-
سنگھو بارڈر کی سکھ-مسلم یکجہتی قابل دید اور بقا کا راستہ
- سیاسی
- گھر
سنگھو بارڈر کی سکھ-مسلم یکجہتی قابل دید اور بقا کا راستہ
969
M.U.H
14/12/2020
0
0
تحریر: ظفر آغا
دہلی کے سنگھو بارڈر پر ان دنوں ایک جشن کا سماں ہے۔ ہزاروں ہزار کی تعداد میں یہاں پنجاب کے کسان اکٹھا ہیں۔ میلوں دور تک ٹینٹ، ٹرک اور ٹریکٹر پر مشتمل یہ پورا علاقہ کسان قافلوں کا ایک شہر سا بن گیا ہے جس کی اپنی ایک الگ زندگی ہے۔ اگر آپ یہاں جائیے تو آپ کو ایک اجیٹیشن کا احساس کم اور میلے-ٹھیلے کا احساس زیادہ ہوتا ہے۔ ایک جگہ پر اگر کسانوں کی مانگوں سے متعلق دھرنا اور تقریریں ہو رہی ہیں تو تھوڑی دور آگے بڑھیے وہاں چائے بٹ رہی ہے۔ کھانے کے وقت سڑک پر دسترخوان لگ جاتے ہیں اور آپ کو بہترین لنگر کا کھانا مل جاتا ہے۔ اگر کوئی بیمار ہے تو اس کی دیکھ بھال کے لیے ڈاکٹر موجود ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اگر دھرنے میں آپ کے کپڑے گندے ہو جائیں تو وہیں کپڑے دھلنے کے لیے واشنگ مشین کا انتظام۔ ایک جانب کتابوں، اخباروں اور رسالوں کا بھی اسٹال موجود ہے۔ الغرض سنگھو بارڈر ایک الگ شہر ہے جس کی اپنی ایک الگ زندگی ہے۔ جی ہاں، میں نے خاص طور سے یہاں کی زندگی کے لیے ’الگ‘ یعنی جداگانہ زندگی کا لفظ استعمال کیا۔ کیونکہ ان دنوں ہندوستان میں جس نفرت اور بٹوارے کا سیلاب ہے، سنگھو بارڈر کی زندگی اس سے بہت ہی مختلف ہے۔ یہاں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی یا کسی ذات پات کا کوئی فرق نہیں ہے۔ سب کے دل آپس میں ملے ہوئے ہیں۔ ہر شخص کے دل اور زبان پر صرف ایک ہی مانگ ہے اور وہ یہ کہ حکومت جلد از جلد کسانی قانون واپس لے۔ یہاں ہر شخص کی پہچان محض کسان ہے اور وہ کسانوں کے حق میں ہم سفر ہے، خواہ وہ ہندو ہو، مسلمان ہو یا سکھ یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔
سنگھو بارڈر پر ان دنوں جو یکجہتی، آپسی بھائی چارہ اور ایکتا نظر آتی ہے وہ قابل دید ہے۔ آج میں جب یہ مضمون لکھ رہا ہوں تو یہ جمعہ کا دن ہے۔ پتہ نہیں آپ کو یقین آئے کہ نہیں، مگر یہ حقیقت ہے کہ سنگھو بارڈر پر آج اسی دھرنے کے درمیان نماز جمعہ ادا کی گئی اور ایک صف میں ایک سردار جی نے پگڑی لگا کر نماز بھی ادا کی۔ یہ ویڈیو خوب وائرل ہوا۔ جی ہاں، ایک ایسا سماجی اتحاد نظر آتا ہے کہ جس کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ خاص طور سے اس ’لو جہاد‘ اور ’ماب لنچنگ‘ کے دور میں اگر آپ کو یہ نظر آئے کہ کثیر سکھوں کے ہجوم میں ایک طرف نماز جمعہ ہو رہی ہے۔ نماز کے بعد مسلمان اپنے سکھ اور تمام بھائیوں کے لیے دسترخوان بچھا کر لنگر کر رہے ہیں اور سب ایک دسترخوان پر بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہیں۔ بس یہ دل کو چھو جانے والا منظر دیکھ کر آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور دل سے دعا نکلتی ہے اللہ اس ہندوستان کو کسی مودی کی نظر نہ لگے۔ اور میں ایک بات عرض کروں، سچ جانیے کہ سنگھو بارڈر پر جو سکھ-مسلم اتحاد نظر آ رہا ہے اب اس کو کسی کی نظر نہیں لگنے والی ہے۔
جب قوموں پر برے وقت پڑتے ہیں تو مصیبتوں سے قومیں سبق بھی حاصل کرتی ہیں۔ جہاں تک ہندوستانی مسلمانوں کا تعلق ہے تو اس نے تو آزادی کے بعد سے ہی فرقہ وارانہ دنگے دیکھے۔ وہ بھی گجرات جیسی نسل کشی کا دور بھی برداشت کیا۔ لیکن سنہ 1984 میں سکھوں پر بھی برا وقت پڑا۔ وہ سکھ جو پاکستان سے لٹ مر کر آیا تھا، اس کے دلوں میں ہندوستانی مسلمان کے لیے نفرت گھر کر گئی تھی۔ بات کسی حد تک شاید بجا بھی تھی۔ لیکن جب اس نے بابری مسجد گرتے دیکھا اور خود دنگے دیکھے تو اس کو پہلی بار یہ احساس ہوا کہ اس ملک کا مسلمان بھی اسی کی طرح اقلیت میں ہے اور اکثریت کا مارا ہوا ہے۔ پھر جب سکھ مخالف دنگے ہوئے تو مسلمانوں نے سکھوں کو پناہ دی۔ شاید اس تجربہ سے سکھوں کے دلوں میں جمی مسلم نفرت پگھل گئی۔ تب ہی تو جب شاہین باغ پر مسلم عورتوں نے کھلے آسمان کے نیچے دھرنا کیا تو پنجاب سے جوق در جوق سکھوں کے کارواں پنجاب سے شاہین باغ کی حمایت میں آئے اور وہاں مسلم عورتوں کے ساتھ شانہ بشانہ بیٹھے رہے۔ اور اس بھائی چارے کا یہ اثر ہوا کہ جب سنگھو بارڈر پر سکھ جمع ہوئے تو مسلمان ویسے ہی ان کی حمایت میں پہنچ گیا۔ اور اس ایک برس میں اس ملک میں ایک نئی سکھ-مسلم سماجی یکجہتی پیدا ہو گئی ہے جو آنے والے وقتوں تک قائم رہے گی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ سکھ-مسلم یکجہتی بڑی پرانی روایت تھی جس کو اورنگ زیب کے دور حکومت اور ہندوستان کے بٹوارے نے کمزور کر دیا تھا۔ سکھ مذہب کے بانی جناب گرو نانک دیو اسلام سے بے حد متاثر تھے۔ حد یہ ہے کہ وہ خاص طور سے اس وقت مکہ گئے۔ تب مکہ میں غیر مسلموں پر پابندی نہیں تھی۔ انھوں نے جو سکھ مذہب قائم کیا اس پر اسلام اور بالخصوص صوفی مسلک کا بہت گہرا اثر تھا۔ مثلاً گرودواروں میں جو لنگر کی رسم ہے وہ صوفیوں کی درگاہوں پر چلے آ رہے لنگر کی رسم سے لی گئی تھی۔ صوفیوں کا اثر پنجاب پر اس قدر تھا کہ سکھ حضرات بتاتے ہیں کہ مشہور صوفی حضرت بابا فرید گنج شکر کا کلام سکھوں کے گرنتھ صاحب میں بھی ملتا ہے۔ پھر بلّے شاہ اور بابا فرید کا صوفی کلام تو پنجاب میں ہر کی زبان پر ہے۔ چنانچہ سکھ-مسلم بھائی چارہ جو ادھر ایک عرصے سے کمزور ہو گیا تھا اس کو آر ایس ایس اور بی جے پی کی اکثریتی نفرت کی سیاست نے پھر سے زندہ کر دیا اور یہ ایک انتہائی خوش آئند بات ہے جو قائم اور دائم رہنی چاہیے۔
