-
مسلمانوں کو عالمی سطح پر میڈیا ہائوس قائم کرنے کی ضرورت
- سیاسی
- گھر
مسلمانوں کو عالمی سطح پر میڈیا ہائوس قائم کرنے کی ضرورت
306
M.U.H
21/08/2025
0
0
تحریر:عادل فراز
ایران کے ساتھ بارہ روزہ جنگ میں ملی کراری شکست نے استعمار کو بوکھلادیاہے ۔غزہ میں نہتے بے گناہ شہریوں پر فضائی حملوں میں اضافہ اس کی ایک دلیل ہے ۔امریکہ نے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے تاکہ غزہ پر کئے جانے والے حملوں سے ایران پر دبائو بنایاجاسکے ۔اسرائیلی فوجیں اس قدر نفسیاتی کشمکش میں مبتلاہیں کہ وہ انسانی امداد کے منتظر قطاروں میں کھڑے معصوم بچوں اور عورتوں پر بھی رحم نہیں کررہی ہیں ۔اسرائیل اپنی شکست کا غصہ اتارنے کے لئے ایران پر دوبارہ حملہ کرنا تو دور اب اس کےبارے میں سوچنے کی جرأت بھی نہیں کرے گالہذا شکست کا سارا غصہ غزہ کے عوام پراتاراجارہاہے ۔گوکہ انسانی امداد کی ترسیل کے لئے ’محدود جنگ بندی ‘ کا اعلان کردیاگیا مگر یہ جنگ بندی عالمی دبائو سے بچنے اور اپنے مکروہ چہرے کو بہتر بنانے کے لئے ہےکیونکہ اب بھی غزہ کی ضرورت کے مطابق انسانی امداد کی ترسیل نہیں ہورہی ہے ۔نتن یاہو کی ناکام جنگی پالیسیوں کے خلاف اسرائیل میں بڑے پیمانے پر آوازیں اٹھ رہی ہیں ،عوام بھی سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں ،اس بناپر غزہ میں’محدود جنگ بندی ‘ کااعلان کیاگیاہے تاکہ اندرونی مخالفت پر قابوپایاجاسکے ۔اس طرح نتن یاہو یہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اسرائیل غزہ میں جنگ بندی کاخواہاں ہے مگر حماس اس کے یرغمالوں کی رہائی پر آمادہ نہیں ہے لہذا ہمیں اپنے شہریوں کی آزادی کے لئے غزہ میں فوجی آپریشنز کے لئے مجبور ہوناپڑرہاہے ۔جب کہ دنیا بخوبی جانتی ہے کہ اسرائیلی فوجیں اب تک فوجی آپریشنز کے ذریعہ کسی بھی یرغمال کو رہانہیں کرواسکیں ۔یرغمالوں کی رہائی جنگ بندی کے ذریعہ ہی ممکن ہوئی تھی اور اب بھی جنگ بندی کے علاوہ کوئی دوسرا متبادل موجود نہیں ہے ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیل اپنی شکست کی ذلت کو چھپانے کے لئے مختلف ہتھکنڈوں کا سہارا لے رہاہے ،مگر اب رسوائی اس کا مقدر بن چکی ہے۔
ایران کے ساتھ جنگ بندی کے فوراً بعد استعمار نے سرد جنگ کا نیا سلسلہ شروع کردیاتھا۔چونکہ اکثر سوشل نیٹ ورکنگ سایٹس ،عالمی نیوز ایجنسیاں اور عوامی ذرائع ابلاغ پر استعمار کا تسلط ہے اس لئے ایران اور مزاحمتی محاذ کے خلاف سب سے زیادہ انہیں پلیٹ فارمز کا استعمال ہورہاہے ۔سوشل سائٹس پر فرضی ویڈیوز ،تصاویر اور خبریں نشر کی جارہی ہیں ۔نیوز ایجنسیاں منصوبہ بند فرضی خبریں پلانٹ کررہی ہیں اور عوامی ذرائع ابلاغ کا منفی پروپیگنڈے کے لئے استعمال کیاجارہاہے ۔جنگ بندی کے بعد سب سے پہلے یہ خبر پلانٹ کی گئی کہ آیت اللہ خامنہ ای ہزاروں فیٹ زیر زمین کسی خفیہ بنکر میں چھپے ہوئے ہیں ۔بعض نے تو ان کے زخمی ہونے تک کی افواہوں کو ہوادی ۔ان خبروں کا سرچشمہ چند استعماری صحافتی ادارے ہوتے ہیں اور پھر پوری دنیا کی نیوز ایجنسیاں اور بڑے بڑے چینل اور اخبارات ان خبروں کو پھیلانے میں اپنا کردار اداکرتے ہیں ۔