-
میڈیکل میں داخلہ کا امتحان ’نیٹ‘ اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام!
- سیاسی
- گھر
میڈیکل میں داخلہ کا امتحان ’نیٹ‘ اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام!
242
M.U.H
01/07/2024
0
0
تحریر:شالنی سہائے
نیٹ گھوٹالہ صرف لیک ہونے والے سوالیہ پرچوں، دلالوں اور داخلہ امتحانات کو ملتوی یا منسوخ کرنے کا معاملہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ پہلی بار ہے کہ مرکزی تفتیشی بیورو (سی بی آئی) کو میڈیکل داخلوں میں کسی ریکٹ کی تحقیقات کا کام سونپا گیا ہے۔
موجودہ گھوٹالے کے مرکز میں نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) ہے، جو کہ ’پی ایم کئرس فنڈ‘ کی طرح سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ایک این جی او ہے۔ دونوں کو قومی نشانات استعمال کر کے یہ تاثر دینے کی اجازت ہے کہ وہ 'سرکاری ادارے' ہیں لیکن نہ تو کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل (سی اے جی) کے ذریعہ ان کا آڈٹ کیا جاتا ہے اور نہ ہی وہ پارلیمنٹ کو جوابدہ ہیں۔ این ٹی اے ایک قانونی ادارہ بھی نہیں ہے، حالانکہ وزارت تعلیم اسے کنٹرول کرتی ہے، اس کی پالیسیوں اور عملے کے بارے میں فیصلہ کرتی ہے، اپنے بیوروکریٹس کا تقرر کرتی ہے اور مزید امتحانات کے انعقاد کے لیے ٹیکس دہندگان کے پیسے سے اسے فنڈ دیتی ہے۔
سوسائٹی کے آڈٹ شدہ اکاؤنٹس پبلک ڈومین میں نہیں ہیں۔ اخبار ’دینک بھاسکر‘ کے جے پور ایڈیشن کی رپورٹ کے مطابق، صرف 2019 اور 2021 کے درمیان این ٹی اے نے امیدواروں سے درخواست کی فیس کے طور پر 565 کروڑ روپے جمع کیے؛ نیز، او ایم آر (آپٹیکل مارک ریکاگنیشن) شیٹ کی بنیاد پر اپنے نمبروں کو چیلنج کرنے والے امیدواروں سے مقررہ فیس کے طور پر 200 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم وصول کی گئی۔ تاہم، 2021 کے بعد سے امیدواروں کی تعداد تقریباً دوگنی ہو گئی ہے اور اسی حساب سے 2024 میں این ٹی اے کی آمدنی بھی بہت زیادہ ہو گئی ہوگی۔ کسی بھی پیمانے پر امتحانات کے انعقاد کا کوئی پیشگی تجربہ نہ رکھنے والی تنظیم کے لیے یہ کتنا پرکشش کاروباری ماڈل ہے!
این ٹی اے کے صدر آر ایس ایس کے پرانے پوسٹر بوائے پی کے جوشی ہیں، جو اس کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد کے سربراہ تھے۔ اپنے کیریئر میں وہ مدھیہ پردیش پبلک سروس کمیشن، چھتیس گڑھ پبلک سروس کمیشن اور یونین پبلک سروس کمیشن کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔ این ٹی اے ایک ایسا ادارہ ہے 2018 میں قائم کیا گیا تھا اور وہ 2020 سے ملک میں انڈرگریجویٹ میڈیکل کورسز کے لیے نیٹ (قومی اہلیت کم داخلہ ٹیسٹ)، تمام مرکزی یونیورسٹیوں میں داخلے، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے این ای ٹی (قومی اہلیت ٹیسٹ)، یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کے داخلے اور یہاں تک کہ سی ایس آئی آر اسکالرشپ کے لیے اہلیت کا امتحان کا انعقاد کر رہا ہے۔ 2018 تک ان امتحانات کو کرانے کی ذمہ داری سی بی ایس پی کے پاس تھی، جو سرکاری اور نجی اسکولوں کے لیے قومی تعلیمی بورڈ ہے اور حکومت ہند کے زیر کنٹرول اور زیر انتظام ہے۔ سی بی ایس ای کا قیام 1929-30 ہوا تھا اور اس کے پاس پورے ملک میں امتحانات کے انعقاد، جانچ اور تمام رازداری کو برقرار رکھنے کا کافی تجربہ ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک پرائیویٹ این جی او کو وہ کام کرنے کی اجازت کس نے دی جو اب تک موجود تنظیمیں قابل اعتماد طریقے سے سرانجام دیتی تھیں اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اس لیے تحقیقات وزارت تعلیم اور یو جی سی سے شروع ہونی چاہیے!
