-
فلسطینیوں کی قربانیوں کا حاصل!
- سیاسی
- گھر
فلسطینیوں کی قربانیوں کا حاصل!
178
M.U.H
05/05/2024
0
0
تحریر: ارشاد حسین ناصر
دنیا کے جس حصے کی جانب دیکھیں، آپ کو ظلم، بربریت، تشدد، آگ و خون، بم و بارود، دھماکے، تجاوز، لوٹ مار، سماجی ناانصافی، عدم برداشت، تقسیم، تفریق، نفرت، تشدد، معاشی ڈکیتیاں، غلامی کے جدید طوق، عالمی استعمار کے غلام و نوکر حکمران اور ان کے اشارہ ابرو پر اپنے ملک، اپنے عز و شرف کا سودا کرنے والے نظر آئیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ کچھ قوتوں نے اس دنیا کو بے یقینی، مایوسی، عدم اطمینان اور ناامید کرنے کی سازش کی ہے، جس کی وجہ سے بیسیوں سال چلنے والی مزاحمتی و آزادی کی تحریکوں کو ایک مایوسانہ ماحول میں دھکیل کر کہ "کچھ نہیں ہوسکتا" اپنا مقصد حاصل کیا جاتا ہے، انہیں تاریک مستقبل دکھایا جاتا ہے، ان کی قربانیوں کو جانوں کا زیاں اور قربانیاں دینے والوں کو ناسمجھ، استعمال ہونے والے، مخلص مگر جذباتی، بعض اوقات کرائے کے ٹٹو اور نہ جانے کیسے کیسے القابات دے کے ان قربانیوں کا حاصل، فقط مایوسی و تاریک مستقبل دکھایا جاتا ہے، اب کوئی بھی تحریک جتنی پرانی ہوگی، اس میں قربانیوں کا لیول اسی قدر بلند ہوگا، جتنی قربانیاں ہونگی، اسی قدر مایوسی پھیلا کر اس مزاحمتی تحریک کو ناکام بنانے کی سازش کی جاتی ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ اس وقت موجودہ مہذب دنیا میں سب سے پرانا ایشو مسئلہ فلسطین یعنی بیت المقدس کی آزادی کیلئے شروع کی جانے والے مزاحمتی و مقاومتی تحریک ہے، جو گذشتہ لگ بھگ اسی برس سے جاری ہے، ان اسی برسوں میں اہل فلسطین نے نہ جانے کون کون سی قربانیاں دی ہیں، ان کا شمار ہی ممکن نہیں۔ اہل فلسطین نے ان اسی برسوں میں ہر قسم کی قربانی پیش کی ہے، جان کی قربانی، مال کی قربانی، جوانوں کی قربانی، بچوں کی قربانی، خواتین کی قربانی، عزتوں کی پایمالی کی قربانی، اپنے گھر بار لٹانے کی قربانی، اپنی خاندانی و آبائی جائیدادیں لٹانے کی قربانی، ہنستے بستے شہر اور چمکتے، دمکتے محلوں اور مکانات کو خاک کے ڈھیرمیں بدلنے کی قربانی، کھیت کھلیانوں کو، پکی پکائی فصلوں کو آگ کے شعلوں میں تبدیل کر دیے جانے کی قربانی، اپنی جائیدادوں کے چھن جانے اور ہجرتوں کے تلخ ترین مصائب جھیلنے کی قربانی۔
اپنے پیارے بچوں کو تعلیم، علم، سے محروم کر دیئے جانے کی قربانی، ہزاروں کی تعداد میں بےگناہ ناکردہ گناہوں کی سزا کے طور پر بدترین جیلوں کی سختیاں جھیلنے کی قربانی، ہزاروں کی تعداد میں اپنے لہو کے نذرانے پیش کرکے قبرستانون کو آباد کرنے کی قربانی، بے کفن دفنائے جانے والے عظیم شہداء، مجاہدین کی قربانی، اپنوں کی بے غیرتی کے غم سہنے کی تکلیف دہ قربانی، نام نہاد عربوں و مسلمانوں کی بے وفائی کے دکھ سہنے کی قربانی، غداری کے ارتکاب کرنے والے دشمن کے ایجنٹوں کا نشانہ بن جانے والوں کی قربانی، اہل فلسطین کی یہ ساری قربانیان جو پچھتر برس مسلسل دی ہیں، ایک طرف اور گذشتہ سات مہینوں میں سات اکتوبر کے بعد طوفان الاقصیٰ سے لیکر تا این وقت و لحظہ کی قربانیاں ان پچھتر برسوں پر بھاری ہیں۔
