شاہدؔکمال
انسانی سماجیات کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ اس کی تمام تر ارتقائی قوتوں کے خارجی و باطنی عوامل کا نکتہ ارتکاز کہیں نہ کہیں جدلیاتی افکاراور تشد د آمیز نظریات سے ہی عبارت ہے۔چاہے وہ ماقبل تاریخ کا انسان ہو یا موجودہ عہد کا سب سے ارتقا پذیر معاشرے کا تہذیب یافتہ شخص ۔تہذیب و ثقافت،قوم وملت اور مذہب و مسلک کے آپسی تصادم اور ایک دوسرے پر غلبہ و تسلط کی تعصب زردہ ذہنیت موجودہ عہد کے انسانوں کی یہ ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے ،جو صرف اس کے لئے ہی مہلک نہیں بلکہ پورے انسانی سماج کے لئے ایک ایسا خطرہ بن چکی ہے۔جس کے تدارک کی امکانی صورت دور دور تک نظرنہیں آتی۔اس کی ایک خاص وجہ انسانی اقدار کا بحران ہے ۔یہی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے آج ہمارا پورا عالمی سماج بہت ہی حساس دور سے گزررہا ہے،اور ہر شخص زندگی کے تمام وسائل کی موجودگی کے بعد خود کو غیر محفوظ محسوس کررہا ہے،اور اس خوف وبے اطمینانی کاسایہ رفتہ رفتہ پورے عالمی سماج کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے۔خوف و دہشت انسان کے نفسیات میں کچھ ایسے تحلیل ہوگیا ہے کہ وہ خود اپنے سائے سے بھی ڈرنے لگا ہے۔یہ کوئی خدائی عذاب نہیں بلکہ انسان کی اپنی ناآسودہ طبیعت کا ایک ایسا خمیازہ ہے جس کا قرض اپنی ایک ایک سانس کی آمد ورفت کے ساتھ ادا کرنا پڑ رہا ہے۔اس کی اصل وجہ کیا ہے آپ اس بات کو مجھ سے بہتر سمجھتے اور محسوس کرتے ہیں جن کی نگاہیں عالمی منظر نامہ پر ہیں۔
اس مسئلہ کو کسی ایک ملک کے جغرافیہ حدود میں متعین نہیں کیا جاسکتااور اس سے زیادہ مضحکہ خیز بات کیا ہوگی کہ آج ہر شخص خود کو عالم انسانیت کا نجات دہندہ کہہ رہا ہے۔ لیکن زمین سطحی پر اس دعوی کی حقیقت کچھ اور ہے۔آج ہم ’’زیرو ٹولرینس ‘‘ کی بات تو کرتے ہیں ۔لیکن ہمارے اندر عدم برداشت کی صلاحیت ختم ہوچکی ہے۔یہ مسئلہ صرف ہندوستان کا ہی نہیں بلکہ اس کی زد میں دنیا کے بیشتر ممالک بھی آتے ہیں ۔اس کی زندہ مثال مشرق اوسطی میں برپا ہونے والی وہ خونریز جنگ ہے ۔جس کی آگ میں لاکھوں کی تعداد میں بے گناہ انسان اپنا سب کچھ گنوا چکے ہیں۔اور باقی ماندہ لوگ اپنی زندگی کےتحفظ کے لئے ہر لمحہ ایک نئی صعبوتوں سے نبرد آزما ہیں۔لیکن انھیں اس آگ اور دھوئیں میں اپنا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا ہے۔یہ ایک ایسا المیہ ہے۔ جس پر سوائے اظہار تاسف کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔
ہم دیگر قوموں کی بات نہ کرتے ہوئے اگر مسلمانوں کی موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو یہ مسلمانوں کے لئے ایک خوف ناک اور اذیت انگیز مسئلہ ہے۔آج ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے جان ومال کے درپے ہے۔اس کی بنیادی وجہ ملکویت اور استعماریت کا وہ ایجنڈہ ہے جو اپنے مزموم مقاصد کے تکمیل کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال کررہا ہے۔لیکن اس خاک و خون کے کھیل میں مسلمانوں کے خلاف امریکہ اور صہیونی طاقتوں کی جارہانہ پالیسی کا ایک بڑا رول بھی ہے۔جس سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا۔
