وقاص چودھری
میڈیا، خصوصاً سوشل میڈیا انسان کے نظریات سے کیسے کھیل رہا ہے؟ اور اس کا وار کیسا کاری ہوتا ہے کہ عام آدمی کا اس سے بچنا مشکل ہے؟ اس کا اندازہ اس پوسٹ سے کیا جاسکتا ہے جو کسی صاحب نے فیس بک سے لے کر بھیجی کہ یہ فیس بک کی بہتی گنگا میں ہر طرف گردش کررہی ہے، کیا آپ اس پر کوئی تبصرہ کرسکتے ہیں ؟ اس عاجز نے جب پہلا جملہ پڑھا تو احساس ہوگیا کہ جھوٹ کے اس پلندے میں جذبات کو مشتعل کرنے کے لیے جس فریب کاری سے کام لیا گیا ہے، وہ کس کا کمال ہے؟
پھر جب پوری پوسٹ میں بیان کیے گئے ’’حقائق‘‘ کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ ایک طبقہ ہر حال میں، ہر قیمت پر، چاہے اسے جھوٹ باندھنے اور تہمت لگانے جیسا جرم کرنا پڑے، اس امر پر تلا ہوا ہے کہ ترکی کی موجودہ حکومت کے خلاف اتنا ذہن بنائے کہ کل کلاں خدانخواستہ اسے کوئی حادثہ پیش آجائے تو کوئی افسوس کرنے والا بھی ڈھونڈے سے نہ ملے۔ اس طرح کی اگر منفی ذہن سازی کی یہ پہلی کوشش نظر سے گزری ہوتی تو اسے نظرانداز کرنا بہتر تھا۔
یہ سطحی تحریر اس قابل نہ تھی کہ اس پر توجہ دی جائے، لیکن اس طرح کی تحریریں ایک طبقے کی طرف سے (جس کا تعارف زیرنظر کالم کے ساتھ دیے گئے او آئی سی کے خط سے قارئین کو ان شاء اللہ خودبخود ہوجائے گا) مسلسل پھیلائی جارہی ہیں، اس لیے ان کے جواب کے لیے چند اصولی باتیں سمجھیے، پھر ذیلی نکات دیکھتے ہوئے اور فروعی جزئیات کا تجزیہ کرتے ہوئے چلیں گے۔
آگے بڑھنے سے پہلے آپ یہ پوسٹ پڑھ لیں :
’’اسرائیل جن جہازوں سے غزہ پر آگ برسا رہا ہے۔ ان جہازوں میں ڈالا جانے والا تیل اسلامی ملک آذربائجان سے آتا ہے۔ اس کے لیے جس کمپنی کو ٹھیکہ ملا ہے، اس کمپنی کا نام ’’ بی ٹی سی ‘‘ہے۔ یہ اسرائیل اور ترکی کی مشترکہ کمپنی ہے۔ آذربائجان سے تیل جارجیا کے راستے ترکی میں داخل ہوتا ہے۔ پھر ترکی کے میڈیٹیریین کے ’’سیہان پورٹ‘‘ سے اسرائیل کے ’’پورٹ ایشکلون ‘‘ بذریعہ بحری جہاز پہنچایا جاتا ہے۔
حالیہ دنوں میں ترکی کے ’’اسلام پسند‘‘ حکومت نے اسرائیل کے ساتھ ایک معاہدہ کیا ہے جس کے تحت ترکی سے اسرائیل، زیر سمندر چار پائپ لائنیں بچھائی جائیں گی جس سے گیس، تیل، بجلی اور ایٹمی پانی (ڈی ٹو او) کی اسرائیل تک کمترین وقت میں ترسیل ممکن ہوگی۔ جس کا فاصلہ صرف 400 کلومیٹر ہوگا۔ اس سب کے بعد بھی لوگ کہتے ہیں کہ ترکی کی حکومت مسلمانوں کے ساتھ ہے۔‘‘
بظاہر یہ تحریر پہلے جملے سے ہی قاری کے اندر جذبات کا طوفان پربا کردیتی ہے۔ اور وہ یہ سمجھے بغیر کہ اسرائیل کو غزہ پر جہاز سے بمباری کی ضرورت نہیں پڑتی، ترکی اور آذربائیجان سے متنفر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اسے معلوم نہیں کہ اسرائیل زمین سے زمین پر مار کرنے والے میزائل استعمال کرتا ہے، کیونکہ غزہ کی زندہ جیل کہیں دور نہیں، اس کے گھیرے میں ہے، جہاں تک گائیڈڈ میزائل کی پہنچ ہے اور جہاز میں اُڑان بھرنے کی ضرورت نہیں، محض مسلمانوں کا اس حصار میں محصور ہونا کافی ہے، جسے تاریخ میں صرف اردگان نے پہلی مرتبہ توڑنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور تمام تر منفی پروپیگنڈے اور یہود کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے پر آنے والے خطرات کے باوجود اسے توڑنے کی مسلسل کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔
