-
بابری مسجد۔۔۔ تعمیر سے تنازعہ تک
- سیاسی
- گھر
بابری مسجد۔۔۔ تعمیر سے تنازعہ تک
817
M.U.H
06/12/2020
0
0
تحریر:عبدالوہاب حبیب
انگریزوں سے آزادی کے بعد سے بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے۔بھلے ہی جمہوریت بھارت کو 70 برس قبل اپنایا ہو لیکن جمہوریت کے حساب سے بھارت نے اس پر عمل آوری کی ہوں یہ آپ کو دکھائی نہیں دے گا۔ یونانی مفکر ہیرو ڈوٹس نے جمہوریت کا مفہوم اس طرح بیان کیا ہے کہ۔۔جمہوریت ایک ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں عوام کو قانونی طور پر پورے سماج کو کنٹرول کرنے کے حق ہو تے ہیں اور عوام ان فیصلوں کے لئے اپنے نمائندے منتحب کرتی ہے۔ بھارت جو دنیا کا دوسرا سب سے بڑا آبادی والا ملک ہے یہاں جتنے نمائندے ہوں گے کرسی پر سکہ اسی کا چلے گا وہ جو فیصلہ لیں گے وہی سبھی کو ماننا ہو گا بھلے ہی جمہوری دستور ہر اکیلے شخص کی رائے،اس کی آزادی اور حق کی بات کرتا ہے لیکن عملی طور پر جس کی جتنی کرسیاں،وہ نہ صرف انفراد ی بلکہ پورے سماج کی قسمت کا فیصلہ کر تے ہیں۔ بھارت میں جمہوریت کا کھیل کرسیوں سے شروع ہو کر اکثریت اور اقلیت تک ہوتا ہوا ہر جھونپڑے تک پہنچتا ہے جس کے اثر سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ اسی جمہوری نظام میں جو فیصلے لیے جاتے ہیں وہ سروں کو گن کر،اکثریت کی بنیاد پر لیے جاتے ہیں چاہے اس سے پوری اقلیت ہی کیوں نہ تباہ و برباد ہو جائیں۔ انہی فیصلوں میں سے ایک کڑی بابری مسجد کی ہے۔ انگریزاپنی حکومت کے استحکام کیلئے یہاں نفرت کا وہ بیج اور انسان نما شاطین چھوڑ گئے کہ اس کے اثرات 70 سال بعد لڑکپن میں ہیں۔ لڑکپن میں اس لیے کہ ابھی بھارت کے جمہوری نظام اپنانے کیلئے ایک صدی بھی نہیں گذری تھی کہ اسے تبدیل کرتے ہوئے ہندوتو کو اپنانے کی اسی جمہوری ایوانوں سے سازشیں جاری ہیں۔ ہندوستان کے اصل مسئلوں جیسے غریبی،بھکمری،بیکاری،مہنگائی اور کرپشن سے توجہ ہٹانے انسانو ں کو جنونیت اور حیوانیت کا وہ زہر بھرا انجکشن دیاگیا کہ وہ کسی بھی دوسرے مذہبی عبادت گاہ کو تباہ کرنے سے تک نہیں ڈرتے کیونکہ قانون بہ دیر ہی سہی ان تباہ کرنے والے ہاتھوں کو آزاد کردیتا ہے۔ جہاں ہتھکڑیاں ہونی چاہیے ہوتی ہیں وہاں پارلمنٹ میں بٹھا کر ان سے ملک کے مستقبل کے فیصلے لیے جاتے ہیں، جنہیں جیل کی کوٹھریوں میں بھیجا جانا چاہیے انہیں کرسیوں پر تاج سجا کر دیا جاتا ہے۔ بابری مسجد معاملہ ان الفاظ کی حرف بہ حرف تصدیق کرتا ہے۔ ملک کے ریٹائرڈ چیف جسٹس راجندر سچر نے ایک انٹرویو کے دوران اکتوبر 2010 میں بابری مسجد کے پورے معاملہ کو صرف دو لفظوں میں کہا تھا کہ کرائم پیس۔۔اس سے پہلے کہ بابری مسجد کے بارے میں کس نے کیا کہا ہم دیکھتے ہیں بابری مسجد کی تعمیر سے تنازعہ تک۔۔۔
سب سے پہلے بابری مسجد مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر کے وزیر میر باقی نے 1528 میں بنوائی تھی۔ اس کے بعد سے تقریباً ساڑھے تین سو سال 1857 تک اس مسجد میں باقاعدہ طور پر پابندی سے پانچ وقت کی نماز ہوتی ہے۔ 1857 میں چونکہ بھارت کی پہلی جنگ آزادی یعنی غدر بھی کہا جاتا ہے انگریز وں کو راس نہیں آتا۔غدر کو کچلنے کیلئے انگریزوں نے ہزاروں مسلم۔ہندو جیالوں کو ختم کردیا۔ ہندو مسلم اتحاد کو توڑنے انگریزوں نے اپنے چند مخبروں کا سہارا لیا اور اب نفرت کا بیج بونے مسجد کو رام جنم بھومی اور رام جنم استھان بتاناشروع کردیا۔ حالانکہ 1856 میں ہی مسجد کے باہر چبوترے کی دعویداری کرتے ہوئے پوجا پاٹھ شروع کردی گئی تھی اور اس کے تیس سال بعد 1886 میں رام چبوترے پر مندر بنانے کی رخواست کی جسے اس وقت کے میجسٹریٹ نے نا منظور کیا تھا۔ اس دوران 1949 تک مسجد میں بابری مسجد میں نماز جاری رہی جسے خود سپریم کورٹ نے بھی قبول کیا تھا۔ اب اس کے بعد 22 اور23 دسمبر کی درمیانی رات چند لوگ مسجد میں مورتیاں رکھی اور پروپگنڈہ کیا گیا کہ رام للا پرکٹ ہوئے ہیں۔ اس معاملہ پر مورتیاں رکھنے والوں کے خلاف پولس نے ایف آئی آر درج کی اور سپریم کورٹ نے مورتیاں رکھنے کو غیر قانونی قرار دیا اور تو اور اس وقت کے پردھان منتری جواہر لعل نہرو نے مسجد سے مورتی ہٹانے کا حکم دیا تھا جسے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ماننے سے انکار کردیاتھا معاملہ بڑھتے دیکھ پر سپریم کورٹ نے مسجد کو تالا لگانے اور نماز یوں کو مسجد سے 200 میٹر دور رہنے کو کے ساتھ ساتھ رام للا کی مورتی کو اکیلے نہ رکھنے کا جواز دیتے ہوئے پوجا ارچنا کیلئے ایک پجاری بھی مقرر کیا جس کے ذمہ رام للا کی پوجا تھی اور یہ عمل 1986 تک روزانہ جاری رہا۔ حالانکہ سپریم کورٹ میں مسجد کی ملکیت سے متعلق کیس جاری تھا اسی دوران 1986 میں عدالت میں ایک عرضی ہوتی ہے کہ پوجا ارچنا کیلئے عام پبلک کو بھی اجازت دی جائے۔چند ہی گھنٹوں میں اس عرضی پر عدالت مسجد کا دروازہ کھولنے اور پوجا کی کی اجازت دیتی ہے۔اس درمیان کانگریسی نیتائوں کے آشیرواد سے 1989 میں آر ایس ایس،بجرنگ دل،وی ایچ پی اور شیو سینا ملک بھر میں رتھ یاترا کرتے ہوئے نفرت کا بیج بوتے ہیں۔ اڈوانی کی رتھ یاترا جہاں جہاں جاتی ہے وہاں اس راستہ میں دنگوں کے دوران سینکڑوں ہندو مسلم اپنی جان گنوادیتے ہیں۔ 6 دسمبر کو کارسیوا کے بہانے آر ایس ایس کے نتیا بابری مسجد کے قریب جمع ہوتے ہیں۔ ہزاروں کارسیوکوں کے درمیان بھاشن ہوتا ہے۔ ملک بھر سے آئے ہوئے کارسیوک کی بھیڑ کو اکسایا جاتا ہے اور وہ ساڑھے چار سو سال پرانی مسجد شہید کردیتے ہیں۔ دن کی روشنی میں پوری نیشنل سے انٹرینیشنل میڈیا کے سامنے مسجد گرائی جاتی ہے۔ویڈیوز ہوتے ہیں،تصویریں ہوتی ہیں، رام کے نام پر رام کے ملک میں سیاسی پارٹیاں دنگے کرواتی ہیں۔مسجد توڑنے والے لیڈروں کے خلاف ایف آئی آر ہوتی ہے پھر الہ آباد ہائی کورٹ میں زمین کی ملکیت سے مقدمہ دائر کیا جاتا ہے۔ الہ آباد ہائیکورٹ کے تین جج 30 ستمبر 2010 کو آستھا کو بنیاد بتاتے ہوئے اپنے فیصلہ میں مسجد کی 2.77 ایکڑ زمین کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیتے ہوئے ایک تہائی زمین ہندو مہاسبھا کے پاس رام للا مندر کیلئے، ایک تہائی سُنّی وقف بورڈ کو مسجد کیلئے جبکہ باقی کی ایک تہائی زمین نرموہی اکھاڑے کو دینے کا حکم دیتی ہے۔ حالانکہ یہ جو معاملہ چل رہا تھا وہ ملکیت کا تھا کہ یہ زمین اصل میں ہوگی کس کی؟اب اسی بنیاد پر موجودہ پردھان منتری نریندر مودی نے مندر بنانے کیلئے کورونا کی مہامار ی کے باوجود اس جگہ مندر بنوانے پوجا پاٹھ کی۔ بابری مسجد کے نام پر کتنے لوگوں کی جان لی گئی۔ مندر بنوانے کے لئے فنڈنگ کا کیسے غبن ہوا؟ فائدہ کونسی پارٹی اور نتیائو ں کو ہوا یہ سیکنڈری چیزیں ہیں لیکن دن کی روشنی میں کسی عبادت گاہ کو دھراشائی کرنا۔ سیاسی پلیٹ فارم پرہر آئے دن مذہبوں کے درمیان نفرت پھیلانے پر بھی کوئی کارروائی نہ ہونا، جمہوریت کے ایوانوں میں جمہوری حقوں کو پامال کرنا جس میں خود پارلمنٹ، بیوروکریسی شامل رہی اور عدالت جس پر مسلمانوں نے ہمیشہ بھروسہ جتایا لیکن انصاف کے بجائے فیصلے آتے رہے حالانکہ لاکھوں دستاویزات،ثبوتوں اور گواہیوں کی جانچ کرنا چند ججس کیلئے واقعی مشکل کام ہے خاص طور پر جب انصاف کیلئے معاملہ سالوں سال چلے۔ حالانکہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کی سربراہی چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گوگوئی میں جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس ایس عبد النذیر شامل تھے جن پر یہ ذمہ داری تھی کہ وہ لاکھوں صفحوں پر مشتمل سینکڑوں سال پرانے دستاویزات اور گواہیوں کی جانچ کریں اور فیصلہ دیں۔ فیصلہ کے بعد بھلے ہی یہ پہلی بار ہوا جب کسی چیف جسٹس آف انڈیا نے راجیہ سبھا کی سیٹ کو قبول کیا ہو اور ان کے حلف نامہ کے درمیان شیم شیم کی آوازیں راجیہ سبھا میں لگائی گئی ہو۔
مسجد شہید کیے جانے کے 28 سال بعد ستمبر 2020 میں سبھی 32 ملزموں کو عدالت ثبوتوں کے فقدان میں بری کردیتی ہے جبکہ عدالت کے باہر وہی ملزم کہتے ہیں کہ انہوں نے مسجد توڑی تھی، اگر عدالت سے سزا ملتی تو وہ اسے خوشی سے اس سزا کو قبول کر لتیم۔ عدالت نے سزا نہںں دی۔ یہ ہندو دھرم کی فتح ہے، ہندو قوم کی فتح ہے۔ ادھر ہاشم انصاری جنہوں نے پوری زندگی یہ مقدمہ جیتنے صرف کردی ان کی موت کے بعد انصاری کے بیٹے فیصلہ کو قبول کرتے ہوئے اس کا سواگت کرتے ہیں۔ عدالت کے فیصلے کے بعد ظاہر ہے کئی طرح کے ری ایکشن آنے تھے۔ اسکالرس نے اسے سیکولرزم کو ڈھانے کا دوسرا دن بتایا۔ کچھ نے کہا فیصلہ ہوا انصاف نہیں۔۔۔ ان سب سے ہٹ کر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے پریس ریلیز جاری کی تھی جس میں کہاگیا تھا کہ مسجد ہمیشہ مسجد رہے گی،حالات سے کم حوصلہ نہ ہوں،آیا صوفیہ ہمارے لیے ایک مثال ہے،حالات ایک جیسے نہیں رہتے ''
بہر حال پورے بابری مسجد کا جو معامل رہا اس میں مسلم طبقہ کی جانب سے ہر بار پوری طرح عدالت پر بھروسہ جتایا گیا۔، ہر بار شانتی کی اپیل کی گئی۔ سیکولرزم کا حلف لینے کے باوجود پردھان منتری،مہاماری میں بھی بھومی پوجن کو جاتے ہیں اس پر بھی مسلم خاموش رہے جس سے صاف ہے کہ ملک کا مسلمان سیکولرزم چاہتا ہے،انصاف چاہتا ہے،امن اور ملک کی ترقی چاہتا ہے لیکن ہر آئے دن مسلم مائناریٹی کو ٹارگٹ کرنے سے ملک کے سیکولرزم ڈھانچہ کو ڈیمیج کیا جاتا ہے جو ملک کے مستقبل کیلئے بھی نقصاندہ ہے۔ مسلم اب بھی چاہتے ہیں کہ مسجد کی جگہ مسجد بنائی جائے لیکن جمہوریت کیتینوں ستونو ں سے اسے کوئی امید باقی نہیں رہی ہے۔ اور چوتھا ستون خود ہر دن مسلم شناخت پر حملہ کر تا رہا ہے جس سے مسلم بغیر انکلیوزیو پالیسی کے اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ حالانکہ مسلم سماج کا دانشور طبقہ یہ بھی کہتا آیا ہے کہ معاملہ صرف بابری مسجد کا نہیں بلکہ ملک میں مسلم طبقہ کی حال اور مستقبل کی بھی عکاسی کرتا ہے اور اپنے اسی آئنہ کو اگر مسلمانوں کو دیکھنا ہے تو وہ بابری مسجد معاملہ میں جھانک کر دیکھ لے جس سے اسے مستقبل کا روڈ میپ تیار کرنے میں آسانی ہوگی۔