-
اتحاد اسلامی کے قیام کے لئے ضروری باتیں
- سیاسی
- گھر
اتحاد اسلامی کے قیام کے لئے ضروری باتیں
368
m.u.h
15/07/2022
0
0
تحریر:عادل فراز
مسلمانوں کے باہمی اتفاق اور اتحاد پر سال بھر بات ہوتی رہتی ہے ۔خاص طورپر پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ صلیٰ اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت باسعادت کے موقع پر ۱۲ سے ۱۷ ربیع الاول تک ہفتۂ وحدت منانے کی اپیل کی جاتی ہے ۔چونکہ اہل سنت والجماعت کے یہاں ۱۲ ربیع الاول کو حضورؐ کی ولادت ثابت ہے اور اہل تشیع کے یہاں ۱۷ ربیع الاول کو آپؐ کی ولادت منائی جاتی ہے ۔لہذا اتحاد اسلامی کے حامی علمانے پورے ہفتہ کو ہفتۂ وحدت کے عنوان سے منانے کا اعلان کیا تھا تاکہ امت مسلمہ ذات رسالت مآبؒ پر اپنے اتحاد و اتفاق کے ثبوت کو پیش کرسکے ۔مگر افسوس اتحاد و اتفاق کے یہ تمام تر دعوے نعروں سے آگے نہیں بڑھ سکے ۔کیونکہ امت مسلمہ ہزار ہا گروہوں ،متعدد فرقوں اور بے شمار نظریات میں بٹی ہوئی ہے ۔اہل سنت و الجماعت شیعہ علما کے دعوئوں کو حقیقت میں بدلتاہوا نہیں دیکھنا چاہتے ،اسی طرح شیعہ علما اہلسنت والجماعت کی اپیلوں اور اتحادی نعروں کو اہمیت نہیں دیتے ۔چند لوگ ہیں جو اس راہ میں پیش رفت کررہے ہیں مگر مسلمان لیڈروں کی انا پسندی اور ذاتی مفادات نے ان کوششوں کو بہت نقصان پہونچایاہے ۔خاص طورپر یمن،شام ،عراق،فلسطین اور افغانستان میں مسلمانوں کے قتل عام پر مسلمان لیڈروں اور اسلامی ملکوں کی مصلحت آمیز خاموشی اور عالمی سیاست کی کمان کو زہ کرنے کی تمنا نے انہیں امت کے مشترکہ مفادات کا حریف بنادیاہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج تک قبلۂ اول کی بازیابی اور فلسطینی مظلوموں کی حمایت میں مشترکہ صدائے احتجاج بلند نہیں ہوسکی ۔استعماری و استکباری طاقتیں مسلمانوں کے اس داخلی انتشار کو بخوبی سمجھتی ہیں لہذا وہ بھی ان کے اختلاف و انتشار کو اپنے مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرتی رہتی ہیں ۔المیہ یہ ہے کہ آج تک مسلمان کسی ایک مسئلے پر بھی اپنے اتفاق و اتحاد کا مظاہرہ نہیں کرسکے ،جس کا خمیازہ امت کو بھگتنا پڑرہاہے ۔اس کی بنیادی وجہ ایک دوسرے کے خلاف دل و دماغ میں بھری ہوئی نفرت اور باہمی احترام کے جذبے کا فقدان ہے ۔
لاریب ہم علمائے کرام سے تعلیم و تربیت ،اصلاح امت اور محبت و اخوت کی راہ میں نمایاں تگ و دو کی امید کرتے ہیں ۔یقیناً ایسے علماء ہمارے درمیان موجود ہیں جو اس راہ میں کوشش کررہے ہیں ۔مگر اکثریت ان مولوی حضرات کی ہے جو ناپختہ ذہن کے حامل ہیں ۔وہ عوام کے دل و دماغ میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا زہر بھرتے ہیں جس کے اثرات گاہے بہ گاہے ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں ۔ یہ نفرت کا درس انہوں نے کہیں اور سے نہیں پڑھا بلکہ مدارس کا نصاب ایسے مشمولات پر مبنی ہے جس میں دیگر فرقوں کو قبول نہ کرنے کا جذبہ پیدا کیا جاتا ہے ۔اگر مدارس اسلامیہ کا نصاب باہمی اتفاق و اتحاد اور دیگر فرقوں کے نظریات کو تحمل کرنے کا سبق دیتا تو آج ہماری داخلی صورتحال یکسرمختلف ہوتی ۔