-
جمعۃ الوداع، یوم القدس، اتحاد امت کا مظہر
- سیاسی
- گھر
جمعۃ الوداع، یوم القدس، اتحاد امت کا مظہر
1085
muh
21/05/2020
0
0
تحریر: عمران خان
اسلام ٹائمز: اسلامی دنیا پر مسلط حکمران عالمی استعمار کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ یہ حکمران دین کے حقیقی پیروکاروں سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ کے ذریعے ان پر حملے کرا رہے ہیں۔ حماس ہو یا حزب اللہ، ان حکمرانوں کی آنکھوں میں چبھتا ہوا کانٹا ہیں۔ یہ حکمران جانتے ہیں کہ عالمی سامراج سے برسر پیکار یہ سرفروش جب سرخرو ہونگے تو انکے جھوٹے اقتدار کا سورج غروب ہوجائے گا۔ عرب دنیا پر مسلط شاہوں کو اسکے علاوہ اور کیا خطرہ ہوسکتا ہے کہ یہ آج غزہ کیخلاف اسرائیل کیساتھ کھڑے ہیں۔ یہودیت کی تھاپ پر عرب بادشاہوں کی مدد سے صہیونیت کا ظالمانہ ناچ جاری ہے۔ کونسا ظلم ہے جو غزہ میں روا نہیں رکھا جارہا، مگر وہ دن نہایت قریب ہے جب صہیونی فوجی اسرائیل تو کیا، اپنے زمین دوز بنکروں میں بھی اسی طرح سسکیاں لیں گے، جیسے آج غزہ کے تباہ حال گھروں میں سے آتی ہیں۔
جس طرح ماہ رمضان المبارک کو سال بھر کے باقی مہینوں کی نسبت زیادہ فضیلت و مرتبہ حاصل ہے، اسی طرح جمعۃ المبارک کو اسلامی نقطہ نگاہ سے ایک خاص اور الگ مقام حاصل ہے۔ بلاشبہ ہفتے کے باقی ایام میں ادا کی جانے والی کسی نماز کو وہ فضیلت حاصل نہیں جو کہ نماز جمعہ کو حاصل ہے۔ نماز جمعہ کی اہمیت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ہفتے بھر میں یہ واحد نماز ہے جو جامع مسجد میں باجماعت ادا کرنا واجب ہے۔ ماہ رمضان المبارک اور جمعۃ المبارک کے ان مراتب کو سامنے رکھا جائے تو بلاشبہ ماہ رمضان کے چاروں جمعۃ المبارک سال بھر کے باقی ایام سے درجات میں کہیں زیادہ بلند ہیں، کیونکہ ماہ رمضان اور جمعہ دونوں کے فضائل ملکر نیکیوں کے اجر کو اتنا بڑھا دیتے ہیں کہ انسانی ذہن اس کا احاطہ نہیں کرسکتا۔
ایام اور مہینوں کے ان فضائل و مراتب میں رمضان الکریم کا آخری جمعۃ المبارک شان میں افضل ترین ہے، یعنی جو فضلیت ہفتہ کے باقی دنوں کے مقابلے میں جمعہ کے دن کو حاصل ہے، وہی فضیلت سال بھر کے ایام کے مقابلے میں رمضان الکریم کے آخری جمعۃ المبارک کو حاصل ہے۔ جسے سید الایام، جمعۃ الوداع کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان اس دن کا انتہائی عقیدت و احترام سے اہتمام کرتے ہیں۔ اگر امت مسلمہ کے تمام مسالک کے درمیان مشترکات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بھی ایک خوش کن حقیقت ہے کہ جمعۃ الوداع کی اہمیت، حیثیت امت مسلمہ کے تمام مسالک کے نزدیک یکساں ہیں، یعنی اس دن کے حوالے سے دنیا بھر کے مسلمان امت کے تصور سے حقیقی طور پر جڑے ہوئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس روز تمام مسلمان بلاتفریق رنگ و نسل، مکتب و مسلک اتحاد کی تسبیح میں پروئے نظر آتے ہیں۔
