-
ابراہیم رئیسی کا دورۂ دمشق ایک تاریخی قدم
- سیاسی
- گھر
ابراہیم رئیسی کا دورۂ دمشق ایک تاریخی قدم
575
m.u.h
10/05/2023
0
0
تحریر:عادل فراز
گذشتہ دنوں ایرانی صدر آیت اللہ ابراہیم رئیسی شام کے دوروزہ دورے پر تھے ۔عالمی سیاست میں اس دورے کو نمایاں اہمیت حاصل رہی کیونکہ استعماری طاقتوں نے شام کو تسخیر کرنے کے لئے بے شمار دولت خرچ کی تھی ۔امریکہ اور اسرائیل شام کو عراق اور یمن کی طرح تباہ کردینا چاہتے تھے ۔وہ چاہتے تھے شام پر اسی طرح قبضہ کرلیا جائے جس طرح فلسطین کی سرزمین پر ان کا غاصبانہ قبضہ ہے ۔شام کے قدرتی ذخائر پر بھی ان کی نگاہ تھی ۔لیکن ایرانی مداخلت نے استعماری منصوبوں کو ناکام بنادیا ،جس کےبعد ایرانی اور عالمی طاقتوں کے درمیان رسہ کشی میں مزید اضافہ ہوا۔استعماری طاقتوں نےایران کو تنہا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ،لیکن وہ اپنی ہر کوشش میں ناکام رہے ۔آج ایران خطے کی نمایاں طاقت ہے جو مسلسل ترقی کی راہ پر گامزن ہے ۔خطے میں بھی ایران کا اثرونفوذ بڑھ رہاہے ۔چین اور روس کے ساتھ اس کی تجارتی ،اقتصادی ،سائنسی اور دفاعی شراکت نے بھی عالمی رائے کو اس کے حق میں تبدیل کیاہے ۔اسی طرح دنیا کے اہم ملک آج اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھارہے ہیں ،جو اس کی سفارتی کامیابی کی دلیل ہے۔
شامی عوام نے جس جوش و خروش کے ساتھ ابراہیم رئیسی کا استقبال کیا وہ قابل دید تھا ۔عوام کا پرتپاک استقبال اس بات کی طرف واضح اشارہ ہے کہ ایران نے شام میں کس قدر نفوذ حاصل کرلیاہے ۔ایران کے لئے شامی حکومت کا اعتماد جیتنا آسان تھا،لیکن کسی بھی دوسرے ملک کے عوام کا اعتبار حاصل کرنا نہایت مشکل ہوتاہے۔شامی عوام بخوبی جانتی ہے کہ اگر ایران نے بروقت ان کی مدد نہ کی ہوتی تو آج شام کے حالات یمن سے بھی بدتر ہوتے ۔داعش اور دیگردہشت گرد تنظیموں نے جس طرح شام پر قبضے کے لئے خوں ریزی شروع کی تھی ،اس کا سدّباب شامی حکومت کے دائرۂ اختیار میں نہیں تھا ۔بشارالاسد کو بھی اس حقیقت کا علم ہوچلا تھاکہ اگر ایران کو شام آنے کی دعوت نہیں دی گئی تو پورا ملک دہشت گردوں کے ہاتھوں کا کھلونا بن جائے گا ۔اس لئے انہوں نے بروقت سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران اور روس سے مداخلت کی درخواست کی ۔ایران اور روس کی فوجوں کے شام میں داخل ہوتے ہی دہشت گرد پسپا ہونا شروع ہوگئے ۔صہیونی سازشیں ناکام ہونے لگیں ۔ترکی جو مسلسل شامی علاقوں میں فوجی پیش رفت کررہاتھا،وہ بھی پیچھے ہٹنے لگا ۔امریکی حلیف ملکوں کے تیور بدل گئے ۔ایسا اس لئے ہواکہ کیونکہ بشارالاسد نے صحیح وقت پر مناسب فیصلہ لیا ۔اسی سیاسی شعور کا مظاہرہ اگر عراق میں صدام حسین نےکیا ہوتا تو آج عراق کی داخلی صورت حال مختلف ہوتی ۔
شام اور عراق میں بیک وقت دہشت گرد گروہوں نے سر اٹھایا تھا ۔عراق میں ابوبکر بغدادی نے خلافت کا اعلان کرکے امت مسلمہ کو چونکا دیا تھا،لیکن افسوس کسی مسلمان ملک نے اس کی خلافت کے دعویٰ کو مسترد نہیں کیا ۔بعض تکفیری افکارونظریات کے حامیوں نے اس کی آواز پر لبیک تک کہی اور کئی ملکوں سے اس کی خلافت کی حمایت کا اعلان کیا گیا ۔یہی صورت حال شام میں کارفرما رہی کیونکہ دونوں ملکوں میں ایک ہی نظریے نے فتنہ برپا کیاتھا ۔تکفیری نظریہ کسی نئے نظام کا دعویدار نہیں تھا بلکہ مسلمانوں میں عرصۂ دراز سے یہ نظریہ اپنی پوری توانائی کے ساتھ موجود رہاہے ۔