-
مسلمانوں میں سیاسی بیدار ی اور قیادت کی ضرورت
- سیاسی
- گھر
مسلمانوں میں سیاسی بیدار ی اور قیادت کی ضرورت
394
m.u.h
16/12/2022
1
0
تحریر:عادل فراز
دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخابی نتائج تمام سیاسی جماعتوں کے لئے حیرت افزا رہے ہیں ۔خاص طورپر یہ نتائج عام آدمی پارٹی کی پریشانی میں اضافہ کا سبب بنے ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ مسلمان ووٹروں کا کانگریس کی طرف بڑھتا ہوا رجحان ہے ۔ یہ رجحان عآپ کے علاوہ بی جے پی کے لئے بھی خوش آیند نہیں ہے ۔عآپ کی سیاسی حکمت عملی اور فکری ایجنڈہ طشت از بام ہوچکاہے ۔شہریت ترمیمی قانون اور این ۔آر۔سی ۔کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں عآپ کے منافقانہ رویے اور سیاسی موقف نے مسلمانوں کو دل برداشتہ کردیا تھا ۔اس کے بعد دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادمیں عآپ کا مصلحت آمیز رویہ ہر کسی کے لئے حیران کن تھا ۔عآپ جو خود کو سیکولر اور جمہوری جماعت باورکراتی ہے ،شمال مشرقی دہلی میں فساد کے موقع پر اس کے چہرہ پر پڑا ہوا نقاب اتر گیا ۔عآپ نے فساد زدگان کی مدد کے لئے کوئی مناسب اقدام نہیں کیا اور نہ مرکزی حکومت پر فسادیوں کے خلاف کاروائی کے لئے کوئی دبائو بنایا۔اس موقع پر عآ پ کی حکمت عملی نہایت بزدلانہ اور مصلحت کوش تھی ،جس نے ہر طبقے کے سنجیدہ افراد کو سوچنے سمجھنے کے لئے مجبورکیا اور عآپ سے بدظن کردیا ۔دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخاب میں بھلے ہی عآپ کو کامیابی حاصل ہوئی ہو،لیکن مسلمانوں کی عآپ سے کنارہ کشی نے اس کے حواس باختہ کردیے ہیں ،یہ ایک روشن حقیقت ہے۔مسلمانوں نے اس بار کانگریس کا دامن تھاما ہے ،گویا کہ ان کی گھر واپسی ہوئی ہے ۔لیکن مسلمانوں کو اپنے حقوق اور مسائل کے تئیں بیدار ہونا ہوگا ۔وہ کسی سیاسی جماعت کےلئے قربانی کا جانور نہ بنیں اور اپنے مسائل کے حل کے لئے خود میدان عمل میں اترنے کے لئے لایحۂ عمل ترتیب دیں۔
دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخاب میں بی جے پی کو شکست فاش نصیب ہوئی اور اسی طرح ہماچل میں بھی اسے اقتدار گنوانا پڑا۔گجرات میں بی جے پی کی کامیابی پر کسی کو حیرت نہیں ہوئی،کیونکہ گجرات ’ہندوتوا‘ کی تجربہ گاہ رہاہے ۔اس لئے پورا ملک بخوبی جانتا تھا کہ گجرات میں بی جے پی کا مقابلہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لئے آسان نہیں ہے ۔لیکن ہماچل،دہلی میونسپل کارپوریشن اور ضمنی انتخابات میں مختلف سیٹوں پر بی جے پی کی شکست نے یہ واضح کردیاکہ نریندر مودی کا طلسم ٹوٹ رہاہے ۔البتہ ابھی خوش گمانی کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ 2024 کا الیکشن نریندر مودی کے چہرہ پر لڑا جائے گا ،اس لئے یہ کہناجلد بازی ہوگی کہ مودی کا جادوئی اثر بالکل ختم ہوچکاہے ۔بی جے پی کے لئے دہلی میونسپل کارپوریشن کا الیکشن جیتنابہت اہم تھا ۔بی جے پی گذشتہ پندرہ سالوں سے دہلی میونسپل کارپوریشن میں ناقابل تسخیر رہی ہے،لیکن اس بار کو جیتنا نصیب نہیں ہوا۔اس شکست میں عآپ کے انتخابی وعدوں کا بڑا اثر ہے لیکن مسلمانوں کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔دہلی میں مسلمانوں نے سیاسی بیداری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کی کوشش کی ہے ۔مسلمانوں کابدلتاہوا سیاسی موقف عآپ کے لئے ضرور باعث تشویش ہوگا،کیونکہ 24 میں لوک سبھا الیکشن ہوگا۔اس لئے اب یہ دیکھنا اہم ہوگاکہ کیجریوال مسلمانوں کو کس طرح قریب لانے کی کوشش کرتے ہیں ،جبکہ ان کا فاشسٹ چہرہ سب کےسامنے آچکاہے۔
