-
عائشہ پر ہی غداری کا مقدمہ کیوں؟
- سیاسی
- گھر
عائشہ پر ہی غداری کا مقدمہ کیوں؟
705
M.U.H
14/06/2021
0
0
تحریر: نواب علی اختر
کورونا کو ’بائیو ویپن‘ کے طور پر استعمال کرنے کی بات کرنے والی اداکارہ، فلم ساز و سماجی رہنما عائشہ سلطان کے خلاف غداری کا مقدمہ دائر کر دیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت کے زیر انتظام جزائر پر مبنی علاقہ لکشدیپ کی رہائشی عائشہ کے خلاف بی جے پی کے مقامی صدر عبدالقادر کی شکایت پر ’غداری‘ اور ’نفرت انگیز‘ تقریر کی دفعات کے تحت مقدمہ دائر کیا گیا۔ عائشہ کے خلاف الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے لکشدیپ کے ایڈمنسٹریٹر پرفل پٹیل کے حوالے سے غلط بیانی کی۔ لکشدیپ مختلف جزائر پر مشتمل 65 ہزار سے کم آبادی والا علاقہ ہے جو سیاحت کے حوالے سے منفرد اہمیت رکھتا ہے، یہاں 17 ویں صدی میں ٹیپو سلطان کی حکومت بھی رہی۔
عائشہ کا قصور صرف اتنا ہے کہ انہوں نے ایک ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں کہا تھا کہ حکومت ہند لکشدیپ کے علاقے میں کورونا کو حیاتیاتی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ اداکارہ نے مرکزی علاقے میں کورونا سے متعلق حکومتی پالیسیوں پر شدید تنقید کی تھی۔ عائشہ کے مطابق مرکزی حکومت لکشدیپ کے خلاف اسی طرح پرفل پٹیل کو بائیو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے جس طرح چین نے دوسرے ممالک کے خلاف کورونا وائرس کا استعمال کیا تھا۔عائشہ کے بیان پر تلملائی بی جے پی کے ریاستی صدر نے ان کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا۔عائشہ پر غداری کا مقدمہ درج کرنے پر انتظامیہ کی کارکردگی سوالوں کے گھیرے میں ہے۔
عائشہ کے خلاف مقدمہ درج کیا جانا قانونی عمل کے خلاف نظر آتا ہے کیونکہ حال ہی سپریم کورٹ نے غداری قانون کو محدود کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ ہماری رائے یہ ہے کہ تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے، 153 اے اور505 کے پیمانے کے دائرے کی تشریح کی ضرورت ہوگی۔ خاص طور پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کی خبروں اور معلومات فراہم کرنے کے سلسلے میں، خواہ وہ ملک کے کسی بھی حصے میں چل رہی حکومت کی تنقید میں ہی کیوں نہ ہو۔ عائشہ پر درج مقدمہ کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے تبصرے کا آخری حصہ بے حد اہم ہے۔
ہماری جمہوریت میں حکومت کی ایسی تنقید جس میں تشدد کی اپیل نہ کی گئی ہو، غداری نہیں ہے۔ یہ ایسا اصول ہے جسے سپریم کورٹ نے بار بار واضح کیا ہے۔ باوجود اس کے مختلف ریاستوں کی پولیس عدالت عظمیٰ کی رائے کو بار بار نظر انداز کرتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ موجودہ وقت میں’راشٹر بھکتی‘ کا ڈھنڈورا پیٹنے والی بی جے پی اور اس کی منافرت پر مبنی متعصبانہ پالیسیوں سے متاثر ہوکر اکثریتی طبقے کے انتہا پسندوں نے اقلیتی طبقات کے خلاف ’متشددانہ مہم‘ چھیڑ رکھی ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ مسلمانوں کی موب لنچنگ کرنے والے کو انعام کے طور پر مرکزی وزیر کے ہاتھوں پھولوں کے ہار سے استقبال کیا جائے گا۔ وہیں انصاف پسند اورغیرجانبدار پولیس انسپکٹر کو مارنے والے کو بی جے پی گود میں بٹھائے گی۔
حکمرانوں بالخصوص بی جے پی کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہندوستان کا آئین اور قانون اپنے شہریوں کو آزادی اظہار رائے کا حق دیتے ہیں تومٹھی بھر فرقہ پرست حکمران یہ حق کیوں سلب کرنے پر آمادہ ہیں۔عائشہ کے خلاف ہی غداری کا مقدمہ کیوں درج کیا گیا جب کہ اس وقت ملک کے ہر حصے سے حکومت مخالف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔عائشہ نے اپنے حق کا استعمال کیا ہے قانون کی خلاف ورزی تو نہیں کی ہے مگر جو گئو کشی کے نام پر بے قصور لوگوں کا قتل کر رہے ہیں، لوجہاد کے نام پر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ کر رہے ہیں، ان شرپسندوں کی حرکتوں پر حکومت کیوں خاموش ہے۔ اس طرح کے سوالوں کا طوفان آیا ہے مگر حکومت کے پاس کوئی جواب نہیں ہے جس سے صاف ہو جاتا ہے کہ ملک میں چند لوگ اپنی تانا شاہی قائم کرنا چاہتے ہیں۔
