-
مگر مسلمانوں کی حق تلفی پر حاموشی
- سیاسی
- گھر
مگر مسلمانوں کی حق تلفی پر حاموشی
560
m.u.h
01/03/2023
0
0
تحریر:عادل فراز
آرایس ایس چیف موہن بھاگوت اور متعدد زعفرانی رہنما ہندوئوں کی مظلومیت اور مسلمانوں کی متشدد ذہنیت کا مرثیہ پڑھتے رہتے ہیں ۔انہیں ہندو حالت جنگ میں نظر آتے ہیں لیکن مسلمانوں کی زبوں حالی اور پسماندگی دکھائی نہیں دیتی ۔پسماندہ مسلمانوں میں نفوذ کےلئے مسلم راشٹریہ منچ زمینی جدوجہد کررہی ہے ،جس کے نتائج سامنےآرہے ہیں ،لیکن مسلمانوں کے بنیادی مسائل جوں کے توں ہیں ۔پسماندہ مسلم علاقوں میں ان کی زیادہ توجہ کا ایک ہدف ’گھر واپسی ‘ کی مہم سے جڑاہواہے ۔ورنہ آرایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں مسلمانوں سے کبھی مخلص تھیں اور نہ ہوسکتی ہیں۔
گذشتہ دنوں موہن بھاگوت نے ’آرگنائزر‘اور ’پانچ جنیہ‘کو انٹرویو دیتے ہوئے انہی باتوں کو دہرایا جو ایک زمانے سے آرایس ایس کے لوگ کہتے چلے آرہے تھے ۔انہوںنے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اس ملک میں ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ اگر اپنے مذہب پر باقی رہناچاہتے ہیں تورہ سکتے ہیں اور اگر اپنے آبا و اجداد کے مذہب پر واپس آنا چاہیں تو آسکتے ہیں۔انہوں نے کہاکہ مسلمانوں کو اپنی بالادستی کے خیال کو دل سے نکالنا ہوگا۔ انھیں اس خیال سے باہر آنا ہوگا کہ ہم نے اس ملک پر حکومت کی ہے، ہم آگے بھی کریں گے۔ ہمارا راستہ ہی صحیح ہے باقی سب غلط ہیں۔ ہم مختلف ہیں۔ ہم دوسروں کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ جو لوگ بھی یہاں رہ رہے ہیں خواہ وہ مسلمان ہوں یا کمیونسٹ انھیں اس بیانیے کو ترک کرنا ہوگا۔ پھر وہ بہت صاف طور پر کہتے ہیں کہ ”ہندوستان کو ہندواستھان“ ہی رہنا چاہیے۔موہن بھاگوت کے بیان میں کوئی نئی بات نہیں تھی ۔انہوں نے تمام انہی باتوں کا اعادہ کیا جو آرایس ایس کے نظریہ ساز ہیڈ گوار اورگولوالکر بہت پہلے کہہ چکے ہیں ۔البتہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں موہن بھاگوت کے بیان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کیونکہ ایک طبقہ یہ باور کربیٹھاتھاکہ آرایس ایس کے موقف میں مسلمانوں کے تئیں نرمی آئی ہے ۔ان کی یہ خوش فہمی اب غلط ثابت ہورہی ہے ۔
بھاگوت کا یہ کہنا کہ’ ہندوحالت جنگ میں ہیں ‘تشریح طلب جملہ ہے ۔یا تو وہ آزاد ہندوستان کی تاریخ سے بہت دلچسپی نہیں رکھتے یا وہ عمداً اس تاریخ پر توجہ نہیں دینا چاہتے ۔کیونکہ آزاد ہندوستان میں جس طرح مسلمانوں کی مسلسل حق تلفی کی گئی اس پر بات نہیں ہوتی۔ایک مدت سے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیاہے ،آرایس ایس کو اس کا بھی جائزہ لینا چاہیے ۔مسلمان تعلیمی و اقتصادی طورپر ہندوئوں کے مقابلے میں کہیں نہیں ٹھہرتا۔سرکاری سطح پر ان کی فلاح کے لئے منصوبے تو بہت بنتے ہیں مگر ان پر عمل نہیں ہوتا۔سیاسی نمائندگی بھی مسلمانوں کےمخلصین کو نہیں دی جاتی ۔