ہماری نصابی کتابیں ایک دوسرے کے خلاف نفرت سے بھری پڑی ہیں ۔ایک مکتب فکر دوسرے مکتب فکر کے خلاف زہر افشانی کرتاہے ۔ایک فرقہ دوسرے فرقے کو قبول نہیں کرنا چاہتا ۔مشترکہ عقاید پر بھی اتفاق کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا ۔جبکہ مسلمانوں کے تمام فرقے و مسالک بنیادی عقاید پر متفق ہیں مگر اس کا باہمی اظہار نہیں ہوتا ۔اتحاد کے لئے اختلافی مسائل کو نظرانداز کرنا ضروری ہوتاہے ۔مگر ہمارےیہاں زیادہ تر بحث و مباحثے کا محور اختلافی مسائل کو ہی بنایا جاتاہے ۔عام طور سے اتحاد کا نعرہ علمائے کرام کی طرف سے بلند ہوتاہے ،مگر یہ نعرہ کبھی عملی نہیں ہوسکتا ۔کیونکہ ہمارے مولوی صاحبان بلا تفریق مسلک جن مدارس سے پڑھ کر نکلتے ہیں ان کی نصابی کتابوں میں ایک دوسرے کی توہین اور منقصت موجود ہے ۔وہ بچہ جو مذہبی تعلیم کے لئے مدرسہ کارخ کرتاہے اس کے تروتازہ ذہن کی زمین پر اختلاف کابیج بویا جاتاہے ۔فقہی اختلافات میں ایک مسلک کا عالم دوسرے مسلک کے عالم کو جاہل ،فاسق اور کافر تک کہہ دیتاہے ۔ایسے ماحول کا پروردہ بچہ جب مدرسہ سے فراغت پاکر معاشرہ میں پہونچتاہے تو ہم اس سے اتحاد و اتفاق کی امید کیسے کرسکتے ہیں کیونکہ مدارس میں اس کی تربیت ان عناصر سے خالی رہی ہے ۔شیعہ طالب علم اہلسنت کا نام سن کر بدک جاتاہے اور لعنت ملامت کرنے لگتاہے ۔اسی طرح سنّی طالب عالم شیعوں کےدرمیان جاکر مکالمے کو عیب اور باعث ننگ و عار سمجھتاہے ۔منبرومحراب سے ایک دوسرے کے خلاف ملامتیں کی جاتی ہیں ۔ایک دوسرے کے عقاید پر حملے کئے جاتے ہیں ۔یاد رہے کہ جب مسلمان چودہ سو سال میں لفظ ’مولا‘ کے معنی پر اتفاق نہیں کرسکے تو دیگر مسلکی اختلافات کو بحث و مباحثے اور مناظروں کے ذریعہ کیسے حل کرسکتے ہیں ۔جب تک بین المسالک مکالمے کی فضا قائم نہیں ہوگی اتحاد ممکن نہیں ہے ۔مدارس کے ذمہ دار حضرات نصابی کتابوں کو ایک دوسرے کی تضحیک اور منقصت پر مبنی مواد سے پاک کریں ۔ایک دوسرے کے نظریات پر تنقید میں بھی شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ جانے پائے ۔یاد رہے کہ ہمارے داخلی مسائل کو حل کرنے کے لئے خارجی طاقتیں کبھی اہم کردار ادا نہیں کرسکتیں ۔ہمیں اسلامی ممالک سے زیادہ امیدیں وابستہ نہیں رکھنی چاہئیں بلکہ اپنے مسائل کے حل کے لئے از خود جدوجہد کو ترجیح دیں۔اس کے لئے اپنا الگ نصاب تیار کریں جس میں ایک دوسرے کے مذہبی جذبات و احساسات کاخیال رکھاجائے ۔بچوں کی تعلیم و تربیت اختلافی بنیادوں پر نہ کی جائے تاکہ ان کا دل و دماغ نفرت سے پاک رہے ۔
ہماری نصابی کتابوں اور فقہی اختلافات کا معجزہ یہ ہے کہ ایک مکتب فکر دوسرے مسلک کے افراد کو دوزخی تصور کرتاہے ۔ہم چودہ سو سالوں میں آج تک یہی طے نہیں کرپائے کہ کون سا فرقہ ناجی اور صحیح اسلام کا نمایندہ ہے ۔ظاہر ہے تمام فرقے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ فرقۂ ناجیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے علاوہ دیگر فرقے فکری بے راہ روی کا شکار اور دوزخی ہیں ۔