سید نجیب الحسن زیدی
آج کے دور کا ایک اہم مسئلہ دشمن شناسی ہے۔ ہمارے لئے دشمن کی شناخت یوں تو ہر حال میں اہم ہونا چاہیے لیکن اس اعتبار سے یہ گفتگو اور بھی اہم ہے کہ ہم جس سماج میں زندگی گزار رہے ہیں ہزاروں سال سے وہاں مختلف ادیان و مذاہب کے ماننے والے رہتے آئے ہیں ایسے میں ضروری ہے کہ ایک طرف تو مجموعی طور پر قومیت کے معیار پر ہم اپنے دشمن کو پہچانیں اور دوسرے یہ ضروری ہے کہ مذہبی نقطہ نظر سے بھی ہمیں دشمن کی شناخت کرنا ضروری ہے۔
ہمارے سامنے یہ دنیا مقابلے کی جگہ ہے یہ رزم گاہ ہے اس میں بازی اس کی ہے جو بڑھ کر آگے کی چال چلے اور حریف کو پسپا کر دے اور اس بات میں دو رائے نہیں کہ ہر قسم کے مقابلے کیلئے دشمن کی پہچان پہلی ضرورت ہے، وہ معاشرے جوآج گمنامی کا شکار ہیں اور انہیں کوئی پوچھتا تک نہیں اگر ان کی تاریخ اٹھا کر دیکھی جائے تو نظر آئے گا کہ ان کی تباہی اسی وجہ سے ہوئی کہ انہوں نے دشمن کو پہچاننے میں غلطی کی اور آپ اگر کسی کامیاب قوم کو آگے بڑھتے اور تاریخ سے اس کی کامیابی کا راز معلوم کریں تو تاریخ یہی بتائے گی کہ کامیابی کے دیگر اصولوں کی رعایت کے ساتھ اس قوم کو ایک اور ہنر آتا ہے جس کی وجہ سے یہ کامیاب ہے وہ ہے دشمن کی صحیح شناخت اور اس کے حملوں کو پسپا کرنے کی طاقت۔ آج کے دور میں بھی بڑی طاقتیں اس بات پر بہت بجٹ لگاتی ہیں کہ دشمن کی شناخت حاصل کر سکیں لہذا پیچیدہ قسم کے سسٹم بنانے اور مٹانے کے بعد کہیں وہ ایسا فارمولہ بنا پاتی ہیں جس کے ذریعے دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھ سکیں اور یہی ان کی بڑی کامیابی کے طور پر جانا جاتا ہے کہ انہوں نے دشمن کو پہچان لیا ہے اور وہ اس کام کے لئے اربوں اور کھربوں کا بجٹ خرچ کر دیتی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ آج کی دنیا میں بھی یہ تسلیم شدہ اصل ہے کہ آگے بڑھنا ہے تو دشمن کی شناخت ضروری ہے۔
یقینا کسی بھی معاشرے یا فرد کی کامیابی میں ضروری ہے کہ مختلف پہلووں میں انسان یہ جان لے کہ اس کا دشمن کہاں اور کون ہے؟ اس لئے کہ جب تک انسان جانے گا نہیں اسے نقصان کہاں سے اور کون پہنچا رہا ہے تو اس کا سد باب نہیں کر سکےگا۔
فرض کریں انسان کی فطرت اس کا ماحول اس وقت تک سازگار نہ ہوگا جب تک اس پر حملہ کرنے والے کو نہ پہچانا جائے یہی وجہ ہے کہ انسان نے عالم طبیعت میں جب یہ پہچان لیا کہ مثلا اس کی طبیعت کے اضمحلال میں فلاں قسم کے میکروب اثر انداز ہوتے ہیں انسان کا بدن فلاں ماحول اور موسم میں حملوں کی زد میں ہوتا ہے تو انسان خود کو بچاتا ہے، انسان نے جب تک دنیا میں میکروب کی شناخت نہ کی تھی نہ جانے کتنے انسان انجانے میکروب و بیکٹریا کا شکار ہو کر چل بسے لیکن جب انسان نے پہچان لیا کہ میکروب کتنے قسم کے ہوتے ہیں اور انکا عمل کیا ہوتا ہے انکا سسٹم کیا ہے تو اب انسان نے اس کا علاج نکالا اسی لئے آج علم طب نے مختلف میکروبس سے لڑنے کی دوائیں تیار کر لی ہیں۔ دشمن بھی اسی طرح ہے جب تک پہچانا نہیں جائے گا اس کی زد پر آ کر معاشرہ خاموشی کے ساتھ موت کی آغوش میں سوتا رہے گا لیکن جب پہچان جائے گا ہمارا دشمن یہ ہے تو انسان اس سے مقابلہ کرے گا۔