سعودی ،امریکہ اور اسرائیل اور ان کے حلیف ممالک نے اپنی شاطرانہ پالیسی کے تحت سیریا اور عراق میں بے بنیاد اور کھوکھلی جمہوریت کے نام پر جس حیلہ جوئی کی مہم کو فروغ دے رہا ہے ۔وہ اب دھیرے دھیرے ایک عالمی جنگ کی طرف پیش رفت کررہی ہے۔پورا ایشا ایک نئی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔اس ناگفتہ بہ مسائل میں امریکہ کی نئی صدارت جو ڈونالڈ ٹرمپ کی صورت میں نمایاں ہوئی ہے ۔اس نے اس جدلیاتی یلغار میں مزید تشدد پیدا کردی ہے۔داعش ، جبہۃ النصرہ اور فری سیرین آرمی جیسی دہشت گرد تنظیم سعودی ،امریکہ اور اسرائیل کی سرپرستی میں بغیر کسی مذہب و مسلک کے امتیاز کے مسلمانوں کی نسل کشی میں صہیونیت کے کبھی نہ پورے ہونے والے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں منہمک ہیں۔دوسری طرف سیریا ،عراق ،روس اور ایران جیسے ممالک ان کے مزموم مقاصد کے حصول میں سب سے بڑی مزاحمتی قوت بن کر ان کے درمیان حائل ہوچکی ہیں۔لہذا ابلاغ و ترسیل کے تمام وسائل یعنی سوشل میڈیا جیسے دیگر ابلاغی ذرائع پر ان مزاحمتی قوتوں کے خلاف بڑے منصوبہ بند طریقے سے پروپیگنڈوں کا ایک محاذ کھول دیا گیا ہے۔جس کی وجہ سے خاص کر مسلمانوں کے درمیان ایک بڑی خلیج استوار ہوتی جارہی ہے۔جس کے شکار زیادہ تر نوجوان ہورہے ہیں۔
ایک طرف خود کو عالم اسلام کا قائد بتانے والے سعودی حکمراں اپنی حکومت کے تحفظ میں ان صہیونی طاقتوں کے سب سے بڑے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔جو ذہنی طور پر ایران فوبیا کے شکار ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ سیریا اور عراق میں ان کے فاسد منصوبہ کی عدم تکمیل اور ان کی کفالت میں بنائے جانے والے دہشت گرد گرہوں کی ناکامی ہے۔سعودی عرب خود کو مسلمانوں کا قائد تو کہتا ہے لیکن اس کا عمل اسلامی حقوق کی پاسداری اور مسلمانوں کے جان ومال اور ان کی ناموس کی پاسداری کے بالکل برعکس ہے۔اس کی مثال یمن جیسے کمزور ملک کے خلاف لشکرکشی ہے ۔جس کی وجہ سے لاکھوں کی تعداد میں یمنی مسلمان آج بے گھر ہوچکے ہیں اور ہزاروں سے زیادہ مسلمان سعودی کی طرف سے ہونے والی بمباری میں اپنی جان گنوا چکے ہیں۔ریاض حکومت کی طرف سے یمن پر تھوپی جانے والی جنگ آج خود سعودی حکومت کے لئے ایک مسئلہ بن چکی ہے۔
مزید ریاض حکومت کا سب سے بڑا مضحکہ خیز اقدام اس کے اپنی سیاسی حلیف برداروں کا فوجی اتحاد ہے۔جس نے سعودی حکومت کی نااہلی کی پول کھول کر رکھ دی ہے،اور اس اتحاد میں شامل زیادہ تر ممالک اپنے ملک کی خستہ حال معیشت اور خانہ جنگی جیسے حالات سے فرار کرنے کی صورت میں اس غیر سیاسی کولیشن کا حصہ ہیں جس کی قیادت پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ہاتھوں میں ہے۔جنرل راحیل شریف ایک ایسے وقت میںاس اتحادی مورچے کے سربراہ منتخب کئے گئے ہیں ۔جب کہ ان کا اپنا ملک خود دہشت گردی اور فرقہ واریت کی آگ میں جھلس رہا ہے۔راحیل شریف کے اس اقدام سے پاکستان میں مزید فرقہ واریت اور دہشت گردی کے فروغ کا امکان قوی ہے ۔