ایم ودودساجد
گزشتہ اتوار کودہلی یونین آف جرنلسٹس نے صحافیوں اور اقلیتوں پرحملوں کے تناظر میں دہلی کے کیرالہ ہاؤس میں ایک سیمنارکا انعقاد کیا۔ اس کا عنوان تھا’جمہوریت خطرہ میں ‘۔ اس سیمنار کا افتتاح کیرالہ کے وزیر اعلی پنارائی وجین نے کیا۔ یونین آف جرنلسٹس کے صدر ایس کے پانڈے ہیں۔ میں بھی اس یونین کا بلامقابلہ منتخب ایگزیکٹو ممبر ہوں۔ اس یونین میں کچھ اور بھی مسلم اور اردو صحافی موجود ہیں لیکن جس بے خوفی کے ساتھ اس یونین کے غیر مسلم ارکان اور خاص طورپراس کے صدر ایس کے پانڈے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اس کا کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ یہ لوگ کسی مالی منفعت یا شہرت کی خاطراپنی جان ہتھیلی پررکھ کر مسلمانوں کے حق میں نہیں بولتے۔ بلکہ ایک مستحکم نظریہ کے تحت اپنا یہ انسانی فریضہ خاموشی سے ادا کئے جارہے ہیں۔
کیرالہ کے وزیر اعلی نے اپنی آدھے گھنٹے کی تقریر میں مظلوم قوم کے طورپرمسلمان کا نام 10مرتبہ لیا۔ اسی طرح کیرالہ میں بائیں بازوکے حامیوں اور مسلمانوں پر حملوں کے ملزم کے طورپر آر ایس ایس (اور بی جے پی)کا نام ایک درجن سے زیادہ مرتبہ لیا۔ مثال کے طورپرانہوں نے بتایا کہ ’’کیرالہ کے ایک گاؤں میں ایک مندر پرمسلمانوں کے ذریعہ گوشت پھینکنے کی افواہ اڑائی گئی۔ پولس نے اس کی تحقیقات کی تو اس میں آر ایس ایس سے وابستہ ایک ہندو نوجوان ملوث پایا گیا۔ ‘‘وزیر اعلی نے بتایا کہ ’’ملاپورم کے بارے میں افواہ اڑائی گئی کہ وہاں کسی بھی ہندو کو زمین خریدنے کی اجازت نہیں ہے اور کوئی ہندو اپنی زمین صرف مسلمان کو ہی فروخت کرسکتا ہے۔ جب اس کی پولس نے تحقیقات کی تو خودملا پورم کے ہندوباشندوں نے ہی اس افواہ کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ اس پروپگنڈہ کیلئے آر ایس ایس کو ذمہ دار ٹھہرایا۔ ‘‘وزیر اعلی نے اسلامی دہشت گردی اور لوجہادجیسی اصطلاحات پر سخت گرفت کی اور کہا کہ کیرالہ میں ایسی کوئی شئے نہیں پائی جاتی اور مسلمان ایک امن پسند قوم کے طورپر ریاست کی ترقی کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے گائے کے نام پرکئے جانے والے تشددکے لئے بھی آر ایس ایس کو ہی ذمہ دار قرار دیا۔ مجھے اس موقع پر ان چند مسلمانوں اورعالم وفاضل شخصیات کا خیال آیا جوعام مسلمانوں کوآر ایس ایس سے سیکھنے کی جارحانہ‘جاہلانہ اور عامیانہ تلقین کرتے رہتے ہیں۔
اس پروگرام میں ’’دی وائر‘‘کے ایڈیٹرسدھارتھ وردھاراجن بھی موجود تھے۔ وہ مشہور انگریزی اخبار ’’دی ہندو‘‘کے بھی ایڈیٹر رہ چکے ہیں۔ دی وائروہی نیوز پورٹل ہے جس نے حال ہی میں بی جے پی کے صدرامت شاہ کے بیٹے جے شاہ کی کمپنی کے مبینہ ’’گھوٹالے‘‘کا انکشاف کیا ہے۔ اس کے سبب پوری حکومت جے شاہ کے دفاع میں اتر آئی ہے اور جے شاہ نے دی وائر پرہتک عزت اور100کروڑ روپیہ ہرجانہ کا مقدمہ کردیا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ حکومت کے ایک ایڈیشنل سالیسٹرجنرل نے اس مقدمہ کولڑنے کا اعلان کیا ہے۔ سدھارتھ وردھا راجن بہت صاف ستھرا ریکارڈ رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف ایک موثر آواز کے طورپرمشہور ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہم کمزور ہی سہی لیکن حکومت کی جابرانہ پالیسیوں کے خلاف خاموش نہیں بیٹھیں گے اور کوئی ساتھ دے یا نہ دے ہم ’’جنگ‘‘جاری رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس وقت کئی محاذوں پر اپنے مخالفین کو کچلنے کیلئے کام کر رہی ہے اور ان میں ایک محاذ کے طورپرمسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈہ بھی شامل ہے۔ انہوں نے وندے ماترم اور یوپی کے مدارس کو درپیش پریشانیوں کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ محض میڈیا کو ہی دبانے کی کوشش نہیں ہورہی ہے بلکہ سوشل میڈیا کے حوالے سے عام لوگ بھی اب اس کا شکار ہورہے ہیں۔ انہوں نے بکاؤ میڈیا پر بھی سخت تنقید کی اور کہا کہ خال خال ہی اب کوئی میڈیا ادارہ بچا ہے جو دباؤ قبول نہیں کر رہا ہے۔
جان برٹاس‘ایک نوجوان صحافی ہیں اوراس وقت کیرالہ کے وزیر اعلی کے میڈیا ایڈوائزر ہیں۔ عمر یہی کوئی مشکل سے 40برس ہوگی۔ مگر خیالات کی پختگی 80برس والے کے مماثل۔ وہ پہلے دہلی میں ہی تھے۔ اب کیرالہ منتقل ہوگئے ہیں۔ انہوں نے بڑی دلچسپ بات بتائی کہ’’میں جب بھی کیرالہ سے دہلی آتاہوں تومیرے اپنے ملنے والے مجھے ایسے دیکھتے ہیں جیسے میں افغانستان سے آیا ہوں۔ ‘‘انہوں نے کہا کہ کیرالہ ایک ترقی یافتہ ریاست ہے اور صدفیصدتعلیم سے آراستہ ہے۔ مگر اس کے باوجود آر ایس ایس والے اس ریاست کو اس لئے بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ وہاں مسلمانوں کی مجموعی حالت دوسری ریاستوں کے مسلمانوں کے مقابلہ میں بہت بہتر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت ’این آئی اے‘ کیرالہ میں لوجہاد کے 90معاملات کی تفتیش میں مصروف ہے جبکہ کیرالہ کے ڈائریکٹر جنرل آف پولس ریکارڈ پر کہہ چکے ہیں کہ یہ سب جھوٹ اور بکواس ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ 90معاملات لوجہاد کے نہیں بلکہ تبدیلی مذہب کے ہیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں کئی ہندو لڑکوں کو جانتاہوں جنہوں نے مسلم لڑکیوں سے شادی کی ہے تو کیا اسے’’ اوم جہاد‘‘ کہا جائے گا؟
جان برٹاس نے ایک اور دلچسپ واقعہ سنایا۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس والے اکثرمسلمانوں کے ذریعہ ہندؤں کے خلاف مالابارکی 1921 کی بغاوت کا ذکر کرتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بغاوت ہندؤں اور مسلمانوں نے مل کر انگریز کے خلاف کی تھی۔ اسی طرح آر ایس ایس نے کیرالہ کے شہر کنور کو ایک خوفناک شہرتصور کرادیا ہے جبکہ یہ شہر کیرالہ کے سب سے زیادہ پرامن اور ترقی یافتہ شہروں میں سے ہے۔ چونکہ یہاں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے اس لئے وہ سنگھیوں کے نشانہ پر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 1969میں یہاں ایک فساد ہوا تھا جس میں آر ایس ایس نے مسلمانوں پر ظلم ڈھایا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ 1971میں افواہ اڑائی گئی کہ جگن ناتھ مندر پر مسلمانوں نے حملہ کردیا ہے۔ اس کو بہانہ بناکر مسلمانوں کی دوکانوں اور مکانوں کو جلایا گیا۔ لیکن عدالتی انکوائری میں یہ تحقیق سامنے آئی کہ یہ محض افواہ تھی اور اس کے پیچھے آر ایس ایس کی سازش کار فرما تھی۔