آج اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کے دشمن کے حملوں کی زد اور ان کے ممکنہ نقصان سے پچنے کیلئے سب سے اہم اور بنیادی شرط دشمن شناسی ہے۔ اس بات میں کسی قسم کے شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کتنی ہی ایسی اقوام ہیں جو دشمن شناسی نہ ہونے کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں، یا دشمن سے غفلت کے نتیجہ میں اور بصیرت اور صحیح راستے کا علم نہ رکھنے کے باعث غیروں کے چنگل میں پھنس کر ان کا نوالہ بن گئیں۔ جس طرح ایک ماہر شطرنج باز کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے مد مقابل حریف کی فکر کو پڑھ لیتا ہے اور ایسی چال چلتا ہے کہ طرف مقابل بھول ہی جاتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے اسی طرح دشمن شناسی بھی ہے جو انسان اپنے دشمن اور اس کی چالوں سے واقف و با خبر ہوتا ہے وہ کبھی اس کی چال میں گرفتار نہیں ہوتا ہے لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان خود غفلت کا شکار نہ ہو اور بیدار ہو۔
چنانچہ امام خمینی رضوان اللہ تعالی علیہ اپنے ایک بیان میں فرماتے ہیں:
ہمیں غفلت کا شکار نہ ہو کرہمیشہ بیدار اور ہوشیار رہنا ہوگا، ہمیں چاہیئے کہ دشمن کی سازشوں کو عملی جامہ پہننے سے پہلے بھانپ لیں اور انہیں پہچان کر ناکام بنا دیں (1) لہذا ضروری ہے کہ انسان پر پل اور ہر لحظہ بیدار رہے اور اپنے دشمن سے ہوشیار رہے اگر وہ غفلت برتے گا تو ہلاکت اس کا مقدر ٹہرے گی جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں: جو اپنے دشمن کے مقابلے میں خواب غفلت کا شکار ہوگا تو پھر دشمن کا فریب ہی اسے چونکائے گا۔ (2)
دشمن کے سامنے غفلت کا مطلب اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرنا ہے رہبر انقلاب اسلامی ایک مقام پر فرماتے ہیں: میں آپ سے تاکید کرتا ہوں کہ اپنے دشمن کو پہچانیں، وہ قومیں ہلاک ہو گئیں جنہوں نے دشمن کو نہیں پہچانا، ایک قوم کو لاحق مختلف خطروں میں ایک خطرہ دشمن کو نہ پہچاننا یا پھر دشمن کو اپنا دوست سمجھنا ہے یہ ایک بڑا خطرہ ہے،یہ خواب غفلت میں سو جانا ہے،دشمن کو پہچاننا بھی ضرور ی ہے اس کے منصوبوں سے واقف ہونا اس کی چالوں کو جاننا بھی ضروری ہے اس کے دشمنی کے طریقوں سے آگاہی ضروری ہے کہ ہم دیکھیں وہ کیا کرتا ہے ؟ اس کی دشمنی کا انداز کیا ہے ؟ ہرگز غافل نہیں رہنا چاہیے اگر ایک پل کے لئے بھی ہم غافل ہو گئے تو برباد ہو جائیں گے اگر ہم غافل ہوئے توہم پر شبیخون مارا جاءے گا جیسا کہ امام علی علیہ السلام نے فرمایا:میں اس پرندہ کی طرح ہرگز نہیں ہوں جو عام طور پر جب سوتا ہے تو کچھ گنگایا جاتا ہے اس کے لئے لوریوں کی شکل میں کچھ پڑھا جاتا ہے اور وہ وہ جاتا ہے، میں ہرگز سونے والا نہیں ہوں میں جاگ رہاہوں اور دیکھ رہاہوں میرے اطراف میں کیا ہو رہا ہے، (3) ہم سے ہمارے ائمہ طاہرین نے یہی مطالبہ کیاہے کہ ہم جاگتے رہیں خواب غفلت کا شکار نہ ہوں۔ (4)
