سدھیر جین
پی این بی گھوٹالے نے ملک کو سکتے میں ڈال دیا. اس سانحہ سے اب تک حکومت کے طرفدار رہے لوگوں اور حکومت کا طرفدار میڈیا تک بھونچك ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی ہے کہ بدعنوانی کو لے کر ملک میں مایوسی نہ پھیلے، لیکن اس گھوٹالے نے ملک کے بھروسے کی بنیادیں ہلا دی ہیں. ویسے اس مایوسی کی سب سے زیادہ چوٹ حکومت کی شبیہ پر ہوئی ہے. سیاسی طور پر حکومت کی اس شبیہ پر ہوئی ہے، جو اس کے دور اقتدار کے آخری دور میں سب سے زیادہ حساس تھی. حکومت اپنی شبیہ کی مرمت کے سارے اقدامات اپنا رہی ہے، لیکن حالات قابو میں آتے نظر نہیں آرہے ہیں. حکومت کے لئے اگر چہ یہ صرف سیاسی بحران ہو، لیکن ملک کی مالی حالات کے پیش نظر بھی یہ گھوٹالہ ایک ساتھ کئی سائرن بجا رہا ہے.
معاملہ بینکوں کی پول کھلنے کا ہے
اب تک ہمیں یہی پتہ تھا کہ بینک، اپنے دیے قرضوں کے واپس نہ آنے سے پریشان ہیں. تقریباً سارے سرکاری بینک اتنے زیادہ پریشان ہیں کہ عام لوگوں کی جمع رقم سے ان کا کام نہیں چل پا رہا ہے. اس بحران سے نمٹنے کے لئے حکومت کو یہ اعلان کرنا پڑا تھا کہ ان بینکوں میں حکومت کی طرف سے رقم ڈالی جائے گی. بینکوں کے سامنے ایمرجنسی جیسے حالات میں اس کے علاوہ اور کوئی چارہ تھا بھی نہیں، لیکن اچانک پی این بی گھوٹالے نے بینکوں کی حالت اور بھی زیادہ سنسنی خیز بنا دی ہے. اب حکومت کو نئے سرے سے حساب لگانا پڑے گا کہ بینکوں کو حکومت کی طرف سے پیسہ پہنچانے پر ملک کے عام لوگ کیا خیال بنائیں گے.
قرض دینے کا نہیں، لوٹ کا ہے یہ سانحہ
پی این بی بینک گھوٹالہ کسی قرض کی واپسی کا نہیں ہے، بلکہ فرضی طریقے سے بینک سے ضمانت کی کاغذ ہتياكر دوسرے بینکوں سے پیسہ نکال لینے کا ہے. پیسہ نکالا جا چکا ہے. دو دن پہلے بتایا گیا تھا کہ000 11، کروڑ روپے کی لوٹ ہو گئی. اب پتہ چلا ہے کہ لوٹ یا ٹھگی کا یہ معاملہ 21000، کروڑ کا ہے. شیئر بازاروں میں ‘گھپلے میں پھنسے سرکاری بینک’ کے حصص خریدنے والے لاکھوں لوگوں کی 000 10، کروڑ سے زیادہ کی رقم ڈوب چکی ہے. اتنا ہی نہیں، دوسرے سرکاری بینکوں کے حصص بھی بری حالت میں ہیں. انہیں کتنی چوٹ پہنچی، اس کا حساب ابھی نہیں لگا ہے، لیکن اتنا طے ہے کہ یہ بھی000 10-20، کروڑ سے زیادہ ہی بیٹھے گی. تازہ ترین اندازہ کے مطابق رقم000 60، کروڑ کا ہندسہ پار کرنے کو ہے. نظام پر یقین کرنے والے ملک کے چھوٹے درمیانے درجے کے سرمایہ کاروں کا بھروسہ ہل گیا. جن لوگوں کا پیسہ بینکوں میں جمع ہے، اس کی حفاظت کو لے کر لوگوں کے ذہنوں میں خوف الگ ہے. یعنی اس گھوٹالے نے دور دور تک حالت بگاڑ دی ہے. ظاہر ہے، حکومت فکر مند ہوگی ہی، اور وہ ہے بھی، لیکن اس کی فکر اس بات کو لے کر ہے کہ وہ کٹہرے میں نہ آ جائے، اور اگلے انتخابات کی تیاریوں کے دنوں میں آپ کی شبیہ کس طرح بچائے۔
کیا کیا حکومت نے اب تک …؟