منظم سازش کے تحت مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے فرضی الزام میں گرفتارکرکے ان کا مستقبل تباہ کیا جارہاہے ۔ہندوستان میں ہونے والے دہشت گردوانہ واقعات کی صحیح تحقیقات نہیں ہوتی ورنہ یہ بھی معلوم ہوجائے کہ ان واقعات کا اصل ذمہ دار کون ہےاور کہاں ان کی منصوبہ سازی کی جاتی ہے ۔جو لوگ حقیقت کو منظر عام پر لانے کے لئے جدوجہد کرتے ہیں ان کاانجام نہایت براہوتاہے ،شہیدہیمنت کرکرے اس کی زندہ مثال ہے ۔سی ۔اے۔اے ۔اور این آرسی کے نام پر کس طرح مسلمانوں کی شہریت کو مشکوک اور انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانے کی مہم چلائی جارہی ہے ،یہ کسی سے مخفی نہیں۔تری پورہ ،آسام ،کرناٹک ،اترپردیش اور دیگر ریاستوں میں مسلمانوں کے خلاف کس قدر منافرانہ ماحول سازی کی گئی ہے ،اس کی نظیر آزاد ہندوستان میں نہیں ملے گی ۔مسلمانوں کی عبادت گاہیں زعفرانی غنڈوں کے نشانے پر ہیں ۔عدلیہ ان کے زیردست ہے اوردھڑادھڑ ان کی مرضی کے مطابق فیصلے صادر ہورہے ہیں ۔مسلمانوں کے مذہبی تشخص پر حملے تیز تر ہوگئے ہیں ۔اس کے باوجود موہن بھاگوت کہتے ہیں کہ ’ہندوحالت جنگ میں ہیں‘۔یہ ایک مضحکہ خیز جملہ ہے جو آرایس ایس کی دیرینہ روایت رہی ہے ۔موہن بھاگوت نے ایک باربھی ملک کی موجودہ صورتحال اور زعفرانی غنڈہ گردی پر بات نہیں کی ۔انہیں ملک کی تازہ صورتحال پر بھی بات کرنی چاہیے ۔وہ چاہتے ہیں کہ ہر پیش رفت مسلمانوں کی طرف سے ہو،کیا یہ ممکن ہے؟ بابری مسجد عدلیہ کے ذریعہ لے لی گئی ،امید قوی یہ ہے کہ کچھ دیگر مذہبی مقامات بھی لے لئے جائیں گے ،لیکن کیا تاریخ اس جنایت کو فراموش کردے گی؟ کیا موہن بھاگوت نے عدلیہ کا فیصلہ نہیں پڑھا؟ اگر غیر جانبدانہ طریقے سے پڑھاہوتا توپھر انہیں اس پر بات کرنی چاہیے تھی،اس طرح ہندوئوں کے ذہن سے یہ بات صاف ہوجاتی کہ رام مندر توڑ کر بابری مسجد تعمیر کی گئی تھی،کیونکہ ان کے زیر اثر ہندو عدلیہ سے زیادہ آرایس ایس کی سنتے ہیں،مگر ایسانہیں ہوا۔
یہ حقیقت اب صیغۂ راز میں نہیں ہے کہ ملک میں زعفرانی گروہ بہت متحرک ہوچکاہے ۔آئے دن عوامی و مذہبی مقامات پر توڑ پھوڑ،مارپیٹ اور لوگوں کو دھمکیاں دینا ان کا شعار ہے ۔کبھی یہ لوگ ’گئو رکشکوں‘ کے روپ میں بے قصوروں کی مآب لنچنگ کرتے ہیں تو کبھی گوشت کی دوکانوں پر جاکر ہنگامے کرتے ہیں ۔عوامی مقامات اور بازار بھی اب ان کی غنڈہ گردی سے محفوظ نہیں ہیں ۔وہ دن دور نہیں ہے جب یہ لوگ گھروں میں گھس کر لوگوں کا قتل عام کریں گے جیساکہ ہاشم پورہ اور گجرات میں ہوا تھا ،کیونکہ انتظامیہ اور پولیس ان کی حرکتوں پر لگام کسنے میں ناکام ہے۔یا پھر یوں کہاجائے کہ انہیں اس زعفرانی گروہ کے خلاف کوئی بھی کاروائی کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ابھی ہریانہ میں دو مسلم نوجوانوں کو زندہ جلادیا گیا۔یہ سانحہ بھی ’گئو رکشکوں ‘ کے ذریعہ انجام پایاہے ۔