-
سیاسی خودسپردگی کا خمیازہ
- سیاسی
- گھر
سیاسی خودسپردگی کا خمیازہ
455
21/05/2022
0
0
تحریر:عادل فراز
ہندوستان کی موجودہ سیاسی و سماجی صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے ۔ملک اقتصادی بدحالی کے دہانے پر ہے اور حکومت معیشت میں سدھارکے بجائے عوام کو مذہبی سیاست کا افیون دے رہی ہے ۔مذہب کا نشہ ہر طرح کے نشے سے زیادہ خطرناک ہوتاہے جس کے نتائج ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں ۔مذہب کے نام پر نفرت کا گھنائونا کھیل جاری ہے اور عوام مذہبی افیون کے نشے میں دُھت ہے ۔مسلمانوں پر چوطرفہ یلغار ہے مگر مضبوط سیاسی قیادت نہ ہونے کی بنیاد پر انہیں دبایا اور کچلا جارہاہے ۔اب تو عالم یہ ہے کہ ہر مسجد کو گرانے کا مطالبہ کیا جارہاہے تاکہ مسلمانوں کی عبادت گاہوں کے نشانات تک مٹادیے جائیں ۔حد یہ ہے کہ تاج محل جیسی محبت کی یادگاربھی نفرت کی سیاست سے محفوظ نہیں رہی ۔ابھی حالات مزید سنگین ہوں گے کیونکہ نفرت کے سوداگروں کے مطالبات کی کوئی حد نہیں ہے ۔
گیان واپی مسجد کا قضیہ بعینیہ بابری مسجد کی طرح نظر آرہاہے ۔بابری مسجد کے گنبد کے نیچے راتوں رات ’بھگوان رام‘ کی مورتی رکھ دی گئی تھی ،جس کے بعد رام مندر کی سیاست نے نیا موڑ لے لیا تھا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ 6 دسمبر 1996 کو مسجد کو شہید کردیا گیا اور مسلمان تقریباًپچاس برس تک عدالت میں بابری مسجد کا مقدمہ لڑتے رہے۔ بالآخر چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے اپنے ضمیر کا گلا گھونٹ کر اکثریتی طبقے کی ’آستھا‘ کی بنیاد پر رام مندر کے حق میں فیصلہ سنادیا ۔گیان واپی مسجد کا قضیہ بھی کچھ اسی طرح کا نظر آرہاہے ۔حال ہی میں عدالت کے حکم پر مسجد کا سروے کرایا گیا جس کی رپورٹ جان بوجھ کر لیک کردی گئی تاکہ شرپسند عناصر کو ہنگامہ آرائی کا موقع ہاتھ آسکے ۔مسجد میں ’شیولنگ‘ ملنے کا دعویٰ کیا گیا جس کی رد بھی ہندو فریق کی جانب سے کی جاچکی ہے ۔ہر ذی شعور انسان جانتاہے کہ مسلمان یا ہندو اپنی عبادت گاہ میں کسی دوسرے مذہب کے نشانات کو کیوں باقی رکھیں گے؟ ۔کیا مسلمانوں کو ’شیولنگ ‘کی مذہبی اہمیت اور گیان واپی مسجد پر سالہا سال سے جاری سیاست کا علم نہیں تھا ؟مسجد کے حوض میں ’شیولنگ‘ کا ہونا چہ معنی دارد؟ گیان واپی مسجد عام طورپر نمازیوں کے لئے کھلی رہتی ہے ،کیا اس سے پہلے کسی نے یہ دعویٰ کیاہے کہ مسجد کے حوض میں ’شیولنگ نما‘ کوئی پتھر موجود ہے ؟دوسرا سوال ان مسلمان رہنمائوں سے ہے جو بابری مسجد تنازع کے وقت کہا کرتے تھے کہ مسجد کی زمین مندر تعمیر کے لئے دیدی جائےتاکہ مسجد اور مندر کی سیاست ہی ختم ہوجائے ۔ان کا یہ نظریہ خام خیالی اور ناعاقبت اندیشی پر مبنی تھا ۔مسجد کی زمین کو مندر کی تعمیر کے لئے دینے کا فیصلہ سیاسی و سماجی طورپر اکثریتی طبقے اور حکومتی تشدد کے سامنے خودسپردگی کے مترادف تھا ۔مگر کچھ مذہبی و سماجی رہنمائوں نے یہ آواز بلند کی تھی ،جس کی شدت کے ساتھ مخالفت بھی ہوئی ۔انہیں شاید اس حقیقت کا علم نہیں تھا کہ یرقانی تنظیموں کے مطالبات لامحدود ہیں ،جیساکہ اب دیکھا جارہاہے۔
