-
مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور غزہ
- سیاسی
- گھر
مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور غزہ
688
m.u.h
21/11/2023
1
0
تحریر:عادل فراز
غزہ پوری طرح تباہ ہوچکاہے ۔ہر طرف وحشت کا ننگا ناچ ہے ۔ننھے مُنے بچوں کی خون آلود لاشیں،مائوں کی دل خراش چیخیں ،شہیدوں کے جنازے اور مسلسل اسرائیل کی بمباری کی جو روح فرسا ویڈیو ز اور تصویریں سامنے آرہی ہیں ،اس سے اندازہ ہوتاہے کہ غزہ میں کشتوں کے پشتے لگ گئے ہیں اور انسانیت پامال ہوچکی ہے ۔مظلوم اور بے گناہ فلسطینیوں کی نسل کشی کی جاری ہے ۔صہیونی فوجیں غزہ میں داخل ہوچکی ہیں ۔ان کے مذہبی پیشوا مفتوحہ علاقوں میں مذہبی رسوم اداکرکے عربوں کا منہ چڑھارہے ہیں ۔صہیونی فوجییں لاشوں پر رقص کررہی ہیں ۔اسپتال مسجدیں،کلیسا اور رفاہی عمارتیں زمیں بوس کردی گئی ہیں ۔طبی سازوسامان کی قلت کی بناپر زخمیوں کا علاج نہیں ہوپارہاہے ۔الشفا اسپتال پر ہوئے حملے میں زیر علاج تقریباً تمام افراد کی موت ہوگئی ہے ۔حتیٰ کہ پناہ گزین کیمپوں پر بھی حملے کئے گئے ۔جو لوگ غزہ سے نقل مکانی کررہے ہیں انہیں بھی ہدف بنایا جارہاہے ۔انسانی امدا کے راستے پوری طرح نہیں کھلے ہیں ۔مصر اسرائیل کے سامنے بے بس نظر آرہاہے ۔اور مصر ہی نہیں بلکہ تمام مسلمان حکومتیں وحشت ناک جنگ کا تماشا دیکھ رہی ہیں۔
اسرائیل کو اب یہ یقین ہوچلاہے کہ مسلمان ملک غزہ کی جنگ میں کسی طرح کا تعاون نہیں کریں گے ۔اس لئے اس نے غزہ پر وحشیانہ حملوں میں اضافہ کردیاہے ۔اوآئی سی اجلاس میں بھی تمام مسلمان ممالک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہونچ سکے ۔یہ اجلاس بھی مذمتی قرارداد،جنگ بندی اور غزہ تک انسانی امداد پہونچانے کے مطالبے پرختم ہوگیا ۔دنیا بھرکے مسلمان یہ توقع کررہے تھے کہ شاید اس اجلاس میں مسلمان ملک اسرائیل کے خلاف کوئی واضح اور سخت موقف اختیارکریں گے مگر ایسانہیں ہوا۔عرب حکمرانوں کی مجبوری یہ ہے کہ ان کی معیشت کا سارا انحصار یوروپ پر ہے ۔دفاعی نظام امریکہ کے ہاتھوں میں ہے ۔حتیٰ کہ ان کے داخلی معاملات بھی ان کے اختیار میں نہیں ہیں ۔اس میں سعودی عرب سرفہرست ہے ۔اس لئے عرب حکمران کبھی اسرائیل پر حملے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے ۔اس طرح انکی حکومت خطرے میں آجائے گی اور داخلی نظام پر فوراًامریکی فوجیں مسلط ہوجائیں گی ۔
ترکی جونشاۃ ثانیہ کی تلاش میں ہے ،خلافت عثمانیہ کے احیاکے لئےاس کی کوششیں ’ارتغرل غازی ‘ اور ’کورولش عثمان‘ جیسے سیریل بنانے سے آگے نہیں بڑھ سکیں۔ اردوغان نے اسرائیل کو دہشت گرد قراردینے کا مطالبہ کیاہے ،لیکن یہ مطالبہ فقط عالم اسلام کو دھوکہ دینے کے لئے ہے ۔ترکی ناٹوکا حصہ ہے اس لئے وہ ناٹو ممالک کی پالیسی کے خلاف نہیں جاسکتا۔اس کے یہاں امریکی ائیربیس موجود ہے اور امریکی فوجیں بھی ۔اس لئے اردوغان بخوبی جانتے ہیں کہ اسرائیل کے خلاف جنگ کے اعلان کا نقصان انہیں براہ راست پہونچے گا۔ترکی نے شام اور عراق پر حملے میں امریکہ کا بھرپور ساتھ دیا تھا ۔آج تک ترکی فوجیں شام میں موجود ہیں ۔داعش کے خاتمے کے بہانے بشارالاسد کی حکومت کو ختم کرنے کا خواب دیکھنے والے اردوغان اسرائیل پر حملے کا خواب تک نہیں دیکھ سکتے ۔کیا ترکی اسرائیل کو دہشت گرد ملک قراردے کر اس پر حملہ کرنے کی جرأت کرسکتاہے؟ہرگز نہیں!یہ مطالبہ صرف ایک چھلاواہے ،جسے ترکی نوازوں کو سمجھناچاہیے ۔
