-
کیا کسان تحریک کو بھی سی اے اے مخالف تحریک کی طرح کچلا جا سکتا ہے ؟
- سیاسی
- گھر
کیا کسان تحریک کو بھی سی اے اے مخالف تحریک کی طرح کچلا جا سکتا ہے ؟
789
M.U.H
21/12/2020
0
0
تحریر: م۔افضل
اکثریت کے غرور میں مودی سرکارجمہوریت کو روندتے ہوئے آمریت کا خطرناک کھیل شروع کرچکی ہے، اس سے پہلے بھی سرکار کے لوگ یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ ملک کے عوام نے اکثریت کے ساتھ بی جے پی کو اقتدارسونپ کر اسے ہر سیاہ وسفید کا مالک بنا دیا ہے، اس لئے سرکار کچھ بھی کرے اس کی مخالفت کوئی نہیں کرسکتا، بلاشبہ سرکار کے اختیارات میں یہ سب کچھ ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوسکتا کہ سرکار اپنے فیصلوں کو جبراً عوام پر تھوپے اور جو لوگ اس کی مخالفت کریں، انہیں اینٹی نیشنل قرار دیدیا جائے، بدقسمتی سے دوسری بار اقتدارمیں آنے کے بعد سے مودی سرکار یہی کر رہی ہے، نئے نئے قانون بن رہے ہیں اور عوام کی مخالفت کے باوجود انہیں جبراً عوام پر تھوپا جا رہا ہے، کسانوں کی فلاح وبہبودکی آڑ میں زرعی قوانین چور دروازے سے لے آئے گئے، بظاہر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ملک کے کسانون کی بہتری کے لئے اس طرح کے قوانین کی اشد ضرورت تھی، ان سے کسانوں کو بے پناہ فائدہ پہنچے گا لیکن ایک ساتھ جس طرح تین قانون منظور کیے گئے اس کے پیچھے درحقیقت کسانوں کو نہیں بلکہ کارپوریٹ گھرانوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے، اور یہ کارپوریٹ گھرانے بھی وہی گھرانے ہیں جو وزیراعظم نریندرمودی کے منظور نظر ہیں یعنی امبانی اور اڈانی، یہ سچائی بھی سامنے آچکی ہے کہ ان قوانین کی منظوری سے پہلے ہی امبانی اور اڈانی نے اناج اسٹور کرنے کے لئے منصوبہ بندی شروع کردی تھی، اور کئی جگہ ان کے بڑے بڑے گودام بھی بن کر تیار ہوچکے تھے، ایسے میں ہمیں یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ زرعی قوانین ان دونوں کارپوریٹ گھرانوں کی مرضی اور منشا کے مطابق تیار کیے گئے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ اب جب کہ ملک کا کسان اس کے خلاف سراپا احتجاج بن کر دہلی کی سرحد تک آپہنچا ہے، مودی جی مسلسل یہ اعلان کر رہے ہیں کہ یہ قوانین کسانوں کے مفاد میں لائے گئے ہیں، اس لئے انہیں واپس نہیں لیا جائے گا۔
تین ہفتے کا عرصہ گزر چکا ہے اس بلا کی ٹھنڈ میں ملک کا کسان لاکھوں کی تعداد میں کھلے آسمان کے نیچے اپنے مطالبات کو لیکر دھرنا دے رہا ہے مگر سرکار زرعی قوانین کا فائدہ گنوانے میں مصروف ہے اسے کسانوں سے بات کرنے کی فرصت نہیں ہے، اس درمیان کئی بار بات چیت کا ڈرامہ ہوا مگر سرکار اپنے فیصلے پر اڑی رہی اور کسان اپنے موقف پر اڑے رہے، چنانچہ کوئی حل نہیں نکل سکا، ہندوستان صدیوں سے ایک زراعت پیشہ ملک رہا ہے، زراعت ہمارے ملک کی معیشت کی بنیاد ہے، ملک کی ایک بڑی آبادی کا انحصار اب بھی زراعت پر ہے، عام کسانوں میں یہ خوف اندر تک پہنچ گیا ہے کہ جو نئے قوانین آئے ہیں وہ اگر عمل میں آگئے توان کی حیثیت ایک بندھوا مزدور کی ہوکر رہ جائیگی، اور ان کے کھیتوں کے اصل مالک کارپوریٹ گھرانے ہوں گے، یہ خوف غلط نہیں ہے کیونکہ لائے گئے نئے قوانین میں بہت خوبصورتی سے اس کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ مودی سرکار نے خود کو ہی ملک سمجھ لیا ہے اس کے نتیجہ میں سرکار خود کو آئین وجمہوریت سے بالا تر سمجھنے لگی ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی اس کے کسی فیصلہ کی مخالفت ہوتی ہے وہ اسے قوم پرستی سے جوڑکر مخالفین کو ملک دشمن سمجھنے لگتی ہے، سی اے اے جیسے قانون کی مثال ہمارے سامنے ہے اس کو لیکرجب ملک کے انصاف پسند طبقہ نے تحریک شروع کی تو انہیں ڈنڈوں کے زور سے کچلنے کی کوشش ہوئی، اس قانون کی مخالفت کرنے والوں کو اینٹی نیشنل قرار دیدیا گیا، لیکن جب ہر طرح کے ظلم واستبداد کے باوجود یہ تحریک مضبوط ہوتی گئی تو اسے ہندومسلم کا رنگ دیدیا گیا اور یہ باور کرانے کی مسلسل کوشش ہوئی کہ سی اے اے کی مخالفت تنہا مسلمان کر رہے ہیں، کسان تحریک کے تعلق سے بھی اسی رویہ کو اپنانے کی کوشش ہوئی، ابتدا میں یہ تاثر دینے کی دانستہ کوشش ہوئی کہ اس تحریک میں تنہا پنچاب کے کسان شامل ہیں، مگر جب تحریک کا دائرہ بڑھنے لگا اور دوسری ریاستوں کے کسان بھی اس تحریک میں عملاً شامل ہوگئے تو اسے بھی مذہبی رنگ دینے کی سازش ہوئی، کہا گیا کہ خالصتان حامی اس تحریک کی مدد کر رہے ہیں، اچھی بات یہ ہے کہ اس طرح کا ہر حربہ اب تک ناکام رہا ہے۔
