پریہ درشن
(پریہ درشن’’ این ڈی ٹی وی‘‘ انڈیا میں سینئر ایڈیٹر ہیں)
سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت کا دعوی ہے کہ آر ایس ایس تین دن کے اندر اندر فوج کھڑی کر سکتی ہے۔ ایسی فوج جسے تیار کرنے میں ہندوستانی فوج کو چھ ماہ لگ جائیں گے۔
موہن بھاگوت کے اس بیان میں کئی سوال پوشیدہ ہیں؟ کیا سنگھ کے سربراہ ہندوستانی فوج کی صلاحیت پر بھروسہ نہیں کرتے؟ کیا انہیں لگتا ہے کہ سرحد پر کبھی ایسی صورتحال آئے گی کہ ہندوستانی فوج کو سنگھ پریوار کی سینا کی ضرورت پڑے گی؟
یہ سچ ہے کہ جنگ کے وقت شہری فوجیں مددگار ہوتی ہیں.1962 اور 1965 کی جنگ میں فوج میں بھرتی کی مہم بھی چلی اور نوجوانوں کو ہتھیار چلانے کی تربیت بھی دی گئی۔ لیکن یہ 50-55 سال پرانی بات ہے۔ تب سے اب تک بھارتی فوج ایک طویل سفر طے کر چکی ہے. دوسری بات یہ کہ مستقبل میں ایسی کسی بحالی کا فیصلہ کرنا ہو تو یہ کام صرف فوج ہی کر سکتی ہے، دوسری کسی ایجنسی کو یہ ٹھیکہ نہیں دیا جا سکتا۔
لیکن سنگھ پریوار اب ملک کی حفاظت کا بھی ٹھیکہ چاہتا ہے۔ جیسے فوج اس کام کے لئے کافی نہ ہو. اگر ایسا نہیں ہے تو پھر موہن بھاگوت نے یہ بیان کیوں دیا؟ کیا وہ فوج کا حوصلہ بڑھانا چاہتے ہیں؟ کیا ہندوستانی فوج کو ان کے حوصلے کی ضرورت ہے؟ وہ بتا رہے ہیں کہ آر ایس ایس کے کارکن اتنے ہی منظم ہیں جتنی منظم بھارتی فوج ہے۔
جب موہن بھاگوت کے بیان پر سوال اٹھے تو آر ایس ایس کی جانب سے صفائی آئی۔ کہا گیا کہ موہن بھاگوت کی بات درست طریقے سے نہیں سمجھی گئی. وہ فوج اور سویم سیوکوں کے درمیان موازنہ نہیں کر رہے تھے، بلکہ عام معاشرے اور سویم سیوکوں کا فرق بتا رہے تھے۔
یہ ایک اور خطرناک بات ہے۔ یہاں سے موہن بھاگوت کا اصلی مقصد سمجھ میں آتا ہے. وہ ملک اور فوج کی مدد نہیں کرنا چاہتے بلکہ سماج کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ وہ آر ایس ایس کے منظم سپاہیوں سے ڈریں۔سنگھ پریوار فوجی تنظیم نہیں ہے۔لیکن تین دن میں فوجی تنظیم میں تبدیل ہو سکتی ہے۔کیا یہ اجازت اس ملک میں کسی دوسری تنظیم کو دی جا سکتی ہے کہ وہ ملک کے نام پر ہی یہ اعلان كرے کہ وہ اپنی فوج تیار کرنے کی پوزیشن میں ہے؟
اس ملک میں ذاتی فوجیوں کی بھی تاریخ ہے جو زمین، ضمیر اور ذات کے نام پر خون خچر کرتی رہی ہیں. ایک دور میں ایسی ذاتی فوجوں نے بہار کو خاصی تکلیفوں سے دوچار کیا. بھوک اور غربت کے خلاف جنگ اور سب کی برابری کی بات کرنے والے نکسلی تحریکوں کو یہ ملک اس لیے بھی مسترد کرتا رہا ہے کہ وہ ہتھیار اٹھاتے ہیں، ذاتی فوج بناتے ہیں۔ پارلیمانی جمہوریت میں تشدد کے علاوہ احتجاج کا ہر طریقہ جائز ہے اور فوج کھڑی کرنا تو براہ راست غداری ہے۔چاہے اس کا مقصد جو بھی ہو۔
یہاں یہ پوچھنے کی خواہش ہوتی ہے کہ سنگھ پریوار آخر تین دن میں فوج کھڑی کرنے کا دعوی کس بنیاد پر کر رہا ہے؟ کیا اس کے پہلے اس نے اپنے ساتھیوں کی ‘صلاحیت’ آزمائی ہوئی ہے؟ اچانک کسی مسئلے پر جو منظم تشدد پھوٹ پڑتے ہیں، اس کے پیچھے کہیں سنگھ پریوار کی طاقت تو نہیں؟ چاہے وہ گودھرا کے بعد گجرات کے فسادات ہوں یا اس کے دس سال پہلے بابری مسجد شہادت کی منصوبہ بند سازش یا اس بھی آٹھ سال پہلے سکھوں کے خلاف ہوئے ملک گیر تشدد؟ کیونکہ 84 کے تشدد میں کانگریس کو سب سے بڑا گنہگار ماننے کے باوجود یہ بھولنا مشکل ہے کہ صرف راجیو گاندھی نے ہی درخت گرنے پر زمین ہلنے کی حمایت نہیں کی تھی، سنگھ کے لیڈر نانا جی دیش مکھ نے بھی تب لوگوں کے غصے کو جائز ٹھہرایا تھا اور ان دنوں اٹل بہاری واجپئی کے منتخب کردہ گاندھی وادی سوشلزم کو ٹھکرا کر سنگھ نے پوشیدہ طور پر کانگریس کی حمایت کی تھی اور اس کی وجہ سے بی جے پی کو صرف 2 سیٹیں ملی تھیں۔
سوال یہ بھی ہے کہ کیا کسی دوسری تنظیم کو، مثلا کسی سکھ یا مسلم یا عیسائی تنظیم کو اس کی اجازت دی جا سکتی ہے کہ وہ ایسی ‘منظم’ کارکنوں کی ٹیم تیار کرے جو تین دن میں ہندوستانی فوج کے برابر فوج کھڑی ہو سکے؟
مگر یہ سوال صرف سنگھ پریوار کے استحقاق کا نہیں، معاشرے کے اس ملیٹریزیشن کا بھی ہے جس کی طرف موہن بھاگوت اشارہ کر رہے ہیں۔یہ ملیٹریزیشن پارلیمانی جمہوریت کی صحت کے لئے خطرناک ہے۔ ایسے ہی ملیٹریزیشن کے راستے سے حکومتیں جمہوریت کا گلا گھونٹا کرتی ہیں اور اس کے لئے ‘منظم’ فوجوں کو ہتھیار اٹھانے کی نہیں، دوسروں کو بس ڈرانے، دھمکانے اور ان میں سوتیلے پن کا احساس بھرنے کی ضرورت ہوتی ہے. کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے وقت کے کئی تنظیمیں یہ کام بخوبي کر رہی ہیں۔
مترجم: محمد اسعد فلاحی
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)