-
تکلیف دہ معاشی صورتحال حکومت کا انکار
- سیاسی
- گھر
تکلیف دہ معاشی صورتحال حکومت کا انکار
1322
m.u.h
12/11/2023
0
0
تحریر: پی چدمبرم
ہمارے ملک میں ماہرین اقتصادیات کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ہر طرف آپ کو ماہرین معاشیات دکھائی دیں گے۔ ان ماہرین اقتصادیات میں بینکوں کے معاملات سے جڑے ماہرین بھی شامل ہیں۔ اگر آپ چند ماہرین کی باتوں پر یقین کرلیں تو ہندوستانی معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور ملک کی معیشت کے ساتھ ساتھ اس کا نظم یا مینجمنٹ بہت اچھی حالت میں ہیں، ان میں کوئی خرابی اور نقائص نہیں ہیں۔ اگر آپ بینکوں کے امور سے جڑے ماہرین کی باتوں پر یقین کریں تو آر بی آئی بہت ہی اچھی حالت میں ہیں اور ہندوستانی معیشت کے ساتھ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے (جب تک آر بی آئی اس کے متضاد کوئی اشارہ نہ دے) میری یہ خواہش ہیکہ وہ اس طرح سچے ہوں جس طرح وہ اپنے آقاؤں کے وفادار ہوتے ہیں۔
واضح رہے کہ یکم اکتوبر 2023 کو ہم موجودہ حکومت کے اخری نصف سال میں داخل ہوئے یہ حکومت (نریندر مودی حکومت) 30 مئی 2024 کو حکمرانی کے لئے عملاً تعطیل رہے گی اس لئے معاشی حالت کا ازسرنو جائزہ لینے کا یہ اچھا وقت ہے۔ آپ کو بتادیں کہ ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملکوں میں جی ڈی پی یا قومی مجموعی پیداوار کی شرح نمو کو ترجیح کے حساب سے نمبر ون پر رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہی دیگر امور کو ترجیحات میں شامل کیا جاتا ہے۔ اس لئے کہ جی ڈی پی کی شرح نمو سے کسی بھی ملک کی معاشی حالت کا اچھی طرح اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بہرحال آئیے مجھے بی جے پی کی دس سالہ حکمرانی میں معاشی نمو کی شرح کا جائزہ لینے دیں۔ میں اس سے شروع کردوں گا NSO کے اعداد و شمار کے مطابق بی جے پی حکومت کے پہلے 9 سال میں اوسط شرح نمو 5.7 فیصد رہی۔ آپ کو یہ بھی بتادیں کہ مودی حکومت نے 2023-24 کے لئے شرح نمو 6.5 فیصد ہونے کی امید ظاہر کی ہے۔ اگر ہم شرح نمو میں اسے بھی شامل کرلیں تو دس سال کے لئے اوسط شرح نمو 5.8 فیصد ہوگئی۔ اگر اس کا موازنہ کانگریس کی زیر قیادت یوپی اے I اور یو پی اے II کے حاصل کردہ شرح نمو سے کہا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یو پی اے I کے 5 سالہ اقتدار میں اوسط شرح نمو 8.5 فیصد اور یو پی اے I اور یو پی اے II کے دس سالہ اقتدار میں اوسط شرح نمو 7.5 فیصد رہی۔ یہاں ایک اور بات دلچسپی سے خالی نہیں بعض ماہرین اقتصادیات 1.8 فیصد کو غیر ضروری قرار دیتے ہوئے مسترد بھی کرسکتے ہیں جو یقینا پوری طرح غلط ہوگا جہاں تک جی ڈی پی کی اوسط شرح میں گراوٹ کا سوال ہے اس گراوٹ کے قومی سلامتی بنیادی سہولتوں مصارف، سرمایہ کاری، روزگار اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے کے عمل، بہبودی اقدامات، گھروں میں مختلف اشیاء، بالخصوص غذائی اشیاء کے استعمال، بچت، خاتمہ غربت یا غربت میں کمی لانے کے منصوبوں، تعلیم و صحت کے شعبوں میں بہتری لانے جیسے معاملات پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو دو چیزیں عوام کے لئے سب سے بڑی تشویش اور فکرمندی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ عوام کے ذہنوں میں مہنگائی یا بڑھتی قیمتوں اور بیروزگاری سے متعلق بہت زیادہ فکرمندی پائی جاتی ہے۔ مہنگائی کے نتیجہ میں ہی بیروزگاری میں اضافہ ہوا ہے۔ ہر خاندان سوائے دولت مند خاندانوں کے (جن کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایسے خاندان 10فیصد ہوں گے) کا ماننا ہے کہ گھریلو خرچ یا مصارف کے درمیان توازن پیدا کرنا مشکل ہوگیا ہے، جہاں تک آل انڈیا کنزیومر پرائس انڈکس (نئی سریز) کا سوال ہے یہ 2013-14 میں 112 تھا جو ڈسمبر 2022 میں بڑھ کر 174 ہوگیا جبکہ غذائی اشیاء کی مہنگائی تقریباً 10 فیصد تک رہی۔ ان تمام کا فوری نتیجہ گھروں کے مصارف میں کٹوتی کی شکل میں برآمد ہوا۔ آمدنی کی ہر سطح پر گھریلو مصارف میں کمی کرنے پر عوام کو مجبور ہونا پڑا یا پھر گھروں میں خواتین جو بچت کرتی ہیں ایک پائی پائی جوڑ کر اس بچت کو بھی ختم کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ گھریلو نقد مالیاتی اثاثہ جات 5.1 فیصد ہوگئے۔ واضح رہے کہ FMCG کمپنیوں نے برانڈ رائلٹی کو برقرار رکھنے اسی قیمت پر چھوٹے چھوٹے پیکجس متعارف کروائے ہاں ایک اور بات دو پہیوں والی گاڑیوں کی فروخت میں کمی حقیقت میں قیمتوں میں اضافہ کے گھریلو مصارف کے پڑنے والے اثرات کا اچھا اشارہ ہے۔ ایک تو قیمتوں میں اضافہ سے عام آدمی پریشان ہے۔ دوسرے بیروزگاری نے شہریوں کا جینا حرام کردیا ہے، حکومت کے دعوؤں کے متضاد 10 برسوں میں روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا نہیں کئے گئے حالانکہ مودی حکومت نے اور خود وزیر اعظم نے سالانہ دو کروڑ ملازمتیں دینے کا وعدہ کیا تھا(اور پھر بعد میں حکومت نے اسے ایک انتخابی جملہ قرار دیا جس طرح ہر ہندوستانی کے بینک اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپے جمع کروانے کے وعدہ کو جملہ کہا تھا) اب تو یہ حال ہوگیا کہ بیروزگاری کی شرح 7 فیصد سے زائد ہوگئی۔ اس کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ گریجویٹس میں بیروزگاری کی شرح 42 فیصد ہوگئی۔ یہ اعداد و شمار اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا 2023 رپورٹ میں ظاہر کئے گئے۔ جبکہ نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح (15-24 سال میں) سب سے زیادہ رہی۔ یعنی 2022 میں نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 23-22 فیصد تک پہنچ گئی اور آج اکثر روزگار خود روزگار (57 فیصد) ہے۔ اس کے علاوہ ریگولر ویج ایمپلائز کی شرح 24 فیصد سے گر کر 21 فیصد ہوگئی۔ سی ایم ای ڈیٹا بتاتا ہے کہ سرکاری ملازمتوں کی تعداد میں بھی 22 فیصد تک کمی آئی ہے۔ اور یہ سب موجودہ حکومت کے تحت ہوا ہے (سال 2015-23 کے درمیان)
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ وزارت فینانس نے ایک ماہانہ جائزہ شائع کیا ہے۔ ستمبر 2023 کا جائزہ 23 اکتوبر کو جاری کیا گیا جس میں ایسا لگتا ہے کہ خفیہ زبان میں بات کی گئی جو گلوبل آؤٹ لک کو مستقل قریب میں جوکھم لاحق رہے گا اور قیمتوں کا دباؤ رہے گا اور افراط زر کے بارے میں جو توقعات رکھی جارہی ہیں موجودہ حالات اور حکومت کی پالیسیوں کے نتیجہ میں وہ پوری ہونے کے دور دور تک امکانات نہیں پائے جاتے، خاص طور پر اشیائے مائحیتاج کے بازاروں اور توانائی کے شعبہ میں مہنگائی بڑھنے کے پورے پورے امکانات پائے جاتے ہیں۔ قیمتوں میں اضافہ سے نمو سست روی کا شکار ہو جاتا ہے کیونکہ قیمتوں میں اضافہ کا مطلب قیتوں میں اضافہ ہوگا۔ گھریلو استعمال (مصارف) میں بھی گراوٹ ہوگئی۔ بچت میں کمی آئے گی اور قرضہ کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ ایک ریٹنگ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ماہر اقتصادیات نے حالیہ عرصہ کے دوران لکھا کہ بینک کریڈٹ کا نمو ہنوز مضبوط رہے گا۔ 15 فیصد سے زیادہ ہوگا جس میں ریٹیل کریڈٹ نمو 18 فیصد سے زیادہ ہوگی۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہیکہ ایسا لگتا ہے کہ صرف حکومت کی سرمایہ کاری کا انجن کام کررہا ہے جبکہ نجی سرمایہ کاری، نجی استعمال اور برآمدات پوری طرح تعطل کا شکار ہیں حالانکہ برآمدات کو بڑھانے مختلف طریقے اور انداز ہیں۔