ایک اور مقام پر آپ فرماتے ہیں: جان لیں کہ ہمارا دشمن ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھا ہے بلکہ مسلسل منصوبہ بندی میں مشغول ہے اب ہمارا ہنر یہ ہے کہ ہم دشمن کے منصوبے کو اس کے فریب کو اس کی چال کو پہچان لیں اور جہاں سے وہ اپنی منصوبہ بندی کر رہا ہے جہاں سے ہم پر یلغار کر رہا ہے اس مقام کو پہچان لیں اور اس سے مقابلہ کرنے کا منصوبہ رکھتے ہوں مقابلے کا حوصلہ رکھتے ہوں (5) ہمارے پاس فکر ہو، دشمن کے سامنے سرتسلیم خم کرنا ہی تمام مصیبتوں اور آفتوں کی جڑ ہے
یقینا دشمن کو نہ پہچاننے کا نتیجہ قوم و ملت کی تباہی ہے اب جہاں ضروری ہے کہ ہم دشمن کو پہچانتے ہوں وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ حقیقی دشمن اور جھوٹے دشمن کو بھی پہچاننے کا ہنر رکھتے ہو تاکہ ایسا نہ ہو کہ دوست کو دشمن اور دشمن کو خدا نخواستہ اپنا دوست بنا لیں۔
دو نظریے؟:
ہر فکر و نظریئے کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ اس کے مقابل قرار پانے والے افراد اگر اس سے متفق نہیں ہوتے تو دو طرح کے رد عمل کو پیش کرتے ہیں:
۱۔ یا تو اس نظریئے کے واضح طور پر مخالف ہوتے ہیں اور سر عام اس کی مخالفت کا اعلان کرتے ہیں اور اسے تسلیم نہیں کرتے اگر یہ تسلیم نہ کرنا محض اس لئے ہو کہ انہیں نظریئے میں کچھ لوچ نظر آتی ہے اور ان کے لئے یہ نظریہ واضح دلیلوں کے بنیاد پر قابل قبول نہیں ہوتا اور ان کی مخالفت مبنایی اور اصولی ہوتی ہے تو اسے مخالف کہا جاتا ہے لیکن جب یہی مخالفت بغیر کسی مبنیٰ کے عناد کی بنیا د پر ہو تو اسے دشمن سے تعبیر کیا جاتا ہے مخالفت کا بالکل واضح و آشکار ہونا واضح دشمنی کی دلیل ہے لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان عناد بھی رکھتا ہے اور مخالف بھی ہوتا ہے مخالفت بھی کوئی مبنائی نہیں ہوتی بےمبنیٰ مخالفت اسے عناد کی آگ میں جلاتی ہے اور وہ اسے دل میں رکھتا ہے اپنے اہداف و مقاصد تک پہنچنے کے لئے نفاق (منافقت) کا سہارا لیتا ہے اس کا سارا ہم و غم یہ رہتا ہے کہ ابھی حالات سازگار نہیں ہیں جیسے ہی سازگار ہوں گے ہم اپنا کام کرلیں گے لہذا ایسے مخالفین کبھی کھل کر میدان میں نہیں آتے پس پردہ اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔
انہیں پوشیدہ دشمن کہا جاتا ہے یہ دشمن واضح اور آشکار دشمن سے بہت خطرناک ہوتا ہے اتنا خطرناک کہ آستین تک در آتا ہے اور جب باہر نکلتا ہے تو آستین سے سرسرا کر کسی دوسری کی آستین میں پہنچ جاتا ہے جبکہ صاحب آستین کا کام تمام ہو چکا ہوتا ہے لہذا ضروری ہے ہم دشمن کو پہچانیں تاکہ نہ سامنے سے حملہ کرنے والے کو موقع دیں نہ چھپ کر حملہ کرنے والے کو حملہ کرنے کی فرصت نصیب ہو سکے۔
دشمن شناسی کا پہلا مرحلہ:
