-
اسوۂ ایثار و وفا حضرت عباس (ع)
- سیاسی
- گھر
اسوۂ ایثار و وفا حضرت عباس (ع)
262
M.U.H
15/07/2024
0
0
تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
تاریخ ایثار و وفا میں حضرت عباس علیہ السلام کی ذات آفتاب نصف النہار کی طرح واضح و روشن ہے، 1400 سال سے تقریر و خطابت، نظم و نثر کے ذریعہ حضرت عباس علیہ السلام کی شخصیت اور فضائل بیان کرنے والوں نے بہت کچھ بیان کیا اور لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا، اگرچہ ہر چاہنے والے نے حق ادا کرنے کی پوری کوشش کی لیکن ممکن نہیں کہ ذرہ آفتاب کا ادراک کر سکے، جب ادراک ہی ممکن نہیں تو نہ وہ بیانات حق ادا کر سکتے ہیں اور نہ ہی وہ تحریریں حق ادا کر سکتی ہیں۔
لہٰذا ضرورت ہے کہ حضرت عباس علیہ السلام کے عرفان کے حصول میں آیات اللہ العظمی و وحجج اللہ الکبری یعنی 14 معصومین علیہم السلام کے کلام پر توجہ دی جائے۔ کیوں کہ ان کا علم لدنی ہے وہ وہی کہتے ہیں اور کرتے ہیں جو خداوند عالم چاہتا ہے۔
1. کتاب الکبریت الاحمر میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواب میں حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام سے فرمایا: أقرّالله ُ عینک ، فأنتَ بابُ الحوائج وَ اشفَع لمَن شئتَ۔ (خداوند عالم تمہاری آنکھوں کو روشن کرے، تم باب الحوائج ہو، جس کی چاہو شفاعت کرو۔)
2. کتاب معالی السبطین میں منقول ہے کہ امیر المومنین امام علی علیہ السلام نے بستر شہادت پر حضرت عباس علیہ السلام کو طلب کیا اور انہیں اپنے سینے سے لگایا اور فرمایا: وَلَدی وَ سَتَقرّ ُ بک َ فی یوم القیامة، أذا کانَ یومَ عاشورا وَ دَخَلتَ المَشرعة إیاک أن تَشربَ الماء وَ أخوک الحُسین ُ عطشان (میرے بیٹے! قیامت کے دن تمہارے سبب میری آنکھیں روشن ہو جائیں گی، (یعنی قیامت کے دن تمہاری وجہ سے مجھے سر بلندی ملے گی)، عاشور کے دن جب دریا میں داخل ہونا تو پانی نہ پینا جبکہ تمہارے بھائی حسین (علیہ السلام) پیاسے ہوں.)
سلام ہو اسوہ ایثار و وفا پر کہ عاشور کے دن جب نہر فرات تک پہنچ گئے چلو میں پانی لے لیا لیکن پانی نہیں پیا، فرمایا: وَالله لا أذوقُ الماءَ وَ سیدی الحَسینَ عطشانا (خدا کی قسم! میں پانی نہیں پیوں گا جب کہ میرے مولا و آقا حسین علیہ السلام پیاسے ہیں۔)
3. روایت میں ہے کہ جب قیامت کا دن برپا ہوگا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم امیر المومنین علی علیہ السلام سے کہیں گے کہ فاطمہ (سلام اللہ علیہا) سے پوچھو، امت کی شفاعت اور نجات کے لئے تمہارے پاس کیا ہے؟ مولا امیر المومنین علیہ السلام حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام پہنچائیں گے تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا فرمائیں گی: یا امیر المؤمنین ! کفانا لاجل ِ هذا المقام ِ الیدان ِ المَقطوعتان ِ مـِـن ابنی العباس (اے امیر المومنین! میرے بیٹے عباس کے دو دست بریدہ شفاعت کے لئے کافی ہیں۔)
(معالی السبطین، جلد 1، صفحہ 452)