ان خبروں کی تشہیر کے لئے الگ الگ ملکوں میں موجود امریکی اور اسرائیلی سفارت خانے موٹی رقمیں خرچ کرتے ہیں بلکہ بعض ملکوں میں تو ان کے میڈیا ہائوس بھی موجود ہیں ۔دوسرے ملکوں میں ان کے میڈیا ہائوسیز کا ہونا ’فوجوں ‘ کی موجودگی اور ’ائیربیس‘ بنانے سے زیادہ آسان ہے ۔دوسرا اہم سبب دنیا میں بڑھتاہوا’ایران فوبیا ‘ ہے جس نے فیک خبروں کی فیکٹری کونئی زندگی دی ہے ۔اس وقت سب سے زیادہ خبریں ایران دشمنی میں پلانٹ کی جارہی ہیں جس میں استعمار ی میڈیا ہائوسیز کے علاوہ کئی مسلم ملکوں کے صحافتی ادارے بھی شامل ہیں جن کا فکری سرچشمہ ایک ہی ہے ۔ان کا مقصد ایران کو عالمی سطح پر بدنام کرنا،خاص طورپر مسلمانوں کے درمیان ایران کا منفی کردار پیش کرناہے ،تاکہ عالم اسلام کے اتحاد اور ایک قیادت کے نظریے پر ضرب لگائی جاسکے ۔
دوسری فیک خبر یہ نشر کی گئی کہ’ آیت اللہ خامنہ ای نشے کے عادی ہیں اور اس لت کے نتیجے میں وہ پورادن سوتے رہتے ہیں‘۔یہ خبر بھی استعماری نیوز ایجنسیوں کے ذریعہ نشر کی گئی تھی جس کو پوری دنیا میں پھیلایاگیا۔اس خبر کا مقصد مسلمانوں کو رہبر انقلاب اسلامی کی شخصیت سے برگشتہ کرنا تھا۔کیونکہ بارہ روزہ جنگ کے بعد عالم اسلام میں آیت اللہ خامنہ ای کی شخصیت کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اور مسلمان انہیں اپنا عالمی قائد تسلیم کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔استعمار ان کی شخصیت کی مقبولیت کے بڑھتے ہوئے گراف سے خوف زدہ ہے۔ مسلمانوں کے درمیان کبھی سعودی عرب اور ترکی جیسے ملکوں کی پیروی کی جاتی تھی مگر اب ان کے دلوں میں بھی آیت اللہ خامنہ ای کی شخصیت راسخ ہوچکی ہے ۔بڑے بڑے نام نہاد مسلم لیڈروں کا شیشۂ قیادت پاش پاش ہوچکاہے۔اس لئے استعمار نے ایسی خبریں پلانٹ کرنا شروع کردیں جس سے رہبر انقلاب اسلامی کی شخصیت کو مسلمانوں کے درمیان مخدوش کردیاجائے اور ان کی مقبولیت کے بڑھتے ہوئے گراف پر ضرب لگائی جاسکے ۔ہندوستان میں بھی اس خبر کو بعض اخبارات اور نیوز چینلوں نے نشر کیاجس پر ایرانی سفارت خانے نے سخت موقف اختیار کرتے ہوئے انہیں فرضی خبریں پھیلانے پر تنبیہ کی ۔’انڈیا ٹی وی ‘ نے تو اس غلطی پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے ایرانی سفارت خانے کو وضاحتی مکتوب بھی ارسال کیاجس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ ہندوستانی میڈیا پر استعمار کس قدر مسلط ہوچکاہے ۔اگر ’انڈیا ٹی وی ،زی نیوز ،ہندوستان ٹائمز جیسے دوسرے صحافتی ادارے فیک خبریں نشر کرتے ہیں تو اس سے اندازہ ہوجاتاہے کہ ہندوستان میں استعماری نیوز ایجنسیوں کا کس قدردبدبہ ہوچکاہے ۔عالمی خبروں کے لئے یہ تمام صحافتی ادارے استعماری نیوز ایجنسیوں پر تکیہ کرتے ہیں جہاں حقیقت کے بجائے پروپیگنڈہ خبریں چلائی جاتی ہیں ۔جب تک دنیا کے بڑے میڈیا ہائوسیز عالمی خبروںکے لئے اپنے ذرائع ایجاد نہیں کریں گے فیک اور پروپیگنڈہ خبروں کا یہ سلسلہ نہیں تھمے گا ۔مگر دنیا میں بڑھتاہوا اسلاموفوبیا اور اس پر بارہ روزہ جنگ کے بعد معرض وجودمیں آئے ’ایران فوبیا‘ نے عالمی نیوز ایجنسیوں کو اندھاکردیاہے ۔دراصل شراب وشباب کے استعمال پر دنیا میں کوئی پابندی نہیں ہے اور نہ اس کو اخلاقی معائب میں شمار کیاجاتاہے ۔