ظاہری طورپر ایران بھی اس جنگ سے ابھی تک دور ہے ۔اس کی بنیادی وجہ حماس کی غیر مناسب حکمت عملی اور اتحادی طاقتوں کی عدم اعتمادی ہے ۔حماس نے آپریش ’طوفان الاقصیٰ‘ سے پہلے ایران سمیت دیگر اتحادی تنظیموں کو باخبر نہیں کیا ۔ظاہر ہے ایران اور اس کے زیر اثر تمام مقاومتی تنظیمیں حماس کی علیٰ الاعلان حمایت کرتی رہی ہیں ،لیکن ’طوفان الاقصیٰ ‘ کے خود مختار فیصلے نے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہونچائی ہے ،جیساکہ حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنے خطاب میں کہاتھا ۔’طوفان الاقصیٰ‘ کے بعد لبنان کی سرحدوں پر کشیدگی بڑھ گئی تھی کیونکہ اسرائیل کو پورا یقین تھاکہ ’طوفان الاقصیٰ‘ ایران اور حزب اللہ کی ایما پر کیا گیا آپریشن ہے ،جبکہ ایران اور حزب اللہ نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے اسے خالص فلسطینیوں کے آپریشن سے تعبیر کیاتھا ۔اگرآپریشن ’طوفان الاقصیٰ‘ ایران اور اتحادی مقاومتی تنظیموں کی ایما پر کیا گیا ہوتا تو اس جنگ کا نقشہ کچھ اور ہوتا ۔اس کے باوجود حزب اللہ اور دیگر مقاومتی تنظیموں نے غزہ کو تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیا ۔حزب اللہ کے درجنوں جوان اب تک اسرائیلی حملوں میں مارے جاچکے ہیں ۔انصاراللہ یمن نے حماس کی حمایت کا کھلا اعلان کیاہے ۔حتیٰ کہ یمن کی فوج نے بھی اسرائیل پر میزائیل داغے ہیں ۔دوسری طرف عراق کی مقاومتی تنظیموں نے بھی فلسطین کی حمایت کااعلان کیا اور عراقی جوان لبنانی سرحدوں پر حزب اللہ کے ساتھ میدان میں موجود ہیں ۔اب سوال ان لوگوں سے کیاجاناچاہیے جو یہ الزامات عائد کررہے ہیں کہ ایران نے فلسطینیوں کو ورغلاکر موت کے کنویں میں دھکیل دیاہے ۔آیا فلسطینی کاز کی حمایت تنہا ایران کا فریضہ ہے؟ اس پورے منظرنامے میں عرب ملک کہاں ہیں ؟ عرب ملکوں نے جنگ بندی اور انسانی امداد کے راستے کھلوانے میں کونسا کلیدی کردار اداکیاہے ؟اگر عرب ملک اسرائیل کے خلاف متحد ہوکر میدان عمل میں اترتے تویہ جنگ بہت پہلے ختم ہوچکی ہوتی ۔مصر جیسی طاقت رفح کراسنگ کو پوری طرح کھلوانے میں ناکام ہے ۔ایرانی امداد کو اسرائیل کی اجازت نہ ملنے کے سبب مصر نے معذرت کے ساتھ واپس بھیج دیاہے ۔اگر عربوں نے غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کیاہوتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی ۔ڈونالڈ ٹرمپ کے عہد اقتدارمیں فلسطین مخالف ’صدی معاہدہ‘ کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے میں عرب ملکوں کا بڑا دخل تھا ۔اس کے بعد یروشلم کو اسرائیل کا پایۂ تخت تسلیم کرلیا گیا ،یہ الگ بات کہ بعض عرب ملکوں نے اپنی ساکھ بچانے کے لئے ظاہراً اس فیصلےکو قبول نہیں کیا ۔