اس طرح کی سطحی اور اشتعال انگیز منفی تحریر کے بارے میں دو اصول یاد رکھنے چاہییں جن کو اس عاجز نے ترتیب وار استعمال کیا تو الحمدللہ پوسٹ بھیجے والے ساتھی کی نہ صرف تشفی ہوئی، بلکہ اس نے فیس بک پر گردش کرتی اس تحریر کا اپنے طور سے تعاقب کیا اور اس کے زہریلے اثرات کے توڑ کی کامیاب کوشش کی۔
سب سے پہلے تو احقر نے اس ساتھی کو سمجھایا کہ اس طرح کی تحریروں میں جو دعویٰ کیا جاتا ہے، اس کا ثبوت یا حوالہ پوسٹ بھیجنے والے سے فوراً مانگنا چاہیے۔ یہ نہیں کہ الزام وہ دھرے اور جواب کے لیے ثبوت اور جواب ثبوت ہم تلاش کرتے پھریں۔ اس کے بعد اس کے ان مندرجات پر غور کرنا چاہیے جس میں غیرواقعی بات کی گئی ہوتی ہے۔ مثلاً اس کے شروع میں جہازوں سے آگ برسانے،بیچ میں حالیہ دنوں میں ترکی کی ’’اسلام پسند‘‘ حکومت کے اسرائیل کے ساتھ معاہدہ کرنے اور آخر میں ترکی حکومت کے مسلمانوں کے ساتھ ہونے پر جذباتی اعتراض کیا گیا ہے، لہٰذا تحریر کے اول و آخر یا وسط میں قابل غور نکتے پر توجہ صرف کی جائے تو تو آسانی سے اس کے تارپود بکھیرے جاسکتے ہیں۔ آئیے! اس خبر کے مندرجات کی ایک ایک کرکے تحقیق کرتے ہیں کہ اس میں واقعی حقیقت کتنی ہے اور سوشلی پروپیگنڈہ کتنا ہے؟
تحقیق کی رو سے دلچسپ حقائق سامنے آتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جو مخصوص طبقہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا ترکی کے ساتھ قلبی تعلق برداشت نہیں کرتا وہ ترکی کے اندر کون ہے؟ اور ترکی کے باہر اس کا سرپرست کون ہے؟
پہلے چند حقائق پر نظر ڈالیے:
’’۔ بی ٹی سی ’’باکو طبلس جیحان‘‘ کا مخفف ہے۔ پروجیکٹ باکو سے شروع ہوکر جیحان میں ختم ہونے والی ایک پائپ لائن کی تنصیب ہے جس کا مقصد آذربائیجان کے خطے میں پیدا ہونے والے پیٹرول کو ترکی کے ایک علاقے جیحان تک پہنچانا اور یہاں سے ٹینکرز کے ذریعے پوری دنیا کی مارکیٹ تک پہنچانا ہے۔ یہ ’’بی ٹی سی ‘‘پلان کا بنیادی مقصد ہے۔
یہ کرٹیکل پروجیکٹ پیٹرول کو بین الاقوامی مارکیٹ میں محفوظ طریقے سے برآمد کرنے کی خاطر تشکیل دیا گیا ہے جو اقتصادی حوالے سے بہت مناسب ہے اور ماحولیاتی اعتبار سے بھی لمبے عرصے تک چلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مشرق و مغرب کے درمیان کوری ڈور کا سب سے زیادہ کرٹیکل بیس پر مشتمل یہ ’’ پی ٹی سی ‘‘ پروجیکٹ ایک تو ترکی کی جغرافیائی سیاست میں اضافے کا سبب ہے۔
مختلف بین الاقوامی پروجیکٹس پلیٹ فارمز میں یہ پائپ لائن بطور گزرگاہ ہے۔ یہ مشرق و مغرب کے درمیان ایک انرجی پل کا کردار ادا کرے گا۔ یہ اہم ترین پروجیکٹ خطے کے ممالک سے پوری دنیا میں پیٹرول اور قدرتی گیس کی پائپ لائن اور دوسرے منصوبوں میں نمایاں کردار ادا کرے گا۔‘‘