جس طرح جمعۃ الوداع کی فضلیت اور مرتبہ امت کے تمام مسالک و مکاتب کے درمیان یکساں ہے اسی طرح بیت المقدس، قبلہ اول کی اہمیت، حیثیت اور فضلیت بھی تمام مسلمانوں کے نزدیک یکساں ہے۔ بیت المقدس تمام مسلمانوں کے نزدیک واجب الاحترام ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیت المقدس کی جانب رخ انور کرکے کئی نمازیں ادا کیں۔ جس کے باعث اسے قبلہ اول ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ مشرق وسطٰی میں عالمی دہشت گرد، شیطان بزرگ امریکہ و برطانیہ نے اپنی نگرانی میں جب آزاد فلسطین کی آزاد سرزمین پر ناجائز اور غاصب ریاست اسرائیل کا وجود قائم کیا، تو فلسطین پر یہودیوں کی آباد کاری اور صہیونی ریاست کے قیام سے قبلہ اول، بیت المقدس بھی صہیونیوں کے قبضے میں چلا گیا۔
اسرائیلی فوجوں نے پہلے پہل قبلہ اول میں مسلمانوں کا داخلہ بند کیا، پھر رفتہ رفتہ اسے اپنی تاریخی مذہبی عبادتگاہ کے طور پر متعارف کرانا شروع کر دیا۔ مسجداقصٰی اور قبلہ اول کی اسرائیلی فوجیوں نے متعدد بار بیحرمتی کی۔ یہاں تک کہ ایک مرتبہ اسے نذرآتش کرنے کی بھی کوشش کی گئی، اس کوشش میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا وہ تاریخی منبر بھی جل کر خاکستر ہوگیا، جس پر بیٹھ کے سلطان نے جمعۃ المبارک کے کئی خطبے دیئے۔ اس کے بعد اسرائیل نے بیت المقدس کو ہیکل سلمانی میں تبدیل کرنے کی عملی سازشوں کا آغاز کیا۔ اس مقصد کے لیے قبلہ اول کے ارد گرد سرنگیں بھی کھودی گئی۔
اسرائیل کے قیام کے وقت پوری دنیا کے مسلمانوں نے اس کی مخالفت کی اور اسے مشرق وسطٰی میں گھونپے گئے ایک خنجر سے تعبیر کیا۔ انقلاب اسلامی ایران کے رونما ہونے کے بعد انقلاب کے پیشوا امام خمینی نے قبلہ اول کی آزادی کو امت مسلمہ کا دیرینہ مسئلہ و خواب قرار دیا۔ انہوں نے پورے عالم اسلام کی توجہ قبلہ اول اور فلسطین کی آزادی کی جانب مبذول کرانے کے لیے جمعۃ الوداع کو یوم القدس قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ جمعۃ الوداع، یوم القدس، یوم اللہ، یوم رسول اللہ، یوم اسلام ہے، جو اس دن کو نہیں مناتا وہ استعمار کی خدمت کرتا ہے۔ قبلہ اول کی آزادی کی تحریک کے لیے اس دن کا انتخاب انتہائی دوررس اثرات کا حامل اور امت مسلمہ کے اتحاد کا بہترین مظہر ہے۔
جمعۃ الوداع ایسا یوم ہے جس پر امت مسلمہ تفریق کا شکار نہیں بلکہ اتحاد کا نمونہ ہے جبکہ قبلہ اول تمام مسلمانوں کے نزدیک یکساں واجب الاحترام و تکریم ہے۔ بیت المقدس، فلسطین کی آزادی بھی دنیا بھر کے مسلمانوں کا دیرینہ خواب ہے۔ لہذا جمعۃ الوداع کو بیت المقدس کی آزادی کے خواب سے منسلک کرنا حقیقی معنوں میں آزادی فلسطین کی خدمت اور اتحاد امت کے تصور کی عملی تصویر ہے۔ نفاق، فرقہ واریت، انتشار صہیونیت اور عالمی استعمار کے دین اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کارگر ہتھیار ہیں۔ اسلام دشمن طاقتوں نے ان ہتھیاروں کا استعمال اس طریقے سے کیا ہے کہ آج اسلامی دنیا داخلی و خارجی محاذوں پر پسپائی کا شکار ہے۔ انہی ہتھیاروں کے ذریعے ہی سامراجی قوتوں نے یوم القدس کے حوالے سے بھی امت مسلمہ کو تقسیم کرنے کی سازش کی، مگر حقیقت یہی ہے کہ قبلہ اول، بیت المقدس تمام مسلمانوں کا ہے، فلسطین، غزہ کے باسیوں سے پوری اسلامی دنیا کا یکساں تعلق ہے۔