جس کی وجہ سے ،بعض سیاسی مبصرین اور تجزیہ نگاروں نے راحیل شریف کے اس اتحاد میں شامل کو انتہائی احمقانہ قدم بتا یا ہے۔سنی اتحاد کونسل کے چیرمین صاحبزادہ حامد رضا نے برطانوی علما کے ایک وفد سے ملاقات کے دوران یہ بات کہی کہ سعودی فوجی اتحاد امریکہ ایجنڈے کے تحت بنایا گیا ہے ،سعودی عسکری اتحاد مسلم امہ کے انتشار کا سبب بنے گا۔پاکستان کو اس اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہئے تھا۔
پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف نے امریکہ کے ایجنڈے کے تحت بنائے جانے والے اس عسکری اتحاد کی قیادت کے سلسلے میں جنزل راحیل شریف کی سربراہی پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے یہ کہا کہ پاکستان کو اس طرح کے کسی بھی اتحاد کا حصہ بننا اپنے ملک میں فرقہ واریت کو فروغ دینے کے مترادف ہے۔لہذا راحیل شریف کا یہ اقدام ان کی سیاسی عدم بصیرت کی غمازی کرتا ہے۔
ریاض حکومت کے اس عسکری اتحاد نے ریاض حکومت کی ناکامیوں میں مزید استحکام پیدا کردیا ہے۔جو اس کی حکومت کی کمزور ہوتی ہوئی قیادت کا ایک کھلا ہوا اعلامیہ ہے۔خطے کی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین جانتے ہیں کہ سعودی عرب اس وقت کس پریشانی سے گزر رہا ہے۔ شام میں اس کی منشاء پوری نہیں ہوسکی اور شام پر فضائی حملے کا ارادہ امریکہ نے آخری مرحلے میں اس وقت منسوخ کر دیا جب اسے یقین ہوگیا کہ شام میں حکومت کی تبدیلی کے نتیجے میں انتہا پسند عناصر برسراقتدار آئیں گے، جو آخر کار خطے میں مزید انتہا پسندی کے فروغ میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ امریکہ کے اس اقدام کی وجہ سے سعودی عرب اور امریکہ کے دیرینہ تعلقات متاثر ہوئے۔دوسری طرف اخوان المسلمین کے خلاف سعودی عرب کے حالیہ اقدامات نے تو عالم عرب ہی میں نہیں بلکہ اس کے باہر بھی اس کی مخالفت کے دائرے کو وسیع کر دیا ہے۔
ریاض حکومت کے وزیر دفا ع محمد بن سلمان کے ایک حالیہ انٹریو میں دئے گئے بیان کی خوب مزمت ہورہی ہے انھوں نے ایک سرکاری چائنل میں دئے گئے اپنے ایک انٹر ویو میں یہ بات کہی کہ ایران امام مہدی کے ظہور کے لئے راہ ہموار کررہا ہے، لہذا ہم بھی امام مہدی سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہیں، اور ہم یہ جنگ اپنی سرحدوں پر نہیں بلکہ ایران کے اندر لے جائیں گے۔یہ ایک ایسا بیان ہے جس سے مسلمانو ں کے ایک بڑے طبقہ میں بڑی دلآزاری کا سبب بن گیا ،اور لوگوں نے ریاض کے وزیر دفاع کے اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے یہ کہنے میں تامل نہیں کیا کہ یہ دجالی گروہوں کا ایک ایسا اتحاد ہے جو امت مسلمہ کے لئے باعث تشویش ہے ۔ جس سے فرقہ واریت میں مزید اضافہ کا سبب قرار دیا ہے۔ریاض حکومت اپنے تخت و اقتدار کو بچانے کے لئے ہر طرح کے حربے کو استعمال کرنے میں قطعی کسی طرح کا گریز نہیں کرے گی ۔۔۔چاہے اس کے لئے اسلامی اقدار اور اس کے تحفظات کا کیوں نہ خون کرنا پڑے۔میں اپنی بات علامہ جمیل مظہری کے اس شعر پر ختم کرنا چاہتا ہوں۔
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی