-
بی جے پی ناقابل تسخیر نہیں ہے
- سیاسی
- گھر
بی جے پی ناقابل تسخیر نہیں ہے
480
m.u.h
20/12/2022
0
0
تحریر:عادل فراز
گجرات میں ایک بار پھر بی جے پی شدومد کے ساتھ اقتدار میں آگئی ہے ۔وزیر اعظم نریندر مودی کا کرشماتی سیاسی دور ابھی تمام نہیں ہوا،اس کا اندازہ گجرات انتخاب میں ہوچکاہے ۔جبکہ ہماچل میں کانگریس کو فتح نصیب ہوئی ہے ،لیکن ہماچل کی فتح کا سہرا تنہاراہل یا پرینکا گاندھی کے سر نہیں باندھا جاسکتا ۔یہ الگ بات ہے کہ گذشتہ کچھ سالوں میں راہل گاندھی کی قیادت میں ناقابل یقین نکھارآیا ہے ،اس کے باوجود ہماچل کی فتح راہل گاندھی کی ’’بھارت جوڑو یاترا‘ یا پھر پرینکا گاندھی کی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ نہیں ہے ۔ہماچل میں کانگریس کی مقامی قیادت اور پارٹی کا کیڈر ابھی کمزور نہیں ہوا،جس کی شب و روز کی جدوجہد نے روبہ زوال کانگریس کو ابھرنے کا موقع فراہم کیاہے ۔اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کانگریس دہلی کے ایم۔سی۔ڈی ۔انتخابات میں بی جے پی اور عآپ کے ساتھ مقابلے میں اس قدر کمزور کیوں نظر آئی ؟ ہندوستان کے پایۂ تخت میں ملک کی سب سے بڑی اور پرانی سیاسی جماعت کا اس قدر برا حشر ،اس کی سیاسی ساکھ کو متاثر کرتاہے ۔ رہی گجرات انتخاب کی بات تو گجرات میں کانگریس نے زمینی سطح پر جدوجہد ہی نہیں کی تھی ۔کانگریس قیادت کو اس حقیقت کا بخوبی علم تھا کہ جہاں عآپ اور اسدالدین اویسی میدان میںہیں ،وہاں اس کے کھلاڑیوں کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے ۔لیکن اگر اسی طرح کانگریس بغیر لڑے ہار تسلیم کرتی رہی ،تو پھر راہل گاندھی کی ’بھارت جوڑو یاترا‘ لاحاصل ہے ۔یہ کہنا کہ عآپ اور اویسی نے فقط کانگریس کے ووٹوں کو برباد کیا،اتنہائی غلط فیصلہ ہے ۔دونوں سیاسی جماعتوں کو پورے ملک میں انتخاب لڑنے کا حق حاصل ہے ۔ایسے میں کسی بھی سیاسی جماعت کو انتخاب لڑنے سے کیسے روکا جاسکتاہے ،کانگریس بھی اس سے ناواقف نہیں ہے ۔کانگریس کو بی جے پی کی طرح کرشماتی لیڈر چاہیے جو عوام کی رائے کو اپنے حق میں بدلنے کا ہنر جانتا ہو ،جیساکہ امیت شاہ نے اپنے ایک بیان’’بی جے پی نے فسادیوں کو 2002 میں ایساسبق سکھایا تھا کہ پھر 2022 تک وہ ایسی کوئی کوشش دوبارہ نہیں کرسکے... ‘‘ کے ذریعہ ’ہندوتوا‘ جماعت کے منتشر ووٹ کو یکجا کردیا ۔خیر دوسرا امیت شاہ ہونا تو ممکن نہیں ،لیکن ایسے بیانات کا توڑ تلاش کرنا بھی آسان کام نہیں ہے۔
ہماچل پردیش میں کانگریس کی سیاسی حکمت عملی نے بی جے پی کو دن میں تارے دکھلادیے ۔انتخابی نتائج کے بعد قومی میڈیا میں یہ خبر آگ کی طرح پھیل گئی کہ کانگریس کے ۱۸ ارکان اسمبلی بی جے پی کے رابطے میں ہیں ۔ہماچل میں ’آپریشن لوٹس‘ کے امکانات صاف نظر آرہے تھے یا پھر بی جے پی میڈیا کے ساتھ مل کر کانگریس کے اراکین کی نیتوں کو آزمارہی تھی ۔