حکومت سب سے پہلے یہ کہنے میں لگی کہ یہ گھوٹالہ پرانی حکومت کے وقت کا ہے. اس کے لیے ضروری تھا کہ گھوٹالے کو کم سے کم پانچ سال پرانا بتایا جائے، کیونکہ تقریبا چار سال سے وہ خود ہی حکومت میں ہے. دوسرا کام حکومت نے یہ کیا کہ اسے صرف بینک کا گھوٹالہ بتایا جائے، لیکن مصیبت آئی کہ یہ بینک ملک کا دوسرا سب سے بڑا سرکاری بینک ہے. تیسرا کام حکومت یہ کر رہی ہے کہ کسی طرح یہ پیغام عام ہو جائے کہ یہ گھوٹالہ پرانی حکومت کا ہے اور موجودہ حکومت نے اسے پکڑا ہے۔ لیکن اس میں جھول یہ ہے کہ بڑے جعلسازی کی تقریبا ساری تاریخیں گزشتہ ایک سال کی نکل کر آرہی ہیں. پرانے معاملے اگر نکل کر آئے بھی تو حکومت اس سوال کا جواب کہاں سے لا پائے گی کہ اس کی حکومت بننے کے بعد چار سال سے ہو کیا رہا تھا. بدعنوانی ہی تو وہ مدعا تھا، جس کے سہارے موجودہ حکومت اقتدار میں آئی تھی. اسی لیے اس گھوٹالے نے موجودہ حکومت کے بھرشٹاچارمكت حکومت کے نعرے کو تہس نہس کر دیا. عوام کو اس بات سے کیا مطلب کہ گھوٹالہ براہ راست حکومت نے کیا یا حکومت کے افسروں نے کیا. اسے یہ سننا بھی اچھا نہیں لگے گا کہ ایسے گھوٹالے پہلے سے چل رہے تھے، کیونکہ اس بات کو تو چار سال پہلے سنایا گیا تھا اور عوام نے اس بات کا یقین کیا تھا کہ حکومت تبدیل کرنے سے بدعنوانی کے حالات بدل جائیں گے، جو نہیں بدلے.
ملک کی عالمی شبیہ کتنی ٹوٹی؟
یہ گھوٹالہ اپنے سائز کی وجہ سے دنیا میں سنسنی پھیلانے کے لئے کافی تھا، لیکن اس گھوٹالے کے ملزم کا کاروبار بہت سے ممالک میں ہے کہ گھوٹالہ اجاگر ہوتے ہی ہر ملک کا میڈیا اس خبر کو رات دن بجا رہا ہے. آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اس گھوٹالے کو غیر ملکی سرمایہ کار بھی غور سے سن رہے ہوں گے. بیرون ملکوں میں آباد بھارتی کمیونٹی اس گھوٹالے کو سن کر بھوچك رہ گیا ہوگا. سب سے زیادہ غور اس بین الاقوامی تنظیم نے کیا ہوگا، جو دنیا کے تمام ممالک میں بدعنوانی کی صورتحال کا جائزہ لیتی ہے. ‘ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل’ نام کا یہ ادارہ ہر سال تمام ممالک میں بدعنوانی کا اندازہ کر کے انہیں ایک ترتیب میں لگاتا ہے.
بدعنوانی میں بھارت کی پوزیشن جوں کی توں: کیوں نہیں ہوا سدھار؟
‘ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل’ کی اس فہرست میں کم بدعنوان ملک سے شروع کرنے کے بعد سب سے بدعنوان ملک کو قسط وار لگایا جاتا ہے. یہ جائزہ ایک طرح سے ہر ملک کے کرپشن کا انڈیکس ہوتا ہے. گزشتہ دو تین سال سے ہم لوگ یہ اعتراض کر رہے تھےکہ ہمیں زیادہ بدعنوان ممالک کی فہرست میں کیوں ڈالا جاتا ہے. ہمیں پتہ ہے کہ ‘ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل’ کے سروے میں شہریوں ہی سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ رشوت دینے کے لئے کتنے پابند ہیں. اسی سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ کسی ملک میں رشوت لینے کی سطح کیا ہے.کرپشن کے معاملے میں ہمیں بہت خراب حالت میں بتائے جانے سے اب تک ہمیں ٹي آي کے اس سروے پر شک ہوتا تھا، لیکن پی این بی گھوٹالے نے ہمارا بھرم دور کر دیا. بہر حال، اس سنسنی خیز گھوٹالے کے اجاگر ہونے کے بعد ہمارے بدعنوانی انڈیکس کا زیادہ کباڑہ ہونے کے آثار بڑھ گئے ہیں. بے شک اب ہمیں گھریلو سیاست کے علاوہ اپنی بین الاقوامی شبیہ کو بہتر کرنے کے کام پر بھی زور شور سے لگنا ہوگا، بہرحال، بدعنوانی کے معاملے میں ہم اور گہرے گڑھے میں پہنچتے دکھائی دے رہے ہیں.
مترجم: محمد اسعد فلاحی
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)