این ٹی اے کی نااہلی اور کرپشن میں ملوث ہونے کی بھی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ اس سال، نیٹ-یو جی سی نوٹیفکیشن 9 فروری کو جاری کیا گیا تھا اور امیدواروں کو 9 مارچ تک رجسٹر کرانا ضروری تھا۔ مارچ کے آخر میں اس مدت میں ایک ہفتہ کی توسیع کی گئی اور کوئی نہیں جانتا کہ ایسا کیوں کیا گیا؟ 9 اپریل کو اسٹیک ہولڈرز کی درخواست پر ایک دن کے لیے ایک اور ’کریکشن ونڈو‘ کھول دی گئی۔ یہ اسٹیک ہولڈرز کون تھے؟ رجسٹریشن کے لیے ایک اور 'کریکشن ونڈو' 11 اور 15 اپریل کے درمیان کھولی گئی۔ گویا یہ کافی نہیں تھا، این ٹی اے نے 5 مئی کو امتحان لیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ نتائج 14 جون کو آئیں گے لیکن اس کے بجائے نتائج کا اعلان 4 جون کو اس دن کر دیا گیا، جب عام انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی باقی تھی۔ یہ ایک اور مشکوک فیصلہ ہے جس کا جواب ملنا ضروری ہے۔
این ٹی اے نے پہلے 24 لاکھ میں سے 1563 کو گریس نمبر دے کر خود کو ایک کونے سے نکالنے کی کوشش کی لیکن جب اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو اس نے فوری طور پر گریس نمبر واپس لے لیے، آخر چل کیا رہا تھا؟ ہریانہ کے جھجر کے 6 طالب علموں کو گریس نمبر کیوں دیے گئے؟ اگر واقعی وقت کا ضیاع تھا تو اسی سنٹر کے دیگر طلبہ کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟ وقت کا ضیاع ایک عام شکایت ہے جس کی تلافی عام طور پر زیادہ وقت سے کی جاتی ہے، زیادہ مارکس سے نہیں۔
این ٹی اے دراصل ایک بہت بڑے گھوٹالے کا قصوروار ہے۔ سالہا سال، اس کے مضحکہ خیز طور پر کم کٹ آف مارکس (720 کے سب سے زیادہ ممکنہ اسکور کا 20 فیصد یا اس سے کم) نے بڑی تعداد میں امتحان دینے والوں کو پاس ہونے کا موقع دیا ہے۔ اس سال، 24 لاکھ امیدواروں، جن میں سے 57 فیصد لڑکیاں تھیں، نے سرکاری میڈیکل کالجوں میں 1.09 لاکھ انڈر گریجویٹ نشستوں کے لیے امتحان دیا۔ 13 لاکھ طلبا کٹ آف نمبروں سے زیادہ اسکور کے ساتھ پاس ہوئے (جو 2022 میں 16.36 فیصد سے بڑھ کر 2024 میں 22.78 فیصد ہو گئے)۔ دوسرے لفظوں میں 2022 میں کم از کم 117 نمبر اور 2024 میں 164 نمبر حاصل کرنے والے امتحانی ملک کے 704 میڈیکل کالجوں میں سے کسی ایک میں داخلے کے اہل تھے۔
ایک مرکزی ملک گیر امتحان نیٹ سے منصفانہ، میرٹ پر مبنی داخلوں کو یقینی بنائے اور بچولیوں اور کیپی ٹیشن فیس کو ختم کرنے کی توقع تھی۔ ’ون نیشن، ون ایگزام‘ کے آغاز اور اسے ایک بڑی اصلاحات کے طور پر سراہے جانے کے 8 سال بعد یہ پالیسی کسی بھی اہداف کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے نیٹ پر نظر رکھنے والے ماہر تعلیم مہیشور پیری کہتے ہیں کہ داخلہ کا عمل اب ایسا ہو گیا ہے کہ امیر یا این آر آئی خاندانوں کے کم ہونہار طلبا کے داخلوں میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ کم امیر خاندانوں سے زیادہ مستحق طلبا کو خارج کیا جا رہا ہے۔