اس سے پہلے کہ بی جے پی اور قومی میڈیا کا کھیل رنگ لاتا ،کانگریس نے بی جے پی کے زخموں کو مزید کریدتے ہوئے سکھوندر سنگھ سکھوکو وزیر اعلیٰ اور اور مکیش اگنی ہوتری کو نائب وزیر اعلیٰ بنانے کا اعلان کردیا ۔ان کی حلف برداری کے فوراً بعد یہ خبر آگئی کہ بی جے پے کے بعض اراکین اسمبلی کانگریس کے رابطے میں ہیں ۔اس کی بنیادی وجہ سکھوندر سنگھ سکھو اور مکیش اگنی ہوتری کی وزیراعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کے طورپر حلف برداری کو مانا جارہاہے ۔کیونکہ یہ دونوں اسی پارلمانی حلقے سے کامیاب ہوئے ہیں جہاں سے انوراگ ٹھاکر پارلمانی رکن ہیں ۔ہماچل میں بی جے پی کی ہار کا سب سے زیادہ غم انوراگ ٹھاکر ہی منارہے ہیں ،کیونکہ ان کے پارلمانی حلقے میں کانگریس کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ظاہر ہے اس سلسلے میں انہیں اعلیٰ قیادت کے روبرو جواب دہ ہونا ہوگا۔آیندہ سال پارلمانی الیکشن میں اس سیٹ پر انوراگ ٹھاکر کا سیاسی وقار دائو پر ہوگا ،یہ بات بی جے پی اور انوراگ ٹھاکر دونوں اچھی طرح جانتے ہیں۔
ہماچل پردیش کے عوام نے بی جے پی کے ’’ہندتوا ایجنڈہ ‘ کو مسترد کرتے ہوئے دستور اور آئین کی بالادستی کا پیغام عام کیا ہے ۔ہماچل میں بی جے پی نے ہزار ہا کوششیں کیں تاکہ ہماچل کے عوام کو ’ہندتوا ایجنڈہ ‘کا شکا ر بنایا جاسکے مگر ایسا نہیں ہوا۔اس شکست نے بی جے پی کی گجرات فتح کے مزے کو بھی کرکرا کردیا ۔جمہوریت میں کسی ایک سیاسی جماعت کا مسلسل کامیاب ہونا جمہوری نظام کے لئے فال بد ثابت ہوتاہے ۔ہماچل کی شکست جمہوری نظام کو مضبوطی عطا کرے گی اور ہندوستان میں یہ پیغام عام ہوگا کہ بی جے پی ناقابل تسخیر نہیں ہے ۔واقعیت تو یہ ہے کہ گجرات سے دہلی تک کا سفر طے کرنے والے نریندر مودی اور امیت شاہ آرایس ایس کے لئے بھی ناقابل تسخیر ہوچکے ہیں ،یہ بات سنگھ پریواربھی اچھی طرح جانتاہے ۔2024 کا الیکشن وزیر اعظم کے چہرہ پر ہی ہوگا کیونکہ اس طرح کا دوسرا کرشماتی لیڈر بی جے پی کے پاس نہیں ہے ۔وزیر اعظم کی پشت کو مضبوطی دینے کے لئے امیت شاہ موجود ہیں ،جن کی انتخابی تقریریں ملک کے سیاسی دھارے کو موڑنے کا کام کرتی ہیں ۔گجرات میں بھی وزیر اعظم کے بیانات سے زیادہ امیت شاہ کے بیانات کی دھوم تھی ،یہ الگ بات کہ ’ہندتوا ایجنڈہ ‘ سے ہٹ کر تقریر کرتے وقت الفاظ ان کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں ۔
بی جےپی گجرات میں فتح کا جشن منارہی ہے اور کانگریس کی شکست کو راہل گاندھی اور پرینکاگاندھی کی ناکامی کہا جارہاہے ۔جبکہ گجرات میں راہل گاندھی اور پرینکا نے کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھلائی ،کیونکہ انہیں انتخابات کے آغاز سے پہلے گجرات کے انتخابی نتائج کا علم تھا ۔اس کی مثال موربی میں بی جے پی کی نمایاں کامیابی سے دی جاسکتی ہے ۔’پل حادثہ‘ میں۱۳۵افراد کی موت کے بعد بھی اگر موربی سے بی جے پی شاندار کامیابی حاصل کرتی ہے ،تو پھر گجرات میں انتخابات کی ضرورت کیا تھی؟