ڈاکٹرظفرالاسلام خان
پچھلے دنوں آرایس ایس کے سربراہ بھگوت جی نے، جو درحقیقت مودی سرکار کو پیچھے سے چلا رہے ہیں، ایک ایسا بیان دیا جو میرے خیال میں آزاد ہندوستان میں دیا جانے والا سب سے خطرناک بیان تھا۔ انہوں نے کہا کہ فوج کو تیار ہونے میں سات ماہ لگ جاتے ہیں اور آرایس ایس کے کارکنوں کی فوج صرف تین دن میں تیار ہوجاتی ہے۔ افسوس ہے کہ اس خطرناک بیان کا مناسب نوٹس نہ حکومت، نہ میڈیا، نہ سیاسی پارٹیوں اور نہ ہی مسلمانوں نے لیا۔ اس بیان کا مطلب یہ ہے کہ آرایس ایس کے پاس ایک تیار فوج موجود ہے ورنہ دنیا میں کوئی بھی تین دن میں کوئی فوج تیار نہیں کر سکتا ہے۔ تین دن کا مطلب ہے کہ مطلوبہ تیار شدہ کارکن اپنی متعین جگہ پر ملک کے کسی بھی حصے میں تین دن کے اندر پہنچ جائے گا۔
یہ باتیں ڈھکی چھپی نہیں ہیں کہ سنگھ اور اس سے وابستہ تنظیمیں مثلا بجرنگ دل، درگاواہنی اور ہندویواواہنی وغیرہ فوجی ٹریننگ کے لئے مسلسل علانیہ اور خفیہ کیمپوں کا برسوں سے انعقاد کرتے رہے ہیں جن کی خبریں فوٹو کے ساتھ چھپتی رہی ہیں ۔ ان کیمپوں میں لاٹھی اور ڈنڈے کے ساتھ ساتھ آتشیں اسلحوں کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے بلکہ ماضی میں بھونسالا ملٹری اسکول ناگپور اور پونا کے آکنکشا ریزورٹ میں بم بنانے کی تربیت بھی سینکڑوں لوگوں کو دی جاچکی ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی خبریں ہم کو اخبارات کے ذریعے ملتی رہی ہیں۔ اس کے علاوہ سنگھ کی جو سرگرمیاں خفیہ طور سے جاری ہیں وہ یقیناًاس سے کہیں زیادہ ہونگی۔ یہ ساری تیاری کسی بیرونی سرحد پر لڑنے یا کسی غیر ملکی حملہ آوردشمن سے نبرد آزما ہونے کے لئے نہیں ہے بلکہ آر ایس ایس کے فرضی دشمنوں سے لڑنے کے لئے ہے، جن کا اعلان سنگھ بہت پہلے کرچکا ہے، یعنی مسلمان، عیسائی اور کمیونسٹ۔ دوسرے لفظوں میں ملک کو ایک خانہ جنگی میں دھکیلنے کی تیاری ہو رہی ہے۔
اگرچہ موجودہ حکومت آرایس ایس کی جیب میں ہے لیکن عدلیہ جیسا اہم ادارہ آج بھی بڑی حد تک آزاد ہے۔ ضرورت ہے کہ کچھ تنظیمیں اس مسئلے کو سپریم کورٹ میں لے جاکر آرایس ایس پر باقاعدہ پابندی کا مطالبہ کریں کیونکہ آزادی کے فوراً بعد مہاتما گاندھی کے قتل کی پاداش میں آرایس ایس کو ممنوعہ تنظیم قرار دیا گیا تھا تو اسے ۱۹۴۹ میں دوبارہ کام کرنے کی اجازت اسی وقت ملی تھی جب سنگھ نے لکھ کر حکومت کو حلفیہ بیان دیا کہ اب وہ سیاسی کام نہیں کرے گی بلکہ صرف ایک اجتماعی (سوشل) تنظیم کے طورسے کام کرے گی۔ سنگھ کی مختلف سرگرمیاں ، سیاسی تنظیم اور نیم فوجی تنظیموں کا قائم کرنا اوراب ایک متبادل فوج کی تیاری واضح طریقے سے بتاتی ہے کہ سنگھ نے مرکزی حکومت کو دی ہوئی یقین دہانی (انڈرٹیکنگ) کی دھجیاں اڑادی ہیں اور اب اسے ایک قانونی تنظیم کے طور سے باقی رہنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
مولاناسلمان ندوی اور بابری مسجد
معروف عالم دین مولانا سید سلمان ندوی کی سری سری سے ملاقات اور کچھ شرطوں کے ساتھ بابری مسجد کی زمین سے دستبرداری پر رضامندی کے اعلان پر کھڑا ہونے والا طوفان تھمتا نظر نہیں آرہا ہے اگرچہ شدید انتقادات کی وجہ سے مولانا سلمان اب اس موقف سے ہٹتے نظر آرہے ہیں۔
میں مولانا سلمان کو تقریباپچھلے تین دہوں سے قریب سے جانتا ہوں اور ان کے علمی تبحر اور دیانتداری کا قائل ہوں ۔ ان سے اختلاف ممکن ہے اور میں نے ماضی میں ان سے اختلاف کیا بھی ہے لیکن ان کے اخلاص اور دیانتداری پر کسی شبہے کی گنجائش نہیں ہے۔
مولانا سلمان نے بابری مسجد کے بارے میں جو بات کہی ہے، وہ درست اور منطقی ہے۔ بابری مسجد کے مسئلے کو ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں نے ایک سیاسی وقار کامسئلہ بناکر بہت پیچیدہ کر دیا ہے۔ آرایس ایس اور بی جے پی کے لوگوں نے مسجد کو شہید کرکے اور پھر عدالت نے متنازع زمین کی تقسیم کا فیصلہ کرکے اسے مزیددشوار بنا دیا ہے۔ آج عملا مذکورہ جگہ پر ۷ دسمبر ۱۹۹۲ کی صبح سے ایک مندر قائم ہے۔ اس کی حفاظت پر مرکزی اور صوبائی حکومتیں سالانہ کروڑوں روپیہ خرچ کرتی ہیں اور اسے روزانہ عقیدت مندوں کی زیارت کے لئے کھولاجاتاہے جن میں عوام کے علاوہ لیڈران، سرکاری افسر ان بلکہ جج تک شامل ہوتے ہیں ۔ اب مسئلہ سپریم کورٹ میں ہے اور صورت حال بتا رہی ہے کہ وہاں بھی یہ مسئلہ خوب طول کھنچے گا اور اس بات کی امید موہوم ہی کہ آخری فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آئے گا۔
