منی پور میں جاری تشدداور بے تحاشہ اموات پر کوئی فکر لاحق ہے؟ کیاوہ بے روزگاری اور مہنگائی جیسے مسائل پراپنے حکمرانوںسےسوال کرنا چاہتے ہیں؟ ایسے تمام سوالوں کاایک ہی جواب ہے ،نہیں!کارل مارکس نے کہاتھاکہ مذہب افیون ہے ۔ہندوستان کی سیاست نے یہ ثابت کردیاکہ کارل مارکس غلط نہیں تھا۔جبکہ ہر دور میں مذہب اورعقیدے کو ڈھال بناکر سیاست مداروں نے اپنا مفادحاصل کیاہے ،خواہ وہ مسلمان ریاستیں ہوں یا پھر ہندوستان کی ہندو حکومت ہو۔اس لئے ہم تنہا یرقانی تنظیموں پر انگشت نمائی نہیں کرسکتے کیونکہ عرب سے لے کر عجم تک تمام مسلمان ملکوں میں بھی ’مذہب کی افیون‘ موجود ہے اور اس کا نشہ سرچڑھ کر بولتارہاہے ۔اس لئے ہر انسان کی ذاتی ذمہ داری ہے کہ وہ خود پر اور اپنے اہل خانہ پر نگرانی رکھے ۔انہیں مذہبی افیون کا شکار نہ ہونے دے ۔اگر ہر فرد نےخودکو اور پانے اہل خانہ کو اس نشےسے بچالیا،تو رفتہ رفتہ پورا ملک اس نشے کی لت سے آزاد ہوسکتاہے۔لیکن پہلے ہمیں خودکو ’افیونی ‘ بننےسے روکناہوگا۔