عام آدمی پارٹی کے قیام میں مسلمانوں کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔اس وقت دہلی ہی نہیں بلکہ پورے ملک کے مسلمانوں نے عآپ کی حمایت کی تھی ۔اس حمایت کا بنیادی مقصد ایک سیاسی متبادل کی تلاش تھی ،جو اب ختم ہوتی نظر آرہی ہے ۔دہلی میں اب تک تین بار اسمبلی انتخابات ہوچکے ہیں ۔تینوں بار مسلمانوں نے عآ پ کو بڑی تعداد میں ووٹ دیے اور کامیابی سے ہم کنار کیا ۔اس سے پہلے دہلی کا مسلمان کانگریس کے حق میں ووٹ کرتا تھا ،لیکن عآپ کے قیام کے بعد اس نے کسی دوسری سیاسی جماعت کوزیادہ توجہ نہیں دی۔مسلمانوں کا خیال تھاکہ عآپ ایک سیکولر جماعت ہے جو جمہوری اقدار کے ساتھ ان کے مفادات کا بھی تحفظ کرے گی ۔شاہین باغ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرہ پر پورے ملک کی نگاہیں مرکوز تھیں ۔ہر سیکولر انسان شاہین باغ کے احتجاج کا حامی تھا ۔لیکن کیجریوال نے شاہین باغ کی خواتین کے سیاسی موقف کے خلاف بیان دے کر بی جے پی کے نظریے کی حمایت کی ۔کیجریوال نے اس موقع پر پرانا راگ الاپتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے ہاتھ میں پولیس کی کمان دیدی جائے تو وہ ایک گھنٹہ میں دھرنا ختم کروادیں گے ۔شمال مشرقی دہلی میں فساد کے شعلے بھڑکے تو کیجریوال منظر سے غائب نظر آئے ۔انہوں نے ایک بار بھی فساد زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کی زحمت نہیں کی اور نہ فسادیوں کے خلاف مناسب کاروائی کے لئے صدائے احتجاج بلند کی ۔حد یہ ہے کہ ان کی پارٹی کے لیڈروں پر فساد بھڑکانے کے الزامات عائد ہوتے رہے اور کیجریوال خاموش تماشائی بنے رہے ۔طاہر حسین کو بغیر کسی تحقیق کے پارٹی سے معطل کردیا اور ملک کے عوام کو یہ پیغام دیاکہ دہلی میں مسلمانوں نے فساد کی آگ روشن کی ہے ۔اس کے برخلاف بی جے پی اشتعال انگیزی کرنے والے اپنے لیڈروں کے ساتھ کھڑی نظر آئی ۔ہر کوئی جانتاہے کہ دہلی فسادات میں کپل مشرا کے بیانات کا بڑا کردار رہاہے ،اس کے باوجود بی جے پی نے ان کی بھرپور پشت پناہی کی ۔آج طاہر حسین قیدوبند کی تکلیفیں برداشت کررہےہیں اور کپل مشرا ٓزاد گھوم رہاہے ۔
گذشہ سال دیوالی کے موقع پر کیجریوال نے اپنا فاشسٹ چہرہ مزیدواضح کردیا تھا ۔انہوں نے اپنے وزراء کے ساتھ ایک اسٹیڈیم میں دیوالی منائی جہاں رام مندر کا 30 فٹ بلند اور 80 فٹ چوڑا ماڈل بنایا گیاتھا۔کیجریوال نے رام مندر کے اسی ماڈل میں اپنے وزراء کے ساتھ پوجا کی ۔دہلی میں ہرسال دیوالی کی پوجا کا شاندار اہتمام ہوتا آیاہے لیکن ایودھیا پر سپریم کورٹ کے متنازعہ فیصلے کے بعد رام مندر کی طرز پر پنڈال بناکر پوجا کرنے کا واقعہ صرف دہلی میں رونما ہوا ۔اس طرح کیجریوال نے مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے بی جے پی کے سخت گیر ووٹ بینک میں سیندھ لگانے کی کوشش کی ۔ساتھ ہی وہ ملک کے ہندوئوں کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ وہ سیکولر نہیں ہیں بلکہ سیکولر ازم کے لبادہ میں چھپے ہوئے ’ہندوتوالیڈر‘ ہیں ۔