جس تحریک کو کل تک پنجابی کسانوں کی تحریک قرار دینے کی کوشش ہو رہی تھی اب وہ بڑھ کر پورے ملک کے کسانوں کی تحریک بن چکی ہے، سرکار جھکنے کے لئے بھلے ہی تیار نہ ہو لیکن اس تحریک نے اسے اندر سے ہلاکر رکھ دیا ہے۔ کچھ لوگوں نے کسان تحریک کو ختم کرانے کے لئے سپریم کورٹ کا سہارا لیا تھا مگر وہاں سے بھی انہیں ناکامی ہاتھ لگی، عدالت نے تمام عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ وہ قوانین کے خلاف مظاہرہ کرنے کے بنیادی حق کو مانتی ہے، ہم اس میں دخل نہیں دیں گے لیکن مظاہروں کے طریقہ کار پر ہم غور کریں گے، عدالت نے یہ بھی کہا کہ سماعت ہونے تک مرکز قانون کو عمل میں نہ لانے کا بھروسہ دلائے اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ہوا تو کسان مذاکرہ کرنے کے لئے نہیں آئیں گے، اس بات سے صاف اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان قوانین کو نافذ کرنے کی سرکار کو جلدی کیوں ہے؟ اور وہ اس پر پارلیمنٹ میں بحث کرانے سے کترا کیوں رہی ہے؟
سرکار کی بوکھلاہٹ کا عالم یہ ہے کہ کسانوں کو بھی اب اسی طرح ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس طرح سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو ڈرایا دھمکایا گیا تھا، کسانوں کو لاکھوں روپے کے نوٹس جاری ہو رہے ہیں ان سے بانڈ بھرائے جا رہے ہیں، کسان لیڈروں پر الزام یہ لگایا جارہا ہے کہ وہ کسانوں کو بھڑکا رہے ہیں، یعنی اب ظلم واستبداد کے سہارے اترپردیش اور اتراکھنڈ جیسی ریاستوں میں کسانوں سے احتجاج کا حق بھی چھینا جا رہا ہے، دوسری طرف ہمارے وزیراعظم کسانوں سے من کی بات کرنے کے لئے کبھی تو گجرات جاتے ہیں تو کبھی مدھیہ پردیش کا رخ کرتے ہیں، مگر اپنی رہائش گاہ سے چند کلومیٹرکے فاصلے پر اپنا گھربارچھوڑ کر دھرنے پر بیٹھے کسانوں کی انہیں یاد نہیں آتی، وہ دور دور سے ہی زرعی قوانین کے فائدہ گنوا رہے ہیں۔
وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ اچانک نہیں ہوا بلکہ ان کے بننے میں 22 سال کا وقت لگا اور ہر حکومت نے اس پر بحث کی، سوال یہ ہے کہ اگر دوسری سرکاریں اس طرح کا قانون لانا چاہتی تھیں اور من وعن وہی قانون مودی جی لے کر آئے ہیں تو بنیادی سوال یہ ہے کہ اس پر پارلیمنٹ میں انہوں نے بحث کیوں نہیں کرائی، اور اب پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس بھی انہوں نے ملتوی کرا دیا ہے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر پارلیمنٹ کی کارروائی چلی تو ان قوانین کو لیکر ان سے سوال کیے جائیں گے، اس سے ظاہر ہوگیا کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے، وزیراعظم کسان تحریک کا ٹھیکرا کانگریس کے سر پھوڑ رہے ہیں، ان کا الزام ہے کہ کانگریس کسانوں کو گمراہ کر رہی ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اب تک مودی سرکار کے جس کسی فیصلے کی عوام نے مخالفت کی ہے اس کے پیچھے ان لوگوں کو سیاست ہی نظر آئی ہے، کسان قوانین کی واپسی کے مطالبہ پر اڑے ہوئے ہیں، اور سرکار پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں، ایسے میں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیسے نکلے گا ؟ کیا کسانوں کے خلاف سرکار ٹھیک اسی طرح طاقت کا استعمال کرے گی جس طرح سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف کیا گیا تھا؟ امید ہے کہ سرکار ایسا کرنے کی غلطی نہیں کریگی کیونکہ یہ کسان ہیں مسلمان نہیں۔ یہ سی اے اے اور این آرسی کے مخالفین نہیں ہیں جنہیں پولیس کو آگے کرکے ظلم واستبداد کا نشانہ بنایا جائے گا اور قوم پرستی کی فتح کا جشن مناکر سرکار چین کی نیند سوجائے گی، کسان بیدار ہوچکے ہیں اور جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے جائیں گے وہ نہ تو خود چین سے بیٹھیں گے اور نہ ہی سرکار کو چین سے بیٹھنے دیں گے۔
(یہ مصنف کا ذاتی نظریہ ہے ،ادارہ کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)