ملک میں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی تعداد میں مسلسل اضافے کی وجہ سے انڈر گریجویٹ میڈیکل سیٹوں کی تعداد 2021 میں 83000 سے بڑھ کر 2024 میں 1.09 لاکھ ہو گئی ہے۔ نیٹ پاس کرنے والے کامیاب امیدواروں کی تعداد بھی 2021 میں 8.70 لاکھ سے بڑھ کر 2024 میں 13.16 لاکھ ہو گئی ہے۔ اگرچہ کٹ آف نمبر حاصل کرنے والے بہت سے امیدوار زیادہ فیس ادا کر کے پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں داخلہ لیں گے، لیکن ایک بڑی تعداد ایسے طلبا کی ہوگی جو بہت زیادہ نمبر (450+) حاصل کرنے کے بعد بھی داخلہ نہیں لیں گے کیونکہ وہ ہندوستان میں پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی بھاری فیسیں ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
پیری اس نظام کو امیروں کے لیے طبی نشستوں کے ریزرویشن کو یقینی بنانے کا طریقہ بتاتے ہوئے ہندوستان کو '2 فیصد والا ملک' قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’صرف اس صورت میں جب آپ میرٹ میں ٹاپ 2 فیصد یا دولت کے لحاظ سے ٹاپ 2 فیصد میں ہوں، تو آپ میڈیکل سیٹ کی خواہش کر سکتے ہیں۔‘‘ مختلف ریاستوں میں صرف 7 سینٹرل میڈیکل کالج اور 382 سرکاری میڈیکل کالج ہیں اور مجموعی طور پر 56405 انڈر گریجویٹ سیٹیں ہیں جبکہ 264 پرائیویٹ میڈیکل کالجز اور 51 پرائیویٹ ڈیمڈ یونیورسٹیاں مل کر 52765 سیٹیں فراہم کرتی ہیں۔ ایمس جیسے سنٹرل میڈیکل کالجوں میں 5 سالہ ایم بی بی ایس کورس کی قیمت تقریباً 3 سے 4 لاکھ روپے ہے۔ ٹرسٹوں، میونسپلٹیز اور ریاستی حکومتوں کے ذریعہ کھولے گئے سرکاری میڈیکل کالجوں میں پانچ سالہ کورس کی لاگت عام طور پر 6 سے 7 لاکھ روپے کے درمیان ہوتی ہے، جب کہ نجی میڈیکل کالجوں میں یہ رقم ایک کروڑ سے 1.5 کروڑ روپے کے درمیان ہوتی ہے۔ جو لوگ پرائیویٹ میڈیکل کالجز کی استطاعت نہیں رکھتے وہ جارجیا، یوکرین، روس اور چین جیسے ممالک سے تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں یا کوئی دوسرا آپشن نہ پا کر میڈیکل کی تعلیم کو ہی یکسر ترک کر دیتے ہیں، جو کہ بہت زیادہ سنگین معاملہ ہے۔
واضح طور پر نیٹ میڈیکل کالجوں کے لیے میرٹ کی بنیاد پر داخلوں یا یکساں معیار اور فیس کے ڈھانچے کو یقینی بنانے میں کامیاب نہیں ہوا ہے۔ نہ ہی اس سے بدعنوانی ختم ہو سکی ہے۔ پیری کا دعویٰ ہے کہ کم از کم 200 امیدواروں نے ای ڈبلیو ایس (معاشی طور پر کمزور سیکشن) کوٹہ کے تحت پرائیویٹ میڈیکل کالجوں میں داخلہ حاصل کیا ہے۔ ای ڈبلیو ایس کے لیے تجویز کردہ زیادہ سے زیادہ سالانہ آمدنی 8 لاکھ روپے یا اس سے کم ہے، اس لیے پیری حیران ہیں کہ یہ طلبا اپنی طبی تعلیم کے لیے ایک کروڑ روپے سے زیادہ کیسے ادا کریں گے۔
’پیپر لیک‘ بحران نے مرکزی امتحانات کے خلاف کیس کو مضبوط کیا ہے اور ریاستوں نے مطالبہ کیا ہے کہ نیٹ سسٹم کو ہی ختم کر دیا جائے اور انہیں اپنے داخلہ امتحانات کے انعقاد کا حق بحال کر دیا جائے۔