دراصل ہندوستان مختلف اقلیتوں کا ایک مجموعہ ہے۔ اگر اس ملک سے مسلمان ہٹا لیجیے تو پھر ہندو آپس میں ویسے ہی ذات پات میں بٹ جائیں گے جیسے اس ملک میں اسلام کی آمد سے قبل تھے۔ اگر اس نکتہ نگاہ سے آپ حالیہ سکھ-مسلم اتحاد پر نظر ڈالیں تو یہ بات صاف سمجھ میں آتی ہے کہ اس ملک کے مختلف گروہوں کے ساتھ ایسے سماجی اتحاد میں ہی مسلم بقا ہے۔ اور یہ اتحاد سیاسی سطح سے پہلے سماجی سطح پر پیدا ہونا ضروری ہے۔ مثلاً دلت-مسلم اتحاد کا نعرہ اب تقریباً ہر چناؤ کے موقع پر اٹھتا ہے۔ لیکن یہ اتحاد ابھی تک سہی معنوں میں کامیاب نہیں ہو رہا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سماجی سطح پر ابھی یہ اتحاد نہیں پیدا ہو سکا ہے۔ سماجی سطح پر یہ اتحاد تب ہی پیدا ہوگا جب دلتوں کی مشکل کے وقت مسلمان ان کے ساتھ کاندھا سے کاندھا ملا کر کھڑے ہوں۔ وہ ان کے ساتھ ایک دسترخوان پر ویسے ہی کھانا کھائیں جیسے ان دنوں سکھوں کے ساتھ کھا رہے ہیں۔ یہی اصل اسلامی تعلیم ہے، جو اس ملک کا مسلمان بھول گیا ہے۔ خورجا میں حال میں جب ایک دلت لڑکی کی عصمت دری ہوئی تو ایسے ہر موقع پر مسلم سماج دلتوں کے حق میں کھڑا ہونا چاہیے۔ اور سب سے زیادہ تہواروں اور خوشی کے موقع پر ان کے ساتھ میل ملاپ بڑھانا چاہیے۔ اگر سماجی یکجہتی پیدا ہوئی تو سیاسی یکجہتی خود بہ خود پیدا ہوگی۔
صرف یہی نہیں، ہندو سماج کی مختلف ذاتوں کے ساتھ بھی ان کے برے وقت پر خصوصاً بھائی چارے کا رویہ ہونا چاہیے۔ مثلاً، ان دنوں یو پی بارڈر پر جاٹ کسان اکٹھا ہیں۔ مغربی اتر پردیش کے مسلمانوں کو وہاں جا کر ویسے ہی لنگر کرنے چاہئیں۔ کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مظفر نگر دنگوں میں تو جاٹ آگے آگے تھے، تو پھر ہم ان کے ساتھ کیوں نرم برتاؤ کریں۔ سب بھول جائیے، اگر آپ ان کی مصیبت میں ان کے ساتھ نیک دلی اور خلوص کا رویہ کریں گے تو جاٹوں کے دل بھی ویسے پگھل سکتے ہیں جیسے سکھوں کے دل پگھل گئے۔
الغرض، شاہین باغ سے سنگھو بارڈر تک محض ایک سال کی مدت میں اس ملک میں ایک نئی سکھ-مسلم اتحاد کی شروعات ہو گئی جو انتہائی خوش آئند بات ہے۔ میری رائے میں مسلم سماج کے لیے اسی سماجی یکجہتی کی حکمت عملی میں ہی بقا ہے۔ ملک کے مختلف گروہوں اور فرقوں کے ساتھ اسی قسم کی سماجی یکجہتی پیدا کرنے کی ضرورت ہے جو بی جے پی کی نفرت کی دیوار ویسے ہی گرا سکتی ہے جیسے کہ اس وقت سنگھو بارڈر پر گر گئی ہے۔