اس تاریخی پس منظر پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہمارے دور کے میڈیا فروش کس طرح مظلوم فلسطینیوں کے واحد عملی مددگار کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کرتے ہیں ؟
۔ بی ٹی سی اسرائیل اور ترکی کی مشترکہ کمپنی نہیں، بلکہ یہ کسی بھی کمپنی کا نام نہیں، یہ تو تین شہروں کے درمیان پائپ لائن کا نام ہے۔
اس پائپ لائن کے بچھانے کا معاہدہ حالیہ دنوں میں نہیں، موجودہ ترکی اور اسرائیل کی پیدائش سے پون صدی قبل 1930ء میں کیا گیا تھا۔ یہ اسرائیل کو تیل پہنچانے کے لیے نہیں، بلکہ پوری دنیا میں تیل کی ترسیل کا ایک منصوبہ ہے جو ترکی کی معیشت اور پوری دنیا کی اقتصادی سیاست میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
حاصل یہ کہ اسرائیل کا تیل صرف ترکی سے نہیں آتا، البتہ تحریر کردہ حضرات کے قلم کی سیاہی اس فنڈ سے ڈالی جاتی ہے جو کسی اسلامی ملک کی بہتری برداشت کرتے ہیں نہ مظلوم مسلمانوں کا کوئی ہمدرد انہیں ایک آنکھ بھاتا ہے۔ یہودی لابی کے تعاون سے فروغ پانے والا یہ وہ طبقہ ہے جس کے خلاف او آئی سی نے حال ہی میں قرارداد جاری کرکے اسلامی ممالک نے کہا ہے کہ اس کی پھیلائی ہوئی ترکی مخالف خبروں کی اشاعت سے اجتناب کریں۔
اور واقعہ یہ ہے کہ اس کی طرف سے ترکی پر کیے گئے اعتراضات کی حقیقت ویسی ہی بودی اور جعلی ہوتی ہے جیسا آپ نے اوپر ملاحظہ کیا۔ ترکی کی طرف سے سابقہ ادوار میں امریکا کو اڈے دینا، ترکی میں سابقہ سیکولر اور رسمی غیراسلامی باقیات وغیرہ وغیرہ…
یہ سب چیزیں کسی اور کی ہیں، تھوپ موجودہ ترکی حکومت پر دی جاتی ہیں۔
اب ہم اس نکتے کی طرف آتے ہیں جس پر اس مختصر آگ برساتی تحریر کی تان ٹوٹی ہے۔ پہلی سطر میں جس طرح ایک غیرواقعی بات سے منفی جذبات اُبھارنے کی کوشش کی گئی ہے اسی طرح آخری سطر میں ایک بھونڈے پروپیگنڈے پر ختم کی گئی ہے: ’’اس کے بعد بھی سب لوگ کہتے ہیں کہ ترکی حکومت مسلمانوں کے ساتھ ہے۔‘‘
ترکی کے متعلق ہم میں سے کسی کو یہ خیال نہیں کہ اس کا حکمران ’’خلیفۃ المسلمین‘‘ جیسا کوئی شخص ہے یا یہ ریاست خلافت راشدہ جیسی کوئی ریاست ہے۔ اردگان کو دنیا بھر کے مسلمان اچھائی کی طرف سفر جاری رکھنے والا حکمران اور ہم جیسے لوگ اسے بہتری کی کوشش کرنے والا ایک نظریاتی کارکن سمجھتے ہیں۔ ترکی اسلامی ممالک میں سے وہ ملک ہے جو بدعنوانی او رپسماندگی سے جان چھڑاکر اصلاح و ترقی کی طرف تیزی سے سفر کررہا ہے۔
اس کی یا اس کے حکمران کی حوصلہ افزائی اس انداز میں ہونی چاہیے جیسے کوئی شخص جمعہ جمعہ آٹھویں دن کی نماز سے روز کی دو تین نمازوں پر آجائے تو سب اس کی ہمت بڑھانے کے لیے اسے مبارکباد دیتے اور مسجد سے جوڑ کر رکھتے ہیں۔
اس طرح ترکی کے ’’مردِ بیمار‘‘ کو ’’مردِ توانا‘‘ بننے کے لیے اس سے ربط و ضبط رکھنا چاہیے تاکہ وہ ’’مردِ مؤمن‘‘ بن سکے۔ اس سے زیادہ نہ مبالغہ کرنا چاہیے اور نہ تغافل برت کر ایک اصلاحی کارکن کی ہمت شکنی کرنی چاہیے۔
یہی میانہ روی کی بات ہے اور یہی وہ معتدل رویہ ہے جس کو اپناکر ہم اپنا فرض بھی پورا کرسکتے ہیں اور ہماری سوچ کھیلنے والوں کے جال سے بھی نکل سکتے ہیں۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)