-
بہار: مجبوری کی یہ شادی کب تک چلے گی؟
- سیاسی
- گھر
بہار: مجبوری کی یہ شادی کب تک چلے گی؟
820
M.U.H
16/11/2020
0
0
تحریر: سہیل انجم
بہار کے اسمبلی انتخابات کے نتائج زمینی سچائیوں اور ایکزٹ پول کی قیاس آرائیوں کے برعکس نکلے۔ سوہ سب تو عظیم اتحاد کی کامیابی کی پیشین گوئی کر رہی تھیں۔ بہار کے عوام بھی اس بار تبدیلی کے حق میں تھے۔ وہ پندرہ برسوں سے قائم نتیش کمار کی حکومت کو بدلنا چاہتے تھے۔ عظیم اتحاد کی انتخابی ریلیوں میں وہ اپنی اس خواہش کا برملا اظہار کر رہے تھے۔ ان کی خواہش آر جے ڈی، کانگریس اور بائیں بازو کے اتحاد کی حکومت بنوانے کی تھی۔ مہا گٹھ بندھن کے جلسوں میں نظر آنے والا جوش خروش بھی اسی جانب اشارہ کر رہا تھا۔ لیکن ای وی ایم کے شکم سے این ڈی اے کی کامیابی کی ولادت ہوئی اور ایک بار پھر وہی حکومت بن رہی ہے جس سے لوگ نالاں اور ناراض تھے۔
جو انتخابی نتیجہ ہے وہ بڑا ہی مشکوک ہے۔ آر جے ڈی کی جانب سے ووٹوں کی گنتی میں بدعنوانی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں۔ اس نے الیکشن کمیشن سے ان حلقوں میں دوبارہ گنتی کرانے کا مطالبہ کیا ہے جہاں شکست و فتح کا فرق بہت باریک ہے۔ اس کا الزام ہے کہ اس کے ان امیدواروں کو ہرا دیا گیا جو کم ووٹوں کے فرق سے جیت رہے تھے۔ اور این ڈی اے کے ان امیدواروں کو جتا دیا گیا جو کم ووٹوں کے فرق سے ہار رہے تھے۔ اس کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ ایک حلقے میں آر جے ڈی امیدوار کامیاب ہو گیا تھا۔ کمیشن کی جانب سے اس سے جیت کا سرٹی فکٹ لینے کو کہا گیا لیکن پھر کچھ دیر کے بعد کہہ دیا گیا کہ وہ ہار گیا ہے۔
آر جے ڈی کا کہنا ہے کہ ابتدائی گنتی میں عظیم اتحاد کے حق میں زبردست لہر تھی۔ لیکن دوپہر آتے آتے این ڈی اے کی ہوا چلنے لگی اور شام ہوتے ہوتے اس کو سبقت دکھا دی گئی۔ اس دوران دوپہر سے شام تک کئی گھنٹے تک انتخابی نتیجہ کو منجمد کر دیا گیا۔ ان لوگوں کا الزام ہے کہ ایسا اس لیے کیا گیا تاکہ اپنی شکست کی صورت میں نتیجہ بدلا جا سکے۔ آر جے ڈی ترجمان منوج جھا کا تو یہاں تک الزام ہے کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے دفتر میں ایک اہم افسر کی موجودگی میں اور وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر انتخابی نتیجہ تبدیل کیا گیا۔
حالانکہ الیکشن کمیشن نے بدعنوانی کے الزام کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ اس پر کسی کا دباؤ نہیں تھا اور اس نے آزادانہ انداز میں کام کیا۔ اس نے دوبارہ گنتی کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ آر جے ڈی نے اعلان کیا ہے کہ اگر کمیشن نے اس کا مطالبہ تسلیم نہیں کیا تو وہ عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے گا۔ بہر حال این ڈی اے کو مہا گٹھ بندھن سے محض بارہ ہزار ووٹ زیادہ ملے ہیں۔
موجودہ انتخابی نتائج کے مطابق آر جے ڈی پہلے، بی جے پی دوسرے اور جنتا دل یو تیسرے نمبر پر ہے۔ بی جے پی نے سب سے بڑی پارٹی بننے اور نتیش کمار کا قد چھوٹا کرکے ریاست میں اپنی حکومت قائم کرنے کے لیے کیا کیا نہیں کیا۔ یہاں تک کہ اس نے این ڈی اے کے اپنے ہی سب سے بڑے حلیف اور وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے خلاف لوک جن شکتی پارٹی کے لیڈر چراغ پاسوان کا استعمال کیا۔ چراغ نے جنتا دل یو کے خلاف بڑی تعداد میں امیدوار اتارے اور نائب وزیر اعلیٰ سوشیل مودی کا کہنا ہے کہ چراغ پاسوان نے کم از کم بیس سیٹوں پر جنتا دل یو کو نقصان پہنچایا ہے ورنہ اس کی سیٹیں اور زیادہ ہوتیں۔