میرا اپنا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں نے جس طرح سیاسی و سماجی طورپر خود سپردگی کی ہے ،اس کے نقصانات دوررس ہیں ۔آزادی کے بعدقومی سطح پر ایک سیاسی جماعت سے وابستگی کا اعلان کرنا بڑی چوک تھی ،جس کا خمیازہ آج تک مسلمان بھگت رہاہے ۔ہمارے عظیم سیاسی قائدین سیاسی جماعتوں اور اپنے عہدوں کے وفادار تھے ،ان کے اشاروں پر پوری ملت نے خود کو سیاسی جہنم میں دھکیل دیا۔یہ سلسلہ آج تک جاری ہے ۔آج قومی سطح کے بجائے علاقائی سطح پر مسلمان کسی نا کسی ایک سیاسی جماعت کے وفادار بنے ہوئے ہیں ۔اسی سیاسی وفاداری کی بنیاد پر ان کے خلاف نفرت آمیز پروپیگنڈے کئے جاتے ہیں تاکہ انہیں سیاسی اچھوت قرار دیا جاسکے ۔حالیہ اترپردیش انتخابات کی تصویر ہمارے سامنے ہے ۔اکھلیش یادونے اس انتخاب میں جو کچھ حاصل کیا وہ مسلمانوں کے دم پر حاصل کیا ،لیکن پورے انتخابی منظرنامے سے سماجوادی پارٹی نے مسلمانوں کو غائب رکھا ۔اکھلیش کا سیاسی نقطۂ نگاہ ان کی شکست کی بڑی وجہ ثابت ہوا لیکن انہیں اس کی یکسر پرواہ نہیں رہی ۔البتہ مسلمان ان کی شکست کا غم آج تک کھارہے ہیں ،اسی حکمت عملی نےمسلمانوں کو سیاسی زوال کی علامت بنادیاہے ۔مسلمانوں کو اپنا سیاسی وجود ثابت کرنے کے لیے کسی ایک سیاسی جماعت کی وفاداری کی ضرورت نہیں تھی ۔اس کا خمیازہ اعظم خان آج تک بھگت رہے ہیں ،گوکہ وہ اب جیل سے باہر آچکے ہیں مگر سماجوادی پارٹی ،جس کے لئے اعظم خان نے کیا کچھ نہیں کیا،نے ان کی رہائی کے لئے کوئی مناسب اقدام نہیں کیا ۔مسلمانوں کے پاس ہر عہد میں اچھے سیاسی رہنما موجود رہے ہیں مگر ان کےنظریاتی اختلاف اور مختلف سیاسی جماعتوں سے ان کی وفاداریوں نے انہیں کہیں کا نہیں رکھا ۔یہ لوگ اپنا الگ سیاسی محاذ قائم کرسکتے تھے مگر اس بارے میں کبھی کسی سیاسی رہنما نے سوچا تک نہیں ۔
مسلمانوں کا المیہ یہ رہاہے کہ انہوں نے مولویوں کی مذہبی قیادت کو سیاسی قیادت تسلیم کرلیا ۔مذہبی معاملات میں علما کی رہنمائی نہایت ضروری ہے مگر ہندوستان کے سیاسی معاملات میں ان کی فہم و فراست پر آنکھیں موند کر یقین کرنا عاقلانہ فیصلہ نہیں تھا ۔آج بھی ملت کی سیاست کا سارا دارومدار علماکے کمزور شانوں پر ہے ۔جبکہ حالات کے پیش نظرانہیں خود میدان سیاست سے الگ ہوجانا چاہیے تھا۔کیونکہ علما ہندوستان میں سیاسی رہنمائی نہیں کرسکتے ۔انہیں چاہیے کہ سیاست مدار افراد کی پرورش کریں ۔ایسے نوجوانوں کو سیاسی معاملات کی باگ ڈور سنبھالنے کے لیے تیارکریں جن میں جرأت ،بیباکی ،معاملہ فہمی اور بصیرت موجود ہو ۔ناعاقبت اندیش قیادتوں نے ملت کو بہت نقصان پہونچایاہے ۔کسی کی مذہبی و سماجی خدمات کی بنیاد پر اپنے سیاسی معاملات کی باگ ڈور اس کے ہاتھوں میں سونپ دینا عقلمندوں کا کام نہیں ہے ۔ضروری نہیں ہے کہ مذہبی و فلاحی خدمات انجام دینے والا شخص سیاسی مسائل میں بھی رہنمائی کا اہل ہو ۔آج سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ ہر مذہبی و فلاحی خدمات انجام دینے والا شخص خود کو مسلمانوں کا سیاسی رہنما ثابت کرنے پر تلا ہواہے ۔ایسے افراد یا تو الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے آلۂ کار بن جاتے ہیں یا پھر خود الیکشن میں حصہ لے کر ملت کی آراکو تقسیم کرنے کا کام کرتےہیں ۔
حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کا اعلامیہ تھا ۔کیا اب ہمارا مذہبی و ملّی تشخص عدالتیں طے کریں گی؟ ایسا اس لئے ہورہاہے کہ جن مذہبی قائدین پر ملت نے انحصار کیا تھا انہوں نے فقط اور فقط مدرسوں اور مسجدوں کی تعمیر کی طرف توجہ دی ۔ہندوستان میں جس تعداد میں مسلمانوں کے مدارس قائم ہیں کیا اس کے تناسب سے اسکول اور کالج موجود ہیں ؟ یقیناً مدارس قوم کی ایک بڑی ضرورت ہیں لیکن کیا فقط مدارس کا قیام قوم کےتمام تر مسائل کا حل ہے ؟ یہ سوال مذہبی طبقے کے علاوہ کسی دوسرے طبقے سے اس لئے نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کے پاس قوم کا ’فنڈ ‘ موجود نہیں ہوتا ۔قوم جتنا سرمایہ بطور ’چندہ‘ یا شرعی رقم کے نام پر ادا کرتی ہے وہ سب مذہبی طبقے کے ہاتھوں میں ہوتاہے ۔اس لئے ان کی ذمہ داری بھی دوسروں سے زیادہ تھی ۔مگر ہم دیکھتے ہیں کہ پوری ملت کا سرمایہ فقط مدرسوں اور عالیشان مساجد کی تعمیر پر صرف کردیاگیا ۔آیا اسکول اور کالج کی عمارت کے ساتھ مدرسے یا مسجد کی تعمیر نہیں کی جاسکتی تھی؟۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے پاس جس قدر مذہبی عمارتیں ہیں ان کا ایک فیصد بھی اگر اسکولوں، کالجوں اور انسٹی ٹیوشنزکی شکل میں ہوتا تو ہم اس قدر زبوں حالی کا شکار نہیں ہوتے۔
بعض افراد کا یہ کہنا کہ مسلمانوں کو سیاست سے بالکل الگ ہوجاناچاہیے ،غیر عادلانہ بیان ہے ۔جمہوریت میں سروں کی قیمت ہوتی ہے ۔اگر مسلمان بالکل سیاست سے علاحدگی اختیار کرلیتے ہیں تو وہ کس منہ سے حکومتوں سے اپنےحقوق کا مطالبہ کریں گے ؟جس حکومت میں آپ کا حصہ نہیں ہے اس حکومت سے مطالبات کرنا اور مراعات حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کرنا آسان نہیں ہوگا ۔البتہ موجودہ صورتحال اس قدر بھیانک شکل اختیار کرچکی ہے کہ سیکولر جماعتیں بھی مسلمانوں کے نام پر سیاست سے فرار کررہی ہیں ،اس لئے سیاسی مسائل میں منظم منصوبہ بندی کی ضرورت ہے جو بغیرمرکزی سیاسی قیادت کے ممکن نہیں۔حجاب کے مسئلے سے لے کر ’بلڈوزر کلچر‘ تک تمام سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کی حمایت سے دامن جھاڑ لیاہے ۔تنہا کانگریس ایسی سیاسی جماعت ہے جس کے بعض رہنما سیکولر ازم کے نام پر فاشسٹ طاقتوں کے منصوبوں کےخلاف بولتے نظر آتے ہیں ،مگر ان کے یہاں بھی فاشزم کے خلاف زمینی جدوجہد نظر نہیں آتی ۔اس لئے مسلمانوں کو اپنے مسائل کےتصفیہ کے لئے خود کھڑا ہونا ہوگا ۔انہیں چاہیے کہ مرکزی قیادت کی تلاش کریں تاکہ قومی سطح پر ملت کم از کم اپنے سیاسی اتحاد کا مظاہرہ کرسکے ۔مذہبی مسائل میں تو خیر اتحاد ممکن نہیں !