-
اتحاد اورمضبوط قیادت کے بغیر کامیابی ممکن نہیں!
- سیاسی
- گھر
اتحاد اورمضبوط قیادت کے بغیر کامیابی ممکن نہیں!
337
M.U.H
03/10/2025
0
0
تحریر:عادل فراز
وقف ترمیمی قانون۲۰۲۵ پر عدالت عظمیٰ کا عبوری فیصلہ اور’ وقف از صارف‘ پر تبصرہ انتہائی تشویش ناک ہے۔عدالت عظمیٰ نے وقف ترمیمی قانون پرعرضی گزاروں کی شکایات کی ابتدائی سماعت کے بعد اس قانون پرپابندی سے تو صاف انکار کردیالیکن بعض دفعات کو فی الحال موقوف کردیاہے ۔عدالت عظمیٰ نے جن شقوں کو ابتدائی سماعت میں موقوف کیا وہ نہایت اہم تھیں جن میں ضلع مجسٹریٹ کے اختیارات پر قدغن بھی ہے ۔عدالت عظمیٰ نے وقف ٹریبونل کی اہمیت پر بھی زوردیا اور متنازع املاک کے مقدمات کے تصفیہ کے لئے ضلع مجسٹریٹ کی رائے کے بجائے وقف ٹریبونل کے فیصلے کو لازمی قراردیاہے ۔عدالت نے وقف کرنے کے لئے کسی شخص کے پانچ سال تک اسلا م کے پیرو ہونے کی شرط کو منسوخ کردیاکیونکہ حکومت کے پاس مذہب اور عقیدہ کی تشخیص کا کوئی ضابطہ نہیں ہے سوائے ذاتی اعلانیہ کے !گویاکہ اس طرح عدلیہ نے وقف معاملات میں بیوروکریسی کی مداخلت پر ضرب لگائی ہے۔
عدالت عظمیٰ نے جن شقوں پر موقت پابندی عائد کی ہے وہ نہایت اہم ہیں لیکن مسلمانوں کو سب سے زیادہ ’وقف از صارف‘ کے آئین سے ہٹانے پر اعتراض تھامگر عدالت نے اس پر ابھی کوئی سماعت نہیں کی ۔البتہ جو تبصرے اس دفعہ پر سامنے آئے ہیں وہ نہایت تشویش ناک اور منصفوں کی ذہنیت کوواضح کرنے کے لئے کافی ہیں۔اول تویہ کہ عدالت عظمیٰ کومسلمانوں کے اعتراضات کے پیش نظر مقدمے کی سماعت کرنی چاہیے تھی کیونکہ اوقاف کی املاک کا تعلق براہ راست مسلمانوں سے ہے حکومت سے نہیں ۔حکومت ان املاک کو تحفظ فراہم کرسکتی ہے اور ان کی تنظیم وتشکیل میں اپنا تعاون دے سکتی ہے ،بس!حالانکہ ابھی سماعت مکمل نہیں ہوئی اور آئندہ اس دفعہ پر زیادہ بحث و مباحثے کی امید ہے ۔عدالت نے ’وقف از صارف ‘پر تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ اس کے تحت پورے ملک میں بڑے پیمانے پر سرکاری املاک پر قبضہ ہواہے ،اگر اس قبضے کو روکنے کے لئے اس شق کوختم کیاجارہاہے تو اس کو من مانی نہیں کہاجاسکتا۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ’وقف از صارف ‘ پرعدالت عظمیٰ کا وہی موقف ہے جو حکومت ،سنگھ اور یرقانی تنظیموں کا ہے ۔عدالت عظمیٰ نے اپنے تبصرے میں حکومت کے ذریعہ اوقاف کی املاک پر ناجائز قبضوں کی طرف اشارہ نہیں کیا۔اس کے لئے چیف جسٹس صاحب کو اپنے معاونین کے ساتھ دہلی یاپھرکم از کم ایک بار لکھنؤ کا سفر کرنا چاہیے جہاں سرکاری دفاتر تک اوقاف کی زمینوں پر قائم ہیں ۔یہ تمام زمینیں حسین آباد ٹرسٹ کی ملکیت تھیں جو ضلع مجسٹریٹ کی نگرانی میں آتی ہیں ،اس کے باوجود ان زمینوں پر سرکاری سرپرستی میں قبضے ہوتے رہے ۔اگر ضلع مجسٹریٹ کی نگرانی میں اوقاف کی املاک محفوظ نہیں تو پھر ’وقف پورٹل ‘ پر رجسٹریشن کے بعد وقف کی جائیدادیں محفوظ رہیں گی ،اس کی کیا ضمانت ہے ؟
