-
فلسطین:غلیل سے راکیٹ تک کا سفر
- سیاسی
- گھر
فلسطین:غلیل سے راکیٹ تک کا سفر
601
m.u.h
16/10/2023
0
0
تحریر:عادل فراز
حماس اور اسرائیل کے درمیان بھیانک جنگ جاری ہے ۔اس جنگ کے نقصانات کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔نقصان تو دونوں طرف ہورہاہے ۔فرق صرف اتناہے کہ اسرائیل کے پاس جدید ترین ہتھیار ہیں ،لاکھوںتربیت یافتہ فوجی ہیں ،دفاعی نظام ہے اورعالمی طاقتوں کی پشت پناہی ہے ۔دوسری طرف تنہا حماس ہے جس کے فوجیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے ۔نئی ٹکنالوجی نہیں ۔جدید ہتھیار نہیں،کوئی دفاعی نظام نہیں ۔اگر فلسطین کے لوگوں کے پاس کچھ ہے تو وہ جذبۂ مزاحمت وشہادت ہے ۔عالمی رائے تو ہمیشہ فلسطین کے حق میں منافقانہ رہی ہے ۔اکثر ملکوں کا یہ کہناہے کہ مسئلۂ فلسطین کا حل آزاد اور خود مختار ریاست کا قیام ہے ،مگر اس کے لئے کبھی مخلصانہ کوشش نہیں ہوئی ۔اس کا خمیازہ آج بے گناہ شہریوں کو بھگتنا پڑرہاہے ۔اگر مسئلۂ فلسطین کے حل کے لئے عالمی طاقتوں اور حقوق انسانی کی تنظیموں نے سنجیدہ جدوجہد کی ہوتی تو آج صورت حال مختلف ہوتی ۔مگر امریکہ اور اس کے حلیف ممالک نے اسرائیل کی پشت پناہی جاری رکھی اور فلسطین کے حقوق کی پامالی کا تماشا دیکھتے رہے ۔سابق امریکی صدر نے تو ’صدی معاہدہ‘ کے ذریعہ فلسطین کے بنیادی حقوق کوختم کرنے کا منصوبہ پیش کیا تھا ۔اسی عہد میں یروشلم کو اسرائیل کا پایۂ تخت تسلیم کرلیا گیا،جس نے دنیا کو تیسری جنگ عظیم کے راستے پر دھکیل دیا تھا۔انہی یک طرفہ فیصلوں کی بناپر آج حماس اور اسرائیل کے درمیان خوں ریز جنگ شروع ہوچکی ہے ،جس کے ختم ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے ہیں ۔موجودہ دنیا میں جنگ شروع کرنا بہت آسان ہے لیکن اس کو کسی منطقی نتیجے تک پہونچانا آسان نہیں ۔
سات اکتوبر کوحماس کے جنگجو آپریٹیڈ گلائیڈرز کے ذریعہ اسرائیلی سرحدوں میں داخل ہوئے ۔بیس منٹ کے دورانیہ میں پانچ ہزار راکیٹ اسرائیل پر داغے گئے ،جس نے اسرائیل کے دفاعی نظام کو ناکارہ بنادیا۔اس کے بعد پوری دنیا میں حماس کو دہشت گرد کہاجانے لگا ۔کیا دنیا نے یہ نظارہ پہلی بار دیکھا کہ جب کسی ملک کی فوج نے دوسرے ملک میں گھس کر انتقامی کاروائی کی ہو؟ہر بار ایسا ہوتاہے اور ہر طاقت ور ملک اپنے دفاع اور انتقام کے لئے دوسرے ملک کی سرحدوں میں گھس کر کاروائی کرتا آیاہے ۔امریکہ اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیاں تو اس میں مہارت رکھتی ہیں ۔اس وقت دہشت گردی کا الزام کیوں عائد نہیں کیاجاتا؟آج امن کی دہائی دینے والے اس وقت کیوں گونگے بن جاتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ جب اسرائیلی فوج نہتّے اور بے گناہ فلسطینیوں کا قتل کررہی تھی،اس وقت یہ نام نہاد امن پسند دنیا کہاں تھی؟ کیا فلسطینی بچوں اور جوانوں کوہمیشہ بندوقوں کے نشانے پر نہیں رکھا گیا۔کیا عورتوں کے ساتھ بدسلوکی عام نہیں تھی؟جس غزہ کو آج تباہ کیا جارہاہے اس کے لوگوں کی زندگیوں کا انحصار اسرائیل پر تھا ،کیا اسرائیل نے ان کی حق تلفی نہیں کی ؟ بجلی ،پانی ،دوائیں اور دوسری ضروری اشیاکی فراہمی اسرائیل کے سپرد ہے مگر غزہ کو صرف چار گھنٹے بجلی سپلائی دی جاتی تھی ۔کھانے پینے کی اشیا کی سپلائی بھی بہت محدود تھی،جس پر حقوق انسانی کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار بھی کیا۔غزہ کے اسپتالوں میں ہمیشہ دوائوں کی قلت رہی ۔اسرائیلی فوج نے جگہ جگہ فلسطین میں ’چیک پوسٹ‘ بنارکھے ہیں جہاں فلسطینیوں کو ان کی سرزمین پر حقارت آمیز تلاشی کا سامنا کرنا پڑتاہے ۔فلسطین میں روزگار کے مواقع بھی نہیں ہیں ۔انہیں کام کرنے کے لئے اسرائیل سے اجازہ (پرمٹ) کی ضرورت ہوتی ہے ۔اس اجازہ کی منسوخی کی کوئی تاریخ نہیں ہوتی ،اس بناپر جو لوگ اسرائیل میں رہ جاتے ہیں انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیاجاتاہے ۔ان کی زمین پر مسلسل قبضے کی کوشش ہے اور فلسطین سکڑتا جارہاہے ۔ان تمام مسائل پر کبھی عالمی میڈیا اور استعماری طاقتوں نے بات نہیں کی ۔کیونکہ اسرائیل استعمار کا پروردہ اور عالمی میڈیا اس کا ’طوطا‘ ہے ۔
اسرائیل اس وقت عالمی سطح پر خود کو مظلوم ظاہر کررہاہے ۔میڈیا چونکہ اس کے زیر اثر ہے اس لئے مظلومیت کی تشہیر میں بھر پور معاونت کی جارہی ہے ۔غزہ پر ممنوعہ بموں کا استعمال کیاجارہاہے لیکن دنیا خاموش ہے ۔غزہ کی طرف سے اگر پتھر بھی پھینک دیاجاتاہے تو اسے اس طرح پیش کیاجارہاہے جیسے ایٹم بم ماردیا ہو۔یہ وہ فلسطینی ہیںجنہوںنے غلیل سے راکیٹ تک کا سفر طے کیاہے ۔اسی بناپر آج وہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح اسرائیل کے سامنے ڈٹے ہوئے ہیں ۔جب فلسطینی پتھروں ،اینٹوں ،غلیلوں اور اپنی جان کی بازی لگاکر جدیدترین ہتھیاروں کا مقابلہ کررہے تھے ،اس وقت بھی دنیا اسرائیل کو دہشت گرد کہنے کی جرأت نہیں کرپارہی تھی ،آج تو پھر بھی حالات بہت مختلف ہیں ۔اس ذہنیت کے پیچھے اسلاموفوبیا بھی کارفرماہے ۔دنیا میں دہشت گردی کا فروغ اسی دُہری اور منافقانہ پالیسی کا نتیجہ ہے ۔جس دن دنیا ظالم کی مخالفت اور مظلوم کی حمایت میں کھڑی ہوجائے گی ،دہشت گردی ختم ہوجائےگی ۔حماس کے جنگجو اسرائیل میں داخل ہوچکے ہیں ۔ان پر الزام عائد کیاجارہاہے کہ وہ بے گناہ شہریوں کاقتل کررہےہیں ،جبکہ اسرائیلی عوام کی طرف سے جاری ویڈیوز اور وہائٹ ہائوس کے بیان میں بھی اس کی تردید کی گئی ہے ۔حماس نے بھی کہاہے کہ وہ کبھی عورتوں اور بچوں کو نہیں مارتے ۔اس کے باوجود میڈیا میں مشتہر کیاجارہاہے کہ حماس ’داعش‘ کےدہشت گردوں کی طرز پر عورتوں اور بچوں کا قتل کررہاہے ۔اس کے برعکس غزہ پر ہورہے حملوں ،بے گناہ شہریوں کی اموات،بچوں کے بہیمانہ قتل اور ضروری سہولیات پرعائد پابندی پر نام نہاد امن پسندوں کی زبانیں گنگ ہیں ۔اسرائیل نے چوبیس گھنٹے میں غزہ کے شمالی علاقے کو خالی کرنے کا انتباہ دیاہے ،جبکہ اقوام متحدہ نے گیارہ لاکھ فلسطینیوں کے انخلا کو ناممکن عمل قراردیا ،اس پر عالمی طاقتوں کو سانپ سونگھ گیاہے ۔یہ گیار ہ لاکھ لوگ شمالی غزہ کو چھوڑ کر کہاں جائیں گے ،اس پر کوئی ردعمل سامنےنہیں آیا۔