کاش کہ ملت اسلامیہ اسلام دشمن طاقتوں کے ان ہتھیاروں کو اتفاق، یگانگت، بھائی چارے اور اتحاد بین المسلمین کے ذریعے بیکار کر دیتی۔ گرچہ سامراجی طاقتوں کا ایجنڈا پوری طرح کامیاب نہیں ہوا، مگر امت مسلمہ کو ان ہتھیاروں نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو پورا جسم بے چین ہوتا ہے۔ آج سامراج کی خونی پالیسیوں کی بدولت افغانستان، عراق، شام، بحرین، مصر، اردن، پاکستان، تیونس، سوڈان، نائیجیریا لہو لہو ہیں۔ کئی اسلامی ملکوں میں سامراجی فتنے اسلام کے لبادے میں مسلمانوں کا قتال کر رہے ہیں۔
افراتفری کا عالم ہے۔ آئے روز نبوت و خلافت کے دعویدار اسلام کی گستاخانہ تشریح کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ دجالی میڈیا اسلام کش پالیسی پر گامزن ہو کر ان دعویداروں کی تشہیری مہم کا آغاز کئے ہوئے ہے۔ اسلامی دنیا پر ایسا معاشی نظام مسلط کر دیا گیا ہے کہ عالم اسلام ان کے لیے ایک منڈی بن کر رہ گیا ہے، جس میں ہر غیر ضروری چیز کی خریداری ضروری قرار دی جاچکی ہے۔ اسلام اور اس کی تعلیمات کا چہرہ مسخ کرنے کے لیے نت نئے فتنے پھیلائے جا رہے ہیں، جن کو استعمار کی مکمل طور پر پشت پناہی حاصل ہے۔ عراق، شام، افغانستان، پاکستان، نائیجیریا سمیت کئی اسلامی ممالک کی افواج اپنے ہی ملکوں میں ایسی جنگ لڑنے پر مجبور ہیں جو ان پر مسلط کر دی گئی ہے۔ امت کے درمیان رنگ، نسل، مکتب، مسلک کی خلیج پیدا کر دی گئی ہے۔ دین اسلام کے ماننے والوں کے لیے حق و انصاف کے پیمانے تبدیل کر دیئے گئے ہیں۔ مظلوم ہونے کے باوجود امت مسلمہ کو ظالم بناکر پیش کیا جا رہا ہے۔
وہی اسرائیل جس کے متعلق یہ نظریہ ہے کہ اگر دنیا بھر کے مسلمان ایک ایک بالٹی پانی بھی اس پر ڈال دیں تو یہ سیلاب میں بہہ جائے گا۔ غزہ کے روزہ داروں پہ ماہ رمضان المبارک میں ایک ہزار سے زائد فضائی حملے کرچکا ہے۔ اب تک سینکڑوں بچے، خواتین، جوان اور بوڑھے شہید اور مجروح ہوچکے ہیں، مگر پوری دینا، انسانی حقوق کے عالمی اداروں سمیت اسلامی دنیا کے حکمرانوں پہ بھی موت کا سکوت طاری ہے۔ حال ہی میں یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ غزہ پر اسرائیلی حملوں کو سعودی عرب اور عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔ اسلامی دنیا پر مسلط حکمران عالمی استعمار کی کٹھ پتلیاں ہیں۔ یہ حکمران دین کے حقیقی پیروکاروں سے اتنے خوفزدہ ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ کے ذریعے ان پر حملے کرا رہے ہیں۔ حماس ہو یا حزب اللہ، ان حکمرانوں کی آنکھوں میں چبھتا ہوا کانٹا ہیں۔ یہ حکمران جانتے ہیں کہ عالمی سامراج سے برسر پیکار یہ سرفروش جب سرخرو ہونگے تو ان کے جھوٹے اقتدار کا سورج غروب ہوجائے گا۔