مسلمان ملکوں سے بہتر تو وہ غیر مسلم ہیں جو امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں میں اپنی حکومتوں کی بے حسی اور آمریت کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ۔حتیٰ کہ یہودیوں نے صہیونی حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مظلوم فلسطینیوں کی بھرپور حمایت کی ۔انہوں نے احتجاج کے دوران جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ ’ ہمارے نام پر بے گناہوں کی نسل کشی کو روکا جائے ‘۔کیونکہ صہیونی غزہ میں جو کچھ کررہےہیں اس سے پوری دنیا میں یہودیت بدنام ہورہی ہے بلکہ ان کو عد م تحفظ کا احساس بھی ستارہاہے ۔مسلمان ملکوں میں احتجاج ضرور ہوئے مگر کیا وہ احتجاج اتنے موثر تھے کہ وہ اپنی حکومتوں کو غزہ کی حمایت پر آمادہ کرپاتے ؟ اگر ایسا ہوتا تو مسلمان ملک اوآئی سی اجلاس میں کسی حتمی نتیجے تک پہونچتے اور غزہ کی علیٰ الاعلان حمایت کا اعلان کرتے ۔مگر ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ عرب حکمرانوں پر استعماری طاقتوں کا ان کی عوام سے زیادہ دبائو ہے ۔اگر وہ اسرائیل کے خلاف سخت موقف اختیار کرتے تو ان کے نیچے سے اقتدار کی کرسی کھینچ لی جاتی ۔عربوں کی حکومتیں مکڑی کے جالے سے زیادہ کمزور ہیں ،اس لئے ان سے زیادہ توقع رکھنا اسلامی حمیت کے ساتھ زیادتی ہے ۔
دوسری طرف اقوام متحدہ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کی قرارداد کو منظوری مل گئی ہے ۔البتہ امریکہ ،برطانیہ اور روس نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا ۔اقوام متحدہ میں جنگ بندی کے لئے اس سے پہلے بھی پیش رفت ہوئی ہے ،لیکن ہر بار امریکہ نے اسے ویٹو کردیا۔دیکھنا یہ ہے کہ جنگ بندی کے لئے جو شرائط رکھی گئی ہیں فریقین تسلیم کرتے ہیں یا نہیں ۔کیونکہ اسرائیل جنگ بندی کی اپیلوں کو مسلسل مسترد کرتا رہاہے اور اس میں اسے امریکہ کی پوری حمایت حاصل ہے ۔ اگر امریکہ جنگ بندی کے لئے سنجیدہ کوشش کرتا تو جنگ اس خوف ناک مرحلے میں داخل نہیں ہوتی ۔
غزہ پر اسرائیلی قبضے کے بعد مسلمان ملکوں کو اپنی حکمت عملی اور وجود کے بارے میں دوبارہ غور کرنا ہوگا ۔کیونکہ غزہ پر قبضے کے بعد استعماری طاقتیں اپنا دوسرا ہدف تلاش کریں گی ۔اگر عراق اور افغانستان کی بربادی کے وقت مسلمان ملک متحد ہوجاتے تو آج غزہ پر اسرائیل اس طرح حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔ناٹو کے مقابلے میں متبادل فوجی اتحاد کی دنیا کو سخت ضرورت ہے ۔اگر ناٹو کے خلاف متحدہ فوجی محاذ وجود میں نہیں آیا تو بہت جلد مشرق وسطیٰ میں امریکی پرچم لہراتے نظر آئیں گے ۔اس جنگ کے بعد کوئی بھی اگلا ہدف ہوسکتاہے ۔عربوں کو سوچناہوگا کہ بزدلوں اور کمزوروں کی کوئی زمین نہیں ہوتی ۔اگر وہ خواب غفلت سے بیدار نہیں ہوئے تو انہیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑےگی ۔اس وقت مشرق وسطیٰ میں کئی مقاومتی محاذ موجود ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ عرب ملک ان مقاومتی محاذوں کے ساتھ مخلصانہ اتحاد قائم کریں ۔دفاعی اورداخلی نظام کا اختیار اپنی فوجوں کے سپرد کریں ۔امریکی فوجوں کو اپنے سرحدوں سے باہر نکال کر اپنی عربی حمیت اور شجاعت کا مظاہرہ کریں ۔اگر ایسانہیںہوا توغزہ کے بعد ہم دوسری خوفناک تباہی کا منظر بہت جلد دیکھیں گے ۔