عالمی طاقتوں نےبرتری کےجنون اور تیل کے ذخائر پر قبضےکی ہوس میں عراق کو تباہ کردیا۔’داعش‘ کو جنم دےکر شام پر مسلط ہونے کی کوشش کی ۔یمن کو بھکمری کے دہانےپر پہونچادیا ۔’طالبان‘کو وجود بخشااور پھر افغانستان کو طالبانی دہشت گردی کا بہانہ بناکر برباد کردیا۔اس پر ستم یہ کہ آناًفاناً میں افغانستان سے فوجی انخلاکا اعلان کرکے اقتدار طالبان کو سونپ دیا۔عراق پر صدام حسین کے زمانے میں فرضی الزامات کے تحت حملہ کیاگیا،جبکہ عالمی تحقیقی ایجنسیوں کی رپورٹ میں بارہا یہ کہاگیاکہ عراق پر جن الزامات کے تحت حملہ کیا گیاتھا،وہ درست نہیں پائے گئے،اس کے باوجود کسی نے امریکہ کو دہشت گرد کہنے کی جرأت نہیں کی۔آخر دہشت گردی پر یہ دُہرا رویہ کب ختم ہوگا؟ یہی صورت حال فلسطین کے ساتھ کارفرما ہے ۔اس کی مزاحمتی تنظیموں کو دہشت گرد کہاجارہاہے تاکہ فلسطین پر حملے کو جائز ٹھہرایا جاسکے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت دنیا دو رائے ہوچکی ہے۔اگر یہ جنگ جلد ہی بندنہیں کرائی گئی تو دنیا تیسری جنگ عظیم میں مبتلا ہوسکتی ہے ۔افسوس یہ ہے کہ عرب ملکوں کی غیرت اب بھی بیدار نہیں ہوئی ۔یہ وقت مذمتی بیان جاری کرنے کا نہیں ، عملی اقدام کا تھا ۔اسرائیل جوعربوں سے شدید نفرت کرتاہے،اس کے ساتھ عربوں کو معاہدہ کرکے کیا حاصل ہوگا؟یہ جنگ اسرائیل کےوزیر برائے قومی سلامتی بن گوئیرکے عزائم کا نتیجہ ہے ۔بن گوئیر نے جب فلسطین کے پرچم لہرانے کو دہشت گردی کی حمایت قراردیا تھا،اس وقت عرب ملکوں کوسختی کےساتھ مخالفت کرنا چاہیے تھی ۔بن گوئیر وہ شخص ہے جو عربوں سے سخت نفرت کرتاہے اور فلسطین کے ریاستی حل کے حق میں نہیں ہے ۔نتین یاہو کی کابینہ میں ایسے شخص کے ہونےکو فال بد قراردیا گیاتھا،جو میر کہانےکاشاگردہے جسے امریکہ نے دہشت گرد کہا تھا،اس کا خمیازہ آج اسرائیل سمیت پوری دنیا کو بھگتنا پڑرہاہے ۔
اسرائیل کے ساتھ حماس نے پہلی بار پنجہ آزمائی نہیں کی۔برس ہا برس سے یہ سلسلہ جاری ہے ۔۲۰۲۱ میں دونوں کے درمیان گیارہ دنوں تک مسلسل خوں ریز جنگ ہوئی ،جو بالآخر صلح کے بعد ختم ہوگئی تھی ۔اس جنگ میں بھی اسرائیل کو ہر محاذ پر شکست کا منہ دیکھنا پڑاتھا ۔اس بار حالات مختلف ہیں ۔اسرائیل نے غزہ کے رہائشی علاقوں پرممنوعہ ہتھیاروں سے حملہ کردیاہے۔حالات بہت تشویش ناک ہیں ۔البتہ حماس نے جس مقصدکے تحت حملہ کیا تھا وہ پہلے ہی دن پورا ہوگیا تھا۔اس نے دنیا پر یہ ثابت کردیاکہ اسرائیلی سرحدوں میں نفوذ پایا جاسکتاہے ۔اس کے دفاعی نظام ’آئرن ڈوم‘ کو ناکام بنایاجاسکتاہے۔اس کی انٹلیجنس کوچکمہ دینا ناممکن نہیں ہے۔گویا اسرائیل ناقابل تسخیر نہیں ہے ،جیساکہ مشہور کردیاگیاتھا۔اس کے باوجود دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کواس مسئلے میں پیش رفت کرنی چاہیے ۔اس مسئلے کا واحد حل فلسطینیوں کو ان کے حقوق کی بازیابی ہے۔اس کے بغیر جنگ کا یہ سلسلہ ختم ہونے والا نہیں ہے۔اگرآج کسی کی مداخلت سے فریقین جنگ بندی پر رضامندہوبھی گئے ،تب بھی آئندہ جنگ کے شعلوں کو بھڑکنےسے روکا نہیں جاسکے گا۔