عرب دنیا پر مسلط شاہوں کو اس کے علاوہ اور کیا خطرہ ہوسکتا ہے کہ یہ آج غزہ کے خلاف اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہودیت کی تھاپ پر عرب بادشاہوں کی مدد سے صہیونیت کا ظالمانہ ناچ جاری ہے۔ کونسا ظلم ہے جو غزہ میں روا نہیں رکھا جارہا، مگر وہ دن نہایت قریب ہے جب صہیونی فوجی اسرائیل تو کیا، اپنے زمین دوز بنکروں میں بھی اسی طرح سسکیاں لیں گے، جیسے آج غزہ کے تباہ حال گھروں میں سے آتی ہیں۔ ظلم کی انتہا ہے کہ ملبے میں دبے بچوں کی لاشیں نکالنے والوں پر بھی اسرائیلی فوج بارود برساتی ہے۔ مساجد، ہسپتالوں، سکولز اور عوامی پناہ گاہوں پر گولہ باری کرتی ہے۔ غزہ میں جو بربریت جاری ہے، یہ اسرائیل کی طاقت نہیں امہ کی کمزوری ہے، اور امت کو کمزور کرنیوالے یہی عرب حکمران ہیں۔
جانوروں، پرندوں، درختوں کے حقوق کا رونا رونے والے اور انسانی حقوق کی دکانیں سجا کر اسلامی اقدار کا خاتمہ کرنیوالے اسرائیل کے ان جرائم پر یوں خاموش ہیں کہ جیسے غزہ میں بسنے والے انسان تو کجا ذی روح بھی نہیں ہیں۔ ان تمام تلخ حقائق کے ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ ظالم کی رسی دراز ضرور ہے مگر ایک دن وہ گرفت میں ضرور آتا ہے اور اللہ کی جانب سے اس کا انجام طے ہوتا ہے۔ اسرائیل کے غزہ پر حملے انسانی اقدار کے خلاف اور عالمی قوانین کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔
جمعۃ الوداع، یوم القدس اسرائیل کے خلاف، قبلہ اول کی آزادی، فلسطین کی آزادی، غزہ کے مظلومین سے اظہار یکجہتی کا دن ہے۔ نماز جمعہ کے بعد دنیا بھر کی شاہراؤں پر اسرائیل کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرے، ریلیاں اس بات کا پتہ دیتی ہیں کہ امت مسلمہ اپنے دیرینہ خواب کی تعبیر حاصل کرنے میں آج بھی اپنے اصولی موقف پر قائم ہے۔ یوم القدس یوم نصرت الہی ہے۔ یہ دنیا کے ان مظلوموں کی نصرت کا دن ہے کہ جن کو ان کی سرزمینوں سے نکال دیا گیا ہے، جن کے گھروں پر قبضے کر لئے گئے ہیں، جن کے بچوں کو قتل کیا گیا ہے، جن کے گھروں کو بھاری مشینری سے مسمار کر دیا گیا ہے، جن کے اہل و عیال کو ان کے معصوم بچوں سمیت گولیوں اور ٹینکوں کے گولوں سے چھلنی کر دیا گیا ہے۔
جمعۃ الوداع یوم القدس کا عملی تقاضا ہے کہ اس روز مسلمان متحد ہو کر اٹھ کھڑے ہوں اور انبیا علیہم السلام کی سرزمین فلسطین اور مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لئے مشترکہ جدوجہد کریں۔ یہ بابرکت دن مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور محبت کی علامت بھی ہے اور مظلوم فلسطینیوں اور قبلہ اول مسجد اقصٰی بیت المقدس کی بازیابی کا دن بھی ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان بلاتفریق رنگ و نسل، مسلک و مکتب باہم متحد ہوجائیں اور اپنے مشترکہ دشمن امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کے خلاف آواز بلند کریں۔ اسرائیل کے خلاف برسرپیکار حزب اللہ، حماس اور دیگر تحریکوں کے ہاتھ مضبوط کریں۔ یوم القدس کے پروگراموں، مظاہروں، ریلیوں، محافل، سیمنارز، کانفرنسوں میں بلاتفریق شرکت کریں۔ اسرائیل اور اس کے پشت پناہ امریکہ کے خلاف اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کریں۔ قبلہ اول کی آزادی، فلسطین کی آزادی، اسرائیل کی نابودی کے یک نکاتی ایجنڈے پر ایک ہوجائیں۔ بلاشبہ جمعۃ الوداع، یوم القدس حقیقی معنوں میں اتحاد امت کا مظہر ہے اور اسرائیل سمیت تمام اسلام دشمن قوتوں کو اتحاد امت سے ہی شکست دی جاسکتی ہے۔