-
ہندوستان - روس تعلقات نئی بلندیوں پر
- سیاسی
- گھر
ہندوستان - روس تعلقات نئی بلندیوں پر
381
m.u.h
10/07/2022
0
0
تحریر:اسد مرزا
گزشتہ چھ ماہ سے جاری روس-یوکرین جنگ کے دوران ہندوستان کی جانب سے جہاں ایک طرف روس کی حمایت بغیر کسی لغزش سے مستقل مزاجی کے ساتھ جاری ہے، وہیں دوسری جانب روس ان تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے اپنی کچھ شرطیں بھی سامنے لانے کی کوشش کررہا ہے۔ یہ بات سمجھ میں نہ آنے والی ہے کہ روس موجودہ حالات میں کیوں ان شرطوں کے تحت ہندوستان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔ لیکن سفارتی حلقوں کا ماننا ہے کہ روس اسی طرح سفارتی ذرائع کے ذریعے اپنی عالمی عمل داری میں اضافہ کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے اور یہ کوئی نہیں بات نہیں۔ساتھ ہی جس طریقے سے ہندوستان اس موضوع پر اپنی خارجہ پالیسی لے کر چل رہا ہے وہ اس دباؤ کا بھی سامنے کرنے میں کامیاب رہے گا۔
ہندوستان میں رو سی سفیر ڈینس علی پوف نے کہا ہے کہ BRICS کی توسیع کی تجویز کو 14ویں BRICS سربراہی اجلاس میں ''اصولی حمایت'' حاصل ہوئی تھی جس کی میزبانی چین نے 23-24 جون کے دوران کی تھی۔ روسی سرکاری خبر رساں ادارے ”سپوتنک“ سے بات کرتے ہوئے، مسٹر علی پوف نے اس بات کا اعادہ کیا کہ BRICS کو وسعت دینے کا فیصلہ اراکین کے درمیان وسیع بحث کے بعد کیا جائے گا اور یہ کہ روس سمجھتا ہے کہ ہندوستان اپنی ''اسٹریٹجک خودمختاری کو محفوظ رکھنا'' اور بلاک کی تشکیل کو مسترد کرنے والی بڑی مغربی طاقتوں کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتا ہے، جو کہ روس کے لیے قابلِ قبول ہے۔
روس کے سفیر ڈینس علی پوف نے منگل ۶/جولائی کو کہا کہ روس کثیرالجہتی فورمز میں اسے الگ تھلگ کرنے کی کوششوں کی حمایت نہ کرنے پر بھارت کی تعریف کرتا ہے اور دونوں ممالک کے درمیان دو طرفہ تجارت بڑھ رہی ہے۔
مسٹر علی پوف نے یوکرین کے بحران کے بارے میں نئی دہلی کے اس جائزے پر شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ''واضح طور پر وہ موجودہ جیو پولیٹیکل اور جیو اکنامک صورتحال کے پس منظر اور یوکرین میں روس کے اقدامات کی جبری نوعیت کو سمجھتے ہیں۔“ انہوں نے کہا کہ ہندوستان روس کے ساتھ اپنے روابط کے حوالے سے مغربی دباؤ کے سامنے نہیں جھکا کیونکہ دہلی-ماسکو تعلقات ''ایک گہری اسٹریٹجک بنیاد پر قائم ہیں، جس کی مضبوطی نہ صرف گہری تاریخی جڑوں سے ہے، بلکہ اس مشترکہ وژن سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی نظام کس طرح چلنا چاہیے۔“
مسٹر علی پوف نے روس کے اس تجزیے کا بھی ذکر کیا کہ ہندوستان مغربی ممالک کی ”بلاکس محاذ آرائی کی تمثیل“ سے آزاد رہنا چاہتا ہے اور کہا، ”قومی مفادات اور ایک ملک کی اپنی اسٹریٹجک خودمختاری کو برقرار رکھنے کی ضرورت یہ رہنمائی کرتی ہے کہ ہندوستانی کس طرح عمل کرتے ہیں، لکیروں کو تقسیم کرنے کے تصور کو مسترد کرتے ہوئے۔“
ان کے یہ تبصرے وزیر اعظم نریندر مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان یوکرین کے بحران کے پس منظر میں عالمی توانائی اور خوراک کی منڈیوں کی حالت پر تبادلہ خیال کے چند دن بعد آئے ہیں۔بھارت نے ابھی تک یوکرین پر روسی حملے کی مذمت نہیں کی ہے اور وہ مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے تنازعہ کے حل کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔
روسی تیل
تازہ ترین برکس سربراہی اجلاس کے دوران، چینی صدر شی جن پنگ نے نئے اتحاد بنانے کے مغربی رجحان پر تنقید کی جس میں انھوں نے QUAD، AUKUS، IPEFکی تنقید کی اور ان سب کو انھوں نے ''اونچی باڑ والا چھوٹا صحن'' کی ذہنیت سے تشبیہ دی۔ اسی چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے چین نے تیرہ ممالک کو برکس کے سربراہی اجلاس میں بطور مہمانِ خان مدعو کیا تھا۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے حکام نے بھارت کے اعتراض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ چین اسلام آباد سے نمائندوں کو مدعو کرنا چاہتا تھا لیکن ”ایک رکن ملک“ نے ایسا نہیں ہونے دیا۔