عدالت عظمیٰ نے کہاکہ جب 1923 سے آج تک وقف املاک کا رجسٹریشن لازمی رہاہے تو متولی کیسے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ انہیں رجسٹریشن کے بغیر اوقاف کو جاری رکھنے کی اجازت دی جائے ۔اسی بناپر عدلیہ نے وقف رجسٹریشن کے لئے عائد کی گئی نئی شرائط میں کوئی مداخلت نہیں کی اور رجسٹریشن کے لئے دی گئی مہلت میں بھی توسیع کردی۔لہذا اب مسلمانوں کو وقف املاک کا ’امید پورٹل ‘ پر نئے ضوابط کے تحت رجسٹریشن کرانا ہوگا۔لیکن وہ املاک جن کے وقف نامے اور دستاویز موجود نہیں ہیں ان کی حیثیت زیر سوال ہےکیونکہ حکومت ایسے اوقاف کی از سرنو جانچ کرواکے ان کی حیثیت کا تعیین کرے گی اور اکثر اوقاف کی املاک کو سرکاری تحویل میں لے لیاجائے گا۔اوقاف کی وہ عمارتیں جو آثار قدیمہ کے کنٹرول میں آتی ہیں وہ بغیر کسی تردد کے مسلمانوں سے چھین لی جائیں گی ۔ممکن ہےعدالت عظمیٰ آئندہ اس پر حتمی سماعت کرے مگر صورت حال خوش آئند نہیں ہے ۔کیونکہ چیف جسٹس صاحبان ریٹائرڈ ہونے کے بعدجس طرح کے بیانات دے رہے ہیں ان سے ظاہر ہوتاہے کہ عدلیہ بھی ایک مخصوص نقطہ نگاہ کی حامل ہے۔ججوں پر بھی زعفرانی سیاست کاواضح اثرنظر آرہا ہے اوران کے فیصلوں میں جانب داری کا غالب عنصر موجود ہے۔
حکومت کا اصل مقصد ان وقف املاک پر قبضہ کرناہے جو باضابطہ طورپر واقف کی طرف سے رجسٹرڈ نہیں ہیں بلکہ انہیں صرف وقف کےطورپر استعمال کیاجاتاہے ۔ایسے اوقاف کی تعداد زیادہ ہے جنہیں زبانی طورپر وقف کردیاگیاتھا۔نئے قانون کے مطابق ایسی تمام جائدادیں وقف سے نکل جائیں گی اور حکومت ان جائدادوں پر مسلط ہوجائے گی ۔عدالت عظمیٰ کو یقیناً معلوم ہوگاکہ اوقاف کی تاریخ مسلمانوں کی آمد سے شروع ہوتی ہے لہذا ایسے اوقاف جو سینکڑوں سال پرانے ہیں ان کا ریکارڈ کہاں سے دستیاب ہوگا؟ان کے وقف ہونے کا واحد ثبوت یہ ہے کہ انہیں صدیوں سے وقف کےطورپر استعمال کیاجارہاتھا۔اگر ہندوستان کے تمام مذاہب میں موجود قدیم اوقاف کا ریکارڈ تلاش کیاجائے تو اکثر اوقاف کی حیثیت ختم ہوجائے گی ۔اگر عدالت عظمیٰ رام مندر کا فیصلہ ’آستھا‘ کی بنیاد پر سناسکتی ہے تو مسلمان جس زمین کو صدیوں سے وقف کے طورپر استعمال کررہے ہیں اس کو وقف کیوں تسلیم نہیں کیاجاسکتا؟
عدالت عظمیٰ نے سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈوں میں غیر مسلم نمائندوں کے داخلے کے دروازے کھول دئیے ۔عدالت نے یہ واضح نہیں کیاکہ مسلمانوں کے اوقاف کی ذمہ داری غیر مسلموں کو کن بنیادوں پر سونپی جارہی ہے؟کیونکہ ہندوستان کے کسی غیر مسلم ٹرسٹ میں ایک بھی مسلم نمائندہ موجود نہیں ہے ۔خاص طورپر ہندوئوں کے بڑے بڑے ٹرسٹ جن میں رام مندر بھی شامل ہے ،کوئی غیر ہندو نمائندہ نہیں ہے ۔جب کہ حکومت نے رام مندر کوبابری مسجد کی جگہ ہندوئوں کی عقیدت کے نام پر تعمیر کروایا ،اگر ایساہے توپھر ان دیگر طبقات کو اس ٹرسٹ میں نمائندگی کیوں نہیں دی گئی جنہیں زعفرانی طاقتیں ’اقتدار پر مسلط رہنے کے لئے ‘ ہندوثابت کرنے پر تلی ہیں ،جن میں سکھ ،جاٹ اور پسماندہ طبقات بھی شامل ہیں ۔