عائشہ کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے جس کے مرکزی کردار میں لکشدیپ کے بی جے پی صدرعبد القادر ہیں۔ حالانکہ قادر کا پلان بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ اس معاملے پر لکشدیپ میں بی جے پی دو پھاڑ ہوگئی ہے اور قادر اکیلے پڑتے نظر آرہے ہیں کیونکہ ان کاعمل خود بی جے پی کے مقامی لیڈروں کو پسند نہیں آرہا ہے نتیجہ کار جزیرے کے 15 بی جے پی لیڈران و کارکنان نے پارٹی سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ استعفیٰ دینے والے بی جے پی کے ریاستی سکریٹری عبدالحمید نے عبد القادر کو خط لکھ کر کہا ہے کہ بی جے پی پوری طرح واقف ہے کہ کس طرح موجودہ حکمراں پٹیل کی حرکتیں عوام اور جمہوریت مخالف ہیں اور لوگ اس سے کافی پریشان ہیں۔عائشہ کے خلاف جھوٹی اور نا مناسب شکایت کی گئی ہے جس نے اس کے اہل خانہ اور اس کے مستقبل کو برباد کر دیا ہے۔
عائشہ جیسا معاملہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا ہے، یہ بی جے پی مخالفین کی آواز دبانے کا روایتی طریقہ ہے۔ لکشدیپ کے ایڈمنسٹریٹر اپنے تحکمانہ، فرقہ وارانہ اقدامات، یکطرفہ اور عوام مخالف پا لیسیوں اور اقدامات کے ذریعہ اس پر امن جزیرہ کی فضا کو مکدر کر رہے ہیں۔ لکشدیپ میں پٹیل کے ذریعہ غیر جمہوری انداز میں تدوین کیے گئے حالیہ کچھ قوانین لکشدیپ کے عوام کی بہبودی اور ترقی کے بجائے جزیرے میں بڑے کارپوریٹ کو ٹورزم کو فروغ دینے کی راہیں فراہم کرتے ہیں۔ اس چھوٹے جزیرہ میں جس کی کل آبادی تقریباً 65 ہزار ہے، ریگولیشن میں ایک غنڈہ ایکٹ بھی شامل ہے۔ اس قانون کے ذریعہ وہاں اٹھنے والی کسی بھی مخالف آواز کو کچلنے کا پورا اختیار وہاں کے ایڈ منسٹریٹر کو دیا گیا ہے جو شہریوں کے بنیادی حقوق کی پامالی ہے۔
ایک ایسا خطہ جہاں جرائم کی شرح نہیں کے برابر ہے، وہاں ایسے قانون کی کیا ضرورت ہے؟ ریگولیشن کے ایک قانون کے تحت ایڈ منسٹریٹر کو یہ حق حاصل رہے گا کہ وہ مفاد عامہ، مائننگ (کان کنی) اور جزیرہ کی ترقی کے لیے کسی کی بھی زمین کو ان کاموں کے لیے حکومت کی تحویل میں لے سکتا ہے۔ کان کنی اور ہائی ویز یہ دونوں کام جزیرہ کے ماحولیاتی توازن کو بگاڑ سکتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں ترقی کے نام پر خدشہ یہ ہے کہ حکومت بڑی بڑی زمینیں اپنے قبضہ میں لے کر بڑے کارپوریٹ ہاؤسیز کو کرائے پر دے سکتی ہے۔ نئے قوانین میں پنچایتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے امیدوار پر یہ شرط لگائی گئی ہے کہ اسے دو سے زائد بچے نہ ہوں۔ یہ انتہائی غیر جمہوری شرط ہے اور شاید ہی اس کی نظیر کہیں اور ملتی ہوگی۔
بیشتر قوانین کے پس پردہ مقامی آبادی کو تنگ کرکے انہیں نقل مکانی پر مجبور کرنا ہے تاکہ سارے جزیرے کو تفریح کا اڈہ بنایا جاسکے۔ اس پر امن جزیرہ میں غنڈہ ایکٹ لاگو کر نے کی کوشش دراصل ایڈمنسٹریٹر کے ناپاک عزائم کو واضح کر تی ہے۔ اسی طرح لکشدیپ اتھارٹی ریگولیشن کا مجوزہ ڈرافٹ جو ایڈمنسٹریٹر کو غیر معمولی اختیارات دیتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو ہراساں کر سکیں، ان کے معاملات زندگی میں جس طرح چاہیں مداخلت کریں اور جزیرہ کے عوام کی جائدادوں کو جب چاہیں خالی کرالیں، یہ ایڈمنسٹریٹر کے ارادوں پر سوالیہ نشان کھڑا کر تے ہیں۔ ایک ایسا علاقہ جس کی غیر معمولی اکثریت مسلمان ہے، جہاں شراب کی خرید فروخت پر اب تک پابندی عائد تھی، سیاحوں کو ورغلانے کے لئے شراب کی دوکانوں کے پر مٹ جاری کر نا مقامی آبادی کے مذہبی جذبات کے ساتھ کھلواڑ ہے۔