دشمن شناسی کے پہلے مرحلے میں ضروری ہے کہ انسان اپنے فکری خطوط کو معین کرے اپنے ہدف کی تعیین کرے اپنے اقدار واغراض کو پہچانے اور دوست و دشمن کا ایک جامع معیار بنائے تاکہ اس کے مطابق دوست و دشمن میں تمیز کر سکے اور اس سلسلے میں وہم و مغالطہ کا شکار نہ ہو لہذا ایسی تعریف ضروری ہے جو تمام افراد پر مشتمل ہو اور جو دشمن نہ ہو اس میں شامل نہ ہو، علماء کے بقول جامع و مانع ہو۔ (6)
جب دشمن کی بات آتی ہے اور ہم اس کی تعریف تلاش کرتے ہیں تو ہمیں مشکل کا سامنا یقینی ہے اس لئے کہ اگر ملاک و معیار ہماری دنیا بن گئی یا دنیا کی کوئی بھی ایسی چیز جس کا حصول ہمارا مقصد ہے تو جو بھی اس کے لئے رکاوٹ ہوگا وہ ہمارا دشمن ٹہرے گا جبکہ واضح سی بات ہے دشمنی کا یہ معیار ثابت نہیں ہے اور دنیا کے مفادات کے ساتھ بدلتا رہے گا ایسے میں ممکن ہے دنیا کے حصول میں ہم آنکھ کان بند کر کے لگ جائیں اور آخرت کو بھلا دیں اور ہمارا کوئی دوست دنیا طلبی کی راہ میں ہمارا مانع ہو تو وہ ہماری نظر میں دشمن بن جائے، جبکہ حقیقت میں دیکھا جائے تو وہ ہمارا دشمن ہرگز نہیں بلکہ ہمارا بہی خواہ ہے۔ اب ایسے میں سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ ہم سمجھیں کہ حقیقت میں دشمن ہوتا کون ہے تاکہ اس کے معنی کے روشنی میں ہم اس کی تطبیق اس طرح کر سکیں جو حقیقت مبنی ہو۔
دشمن کے لغوی و اصطلاحی معنی:
عدو، مادہ عدو، عداء ساکن سے تجاوز کرنے کے معنی میں ہے (7) اسی لئے دشمنی کو اعدی علیہ، یعنی اس پر تجاوز کیا کے طور پر پیش کیا گیا (8) تجاوز کرنا اور حد سے گذر جانے کو ظلم کے معنی میں بھی بیان کیا گیا۔ (9)
دشمن کے اصطلاحی معنی کو اس طرح بیان کیا گیا ہے: عدو یعنی دشمن، وہ دشمن جو دل میں بغض رکھتا ہے اور اسی بغض کے مطابق عمل انجام دیتا ہے (10) اسی لئے بغض رکھتے ہوئے انسان کسی کو گرانے کے لئے دل میں پائی جانے والی نفرت کے مطابق کسی کے لئے کچھ کرے تو اسے عداوت کہتے ہیں:
دشمن کی لغوی و اصطلاحی تعریف کے بعد اب ہمیں اس کی قسموں کو بھی دیکھنا ہوگا:
دشمنی دو طرح کی ہو سکتی ہے: ایک وہ جس کے اندر نفرت و دشمنی کی آگ جل رہی ہو جیسے کسی کو قتل کر دیا گیا ہو اور اس کے وارث انتقام کے در پہ ہوں جس کی طرف قرآن میں بھی اشارہ ہے۔ (11)
دوسرا وہ جہاں انسان کسی چیز سے ناراض ہے اور کسی پر غضباک ہے جیسے جناب ابراہیم کی کیفیت بتوں کے سلسلے سے تھی کہ آپ انہیں دشمن تعبیر کرتے ہیں جبکہ وہ بے جان ہیں اور آپ کو کوئی نقصان بھی پہچاننے والے نہیں ہے لیکن آپ انہیں اس لئے دشمن قرار دیتے ہیں (12) کہ آپ کی اذیت کا سبب تھے اور کافر انہیں خدا مانتے تھے۔
یقینا دونوں ہی قسم کے دشمن کا معیار اگر اللہ کا دین اور اس کی کتاب ہو تو انسان دشمن کے پہچاننے میں غلطی کا مرتکب نہیں ہوگا کیونکہ جہاں قرآن نے مختلف مقامات پر دشمن کے سلسلے سے متوجہ کیا ہے (13) وہیں ان لوگوں کو بھی واضح طور پر پہچنوا دیا ہے جو خدا، دین خدا اور کتاب خدا کے دشمن ہیں قرآن کریم و روایات کی روشنی میں کسے دشمن کہا گیا ہے اور اس کا کیونکر مقابلہ کیا جائے؟ یہ اپنی جگہ خود ایک مستقل موضوع ہے، فی الحال جس بات کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے وہ یہ کہ ہماری دشمن شناسی ہی کا ضعف ہے کہ دشمن ہمارے سر پر چڑھا آ رہا ہے اور ہم اس کا کچھ نہیں بگاڑ پا رہے ہیں۔
