ڈاکٹرمیم ضاد فضلی
بابائے قوم کی روح سے فریاد
انسانی تاریخ کے صفحات آ ج بھی ان عظیم انسانوں کے کارناموں سے جگمگا رہے ہیں جنھوں نے انسانی زندگی کی بقا اورترقّی کی خاطر اپنی گراں قدر خدمات انجام دیںہیں۔ ایسی ہی تاریخ ساز شخصیات میں موہن داس کرم چند گاندھی کا شمار کیا جاتا ہے۔ ان کے ہمہ جہت شخصیت اور گراں قدر کارناموں نے انھیں بابائے قوم اور مہاتما گاندھی کے نام سے مقبولیت کا تاج پہنایا۔ عام آ دمی کے ذہن میں مہاتما گاندھی کی شخصیت کا پہلا تاثر ایک بے سر و ساماں درویش کا ہے جس نے اپنے نظریہ عدم تشدّد کی بنیاد پر جنگِ آ زادی کا صور پھونکا اور اس ملک میں قدم جما چکی برٹش سر کار کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔موہن داس کرم چند گاندھی ہندوستان کے سیاسی پیشوا اور آزادی کی تحریک کے اہم ترین کردار تھے۔ملک میں انھیں احترام سے بابائے قوم ’مہاتما گاندھی‘ اور باپو جی کہا جاتا ہے۔ گاندھی کا جنم دن ہندوستان میںقومی چھٹی کا دن ہے اور گاندھی جی کی تصویرہندوستان کے نوٹوں پر موجود ہے۔گاندھی ریاست گجرات میں دو اکتوبر 1869 میں پیدا ہوئے۔ لندن سے وکالت کا امتحان پاس کیا۔بیرسٹری کرنے کے بعد کچھ وقت جنوبی افریقہ میں گزارا اور وہیں سے سیاست میں آئے ،حتیٰ کہ گاندھی جی ملک کی آزادی کیلئے تحریک چلانے کا منصوبہ جنوبی افریقہ میں ہی ترتیب دیا۔اس سے پہلے کے ہم بابائے قوم کی سیاسی جدوجہد پر گفتگو کریں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلے ہم گاندھی کے طرز عمل کا تذکرہ کریں ،جس نے گاندھی جی کو اپنی مہم میں کامیابی سے ہمکنار کیا تھا۔ پہلے پہل ہندوستان آ کر انہوں نے انڈین نیشنل کانگرس کے پلیٹ فارم سے سیاسی اور سماجی بیداری کا آغاز کیا۔اس راہ میں جو سب سے بڑی رکاوٹ تھی وہ یہ تھی کہ 17ویں صدی سے ہی ملک کے ہندو مسلمانوں کو آپس میں لڑاکرایک دوسرے کے خلاف محاذ آ را کردیاتھا۔ظاہر سی بات ہے کہ اس وقت ہندمیں یہی دو مذہب کے ماننے والے یعنی ہندو مسلم اکثریت میں تھے ،جنہیں فرقہ پرستی کی آگ میں جھونک کر آسانی کیساتھ اقتدار ک مزے لوٹے جاسکتے تھے۔اگر انگریز ہند و اور مسلمانوں کوبا ہم دست وگریباں کرنے میں کامیاب نہیں ہوتے تو شاید 1947سے کافی پہلے ہی غدر1857کے فوراً بعد انگریزی سامراج کی کمر ٹوٹ جاتی اور انہیں ہندوستان سے بھاگنے پر مجبور ہونا پڑتا۔مگر اسے اہل ہند کی بدقسمتی کہیں یا ہماری بد اعمالی کا نتیجہ کہ انگریزوں کی اس چال کو سمجھنے میں ناکام رہے یا ذاتی مفادات کیلئے کچھ طاقتوں خاص کر برہمنی ذہنیت نے دھرم کا ’’جنیو‘‘اتار کر انگریزوں کی غلامی کا طوق اپنی گردنوں میں ڈال لیا۔