-
احساس کمتری کی سیاست
- سیاسی
- گھر
احساس کمتری کی سیاست
1320
M.U.H
21/11/2019
1
0
سراج نقوی
اتر پردیش کی یوگی سرکار تاج نگری آگرہ کا نام بدلنا چاہتی ہے۔اس سے پہلے الہ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج اور مغل سرائے کا نام بدل کر دین دیال اپادھیائے نگرکیا جا چکا ہے۔فیض آباد ضلع کا نام بدل کر اجودھیا کر دیا گیا ہے۔مظفر نگر کا نام بدل کر اسے لکشمی نگر بنانے کی کوششیں بھی ہو رہی ہیں اور اس سلسلے میں یوگی سرکار کے سامنے مطالبہ رکھا جا چکا ہے۔دراصل ہر وہ نام جو ہندوستان میں مسلم دور اقتدار کی یاسابقہ سرکاروں کے دور کی یاد دلاتا ہو اسے بدلنے کی سیاست کا بڑا سبب بظاہر احساس کمتری کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔اس کا دوسرا بڑا سبب یہ بھی ہے کہ جنگ آزادی میں انگریزوں کے مخبروں اور حاشیہ برداروں کو ان مجاہدین آزادی کے مقابل کھڑا کیا جائے جو جنگ آزادی کے حالات ،مصلحتوں اور وقت کے تقاضوںکے تحت کانگریس سے وابستہ تھے اور ہندوتو کے نظریے کے خلاف تھے۔۔
حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی اور سنگھ پریوار روز اوّل سے ہی احسا س کمتری کا شکار رہے ہیں۔ کانگریس کی اصولی مخالفت کی بجائے نہرو،اور راجیو گاندھی کو صرف کانگریس ،لیڈر کے طور پر دیکھنا اور ملک کی تعمیر و ترقی میں ان کے اہم رول کو نظر انداز کرنا احساس کمتری کے سوا کچھ نہیں۔ان لیڈران کی بہت سی پالیسیوں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن انھیں تاریخ کا ولین ثابت کرنا ان کی قابل ذکر خدمات پر پانی پھیرنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔منصوبہ بندی کمیشن سمیت کئی اداروںکے نام بدلنے کا اس کے علاوہ کوئی جواز نظر نہیں آتا کہ آزاد ہندوستان کی ابتدائی چند دہائیوںکی تاریخ کو ایسی شکل دے دی جائے کہ کانگریس یادوسری کوئی پارٹی اس دور کے کسی لیڈر پر اپنا حق جتا کر اس کا سیاسی فائدہ حاصل نہ کر سکے۔ہندوستانی مسلمانوں کو نسلاً ہندو قرار دیکر ان کی گھر واپسی کی مہم چلانا،اپنے دین پر قائم رہنے والے مسلمانوں کو مختلف بہانوں سے غیر ملکی قرار دیکر انھیں بار بار پاکستان جانے کی دھمکی دینا،ان کی ثقافتی اور تہذیبی نشانیوں اور وراثتوں کو مٹا کر اسے ہندوتو کی فتح مندی کے طور پر دیکھنابھی احسا س کمتری کی ہی دلیل ہے۔ عقل کے اندھوں کو کون سمجھائے کہ گلوبل ولیج بن چکی دنیا میں ایسی تما م کوششیںملک کی یکجہتی اور اتحاد کو نقصان پہنچا کر اس کی ترقی میں رکاوٹ تو بن سکتی ہیں لیکن اس اندھی قوم پرستی سے ملک کو کوئی فائدہ بہرحال نہیں ہو سکتا۔آپ اس ملک کے چند مورخین کے قلم تو خرید سکتے ہیں لیکن ہندوستان سے باہر بیٹھے ہوئے تاریخ دانوں کا کیا کرینگے ؟
آپ ان سیکولر ہندو مورخین کا کیا کرینگے جو ہر قربانی دیکر بھی اس ملک کی یکجہتی اور فرقہ وارانہ اتحاد کی تاریخ کو زندہ رکھنے کے لیے پر عزم ہیں اور فاشزم کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔آپ عہد مغلیہ میں لکھی گئی تاریخ یا اس کے بعد جنگ آزادی کے دور میں لکھی گئی تاریخ کی کتابوں کو ہندوستانی یونیورسٹیوں کے نصاب سے نکال بھی دیں تب بھی انٹر نیٹ کے اس دور میں حقائق کی پردہ پوشی نہیں کر سکتے۔آپ بابری مسجد کی زمین پر رام مندر کی تعمیر کی اجازت ملنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر جشن منا سکتے ہیں لیکن اس ملک کی سیکولر آبادی کے ضمیروں کو یہ بات ہمیشہ جھنجوڑتی رہیگی کہ عدالت نے مسجد کی زمین مندر تعمیر کے لیے دینے کے باوجود مسجد میں مورتیاں رکھی جانے اور ۱۹۹۲ میں مسجد کے انہدام کو غیر قانونی قرار دیکر اس عمل کو باعث شجاعت قرار دینے والوں کے منھ پر طمانچہ رسید کر دیا ہے اور اس طمانچے کے نشان ملک کی عدلیہ کی تاریخ میں ہمیشہ باقی رہینگے۔دراصل یہ وہ حقائق ہیں جو بھگوا طاقتوں میں احساس کمتری پیدا کرتے ہیںاور مختلف طریقوں سے ان کے اندر کا زہر باہر آتا رہتا ہے۔شہروں،سڑکوں،اداروں حتیٰ کہ سابقہ سرکاروں کے دور میں بنے منصوبوں کا نام بدلنے کی کوشش اسی احسا کمتری کا ثبوت ہے۔