ٹرمپ کا حالیہ قدم کس بات کی علامت ہے؟ جس کی بنا پر پوری ملت اسلامیہ میں غم و غصے کی لہر دوڑی ہوئی ہے اور وہ بیت المقدس کو امریکہ کی جانب سے اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنا اور مسلم دنیا کا سراپا احتجاج بننا، تعجب ہے کہ 57 اسلامی ممالک مل کر بھی امریکہ کے ایک بہروپیے کا جواب نہیں دے پا رہے ہیں اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ جو قرار داد سلامتی کونسل میں امریکہ کے اس اقدام کی مخالفت میں تھی اسے بھی امریکہ نے ویٹو کر دیا۔ کیا یہ دشمن شناسی کا ضعف نہیں ہے کیا ایسا نہیں ہے کہ ابھی تک ہم نے دشمن اور اس کی چالوں کو نہیں سمجھا ہے؟ اگر سمجھا ہوتا تو قطعی طور پر ہم دشمن کو موقع نہ دیتے کہ وہ ہمارے مقدسات کے ساتھ کھلواڑ کرتا۔
کاش تمام اسلامی ممالک مل کر اس سلسلے سے کوئی ٹھوس لائحہ عمل تیار کرتے اور زبانی جمع خرچ پر اکتفا نہ کرتے تو ہرگز ایسا نہ ہوتا کہ دنیا کا ایک ملک ساری دنیا میں اپنی چودھراہٹ قائم کرتے ہوئے اپنے ناجائز بچے کے لئے کروڑوں لوگوں کی عقیدت سے کھلواڑ کرتا۔
جس بیت المقدس کو امریکہ نے اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر قبول کیا ہے ذرا اس پر نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا کہ کس طرح امریکہ نے صرف مسلمانوں ہی کا نہیں پوری انسانیت کا مذاق اڑایا ہے، اقوام متحدہ کا مذاق اڑایا ہے۔ ایسے میں کہاں ہیں انسانی حقوق کے بڑے فریادی؟ کیا ا نہیں نظر نہیں آتا کہ کس طرح واضح طور پر خود ان کے بنائے اپنے اصولوں کو روندا جا رہا ہے؟ کون اس حقیقت سے واقف نہیں ہے کہ جب اسرائیل نے فلسطین کی زمین پر ناجائز قبضہ کیا تھا اور برطانیہ کی سرپرستی میں جب اسرائیل کا قیام عمل میں لایا گیا تو یہ بات طے کر دی گئی کہ یروشلم کا شہر اسرائیل کاحصہ نہیں ہو گا۔ 29 نومبر 1947ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد نمبر 181 کے تحت طے کر دیا تھا کہ یروشلم کی حیثیت کسی ایک ریاست کا حصہ نہ ہو کر مشترکہ ہوگی جسے "Corpus Separatuکہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب کہ یہ شہر اب کسی ایک ریاست کا حصہ نہیں ہے۔ اس کی الگ اور جداگانہ حیثیت ہے۔ اقوام متحدہ نے کہا کہ چونکہ اس شہر کی مذہبی حیثیت ایسی ہے کہ یہ تینوں مذاہب کے لیے محترم ہے، اسے لیے اس علاقے میں اسرائیل اور فلسطین نام سے دو ریاستیں تو وجود میں آ رہی ہیں، لیکن یروشلم کا شہر "Corpus Separatum ہوگا، اورا س کا انتظام اقوام متحدہ چلائے گی۔ یہی بات جنرل اسمبلی نے گیارہ ستمبر 1948 کی اپنی قرارداد نمبر194 میں کہی اور اسی بات کا اعادہ فلسطین پر اقوام متحدہ کے کمیشن (UNCCP) نے1949 میں سوئٹزرلینڈ کے شہر لازین میں اس کانفرنس میں کیا جو 27 اپریل سے 12ستمبر تک جاری رہی۔ اسرائیل نے 1949 میں مصر، اردن، شام اور لبنان سے معاہدے کیے جنہیں "Armistice Agreement یعنی صلح کے معاہدے کہا جاتا ہے، ان میں بھی یروشلم شہر کی یہ حیثیت برقرار رکھی گئی اب سوال یہ ہے کہ ناجائز طور پر اسرائیل کو وجود بخشنے والا برطانیہ جب دیکھ رہا ہے کہ خود اس کی سرپرستی میں جو قانون بنا تھا اب وہی پیروں تلے روندا جا رہا ہے تو یہ خموشی کیوں ہے؟ اقوام متحدہ کی قرار داد ویٹو کر کے ردی کی ٹوکری میں ڈال دی جاتی ہے ایسے میں کیا اب کوئی شک و شبہہ ہے کہ یہ امریکہ کسی ایک مذہب و مسلک کا نہیں پوری انسانیت کا دشمن ہے؟ یہ صرف اپنے مفادات کا غلام ہے اسے جہاں ملیں یہ اس طرف جائے گا تو کیا اسلامی ممالک کی ذمہ داری اب دوہری نہیں ہوتی کہ وہ آگے بڑھیں ایک تو اسلام کی خاطر دوسرے انسانیت کی خاطر ایک ایسے دیوانے کو لگام دیں جو تاریخ کو مسخ کر دینے کے درپے ہے۔ لیکن افسوس جب مسلمان ممالک اپنے سب سے بڑے دشمن ہی کی گودی میں جا بیٹھے ہیں اور انکا دانہ پانی بھی یہی دشمن دے رہا ہے تاکہ وقت ضرورت سود سمیت وصول کرے تو ایسے میں مسلم حکمرانوں سے توقع رکھنا بے سود ہے ہاں یقینا مسلمانان عالم ضرور اس انداز سے احتجاج کر سکتے ہیں کہ جن کے بل پر نام نہاد حکمرانوں کو ان کے تخت اپنے پیروں تلے کھسکتے نظر آئیں اور انہیں اپنے کئے دھرے کا حساب دینا پڑ جائے۔
ان شاء اللہ المستعان اگر ہم اور آپ نے اسی طرح مسلسل احتجاج کیا تو خدا کی نصرت ہمارے شامل حال ہوگی اور ہم ایک دن بیت المقدس کو آزاد کرانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1۔ صحیفہ نور ج7 ص48
2۔ غررالحکم ج5 ص344۔
3۔۔ نہج البلاغہ، خطبہ 6۔
وَ اللَّهِ لَا أَكُونُ كَالضَّبُعِ تَنَامُ عَلَى طُولِ اللَّدْمِ حَتَّى يَصِلَ إِلَيْهَا طَالِبُهَا وَ يَخْتِلَهَا رَاصِدُهَا وَ لَكِنِّي أَضْرِبُ بِالْمُقْبِلِ إِلَى الْحَقِّ الْمُدْبِرَ عَنْهُ وَ بِالسَّامِعِ الْمُطِيعِ الْعَاصِيَ الْمُرِيبَ أَبَداً حَتَّى يَأْتِيَ عَلَيَّ يَوْمِي فَوَاللَّهِ مَا زِلْتُ مَدْفُوعاً عَنْ حَقِّي مُسْتَأْثَراً عَلَيَّ مُنْذُ قَبَضَ اللَّهُ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ حَتَّى يَوْمِ النَّاسِ هَذَا .
4۔ http://farsi.khamenei.ir/newspart-index?tid=5393
5. اِیضا۔
6۔ مزید تفصِل کے لئے ملاحظہ ہو دشمن شناسی، ص11، علی شیرازی، موسسہ فرہنگی خادم الرضا علیہ السلام
7۔ العدو وھو التعدی فی الامر وتجاوز ما ینبغی لہ ان یقتصر علیہ العداوۃ، العین، کلیل بن احمد فراہیدی، ج2، ص313، لسان العرب، ج15، ص33، مجمع البحرین، ج1، ص283، معجم مقاییس اللغۃ ج4، ص249۔
8۔ ایضا
9۔ والعدوان ولاعتداء، لسان العرب، ج15، ص33۔
10۔ قاموس قرآن، ج4، ص35۔
11۔ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ، نساء 92.
12۔ فَإِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّي إِلَّا رَبَّ الْعَالَمِينَ، شعراء 77.
13۔ ایک سو چھ بار کلمہ عدو اور اس کے مشتقات قرآن میں بیان ہوئے ہیں، المعجم الاحصائی، ج1، ص 492۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)