اس موقع پر معروف خاتون صحافی سیما مصطفی نے بھی خطاب کیا۔ انہوں نے کہا کہ میں تین تین خطروں والی شناختیں لئے ہوئے جی رہی ہوں۔ انہوں نے کہا کہ میں اولاً تو صحافی ہوں۔ دوسرے عورت ہوں۔ اور تیسرے یہ کہ مسلمان ہوں۔ انہوں نے کہا کہ اس حکومت کے دور میں یہ تینوں شناختیں خطرات سے پر ہیں۔
میں اس پروگرام میں سوچتا رہا کہ ہمارے ایک موقر عالم دین ‘جو خیر سے ایک بڑے موقر ادارے سے وابستہ ہیں کس طرح آر ایس ایس سے سیکھنے کی تلقین فرماتے ہیں۔ مسلمانوں کے تعلق سے آر ایس ایس کا نظریہ بی جے پی سے بھی زیادہ زہریلا‘خوفناک اور نفرت انگیز ہے۔ اگرمسلمانوں کو آر ایس ایس سے کوئی خطرہ نہیں تو پھر تو بی جے پی بدرجہ اولی اس کی مستحق ہے کہ مسلمان اسے اپنے لئے کوئی خطرہ تصور نہ کریں اور اس کے قریب جائیں۔ واقعہ یہ ہے کہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا ہی نہیں ہے۔ مسئلہ اس ملک کی بقاء اور اس کے سیکولر کردار کے تحفظ کابھی ہے جس کی آزادی میں ہمارے اسلاف اور ہمارے اکابر نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے تھے۔ ایس کے پانڈے‘پنارائی وجین اورسدھارتھ وردھاراجن‘جان برسٹا اور جان دیال جیسے غیر مسلم تو ہم مسلمانوں کے لئے شرپسندوں سے جنگ لڑیں اور ہم شرپسندوں کے قریب جانے اور ان سے سیکھنے کی بات کریں تو کیا ان کا حوصلہ ٹوٹے گا نہیں ؟کیا ان کی جنگ کمزور نہیں ہوگی؟دوسری بات یہ ہے کہ جس قوم کے پاس نبی آخرالزماں ﷺ جیسا بے مثال قائد اور قرآن جیسا ابدی ضابطہ حیات موجود ہو اسے آر ایس ایس سے سیکھنے کی تلقین کرناایسا ہی ہے جیسے کسی مریض کو شربت انار کی بجائے تیزاب آمیز شراب پینے کو کہا جائے۔ آئیے سب مل کر عہد کرتے ہیں کہ ایک طرف جہاں اسلام دشمنوں سے ہاتھ نہ ملائیں گے وہیں مسلمانوں کے ہمدر دغیر مسلموں کے ہاتھوں کو مضبوط کریں گے۔ وہ ہم سے کچھ نہیں مانگتے۔ بس ان کی حوصلہ افزائی کیلئے ہمارے دوبول ان کے لئے آب حیات سے کم نہ ہوں گے۔ ان حق پسند عظیم لوگوں کے علاوہ برادران وطن کی خاصی تعداد ایسی ھے مثلا” روی نائر، رام پنیانی، کھیرنار وغیرہ. ایک اور شخصیت تھی جو آنجہانی ھو چکی ھے… آئ کے شکلا.اسی طرح تیستا سیتل واڑ اور کویتا شریواستوا..
ان میں سے کئی لوگ تو اتنے بولڈ، اور بیباک و جری ھیں کہ اپنی جان پر خطرے کی بھی پروا نہیں انہیں . کھیرنار صاحب سے ذاتی گفتگو میں مجھے پتہ چلا کہ مسلمانان ھند کی جرات مندانہ حمایت میں ان پر اور ان کے اھل خانہ پر جان کا کیسا خطرہ منڈلاتا رھتا ھے لیکن وہ ان سب سے بے نیاز ھو کر اپنے مشن میں اپنے شب و روز وقف کئیے ھوے ھیں . ایسی سعید روحیں بیشمار ھیں . ایسا محسوس ھوتا ھے کہ ملّی قیادت کی سطح پر ان ھیروں سے جتنی قربت اور جیسا تعامل ھونا چاہئیے تھا اس میں بڑی کمی ھے. ۔
نوٹ: بشکریہ مضامین ڈاٹ کام