وہ ایسا کہہ کر بی جے پی کو اس سازش سے الگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر نتیش کمار کی سیٹیں کم آئی ہیں تو اس کی ذمہ داری چراغ پر نہیں بلکہ بی جے پی پر عاید ہوتی ہے۔ چراغ نے تو کھل کر کہا تھا کہ میں نے امت شاہ کو بتایا تھا کہ میں تنہا لڑوں گا جس پر وہ خاموش رہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ انتخابی مہم کے دوران بھی نہ تو وزیر اعظم مودی نے اور نہ ہی کسی بڑے لیڈر نے چراغ کے خلاف کوئی بیان دیا۔ جس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ان کی پشت پر بی جے پی کا ہی ہاتھ تھا۔
بہر حال بی جے پی نتیش کی سیٹیں کم کرکے ان کا قد چھوٹا کرنے میں تو کامیاب رہی لیکن وہ نمبر ون پارٹی بننے سے پیچھے رہ گئی۔ آر جے ڈی ایک سیٹ زیادہ جیت کر پہلی پارٹی بن گئی ہے۔ اگر بدعنوانی کے الزامات میں سچائی ہے تو یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اگر گنتی صاف شفاف انداز میں ہوئی ہوتی تو نتیجہ کچھ اور نکلتا اور ریاست میں عظیم اتحاد کی حکومت بنتی۔
بہر حال بی جے پی نتیش کا قدم چھوٹا کرنے کے باوجود تن تنہا اپنی حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اسے نتیش کمار کے کندھے پر بیٹھ کر ہی حکومت کے ایوانوں تک پہنچنا پڑ رہا ہے۔ بی جے پی کی بڑی خواہش رہی ہے کہ وزیر اعلیٰ اس کی جماعت سے ہو۔ لیکن موجودہ صورت حال میں یہ ممکن نہیں رہا اور بی جے پی کف افسوس مل کر رہ گئی۔ اس کے لیڈروں کے دل میں بار بار یہ خیال آرہا ہوگا کہ ہم جنتا دل یو سے زیادہ سیٹیں لا کر بھی اپنا وزیر اعلیٰ نہیں بنوا پا رہے ہیں۔ ہمیں نتیش کے احسانوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔
ادھر نتیش بھی اسی کیفیت سے دوچار ہیں۔ ان کے سامنے بھی بی جے پی کی پیشکش تسلیم کر لینے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اگر وہ وزیر اعلیٰ نہیں بنیں گے تو کیا کریں گے۔ عظیم اتحاد کے ساتھ جانے سے رہے۔ 2015 میں وہ اسی سے الگ ہوئے تھے اور لالو یادو نے ان کا نام ’’پلٹو رام‘‘ رکھ دیا تھا۔ آر جے ڈی کے لیڈر تیجسوی یادو عظیم اتحاد کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے امیدوار تھے۔ اگر نتیش ان سے اتحاد کرتے ہیں تو انھیں وزیر اعلیٰ کی کرسی گنوانی پڑے گی اور پھر یہ بھی ایک سوال ہے کہ تیجسوی انھیں اپنائیں گے یا نہیں۔ کیونکہ بہر حال نتیش کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اقتدار کی خاطر کیا کچھ کریں گے۔ لہٰذا نتیش کے سامنے بھی بی جے پی کی پیشکش مان لینے یا اس کا احسان اٹھانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔
البتہ اس حکومت میں بی جے پی کو ہی بالادستی حاصل رہے گی اور بی جے پی نتیش پر دباؤ ڈال ڈال کر آر ایس ایس کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے فیصلے کروائے گی۔ نتیش اس کے مطالبات ماننے کو مجبور ہوں گے۔ اگر وہ نہیں مانیں گے تو ان کی کرسی چلی جائے گی۔ گویا نتیش انتہائی ذلت آمیز انداز میں حکومت کریں گے۔ ادھر بی جے پی کی بھی مجبوری ہے کہ وہ نتیش کمار کو ہی وزیر اعلیٰ بنائے۔ اگر اپنے وزیر اعلیٰ کی ضد کرے گی تو نتیش ساتھ چھوڑ سکتے ہیں اور اس صورت میں اقتدار کی چابی اس کے ہاتھ میں آتے آتے رہ جائے گی۔
گویا اگر چہ الیکشن میں این ڈی اے کی جیت ہو گئی ہے لیکن اس جیت نے بی جے پی اور جنتا دل یو دونوں کے گلے میں پھندے بھی ڈال دیے ہیں۔ دونوں پارٹیاں چاہ کر بھی ان پھندوں سے نجات حاصل نہیں کر پائیں گی۔ یعنی دونوں کے سامنے یہ صورت حال ہے کہ نہ اگلتے بن رہا ہے اور نہ ہی نگلتے۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ مجبوری کی یہ شادی کتنے دنوں تک چلتی ہے اور دونوں میں طلاق کی نوبت کتنے عرصے میں آتی ہے۔ کیونکہ بہر حال طلاق تو ہونی ہے۔ اس حکومت کا پانچ سال مکمل کرنا ناممکنات میں سے نظر آتا ہے۔