ہریانہ اور اس کی سرحدوں پر ’گئو رکشکوں ‘ کی دہشت نئی نہیں ہے ۔پولیس سے زیادہ یہ گروہ متحرک ہے ۔وہ جسے چاہتے ہیں زدوکوب کرتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں قتل کردیتے ہیں ۔ہریانہ کے مختلف علاقوں میں اور اس کی سرحدوں پر متعدد واقعات رونما ہوچکے ہیں ،جن میں سے کئی وارداتیں پولیس کی فائلوں میں دفن ہوچکی ہیں ۔ہریانہ اور اس کی سرحدوں پر مویشیوں کی اسمگلنگ عام ہے ۔لیکن اسے روکنے کے لئے انتظامیہ کو منصوبہ بندی کرنی چاہیے ۔پولیس کی جگہ ’گئو رکشکوں ‘ کا اس طرح قانون کے ساتھ کھلواڑ جمہوریت کے لئے خطرناک عمل ہے ۔یا پھر انتظامیہ اس بات کا اعلان کردے کہ انہوں نے ’گئو رکشکوں‘ کو قانونی حیثیت دیدی ہے ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر مویشیوں کی خریدوفروخت اور منڈیوں میں ان کو لانے لے جانےوالوں کے خلاف اس طرح کی وارداتیں انجام دی جائیں گی تو پھر یہ تجارت ہی ٹھپ ہوجائے گا ۔ایک بڑا طبقہ مویشیوں کی خریدوفروخت اور منڈیوں میں جانوروں کی تجارت پر منحصر ہے ،جس میں ہر مذہب کے لوگ شامل ہیں ۔اس لئے حکومت کو چاہیے کہ جانوروں کی خریدوفروخت کی منڈیوں کو بند کردیاجائے ۔اس خریدوفروخت کو غیر قانونی اعلان کردیا جائے ۔تمام ذبیحہ خانوں اور گوشت کی دوکانوں کو بند کردیا جائے تاکہ یہ سلسلہ ہی ختم ہوجائے ۔کئی واقعات میں تو یہ بھی دیکھاگیاہے کہ اگر پولیس نے ممنوعہ جانوروں کی تجارت کے سلسلے میں کچھ لوگوں کو گرفتارکیا تو تھانے میں ’گئو رکشک‘ گروہ کے لوگ جاکر ان کے ساتھ مارپیٹ کرتے ہیں ۔کیا اب پولیس تھانوں میں پولیس کے بجائے ’گئورکشک‘ انصاف کریں گے ؟ کیا عوام کو پولیس اور قانون سے انصاف کی توقع چھوڑ دینی چاہیے ؟ یاپھر پولیس کو اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کی بحالی کے لئے جدوجہد کرنی چاہیے ؟یہ تمام سوالات اپنی جگہ قائم ہیں ۔
بھاگوت کہتےہیں کہ ہندو امن پسند قوم ہے ،اس سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ۔کیا وہ دھرم سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی اور اقتصادی بائیکاٹ کا اعلان کرنے والوں کو ہندو نہیں مانتے؟ہاشم پورہ،میرٹھ، گجرات ،مظفر نگر ،دہلی ،مہاراشٹر ا ور دیگر جگہوں پررونما ہوئے مسلم کش فسادات کے مجرموں کو وہ کیا کہیں گے ؟ جو لوگ ’گئو رکشا‘ کے نام پر بے قصوروں کی مآب لنچنگ کررہے ہیں کیا وہ ہندو نہیں ہیں ؟ اخلاق کے قاتلوں کو کیا وہ ہندودھرم سے باہر کردیں گے؟ بھلاوہ یہ کیسے کرسکتے ہیں؟انہوں نے تو بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی اور راجیوگاندھی کے قاتلوں کی آزادی پر ایک حرف نہیں کہا۔کیا اب بھی وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ گجرات فساد میں ملوث مجرم ہندو نہیں تھے ؟ جس تنظیم کی آئیڈیولوجی مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو تسلیم کرتی ہو،وہ بھلا عام لوگوں کے قاتلوں کی مخالفت کیسے کرسکتی ہے؟ہر گز نہیں !یہ ممکن نہیں ہے ۔