روسی افواج کے یوکرین پر حملے کے آغاز کے بعد سے، جسے روسی فریق ''خصوصی فوجی آپریشن'' کے طور پر بیان کرتا ہے، ہندوستان اور چین نے مغربی اعتراضات کو نظر انداز کیا ہے اور روس کے یورال خام تیل کے بڑے خریدار کے طور پر ابھرے ہیں۔ مسٹر علی پوف نے اشارہ کیا کہ برکس کے ممبران عالمی پیشرفت کو ایک مختلف نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں اور کہا، ''اہم بات یہ ہے کہ پانچ ممالک (برازیل، روس، ہندوستان، چین اور جنوبی افریقہ) ایک طاقتور پیغام بھیجتے ہیں کہ وہ ایک مشترکہ فہم رکھتے ہیں عالمی عمل کے لیے۔ بین الاقوامی تجارت میں کسی بھی امتیازی اقدامات کے مسخ کرنے والے اثرات کے بارے میں مشترکہ منفی رویہ کا مظاہرہ بھی کیا گیا تھا۔
عالمی ریزرو کرنسی
برکس کی رکنیت کو بڑھانے کے علاوہ، تازہ ترین سربراہی اجلاس میں امریکی ڈالر کو واحد عالمی ریزرو کرنسی کے طور پر تبدیل کرنے کی روس کی تجویز پر بھی بحث کی گئی، کیونکہ ڈالر کے غلبے کو ماسکو کے خلاف اقتصادی جنگ کے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ پریشانی کے بغیر بین الاقوامی تجارت کے لیے ماسکو کے منصوبوں کی بازگشت کرتے ہوئے، مسٹر علی پوف نے کہا کہ BRICS کی توجہ”امریکی ڈالر کے غلبہ پر مبنی سمجھوتہ شدہ میکانزم کے متبادل کے طور پر ایک ہموار اور قابل اعتماد نظام کی تعمیر پر مرکوز ہو گئی ہے۔“
دریں اثناء چین میں روس کے سفیر آندرے ڈینسوف نے پیر 4 جولائی کو کہا کہ ماسکو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی توسیع کی حمایت کرتا ہے، لیکن جرمنی اور جاپان کو اس میں شامل کرنے سے انکار کرتا ہے۔
RT نیوز کے بقول بیجنگ میں اقوام متحدہ کے عالمی امن فورم کے اجلاس میں اپنے خطاب میں ڈینسوف نے دعویٰ کیا کہ سلامتی کونسل ایک ایسی جگہ بن گئی ہے، جہاں ”مغربی ممالک پروپیگنڈہ کرتے ہیں، اپنے خیالات کو حتمی سچ کے طور پر پیش کرنے کے لیے۔“لہٰذا، انہوں نے دلیل دی کہ اقوام متحدہ میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ تاہم ساتھ ہی ساتھ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جہاں روس ہندوستان اور برازیل کو UNSC کی رکنیت کے لیے پوری طرح تیار ہے وہیں اس کی یہ بھی خواہش ہے کہ ہندوستان کو جرمنی اور جاپان کے ساتھ اپنے تعلقات کو تھوڑا کم کرنا چاہیے۔
ان کے یہ ریمارکس یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی جانب سے روس کی رکنیت ختم کرنے کے متعدد مطالبات کے بعد سامنے آئے ہیں۔ تاہم، امریکہ نے بارہا واضح کیا ہے کہ روس اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن رہے گا، کیونکہ UNSCسے روس کو خارج کرنے کا کوئی بھی طریقہ کار اقوامِ متحدہ کے چارٹر میں نہیں ہے۔
مجموعی طور پر جہاں ایک طرف تو روس ہندوستان کی حمایت کے لیے شکر گزار نظر آتا ہے، وہیں دوسری جانب وہ ہندوستان پر اس چیز کے لیے دباؤ بڑھا رہا ہے کہ ہندوستان جرمنی اور جاپان کے ساتھ اپنے تعلقات کو کم کرنے کی کوشش کرے۔یہ مطالبہ ہندوستانی سفارت کاروں اور حکومت کے لیے ایک چیلنج ثابت ہوسکتا ہے، لیکن جس طرح گزشتہ چھ ماہ کے دوران ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور خارجہ سکریٹری وینے کواترا نے وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں امریکی دباؤ کو مسترد کیا ہے، اور ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو ایک نئی شکل دینے کی کوشش کی ہے، اس سے عالمی سطح پر ہندوستان کی آزادانہ خارجہ پالیسی کی بھی ستائش کی جارہی ہے، اسی نہج پر یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ہندوستانی خارجہ پالیسی روسی دباؤ کا سامنا کرنے میں بھی کارگر ثابت ہوگی۔ کیونکہ جاپان اور جرمنی کے ساتھ تعلقات ختم کرنا کسی بھی طرح ہندوستان کے حق میں نہیں ہوسکتا اور اس کو بیچ کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کافی جدوجہد کرنا پڑے گی، لیکن اس کی حالیہ کامیابیوں کے مدِ نظر یہ کوئی مشکل بات نظر نہیں آتی ہے اور امید کی جاسکتی ہے کہ ہندوستان اپنی خارجہ پالیسی کو درپیش اس چیلنج کو بھی کامیابی کے ساتھ حل کرسکے گا۔