یہی وجہ ہے کہ اس سے قبل ملک کے مختلف علاقوں میں آزادی وطن کیلئے اٹھائی جانے والی آوازیں صدا بسحرا ثابت ہوتی رہیں اورگورے دہشت گردمضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے گئے۔لہذا وطن عزیز کو اگربرطانوی استعمار سے نجات پانے میں طویل عرصہ لگا تو اس کی بنیا دی وجہ یہی ہے کہ کچھ مذہبی عناصر نے مجاہدین آزادی کی راہوں میں مشکلات کھڑی کرنے میں کلیدی رول ادا کیا تھا۔مگر جب اس سازش سے پردہ اٹھا تو پتہ چلا کہ اب کافی دیر ہو چکی ہے اور انگریزوں کے پروردہ سنپولیے اب زہریلے ناگ کی صورت اختیار کرچکے ہیں۔آپ اس کیلئے آر ایس ایس کے معماروں کی ابتدائی حالات زندگی کا مطالعہ کرلیجئے، بات بڑی آ سانی سے سمجھ میں آجائے گی۔البتہ سچائی جاننے کیلئے کسی ہندو یا مسلم مؤرخ کی تحریر پڑھنے کی بجائے ،انہیں انگریزوں کی تصا نیف کا راست مطالعہ کرلیجئے جنہوں نے(our Indian Muslims) جیسی کتابیں تصنیف کی ہیں۔دیکھئے ! میں بھی با توں باتوں میں کہاں سے کہاں چلاگیا۔انگریزوں کی غلامی کیخلاف گاندھی جی نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ تمام ہندوستانیوں کو بحیثیت قوم اپنے تمام اختلافات اور تنازعوں پر مٹی ڈالتے ہوئے متحد کرنے کی کوشش کی۔اس کام میںاگرچہ کافی وقت صرف ہوا ۔مگر اس کا فائدہ یہ ہو ا کہ ہندو مسلمانوں کے متحد ہوتے ہی انگریزوں کے پیر اکھڑ گئے۔حالاں کہ1770میں اسی انگریز ی سامراج نے ہند و مسلمانوں کے درمیان مذہبی منافرت کی دیوار کھڑی کر کے سراج الدولہ کی ریاست پر قابض ہوکر ہندوستان پر راج کرنے کا سفر شروع کیا تھا۔لہذا یہ کہنے میں ہمیں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ انگریزوں کے قدم اکھاڑ نے میںجس چیز نے تیرو تفنگ سے زیادہ کردار ادا کیا تھا وہ ہندو مسلم اتحاد ہی تھا۔جب بابائے قوم مہاتما گاندھی مذکورہ دونوں مذاہب کے پیرو کاروں کو جوڑ نے میں کامیاب ہوگئے تو اس کے بعد انہوں نے آزادی کیلئے جس دھاردار اسلحے کا استعمال کیا اسے عرف عام میں عدم تشدد کے نام سے جانا جاتا ہے۔بعد ازاں دنیانے اپنی ننگی آ نکھوں سے دیکھا کہ جوکام تقریباً150برس میں اسلحوں ،تیروں ،تلوارواور گولیوں کے ذریعہ ممکن نہیں ہوسکا، وہی کام عدم تشدد پر چل کر اور ملک کی تمام برادری کو ایک ساتھ لانے کے بعد آسانی سے ممکن ہوگیا۔میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بے زبانی اور اتحاد میں کتنی طاقت ہے، اس کا سبق بابائے قوم مہاتما گاندھی نے عدم تشدد اور اتحادقوم کے ذریعہ پیش کیا ہے۔حالاں کہ عدم تشدد کی راہ اختیار کرنے سے پہلے بھی انہوں نے آزادی کیلئے ایک دوسری تحریک چھیڑی تھی۔جس کا مخصوص نعرہ بھی ہندو مسلمان دونو نے مل کر طے کیاتھا اور اس کی قیادت بابائے قوم مہاتما گاندھی کے سپرد کی گئی تھی۔ چناں چہ مہاتما گاندھی کو 1922 ع میں’’ موت یا آزادی‘‘ کا نعرہ لگانے کی وجہ سے 6 سال قید کی سزا دی گئی۔ انہوں نے رہائی کے بعد برطانوی سامراج کے خلاف عدم تعاون کی تحریک شروع کی۔