چونکہ اس وقت تک دہشت گردی کی اصطلاح رائج نہیں تھی ،لہذا ان کے فتنوں اور خوں ریزیوں کو اس تناظر میں پیش نہیں کیا گیا ۔ورنہ داعش اور دیگر دہشت گردتنظیموں نے جو فتنے شام،عراق،افغانستان اور دیگر ملکوں میں برپاکئے ہیں ،ان کی جڑیں ہزار سال پرانی ہیں ،جنہوں نے ہمیشہ اسلام اور مسلمانوں کو ناقابل تلافی نقصان پہونچایاہے ۔عراق میں ابوبکر بغدادی اورشام میں اس کے پیروکاروں کوشکست دینا ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں تھی ،یہ بیڑا شہید قاسم سلیمانی نے اٹھایا اور فتنےکا سرکچل دیا ۔عراق میں ان کے داخلے کے بعد داعشی سرداروں کے بیانات کو ملاحظہ کیاجاسکتاہے ،جنہوں نے متفقہ طورپر یہ تسلیم کیاکہ انہیں جب یہ معلوم ہواکہ عراق کی سرزمین پر جنرل قاسم سلیمانی آگئے ہیں ،تو انہیں اپنی شکست کا یقین ہوگیا۔شام میں بھی جنرل سلیمانی ہر محاذ پر موجود رہے جس کے بارے میں بشارالاسد اور شامی فورسیز کےبیانات کو ملاحظہ کیاجاسکتاہے ۔ایسا بے باک ،شجاع اور بے خوف کمانڈر ہی داعش سے لوہا لے سکتا تھا ۔آج بھی عالم اسلام ان کے عزم و حوصلے اور جذبۂ شہادت کو سلام کرتاہے ۔ابراہیم رئیسی نے حضرت علی ؑ کی بیٹی جناب زینب ؑ کے حرم میں نماز اداکرکے دہشت گردوں کو واضح پیغام دیاکہ میں آج اسی جگہ نماز اداکررہاہوں جس روضے کو منہدم کرنےکا خواب لے کر تم شام میں داخل ہوئے تھے ۔ان تمام قربانیوں سے شامی عوام اچھی طرح واقف ہے ،جس کاثبوت انہوں نے ابراہیم رئیسی کا شاندار استقبال کرکے دنیا کو دیاہے ۔
ابراہیم رئیسی کا یہ دورہ اسرائیل کے لئے انتہائی پریشان کن رہاہے ۔اسرائیل جو شام پر قبضے کا خواب دیکھ رہا تھا ،ایران نےاس کو دیوانے کا خواب ثابت کردیا۔اسرائیلی فوجیں مسلسل شامی حدود میں داخلے کی کوششیں کرتی رہتی ہیں ،جس طرح اسرائیل فلسطینی سرزمین پر ناجائز قبضے میں توسیع کرتارہتاہے ۔ابراہیم رئیسی کے دورے سے ٹھیک پہلے شام پر میزائیل داغے گئے تاکہ ایران کو خوف زدہ کردیاجائے ۔خاص طورپر حلب ائیرپورٹ کو تباہ کردیاگیا تاکہ دہشت کی ماحول سازی کی جاسکے۔اس طرح رئیسی کے دورے کو ملتوی کرنے کی سازش کی گئی مگر جو لوگ موت سے آنکھیں لڑانا جانتے ہوں وہ میزائیلوں کی گڑگڑاہٹ سے اپنے ارادے نہیں بدلا کرتے ۔اسرائیل نے میزائیل حملے کے بعد کہاکہ شام میں موجود ایرانی ٹھکانے اس کے نشانے پر ہیں ،ایران نے اس کے میزائیل حملوں کا جواب دیا ۔یہ جواب فقط ایک سرزمین سے نہیں دیا گیا بلکہ لبنان اور شام کی سرزمین سے مشترکہ میزائیل حملے کرکے دیاگیا ۔جس کے بعد اسرائیل کو ابراہیم رئیسی کی شام میں موجودگی تک ایک بھی حملے کی جرأت نہیں ہوئی ۔دوسری اہم بات یہ کہ عرب ممالک جس طرح متحد ہورہے ہیں اس نے بھی اسرائیل کو پریشان کررکھاہے ۔گذشتہ دنوں اُردن میں سعودی عرب نے عرب ممالک کے سربراہان کا اجلاس طلب کیا تھا ۔اس اجلاس میں سعودی عرب نے شدومد کےساتھ یہ مطالبہ کیاہے کہ آئندہ عرب لیگ کے اجلاس میں شام کو اس کاحصہ قرار دیاجائے ۔یہ خبر صہیونی حکومت کے لئے خوش آیند نہیں ہے ۔جو لوگ شام کو تنہا کرنا چاہتےتھے آج وہ خود تنہائی کا شکار ہیں ۔ایسا اس لئے ممکن ہواکیونکہ ایران اور سعودی عرب نے سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے سفارتی تعلقات کو بحال کرلیاہے ۔فی الوقت مشرق وسطیٰ بدل رہاہے ۔نئے ورلڈ آڈر میں تیزی کے ساتھ تبدیلی ہوئی ہے ۔