اگر موہن بھاگوت کے بقول ہندوستان کا ہر شہری ’ہندو‘ ہے توپھر رام مندر میں ہر طبقے اور ہر مذہب کے افراد کو ’ہندو‘کی نسبت سے شامل کیاجاناچاہیے تھا۔چونکہ مسلمانوں کے تئیں ہندوستان کے اکثریتی طبقے کی ذہنیت یکساں ہوتی جارہی ہے خواہ وہ حکومتی افراد ہوں ،نوکر شاہی طبقہ ہویا پھر عدالتوں میں موجود منصف ہوں ۔یہی وجہ ہے کہ سینٹرل وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈوں میں غیر مسلم نمائندوں کے داخلے کی راہ ہموار کردی گئی ۔دوسری طرف چیف ایکزیکٹو آفیسر(سی ای او) کے عہدے پر بھی غیر مسلم نمائندے کو مقرر کرنے کا باب کھول دیاگیا ۔عدالت نے کہاکہ جہاں تک ممکن ہووقف بورڈ کا سی ای او مسلمان ہو۔یعنی اگر اس عہدے کے لائق مسلمان نہ ملے تو غیر مسلم کو بھی وقف بورڈ کا سی ای او مقرر کیاجاسکتاہے ۔گویا کہ عدلیہ کا فیصلہ مکمل طورپر حکومت کے حق میں ہے اور مسلمانوں کو ایک بار پھر آئینہ دکھلایاگیا کہ مودی کے ہندوستان میں تمہارے لئے کوئی جگہ نہیں ۔
عدالت عظمیٰ کے فیصلے پر اکثر مسلم رہنمائوں کو ’آمنا و صدقنا‘ کہتے ہوئے سنا جو ہمارے لئے باعث حیرت تھا۔ہر بار عدلیہ کے فیصلے کو سرآنکھوں پر تسلیم کرنااور سیاہ و سفید پر ججوں کو سراہتے رہناانصاف کے خلاف ہے۔بابری مسجد کو حقائق اور شواہد کے برخلاف’آستھا‘ کے نام پر رام مندرکے حوالے کردیاگیااور مسلمان عدلیہ کے فیصلے کا استقبال کرتے رہے ۔عدالت کا ہرفیصلہ انصاف کے تقاضوں کو پورانہیں کرتا،یہ بھی ہماری نظر میں رہنا چاہیے ۔خاص طورپر اترپردیش کی عدالتوں کے فیصلے جو ہمیشہ ریاست کے مفاد میں ہوتے ہیں ،انہیںسرآنکھوں پر تسلیم نہیں کیاجاسکتا۔عدالتوں کے وہ قاضی جو سنگھ کے دفتر اور یرقانی تنظیموں کے پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں ،ان کے فیصلے کبھی غیر جانب دار نہیں ہوسکتے ۔عدالتیں یقیناً انصاف کی بنیاد پر مقدس ہوتی ہیں مگر ججوں کو تقدس کا لبادہ نہیں اُڑھاناچاہیے۔اگر ہم ایساکریں گے تو پھر ججوں کے غیر آئینی فیصلوں کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔
یاد رکھناچاہیے !مسلمانوں کو اس وقت تک انصاف نہیں مل سکتاجب تک وہ اپنی طاقت کااظہار نہیں کریں گے ۔یہ طاقت سیاسی اور سماجی اتحاد سے حاصل ہوگی ۔انہیں مختلف سیاسی جماعتوں کی گاڑیوں کےپیچھے بھاگنا بند کرناہوگا۔جب تک ان کی صفوں میں اتحاد قائم نہیں ہوگاانہیں کوئی سیاسی جماعت گھاس نہیں ڈالے گی ۔الگ الگ جماعتوں کے پرچم اٹھاکر ہم کبھی اپنے حقوق کی لڑائی نہیں لڑ سکیں گے ۔اگر ہم سیاسی جماعتوں کےوعدووعید کے گرداب میں پھنسے رہیں گے تو کبھی ہمیں بھیڑیے سے ڈرایاجائے گااور کبھی ہمیں ہی بھیڑیابنایاجائے گا۔اس لئے وقت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے فرقہ پرستی کے عذاب سے باہرنکلناہوگا ۔اس کے لئے سب سے پہلے اپنے درمیان مخلص قیادت کو تلاش کرنا ہوگا،جس کے بغیر نہ تو کوئی موثر تحریک معرض وجود میں آسکتی ہے اور نہ کامیابی سے ہم کنار ہوسکتی ہے ۔