اس صورت حال میں مولانا علی میاں مرحوم کے زمانے سے کورٹ سے باہر تصفیہ کرنے کی کوشش کی گئی جسے دونوں فریقوں کے متشدد لوگوں نے ہنگامہ آرائی کرکے رد کر دیا کیونکہ دونوں فریقوں کے مفادات مسئلے کو طول دینے میں ہیں ۔ اگراس مسئلے کو استعمال کرکے بی جے پی دوبار مرکز میں اور بارہا صوبوں میں حکومتیں بنا چکی ہے تو کچھ مسلم زعماء کو بھی کچھ کم فائدہ نہیں ہوا ہے جبکہ ملت کو مایوسی اور ذلت کے علاوہ کچھ نہیں ملا ہے۔
ملت کے بعض پرجوش دینی اور سیاسی قائدین کی رٹ ہے کہ مسجد زمین سے آسمان تک مسجد ہے اور تاقیامت مسجد رہے گی حالانکہ شریعت کے بنیادی مآخذ (قرآن و حدیث) میں اس رائے کی تایید نہیں ملتی ہے۔ عملی طور پر مختلف مسلم ممالک میں مسجدوں کو پرانی جگہ سے نئی جگہ منتقل کرنے کی مثالیں موجودہیں ۔سعودی عرب میں مدینہ منورہ میں عصراول کی بعض مساجد کے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ خود میرے سامنے طرابلس (لیبیا) میں ترکی زمانے کی ایک قدیم مسجد میدان سبز (المیدان الاخضر) کو بڑا کرنے کے لئے ۱۹۷۰ کے دہے میں ڈھائی گئی اور وہاں کے بڑے بڑے علماء نے کوئی نکیر نہیں کی۔ دور نہ جائیں ، خود ہمارے ملک میں ہزاروں ایسی مساجد ہیں جن پر آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا یا غیر مسلمین بلکہ کبھی کبھی خود مسلمانوں کا قبضہ ہے۔ خود دلی میں ایسی تقریبا ۳۰ مساجد ہیں ، پنجاب، میں ایسی تقریبا تین ہزار مساجد ہیں ، لیکن ان کے لئے ہمارا خون نہیں کھولتا ہے اور ’’ایک بار مسجد، ہمیشہ مسجد‘‘ کا فارمولا وہاں کارگر نہیں ہوتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہمارے عمائدین نے اعلان کر رکھا ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ، خواہ وہ مسلمانوں کے خلاف جائے، ہمیں منظور ہے۔ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے سے مسجد یا کسی شرعی مسئلے کی حیثیت بدل جائے گی؟ یہ منطقی تناقض میری سمجھ سے باہر ہے۔ اگر مسجد ہمیشہ ہمیش کے لئے مسجد ہے تو سپریم کورٹ کا آرڈر کیسے اس شرعی حکم کو بدل دے گا؟ بہتر ہے کہ ہم مان لیں کہ امت کے اعلی مقاصد اور امتیوں کی جان ومال کی حفاظت کی خاطر مسجد کی جگہ تبدیل کی جاسکتی ہے اورانھیں اغراض کے لئے کسی مقبوضہ مسجد سے تنازل بھی کیا جا سکتا ہے۔
اب واپس آتے ہیں مولانا سلمان کی سری سری سے ملاقات اور بیانات پر۔ اگرچہ مولانا سلمان کی بذاتہ رائے سے ہمیں اتفاق ہے کہ آپسی سمجھوتے سے یہ بات طے ہو جائے تو فریقین کے لئے بہتر ہے تاکہ کوئی فریق خود کو مظلوم اور دباؤ کاشکار نہ سمجھے اور ایک ایسے مسئلے کا خاتمہ ہوجائے جس کو استعمال کرکے ہمارے خلاف برسوں سے ماحول گرم کیا جارہاہے اور ہمیں ہمیشہ حاشیہ پر ڈالنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ لیکن سمجھوتے کا یہ کام بھی صرف عدالت کی سربراہی میں ہو سکتا ہے یا آر ایس ایس سمیت اصل فرقاء سے یا خود حکومت سے بات چیت کرکے حاصل ہوسکتا ہے۔ عدالت کی سربراہی میں ا س طرح کے تصفیے کا موقعہ کچھ عرصہ قبل آیا تھا جب مارچ ۲۰۱۷ میں چیف جسٹس جگدیش سنگھ کھیہر نے اس کی پیش کش کی تھی، لیکن ہمارے ناعاقبت اندیشوں نے فوراً اس کو رد کر دیا۔ اصل فرقاء اور حکومت سے بات چیت کرنے کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی ہے۔ ایس حالت میں سر ی سری یا جسٹس پولوک سے بات کرنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے کیونکہ ان کے پاس ایسے فیصلے کے نفاذ کے لئے قوت نافذہ نہیں ہے اور با ت نشستند، گفتند و برخاستند سے آگے نہیں بڑھے گی۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)