-
ایران چین تعلقات اور انکے علاقائی اور عالمی اثرات
- سیاسی
- گھر
ایران چین تعلقات اور انکے علاقائی اور عالمی اثرات
406
m.u.h
15/10/2022
0
0
تحریر: انوشیروان احتشامی
ایران اور چین کے درمیان تعاون مغرب کی نگاہ سے اوجھل نہیں ہے۔ گذشتہ طویل عرصے کے دوران ایران اور چین کے درمیان تعلقات میں نشیب و فراز آتے رہے ہیں لیکن حالیہ کچھ برسوں سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں اتنی ترقی ہوئی ہے کہ اس کا نتیجہ 25 سالہ دوطرفہ اسٹریٹجک تعاون کے معاہدے کی صورت میں ظاہر ہوا ہے۔ مغربی طاقتیں ایران اور چین کے درمیان تعلقات میں فروغ کو اپنے لئے خطرہ تصور کرتی ہیں کیونکہ ایک طرف تو ان تعلقات کا نتیجہ ایران کے خلاف امریکہ کی سرکردگی میں مغربی پابندیوں کے بے سود ہونے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف یہ تعلقات، خطے اور دنیا میں چین کے اثرورسوخ میں اضافے کا بھی باعث بن رہے ہیں۔ کچھ ماہ قبل مغربی تھنک ٹینک ایٹلانٹک کونسل اس بارے میں لکھتا ہے:
ایران نے 1988ء میں جنگ کے خاتمے کے بعد ہمسایہ ممالک سے تعلقات پر نظرثانی کرنا شروع کر دی۔ ہمسایہ ممالک سے ایران کے تعلقات خاص طور پر امریکی صدر بل کلنٹن کے زمانے میں عائد کردہ پابندیوں سے متاثر تھے۔ پابندیوں کا دباو بڑھ جانے کے بعد ایران نئے اتحادیوں کی تلاش میں تھا۔ اس زمانے میں چین بھی ایران کے ساتھ خاص طور پر اس کے انرجی کے شعبے میں تعلقات استوار کرنے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ دوسری طرف ایران میں روس کے بارے میں بدگمانی پائی جاتی تھی جس کے اسباب انیسویں اور بیسویں صدی اور سرد جنگ میں مضمر تھے۔ ایران یورپ اور یورپی یونین سے بھی تعلقات مضبوط کرنے کا خواہاں تھا لیکن یورپ، امریکہ سے اپنے تعلقات کی روشنی میں اس کے قابل نہیں تھا یا اس میں دلچسپی نہیں رکھتا تھا۔
دوسری طرف جاپان اور جنوبی کوریا بھی ایران کی کوئی مدد نہیں کر رہے تھے جبکہ افریقہ اور لاطینی امریکہ اس سے بہت دور تھے۔ انڈیا اتنا طاقتور نہیں تھا کہ ایران کی مدد کر سکتا لہذا صرف چین ہی وہ ملک تھا جو ایران کیلئے بہترین دوست بن سکتا تھا۔ اس وقت سے ایرانی حکام نے اس بارے میں سنجیدہ مذاکرات کا آغاز کر دیا۔ 1980ء کے عشرے میں چین کے پاس زیادہ وسائل نہیں تھے اور اس کی اقتصادی طاقت بھی اس حد تک نہیں تھی لیکن اس باوجود چین کی ابھرتی ہوئی صلاحیتیں ایران کیلئے کافی مددگار ثابت ہو سکتی تھیں۔ یوں دونوں ممالک کے درمیان دوستانہ تعلقات کی تاریخی راہ ہموار ہو گئی اور چین نے اعلان کیا کہ وہ انڈر گراونڈ ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ایران کی مدد کرنے کیلئے تیار ہے۔
چین خطے میں استحکام کا خواہاں ہے۔ اگرچہ بعض ماہرین کے مطابق مغربی ایشیا میں عدم استحکام امریکہ کیلئے اپنا اسلحہ فروخت کرنے کیلئے انتہائی سودمند ہے لیکن چین کیلئے ایسا نہیں اور وہ خطے میں عدم استحکام کو اپنے حق میں نہیں سمجھتا۔ لہذا ایران کی پالیسیاں چین کیلئے بنیادی اہمیت کی حامل ہو گئیں۔ چین نے خطے میں بہت سے ممالک سے تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔ کویت میں چین ابریشم سٹی تعمیر کرنے میں مصروف ہے۔ اسی طرح چین نے عمان اور اس کے ساحلی علاقوں میں وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ مصر کے چھ ہزار سالہ تہذیب و تمدن کیلئے نیا قاہرہ بنایا ہے۔ بحیرہ قلزم کے ساحلی علاقوں میں چین موجود ہے۔ دوسری طرف خطے میں واحد ملک جو امریکہ کے خلاف کامیابی سے ڈٹا ہوا ہے ایران ہے اور یہ چین کیلئے بہت ہی اہم ہے کیونکہ وہ امریکہ کو اپنا اصلی حریف جانتا ہے۔
ایران اور چین دونوں خطے میں استحکام چاہتے ہیں اور خطے کے ممالک کے درمیان اعتماد کی فضا قائم کرنے کے خواہاں ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ چین کا سلک روڈ کا منصوبہ ہے۔ اس منصوبے پر عملدرآمد کیلئے خطے خاص طور پر ایران اور افغانستان میں امن و امان اور استحکام بہت ضروری ہے۔ دوسری طرف یورپی یونین، خاص طور پر جرمنی بھی براعظم ایشیا اور یورپ میں زمینی راستہ تعمیر کئے جانے کا خواہشمند ہے۔ جرمنی ایشیائی ممالک کو اپنے لئے بہترین منڈی تصور کرتا ہے۔ لیکن یوکرین جنگ کے باعث روس سے جرمنی کے تعلقات کشیدہ ہو چکے ہیں جس کے باعث اب وہ ایشیا کے ساتھ زمینی راستہ قائم کرنے کے درپے ہے۔ یہ راستہ اس کیلئے سستا اور محفوظ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ یوں علاقائی سطح پر ایران اور چین کے درمیان تعاون خطے میں امن اور استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔
عالمی سطح پر ورلڈ آرڈر میں تبدیلی آ رہی ہے۔ چین اور روس امریکہ کے دو اصلی حریف قوتوں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ایران کو بھی کم از کم علاقائی طاقت کے طور پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ایران اور چین دونوں عالمی سطح پر ملٹی پولر نظام کے خواہاں ہیں اور امریکہ کی یکہ تازیوں کے خلاف ہیں۔ اب جبکہ اقتصادی شعبے میں ایران اور چین کے درمیان تعاون دن بدن فروغ پاتا جا رہا ہے تو امید کی جاتی ہے کہ مستقبل قریب میں دفاعی اور سکیورٹی شعبوں میں بھی دوطرفہ تعاون کا آغاز ہو جائے گا۔ امریکہ ایران کو دنیا میں اپنا سب سے بڑا نظریاتی دشمن سمجھتا ہے اور ہر گز اسے اقتصادی، سیاسی، فوجی اور دفاعی شعبوں میں طاقتور ہوتا نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں اور ایران روز بروز زیادہ طاقتور ہوتا جا رہا ہے۔