اس منافقانہ رویے کا اثر دہلی میونسپل کارپوریشن کے انتخابی نتائج پر صاف دیکھا گیا ۔عآپ کے متعدد لیڈروں کو کانگریس کے نمائندوںنے نمایاں شکست دیکر کیجریوال کے فاشزم کو آشکار کردیا ۔اوکھلا اسمبلی حلقے سے امانت اللہ خان عام آدمی پارٹی کےرکن اسمبلی ہیں لیکن وہ بھی اس سیٹ پر عآپ کے امیدوار کو نہیں جتا سکے ۔اسی طرح ابوالفضل انکلیو وارڈ اور ذاکر نگر وارڈ سے بھی عآپ کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ان تینوں میونسپل کارپوریشن حلقوں میں امانت اللہ خان کا اثر ہے لیکن مسلمانوں نے کیجریوال کی قیادت کو مستردکرتے ہوئے امانت اللہ خان کو بھی واضح پیغام دیا۔مصطفیٰ آباد،برج پوری،کبیر نگر،چوہان بانگراور سلیم پور سیٹ پر بھی عآپ کے امیدواروں کو ہار کا سامنا کرنا پڑا ۔ان تمام کارپوریشن سیٹوں پر مسلمان اکثریت میں ہیں اور ہمیشہ عآپ کے حق میں ووٹ کرتے آئے ہیں ۔پہلی بار دہلی کے مسلمانوں نے اپنے مسائل اور مفادات کے تحفظ کے لئے اس طرح ووٹنگ کا مظاہرہ کیاہے ۔گویا مسلمانوں میں سیاسی بیداری بڑھ رہی ہے اور وہ اپنے مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ ہیں ۔البتہ ابھی یہ آغاز ہے اور بہت خوش گمانی نقصان دہ ثابت ہوگی ۔کیونکہ اسی دہلی میں ایک مسلمان امیدوار کے مقابلے میں دوسرا مسلمان امیدوار میدان میں اتاراگیا ۔اگر پورے ملک میں مسلمان امیدوار یہ طے کرلیں کہ وہ کسی مسلمان کے مقابلے میں الیکشن نہیں لڑیں گے تو نتائج بہت مختلف ہوں گے ۔لیکن مشکل یہ ہے کہ ایک سیٹ پر کئی کئی مسلمان کھڑے کئے جاتے ہیں اور مسلم اکثریتی علاقے میں بھی مسلمان امیدوار کو شکست کا منہ دیکھنا پڑتاہے ۔لوک سبھا اور اسمبلی الیکشن میں یہی ہوتا آیاہے اور یہی ہوتا رہے گا ۔ہر چھوٹا بڑا سیاسی لیڈر یہ چاہتا ہے کہ وہ کسی نا کسی سیاسی جماعت سے ٹکٹ حاصل کرلے ۔مسلم اکثریتی علاقوں میں منصوبہ بندی کے ساتھ کئی کئی مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا جاتاہے ،تاکہ ان کی طاقت کو منتشر کردیا جائے ۔بڑی سیاسی جماعتیں برساتی مینڈھکوں کی طرح انتخابی موسم میں ٹرّاتی معمولی سیاسی جماعتوں کی خاموش پشت پناہی کرتی ہیں تاکہ ان کا امیدوار متحد ووٹ کو منتشر کرنے کا کام کرسکے ۔یہ سیاسی کھیل بہت پرانا ہے جو آج بھی جاری ہے ،البتہ مسلمان شطرنج کے تمام مہروں کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے بھی نادان بن جاتاہے ۔اس سیاسی بحران سے ابھرنا ہوگا تاکہ شطرنج کی بساط پر بچھے ہوئے ہر مہرے کے مطابق اپنی چال کو ترتیب دیا جاسکے۔اگر مسلمانوں کو اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرناہے تو پھر اتفاق رائے سے ایک سیٹ پر ایک ہی مسلمان کو میدان میں اتارنا ہوگا ۔اس طرح ان کے ووٹ منتشر نہیں ہوں گے اور دونوں ایوانوں میں مسلمانوں کی نمائندگی میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا ۔البتہ اس کے لئے اتحاد و اتفاق ،سیاسی شعور اور ایثار کی سخت ضرورت ہے ۔یہ کام مشکل ہے مگر ناممکن نہیں !