تمام فرقے اسی دھن میں مگن ہیں اور ایک دوسرے کی آئیڈیولوجی پرمتشددانہ انداز میں تنقید بلکہ لعنت و ملامت کی جاتی ہے ۔ہر فرقہ یہ چاہتاہے کہ اس کے نظریات کو دنیا میں فروغ حاصل ہو اور دیگر افکارونظریات کو کسی طرح پنپنے ہی نہ دیا جائے ۔اسی ذہنیت نے تشدد اور کٹر پنتھ کو جنم دیا ۔فکری بے راہ روی کے شکار نوجوان ایسے افراد کی کٹھ پتلی بن جاتے ہیں جو مذہبی شدت کا بہترین سوئے استفادہ کرسکتے ہیں اور اپنے علاوہ دیگر عقاید و نظریات کے حامل افراد کو قابل قتل تصورکرتے ہیں ۔عالمی دہشت گردی کی ماں استعمار ہے لیکن اس نے ایسے ہی مسلک کے نظریاتی پستانوں سے زندگی کشید کی ہے ۔ہمارے علما کو ا س راہ میں کڑی محنت کرنا ہوگی تاکہ فقہ و تاریخ اور دیگر کتابوں کو تعصبات اور ایک دوسرے کی تضحیک سے پاک کرسکیں ۔یقیناً یہ کام آسان نہیں ، لیکن ناممکن بھی نہیں ہے ۔یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ مسلکی اختلافات ہر گز حل نہیں ہوسکتے مگر اختلافات کو بنام امتیازات پیش کیا جاسکتاہےبنام اختلاف نہیں۔
معلوم ہونا چاہیے کہ ایک دوسرے کے مسلکی تحفظات اور عقیدتی معاملات پر مضحکہ خیز تنقیدنفرت اور تشدد کو جنم دیتی ہے ۔انسان سب کچھ برداشت کرسکتاہے مگر اپنے عقاید پر حملہ برداشت نہیں کرسکتا ۔ہمارے یہاں نصابی کتابوں میں ایک دوسرے کے مسلکی نظریات اور عقاید پر بھر پور حملہ کیا جاتاہے جس کا آغاز صدیوں پہلے ہوچکا تھا ۔ظاہر ہے ہم ان اختلافی مسائل کو کبھی حل نہیں کرسکتے جو چودہ سوسالوں سے ہمارے درمیان موجود ہیں ۔لیکن ان اختلافی مسائل میں تشدد آمیزاور مضحکہ خیز تنقید ی پہلوئوں کو نظر انداز کردیا جائےتو بہت سے مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے ۔ہم نے جن عناصر کو عوام کے درمیان مذہبی و مسلکی افہام و تفہیم کے لئے بھیجا ہواہے وہ اپنے ذہنی شکوک و شبہات کو ہی حل کرلیں تو بہت ہے ۔جن کے رحم و کرم پر ہم نے نوجوان نسل اور اپنے سماج کو چھوڑ رکھاہے ان کی علمی لیاقت اور ذاتی صلاحیت کیا ہے ،یہ مخفی نہیں ہے ۔یہی وجہ ہےکہ ہمارا نوجوان مولویان کرام سے دور ہوتا جارہاہے ۔اس دل برداشتگی کی زد میں وہ علمائے کرام بھی آجاتے ہیں جو واقعی قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے مخلصانہ کوششیں کرتے ہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسے افراد کو تیار کیا جائے جوعوام کے درمیان جاکر اسلام کی صحیح تبلیغ کرسکیں ۔اختلافی و نزاعی مسائل کو سلیقے اور شائستگی کے ساتھ بحث و گفتگو میں شامل کریں تاکہ اتحاد و اخوت کی بہتر مثال پیش کی جاسکے۔آج کا نوجوان اسلام کی صحیح تعلیم حاصل کرنا چاہتاہے مگر اس کے آس پاس فقط اور فقط مسلکی زہر افشانی کرنے والے افراد کی بھیڑ ہے ۔رفتہ رفتہ وہ بھی اسی فکری بے راہ روی کا شکار ہوجاتاہے ۔آج دنیا عالم اسلام کے نمائندہ چہروں کی طرف نگراں ہے کہ وہ کس طرح جدید چیلینج کو قبول کرتے ہیں اور حقیقی اسلام کی تبلیغ کے لئے کیا مناسب اقدام کرتے ہیں ۔اس راہ میں پیش رفت کی سخت ضرورت ہے تاکہ ہندوستان میں ہمارا موثر اتحاد قائم ہوسکے۔