جہاں تک آگرہ کا نام بدلنے کی کوشش کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں جو خبریں آئی ہیں ان کے مطابق اتر پردیش کی یوگی سرکار نے آگرہ کی ڈاکٹر امبیڈکر یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ کو خط لکھ کر کہا ہے کہ وہ یہ پتہ لگائے کہ آگرہ پہلے کسی اور نام سے تو نہیں جانا جاتا تھا۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بھگوا طاقتیں دنیا بھر میں ہندوستان کی شان بڑھانے والے تاج محل کے تعلق سے بھی صرف اس لیے احساس کمتری کا شکار ہوتی رہی ہیں کہ اس کی تعمیر مغلیہ دور میں مغل فرماںروا شاہجہاں نے کرائی تھی۔تاج محل کو مندر ثابت کرنے کی کوششیں بھی نئی نہیں ہیں۔ گذشتہ دنوں سوامی سروپانند سرسوتی نے تاج محل کو شیو مندر قرار دینے کے لیے باقاعدہ قانونی کارروائی بھی شروع کر دی ہے۔گذشتہ برس جون میں بی جے پی کے رکن اسمبلی سریندر سنگھ تاج محل کا نام بدل کر شیوا جی محل یا رام محل یا کرشنا محل کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔یہ مطالبہ ہی بی جے پی لیڈر کے احساس کمتری کا ثبوت ہے۔بھگوا طاقتوں کا دعوی ٰ ہے کہ تاج محل کا پرانا نام ’تیجو مہالیہ‘ تھا جسے شاہجہاں نے بدل کر تاج محل کر دیا اور اس میں کچھ ترمیم کر کے اسے ممتاز محل کے مزار کی شکل دے دی گئی۔اسی طرح آگرہ کا نام بدلنے کی کوششیں بھی کافی عرصے سے جاری ہیں۔بی جے پی کے آنجہانی رکن اسمبلی جگن پرساد گرگ نے کچھ عرصہ قبل ہی یو گی سرکار کو خط لکھ کر آگرہ کا نام بدل کر اگروان کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔بہرحال تاج نگری آگرہ کی پہچان بدلنے کے لیے یوگی سرکار نے بھی اپنی سطح سے جو کوششیں شروع کی ہیں ان کے تحت ہی امبیڈکر یونیورسٹی کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ آگرہ کے اصل اور پرانے نام کا پتہ لگائے۔حقیقت یہ ہے کہ ۱۷ویں صدی سے پہلے کی آگرہ کی تاریخ واضح نہیںہے۔آگرہ کو ایک شہر کے طور پر پہچان دلی سلطنت کے دور میں ملی اور پہلے سکندر لودھی و بعد میں اکبر نے بھی اسے اپنی راجدھانی بنایا۔شاید یہ حقائق بھگوا طاقتوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرتے ہوں۔اسی لیے محض نام بدلنے کے جنون میں آگرہ کے کسی پرانے نام کے گڑے مردے اکھاڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔خبر کے مطابق سرکار آگرہ کا نام بدل کر اسے آنجہانی جگن پرساد گرگ کی تجویز کے مطابق ’اگروان‘ کرنا چاہتی ہے۔کہا جا رہا ہے کہ کچھ تاریخ دانوں نے آگرہ کا پرانا نام اگروان ہی بتایا ہے۔حالانکہ کئی غیر جانبدار رپورٹوں میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ آگرہ کی ایک بڑی آبادی شہر کا نام بدلنے کے حق میں نہیں ہے ۔اس لیے کہ تاج محل کے سبب اس شہر کو عالمی شہرت حاصل ہے اور نام بدلنے سے شہر کی سیاحت پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
یہ چند مثالیں وہ ہیں جن کا تعلق صرف اتر پردیش سے ہے لیکن باقی ملک میں بھی تاریخ کو مسخ کرنے اور ہندوستان کی تاریخ کے کئی ہیروز کو ولین بنانے کی کوششیں کسی سے چھپی نہیں ہیں۔کرناٹک میں جس طرح جنگ آزادی کے عظیم ہیرو ٹیپو سلطان کا نام مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ شرمناک ہے۔ٹیپو کو بھی بی جے پی اور کانگریس کے خانوں میں تقسیم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔دراصل بی جے پی اور سنگھ پریوار کا نظریہ ہے کہ ملک کو ہندو راشٹر بنانے کے لیے مسلم تہذیب و ثقافت کے نام و نشان مٹانایا سیکولر عناصر کی کمر توڑنا ضروری ہے۔آگرہ کا نام بدلنے کی کوششوں سے لیکر ٹیپو سلطان کو ولین ثابت کرنے اور نہرو سمیت کئی دیگر لیڈروں کی شبیہ بگاڑنے کی کوششیں اسی نظریے پر عمل کا نتیجہ ہیں،اور یہ نظریہ ہی احساس کمتری کی سیاست کو آگے بڑھاتا ہے۔