ان سات مہینوں میں وہ سب کچھ ہوا ہے، جو شاید گذشتہ پچھتر برس میں بھی نہیں ہوا، ظلم کا ہر رنگ اس مہذب دنیا نے دیکھا ہے، بربادی کا ہر انداز دنیا کے سامنے ہے، تباہی کا ہر منظر دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ گویا قیامت کی گھڑیان سات مہینوں سے رکی ہوئی ہیں اور اہل فلسطین پر قیامت کا سماں سایہ فگن ہے، اتنی بربادی و تباہی، اتنا ظلم، اتنی سفاکیت، اتنا بارود، اتنا کون، اتنی تاراجی گذشتہ پچھتر برس میں نہیں دیکھی گئی ہاں۔۔ مگر ایک فرق ہے کہ ان سات مہینوں کی قربانیوں کی شدت و حدت کا گراف بلا شک و تردید بہت بلند سطح پہ سہی مگر اس کے اثرات اور اس کا حاصل بھی گذشتہ پچھتر برس پر بھاری دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ ان قربانیوں کی بدولت ہی ہے کہ آج جب اسرائیل اپنی جدید ترین فوج اور اس کی جنگی صلاحیتوں، جدید ترین اسلحہ، ریڈارز، آئرن ڈوم، فضائی صلاحیت، ایٹمی پاور، دفاعی نظام، جارحیت کی تاریخ، تجاوز، ظلم بر بریت اور عالمی قوانین کو جوتے کی نوک پر رکھنے جیسے ماضی کے اقدامات، امریکہ، نیٹو، اہل مغرب کی مکمل پشتبانی، مدد، تعاون اور اس کے دفاع میں ہر لعنت کا طوق گلے میں ڈالتے ان ممالک کے ہوتے ہوئے اس کا تمام تر رعب و دبدبہ، اس کی سفاکیت، اس کی شقاوت، اس کی جارحیت، اس کے ظالمانہ اقدامات کو پہلے سات اکتوبر طوفان الاقصیٰ اور اس کے بعد چودہ اکتوبر کی صبح ایران کے ڈرونز و میزائل حملوں نے خاک میں ملا دیا ہے۔
آج اسرائیل کو یمن سے جو مار پڑ رہی ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ یہ بھی تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہے کہ یمن جیسا ایک غریب مگر باغیرت عرب ملک کہ جس کی سرحد اسرائیل سے نہیں ملتی، مگر اس کی سمندری حدود سے اسرائیل کو مدد فراہم کرنے والے گزرتے ہیں تو اس غریب، باغیرت و شجاع، استقامت کے دلیروں نے اس بدمعاش کا راستہ روک کر اسے وہ نقصان پہنچایا ہے، جو کسی اور کے وہم و خیال میں بھی نہیں تھا نہ ہی کسی نے اس کے بارے سوچ رکھا تھا کہ یہ بھی ایک محاذ کی شکل اختیار کرے گا۔ اس وقت تو اہل یمن نے اہل فلسطین بالخصوص فلسطینی مقاومت کے دل جیت لیے ہیں اور فلسطین کی حقیقی قیادت اس کا برملا اعتراف کرتے بھی دیکھی سنی جا سکتی ہے، اگرچہ یہ اعتراف بہت سے فرقہ پرستوں اور متعصب گروہوں پہ بہت گراں گزرا ہے بلکہ سوشل میڈیا پہ تو بعض لوگوں کو ایسا جلایا ہے جیسے کسی نے ان پہ تیزاب ڈال دیا ہے، حد تو یہ ہے کہ یہ لوگ امریکہ میں طالب علموں کی موجودہ تحریک و فلسطین کی حمایت کو تو خوش آمدید کہنے کو تیار ہیں مگر لبنان کی حزب اللہ، یمنی انصار اللہ، عراقی مزاحمت، ایران کے براہ راست حملوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔
ہمیں اس مضمون میں یہ موضوع ہرگز پیش نظر نہیں، بر سبیل تذکرہ یہ بات آگئی مگر ہم اس تحریر میں اہل فلسطین کی تاریخی قربانیوں اور ان سات مہینوں کی قربانیوں و مزاحمت کو زیر بحث لا رہے تھے کہ ان سات مہینوں کی قربانیوں نے گذشتہ پچھتر برس کی قربانیوں پر زیادہ اثرات مرتب کیے ہیں۔ آج اسرائیل اپنے کمزور ترین دور میں دیکھا جا سکتا ہے۔ سید حسن نصر اللہ نے کچھ برس پہلے اسے مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ترین کہا تھا تو آج اس کی عملی شکل دنیا کے سامنے ہے۔ ہاں اس میں اگر کسی کا کوئی کردار ہے تو وہ اہل فلسطین ہیں، اہل غزہ ہیں، جو گذشتہ پچھتر برس سے قربانیوں کی لازوال و انمٹ نقوش مرتب کرتے ہیں، ہر دور اور زمانے کے تقاضوں کے مطابق اپنی مزاحمت کو زندہ رکھتے ہیں، اپنے ہدف کو بھولتے نہیں بلکہ اگر وقت کی گرد تہیں جمانے لگے تو تازہ لہو دیکر اسے پہلے سے زیادہ نمایاں کر دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
ممکن ہے بہت سے لوگ حماس کے سات اکتوبر کے حملوں کے نتیجہ میں ہونے والی بربادی، تباہی، تاراجی اور سفاکیت کو حماس کے کھاتے میں ڈالنا چاہیں، مگر ہر حقیقت پسند جانتا ہے کہ اسرائیل جسے تمام نیٹو، عرب ممالک، اور امریکہ کی بھرپور مدد و تعاون حاصل ہے، فلسطینیوں کی طویل قربانیوں کے نتیجہ میں اس قابل نہیں رہا کہ اپنے قیدیوں کو حماس سے چھڑوا سکے۔ اس قابل نہیں رہا کہ ایران جو ایک ہزار سے زیادہ کلومیٹر دور ملک ہے، اس کے حملوں کو مکمل ناکام بنا سکے اور ایرانی حملوں کے معین اہداف کو بچا سکے، گویا یہ وہ حاصل ہوا ہے، جو کسی بھی دوسرے ذریعے سے حاصل نہیں ہوسکتا تھا، اس طرح حماس کی حکمت عملی بھی کامیاب ہے اور ایران بھی اپنے اہداف میں کامیاب ہوا ہے، اس کامیابی کے اثرات مستقبل کی جنگ میں بہت مفید ہونگے۔
اہل فلسطین کی ان سات مہینوں کی قربانیوں نے اس قدر امت مسلمہ پر مثبت اثر مرتب نہیں کیا جتنا اس کا اثر بذات خود امریکہ میں دیکھا جا سکتا ہے، جس قدر عوام اہل غرب نکلی ہے اور احتجاجی مظاہروں کے ذریعے جنگ بندی و اسرائیل کو اسلحہ و کانگریسی امداد کے خلاف دنیا کے سامنے آئے ہیں، یہ بھی انہی قربانیوں کا مرہون منت سمجھنا چاہیئے اور اہل فلسطین جو مظلومیت کی ایک انمٹ طویل تاریخ رکھتے ہیں، ان کی مظلومیت کو امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہوئے احتجاج اور امریکی یونیورسٹیز کیساتھ ساتھ دیگر مغربی ممالک کی یونیورسٹیز کی شمولیت اور امریکہ و مغرب کی آذادی اظہار رائے و انسانی حقوق کے کھوکھلے نعروں کو پرامن مظاہرین پر تشدد نے عیاں کر دیا ہے۔
امریکہ و اہل مغرب کا جمہوری، انسانی حقوق اور میڈیا کی آزادی کے نعروں اور دنیا کو ان نعروں کے پیچھے اپنے دام فریب میں لانے جیسے اقدامات کو دیکھا جائے تو ان کے چہرے سے نقاب الٹ چکی ہے، آج پرامن مظاہرین کیساتھ روا رکھا جانے والا سلوک ان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے، جس کا سبب اہل فلسطین کی تاریخی قربایاں ہی ہیں۔ ہم ان قربانیوں کو سلام پیش کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دنیا اپنے منطقی انجام کی طرف تیزی سے گامزن ہے، وہ دن دیکھنے کی تڑپ و خواہش مزید بڑھ گئی ہے کہ جب عدل کا قائم کرنے والا اپنا پرچم لہراتے ہوئے حجر اسود کے پاس سے ندا دے رہا ہوگا، ہمیں اس ندا پر لبیک کہنا ہے۔