بی جے پی نے گجرات جیتنے کے لئے ہر طرح کا سیاسی ہتھکنڈا استعمال کیا ۔بی جے پی اچھی طرح جانتی تھی کہ اگر گجرات کا اقتدار اس کے ہاتھ سے نکل گیا تو پھر گجرات ماڈل کی حقیقت بھی کھل جائے گی۔گجرات سرکار میں ہونے والی بدعنوانیوں اور 2002ء کے فساد پر کانگریس جانچ کمیٹی تشکیل دے سکتی تھی ۔وزیر اعظیم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے خلاف ماحول سازی کے لئے خفیہ دستاویز تک کنگھالے جاتے ۔ان تمام متوقع خطرات سے بچنے کے لئے بی جے پی نے اپنا سارا زور گجرات پر صرف کردیا ۔ویسے بھی گجرات میں بی جے پی کو شکست دینا آسان نہیں ہے ۔اس کے لئے کانگریس کو زمینی سطح پر جدوجہد کرنا ہوگی اور عوامی رائے کو اپنے حق میں بدلنا ہوگا۔
گجرات میں بی جے پی کی فتح اورہماچل میں کانگریس کی کامیابی نے 2024 کے پارلمانی انتخاب کے نتائج بھی روشن کردیے ہیں ۔2024 کا الیکشن وزیر اعظم مودی کے چہرہ پر لڑا جائے گا ۔کانگریس راہل گاندھی اور پرینکا کی قیادت میں میدان میں اترے گی ۔لیکن نریندرمودی کے کرشمے کے سامنے ٹکنا ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں ۔24 کا الیکشن کانگریس کے لئے بڑا چیلینج ہے لیکن بی جے پی کو بھی لوہے کے چنے چبانے ہوں گے ۔اس بار بی جے پی نمایاں اکثریت کے ساتھ اقتدار میں نہیں آئے گی ،یہ ایک روشن حقیقت ہے ،لیکن کانگریس کے لئے ابھی اقتدار کے دروازے نہیںکھلتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں ۔24 میں اپوزیشن کو بڑی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے لیکن اس قدر نہیں کہ وہ اقتدار حاصل کرسکے۔اس کے لئے انہیں مودی کے جادوئی اثر کو ختم کرنا ہوگا،جوفی الوقت اپوزیشن کے بس کی بات نہیں ہے ۔
گجرات ،ہماچل اور رام پور کے انتخابی نتائج سے مسلمانوں کو بھی سبق لینا ہوگا ۔مسلمانوں کو اس مخمصے سے باہر نکلنا ہوگاکہ فقط بی جے پی کو ہرانے کے لئے ووٹ دیا جائے ۔ہر پارٹی انہیں قربانی کے جانور کی طرح استعمال کرتی ہے اور سیکولرازم کے نام پر ان کی بھینٹ چڑھادی جاتی ہے ۔کیا سیکولرازم اور جمہوریت کی بقا کے لئے قربانی دینا فقط مسلمانوں پر فرض ہے ؟انہیں چاہیے کہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور مضبوط قیادت کی بنیاد رکھیں ۔آخرمسلمان کب تلک سیکولر ازم اور جمہوریت کے نام پر دوسروں کی گاڑیوں کے پیچھے بھاگتا رہے گا؟مسلمان کسی بھی طرح تنہا بی جے پی کو نہیں ہرا سکتا،یہ باور کرنا ضروری ہے ۔اس ناقص سیاسی حکمت عملی نے ان کے خلاف ’ہندتوا‘ جماعت کو متحد کردیاہے ،جس پر ہر سیاسی جماعت کی نظرہے ۔اس لئے بہتر یہی ہے کہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور وہ لوگ جو سیکولرازم یا ذاتی مفادات کے لئے زعفرانی و یرقانی تنظیموں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں ،ان کی کورانہ قیادت کا بائیکاٹ کیا جائے ۔اس وقت مسلمانوں کومخلص اور دانشورانہ قیادت کی ضرورت ہے جس کی تلاش بھی انہی کا فرض اولیں ہے۔