ان کے اس اقدام سے برطانوی سامراج کو شدید نقصان پہنچایا۔بالآخر مہاتما گاندھی کی قیادت میں ہندوستان نے 15 اگست سنہ 1947 ع کو آزادی حاصل کی۔ آزادی کے بعد 30 جنوری 1948 کو انہیں نئی دہلی میںاسی بر طانوی استعمار کی پروردہ ذہنیت کے ایک ناگ نے ڈساتھاجس کانام گوڈسے ہے ،اسی نے برلا ہاؤس میںبابائے قوم کو گولی مارکر شہید کردیاتھا۔باپو کو گولی مار نے والا اگرچہ اپنے انجام کو پہنچ گیا ۔مگر دنیا نے یہ ضرور دیکھ لیاکہ ہندوستان میں امن واخوت کے پیامبر کی سرگرمیوں سے خدا واسطے کا بیر رکھنے والی کون سی تنظیم ہے اور بد قسمتی سیملک میں جس کی جڑیں گزرتے وقت کے ساتھ اورزیادہ مضبوط ہوتی جا رہی ہیں۔نفرت کی تجارت کرنے والی طاقتیں ہمیشہ امن ومحبت اور بھائی چارہ و سماجی ہم آ ہنگی کی دشمن رہی ہیں ،لہذ ایسی طاقتوں کو بابائے قوم کا نظریہ باہمی ہم آ ہنگی ہضم بھی کیسے ہوسکتا تھا۔نتیجہ کار اس عظیم ہستی کا نام و نشان مٹانے کیلئے انہیں دنیاسے ہی اٹھا دینے کی سازش رچی گئی اور باپو ملک پر ہمیشہ کیلئے نچھاور ہوگئے۔ گاندھی جی کی قومی یکجہتی کا نظریہ اس قومی روایت پر مبنی معلوم ہو تا ہے کہ جس کے مطابق یہ پو ری کا ئنات خدا کا کنبہ ہے۔ گاندھی جی کی آ فاقی فکر نے انھیں رنگ و نسل ،ذات وبرادری اور علاقائیت کے امتیازات سے اوپر اٹھ کر سوچنے پر مجبور کیا تھا۔ اسی انسانی دوستی کا پر تو ان کے خیالات پر پڑا۔ اردو کے مشہور شاعر مجاز لکھنوی نے گاندھی جی کے انتقال پر ان الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا تھا۔’’ گاندھی جی کی شخصیت کے اس انقلابی پہلو سے قطع نظر ہم ان کے خیالات و افکار کا جائزہ لیں تو ان کے ہاں ہمیں ایک جامع اور مربوط نظامِ زندگی کے شواہد ملتے ہیں۔ مہاتما گاندھی ایک قابل رہنما ،بہترین انسان اور مفکّر بھی تھے۔ وہ فلسفی نہ تھے، لیکن انھوں نے دنیا کے سامنے ایک ایسا طرزِ زندگی اور مسائلِ حیات سے نبرد آزما ہونے کے لئے ایسا موثّر طریقہ کار تجویز کیا جس کی افادیت دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے۔ گاندھی جی کے نظریات میں سب سے اہم اہنسا یعنی عدم تشدّد ہے جسے انھوں نے باضابطہ ایک طریقہ حیات قرار دیا ہے۔‘‘تشدّد آج نہ صرف قومی پیمانے پر بلکہ عالمی سطح پر ایک بھیانک مسئلہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ مختلف طبقات ،ممالک ،ذاتوں اور مذاہب کے درمیاں غیر ہم آہنگی نے پوری دنیا میں تشدد کی لہر دوڑا دی ہے اور ساری دنیا اس مسلہ کا حل تلاش کر رہی ہے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیںہے۔)