اس نظام میں ایران ،چین ،روس ،سعودی عرب اور ان کے حلیف ممالک کا دبدبہ ہے ۔امریکہ اور اسرائیل جیسی طاقتیں اس نئے ورلڈ آڈر کی تشکیل سے حیران و پریشان ہیں ۔کیونکہ دوسروں کو تنہاکرنے کی سازشیں کرنے والے آج خود تنہائی کا شکار ہیں ۔عرب ملک شام سے سفارتی تعلقات بحال کررہے ہیں ۔عرب امارات نے تو بشارالاسد کو سرکاری دورے پر بھی بھی مدعوکرلیاہے ۔سعودی عرب کا رجحان شام کی طرف بڑھ رہاہے ۔یمن کی طرز پر شامی حکومت کے ساتھ امن مذاکرات ہوں گے اور بدامنی کا دوردورہ ختم ہوگا۔اس صورتحال سے پریشان ہوکر اسرائیل نے آذربائیجان میں ایرانی سرحد کے قریب سفارت خانہ کھولاہے تاکہ ایران کو خوف زدہ کیاجاسکے ۔اس کے جواب میں ایرانی وزیر خارجہ نے لبنان جاکر سرحدی علاقوںکا دورہ کیا،جس سے اسرائیل تشویش کاشکار ہے ۔اس پر ایرانی صدر شام کے دورے پر پہونچ گئے جو استعماری طاقتوں کے لئے انتہائی چونکانے والا قدم تھا ۔بشارالاسد نے الشعب پیلیس میں منعقدہ استقبالیہ تقریب میں کہاکہ ایران نے خون دے کر شام کا ساتھ دیاہے ۔شامی عوام اس حمایت کو ہرگز فراموش نہیں کرے گی ۔صدر رئیسی نے اس دورے کے دوران تقریباًپندہ اہم منصوبہ جات پر دستخط کئے جس میں تجارت ،ٹرانسپورٹ ،فوجی اور دفاعی معاہدے شامل ہیں ۔کہاجارہاہے کہ ایران اور شام کے درمیان چین اور روس کی طرزپر طویل مدتی معاہدے ہوئے ہیں یا آئندہ متوقع ہیں ۔اس لئے مشرق وسطیٰ کی موجودہ کیفیت اور صورت حال استعماری طاقتوں کے لئے انتہائی پریشان کن ہے ۔آیندہ بھی اس پریشانی میں مزید اضافہ ہوگا،کیونکہ ابھی عرب ملک شام کے ساتھ مختلف معاہدوں پر دستخط کریں گے ۔ان شاء اللہ یہ پیش رفت امریکہ اور اسرائیل کے لئے فال بد ثابت ہوگی ۔
فی الوقت شام سیکورٹی بحران سے باہر نکل آیاہے ۔سرحدی علاقوں میں بعض مسائل درپیش ہیں ،البتہ صورت حال قابو میں ہے ۔تجارت اور اقتصاد کے میدان میں شام کی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں ۔ اقتصادی ماہرین کا تخمینہ ہے کہ شام کے لئے ایران کی برآمدات کی صلاحیت نان پٹرولیم شعبوں میں کم از کم 700 ملین ڈالر سالانہ اور تکنیکی اور انجینئرنگ خدمات میں 600 ملین ڈالر سالانہ ہے۔لیکن ایران اور شام کے درمیان اقتصادی معاملات کو بہتر بنانے کی راہ میں کئی پیچیدگیاں اور مسائل ہیں ،جن پر یقیناً دونوں ملکوں کے درمیان بات ہوئی ہوگی۔ایک بڑا مسئلہ حمل و نقل کابھی ہے کیونکہ صہیونی ریاست کبھی ایران اور شام کےدرمیان اقتصادی تبادلوں کی راہ آسان نہیں ہونے دے گی ۔دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ دونوں ملک اقتصادی پابندی کی زد میں ہیں ،اس لئےبینکنگ کے مسائل بھی درپیش ہوں گے ،جس کا متبادل تلاش کرنا ایک بڑااہم قدم ہوگا۔ایران نے عراق اور شام کے درمیان حمل و نقل کے لئے شلمچہ۔بصرہ ریل لائن کو ترجیحاتی پراجیکٹ میں شامل رکھاہے۔
بہرکیف! مشرق وسطیٰ کے حالات تیزی سے بدل رہے ہیں ۔روس اور یوکرین جنگ کے بعد عالمی سیاسی تجزیہ نگار مشوش ہیں اور انہیں اونٹ کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آرہاہے ۔لیکن مسلمان ملک جس طرح متحد ہورہے ہیں ،اس نے دنیا کو حیران کردیاہے ۔خاص طورپر استعماری طاقتیں یک قطبی نظام کے خاتمے سے ذہنی و نفسیاتی تذبذب کا شکار ہیں ۔اگر مسلمان ملک اسی طرح سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے رہے تو کثیر قطبی نظام میں ان کی حیثیت سب سے نمایاں ہوگی ۔