ہندوستان میں اکثر میڈیا ہائوسیز کے بانی ،شراکت دار ،نیوز اینکر اور پرڈیوسر حضرات شراب کے عادی ہیں ،لہذا ان کے لئے نشے کی لت پر خبریں نشر کرنا کوئی بڑی بات نہیں تھی ۔انہیں یہ بھی علم نہیں کہ آیت اللہ خامنہ ای سیاسی رہنما کے ساتھ مذہبی قائد بھی ہیں جن کی پوری دنیا میں تقلید کی جاتی ہے ۔ان کے نزدیک آیت اللہ خامنہ ای ایک سیاسی رہنما ہیں اس لئے وہ انہیں اسی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔کیونکہ انہوں نے عالمی پلیٹ فارمز پر استعماری طاقتوں کےلیڈروں کو شراب پیتے ہوئے دیکھاہے ،اس لئے کسی سیاسی رہنما کا شراب نہ پینا ان کے لئےچونکانے والی بات ہوتی ہے ۔ڈونالڈ ٹرمپ تو ہر عالمی رہنما کے ساتھ پریس کانفرنس یا مختلف معاہدوں پر دستخط کرنے کے بعد’ وائن ‘پی کر مسرت کا اظہار کرتے ہیں ۔
تیسری خبری یہ نشر کی گئی کہ ایران کا صدر مجبور اور کٹھ پتلی کی طرح ہوتاہے ،کیونکہ ملکی معاملات کے تمام اختیارات رہبر انقلاب اسلامی کے ہاتھ میں ہوتے ہیں ۔یہ بھی ایک فیک خبر تھی جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا ۔ایران میں صدر عوام کا منتخب کردہ اور جمہوری نظام کا ترجمان ہوتاہے ۔ملکی معاملات کی باگ ڈور اسی نظام سے متعلق افراد کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ۔البتہ رہبر انقلاب اسلامی کو ’ولی فقیہ ‘ کی حیثیت سے سب پر برتری حاصل ہے اور کسی بھی اہم معاملے میں ان کے فیصلے کو حتمی سمجھاجاتاہے ۔یہی تو اس نظام کی خوبی ہے جہاں صدر ،وزیر اعظم ،اور دیگر عوامی اور حکومتی نمائندوں کو من مانی کرنے کا اختیار نہیں دیاگیا جیساکہ ہم تمام جمہوری ملکوں میں آئے دن دیکھتے ہیں ۔استعما ر بھی اسی نظام سے خوف زدہ ہے اور امریکہ و اسرائیل اسی نظام کو بدلنے کا خواب دیکھتے رہتے ہیں ۔انہیں صدر ،وزیر اعظم اور دیگر حکومتی افراد سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ عوامی اور عالمی دبائو میں کوئی بھی فیصلہ لے سکتے ہیں مگر ’ولی فقیہ ‘ پر نہ تو عالمی دبائو موثر ہوتاہے اور نہ عوامی ۔اس کی نگاہ میں سب سے اوپر خدا کی خوشنودی اور رضایت ہوتی ہے جس کے لئے وہ شب وروز کام کرتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ نہ تو عالمی طاقتوں کوخاطر میں لاتاہے اور نہ خطرناک اسلحوں کو اہمیت دیتاہے ۔اس کاسر سوائے خداکے کسی اور طاقت کےسامنے نہیں جھکتا۔اسی سر کو جھکانے کا خواب استعمار برس ہا برس سے اپنی آنکھوں میں سنجوئے ہوئے ہے جس کو بارہ روزہ جنگ میں رہبر انقلاب اسلامی نے دیوانے کا خواب ثابت کردیا۔
موجودہ زمانہ فیک اور پروپیگنڈہ خبروں کا ہے ۔اکثر میڈیا ہائوسیز پر استعماری طاقتوں کا قبضہ ہے لہذا کوئی خبر استعمار کے مفاد کے خلاف نشر نہیں کی جاسکتی ۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے نقصان کی صحیح صورت حال اب تک سامنے نہیں آسکی ہے ۔استعماری نیوز ایجنسیوں نے ہی اسرائیل کو ناقابل تسخیر قراردیاتھامگر جب اسرائیل پر پے درپے حملے شروع ہوئے تو اس کے نقصان کو چھپانے کی کوشش شروع ہوگئی ۔لہذا ایسی خطرناک صورت حال میں ضروری ہے کہ مسلمان اپنے میڈیا ہائوسیز تشکیل دینے کی طرف متوجہ ہوں ۔جب تک استعمارکے مقابلے لئے ٹیکنالوجی کے میدان میں نمایاں پیش رفت نہیں کی جائے گی ،آپ کی کامیابی بھی دنیا کو نظر نہیں آئے گی ۔