4. مبلغ و محافظ انقلاب کربلا وہ قیام عاشورا حضرت امام زین العابدین علیہ السلام جو حضرت عباس علیہ السلام کے ایثار و قربانی کے گواہ ہیں، نے فرمایا: خداوند عالم! میرے چچا عباس پر رحمت نازل کرے، انہوں نے اپنے بھائی کی راہ میں ایثار و جہاد کیا یہاں تک کہ ان کے ہاتھ کٹ گئے تو اللہ نے حضرت جعفر بن ابی طالب کی طرح انہیں دو پر دیے جس سے وہ جنت میں فرشتوں کے ساتھ پرواز کر رہے ہیں، خدا کے نزدیک میرے چچا عباس کا مقام و مرتبہ اتنا بلند ہے کہ قیامت کے دن جسے مشاہدہ کر کے شہداء حسرت کریں گے۔
5. امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: میرے چچا عباس کمال بصیرت اور مستحکم ایمان کے مالک تھے، انہوں نے اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کی رکاب میں جہاد کیا اور شہید ہوئے۔
اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام نے دوران زیارت حضرت عباس علیہ السلام کے اخلاص اور جہاد کے سلسلے میں فرمایا: گواہی دیتا ہوں اور خدا کو گواہ بناتا ہوں کہ آپ (حضرت عباس علیہ السلام) نے غازیان بدر اور مجاہدین راہ خدا کی راہ کو اختیار کیا، آپ نے راہ خدا میں اخلاص کے ساتھ جہاد کیا، اولیاء خدا کی نصرت میں اخلاص سے کام لیا اور ان کی پاسبانی کی، گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے اپنی قوت و قدرت کے مطابق ذمہ داری ادا کی۔
6. امام علی نقی علیہ السلام نے حضرت عباس علیہ السلام کی زیارت میں فرمایا: امیر المومنین علیہ السلام کے فرزند ابوالفضل العباس پر سلام ہو، آپ نے غم خواری، ایثار اور اخوت کے ساتھ اپنی جان اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام پر قربان کی، آپ نے دنیا کو آخرت کے لئے وسیلہ قرار دیا، آپ نے فدا کاری کرتے ہوئے خود کو اپنے بھائی پر فدا کر دیا، آپ دین کے محافظ اور لشکر حسینی کے علمبردار تھے، آپ نے تشنہ لبوں کو سیراب کرنے کی پوری کوشش کی اور اپنے دو ہاتھ راہ خدا میں کٹوا دئیے۔
مذکورہ بالا احادیث معصومین علیہم السلام سے باب الحوائج حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کی عظمت و فضیلت، مقام و مرتبہ کا عرفان اور آپ کی علمداری، سقایت، شجاعت، وفاداری اور حجت خدا، ولی الہی، امام معصوم کی معرفت، اطاعت اور تسلیم محض واضح ہوتی ہے۔
اگر ہم امام معصوم سے مروی زیارت نامہ کے صرف ان فقروں پر غور کر لیں۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ ٲَیُّھَا الْعَبْدُ الصَّالِحُ الْمُطِیْعُ لِلّٰہِ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِاَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ صَلَّی ﷲُ عَلَیْھِمْ وَسَلَّمَ (سلام ہو آپ پر کہ آپ خدا کے پارسا بندے ہیں، آپ اللہ کے اطاعت گذار ہیں، اس کے رسولؐ اور امیر المؤمنینؑ اور حسنؑ و حسینؑ کے اطاعت گذار ہیں، خدا ان پر رحمت کرے اور درود بھیجے)
زیارت کے یہ فقرے جہاں مولا عباس علیہ السلام کی عظمت و فضیلت کو بیان کر رہے ہیں وہیں رہتی دنیا تک محبان عباس علیہ السلام کو دعوت فکر و عمل بھی دے رہے ہیں کہ اگر تم بھی سچے محب اور چاہنے والے ہو تو اپنے مولا کی راہ کے راہی بن جاؤ۔
خدا ہمیں حضرت عباس علیہ السلام کی معرفت اور ان کی پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