-
اسرائیل کے حملے ، سفارت کاری کو سبوتاژ کرنے کی کوشش
- سیاسی
- گھر
اسرائیل کے حملے ، سفارت کاری کو سبوتاژ کرنے کی کوشش
35
M.U.H
20/07/2025
0
0
عباس عراقچی ایرانی وزیر خارجہ
ایران ۔ امریکہ کے درمیان ایران کے جوہری پروگرام اور دوسرے مسائل پر 9ہفتوں میں صرف 5 اجلاس ( مذاکرات کے پانچ مراحل) میں امریکہ کے خصوصی ایلچی اسٹیووٹکوف اور راقم الحروف نے اتنی زیادہ کامیابیاں حاصل کی جتنی کامیابی مجھے ناکام بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ چار سالہ جوہری مذاکرات میں حاصل نہ ہوسکی ۔ ایران نے سابق امریکی صدر جوبائیڈن انتظامیہ کے ساتھ تقریباً چار برسوں تک جوہری مذاکرات کئے جو لاحاصل رہے ۔ مذاکرات میں ایک ایسا مرحلہ بھی آیا جب دونوں ملک تاریخی پیشرفت کے قریب پہنچ گئے تھے ۔ امریکہ کو اس بات کا ہمیشہ سے خدشہ رہا ہے اور وہ اس امر کو لیکر تشویش میں مبتلا رہا کہ ایران ایک دن اپنے پُرامن جوہری پروگرام کو جوہری ہتھیار بنانے کی جانب موڑ سکتا ہے ۔ امریکہ کے اس خدشہ اور تشویش کو دور کرنے یا اس کے ازالہ کیلئے ہم نے امریکہ کے ساتھ تفصیلی اور صاف گو بات چیت کی جس میں ایران کے یورینیم افزودگی کے مستقبل سے متعلق بات چیت شامل تھی ۔ ان مذاکرات میں عمان کا اہم کردار رہا اور بات چیت میں جہاں امریکی مذاکرات کاروں نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا وہیں ایران نے بھی اپنا موقف واضح کیا ۔ اس طرح فریقین نے اس مسئلہ کے حل پیش کئے۔ مذاکرات میں سب سے اہم بات یہ رہی کہ ایران نے خود پر پابندیوں کو ختم کرنے اور امریکہ کیساتھ معاشی تعاون و اشتراک پر بھی توجہ مرکوز کی ، جہاں تک امریکہ اور ایران کے درمیان اقتصادی تعاون و اشتراک کا سوال ہے یہ ایک کھرب ڈالرس کی شراکت داری کے مواقع فراہم کرسکتی ہے اور ایران اس قسم کے دونوں ملکوں کو فائدہ پہنچانے والے تعاون کیلئے بالکل تیار تھا ۔ اس طرح کا تعاون ایرانی معیشت کیلئے یقیناً توانائی بخش ثابت ہوتا اور امریکی صدر کی جو ترجیحات ہیں اس سے بھی ہم آہنگ ہوتا ۔ امریکی صدر کی ترجیحات میں یہ بھی شامل ہیکہ کسی نہ کسی طرح امریکی صنعتوں میںجان ڈالیں ، ان کی ترقی و پیشرفت کو یقینی بنائیں ۔ مثال کے طور پر جواہری توانائی کا شعبہ ، اس شعبہ میں تعاون و اشتراک کے زبردست مواقع ہیں ۔ بظاہر یہ صورتحال بہتری کی جانب رواں دواں تھی اور دونوں ملکوں کے درمیان اس ضمن میں پیغامات کا تبادلہ بھی تیزی سے جاری تھا لیکن بات چیت کے چھٹویں مرحلہ سے عین 48 گھنٹے قبل اسرائیل نے ہمارے ملک پر بلا اشتعال حملہ کردیا اور اس نے ایران کے جوہری تنصیبات ، مکانات ، اسپتالوں ، ہماری توانائی کے ڈھانچوں یہاں تک کہ جیلوں پر بمباری کی اور بزدلانہ روش اختیار کرتے ہوئے بزدلانہ کارروائیوں میں ماہرین تعلیم اور ان کے ارکان خاندان کو قتل کیا جو یقیناً سفارت کاری سے سنگین انحراف اور غداری تھی ۔ ایک ایسے وقت جب ایران ۔ امریکہ جواہری مذاکرات میں پیشرفت ہوچکی تھی اور دونوں ملک ان مذاکرات کو بڑی خوبی سے آگے بڑھا رہے تھے ایسے میں اسرائیل کا ایران پر اچانک حملہ ، شدید بمباری نے ساری دنیا کو ایک واضح اور کھلا پیغام دیا کہ اسرائیل مذاکرات نہیں تصادم پسند کرتا ہے ۔ اسرائیل نے دروغ گوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ اس کے فضائی حملوں کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے یا تیارکرنے سے روکنا تھا جبکہ حقیقیت یہ ہیکہ ایران خود نیوکلیئر عدم پھیلاؤ معاہدہ پر دستخط کرنے والے ملکوں میں سے ایک ہے ۔ ایران نے ہمیشہ اقوام متحدہ کی نگرانی کے تحت ایک پُرامن جواہری پروگرام کیلئے پابند عہد رہا ۔ بہرحال جب اسرائیل نے بلا اشتعال ایران پر فضائی حملے کئے ، ایک باوقار و باعزت ملک و قوم ایسی صورتحال میں کیا کرتے ، وہی ایران نے بھی کیا ۔ اسرائیلی جارحیت کو پوری طاقت اور شدت کے ساتھ روکا اس کے خلاف مزاحمت کی اور اس وقت تک اسرائیل کو منہ توڑ جواب دیتا رہا جب اسرائیل نے خود اپنی شروع کردہ جنگ کو ختم کرنے امریکہ سے مدد حاصل کی اور اس پر انحصار کرنے لگا ۔ ایک بار دھوکہ کھانے کے بعد ایران بہت زیادہ محتاط ہوگیا ۔ ایران نے اس جنگ کو وسیع پیمانے کی علاقائی جنگ میں تبدیل ہونے سے بچانے میں پوری ذمہ داری کے ساتھ کام کیا اور ایران کے اس عزم کو ہماری کمزوری نہیں سمجھی جانی چاہیئے ، مستقبل میں ہمارے اپنے لوگ آئندہ کسی بھی حملے کا نہ صرف منہ توڑ جواب بلکہ اسے ناکامی سے دوچار بھی کریں گے اور اگر ایسا دن آئے یا ایسی صورتحال پیدا ہو تب ایران کی حقیقی طاقت کے بارے میں پائے جانے والے وہم کو دور کرنے اپنی حقیقی صلاحیتوں کا طاقت کا مظاہرہ کرنے سے گریز نہیں کریں گے ۔ یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ایران ۔ امریکہ مذاکرات میں ہونے والی پیشرفت کو سبوتاژ کیا گیا ہے اور یہ ایران کی جانب سے نہیں بلکہ امریکہ کے ایک ظاہری حلیف و اتحادی کی جانب سے کیا گیا ہے اور ایک ایسا وقت بھی آیا جب امریکہ نے خود کو عالمی قوانین اور نیوکلیئر عدم پھیلاؤ معاہدہ کو خطرہ میں ڈالنے اسے مجروح کرنے اس جنگ میں کود پڑا ۔ اس طرح اس نے اپنے آپ کو اور بین الاقوامی قوانین کے ساتھ ساتھ نیوکلیئر عدم پھیلاؤ معاہدہ NPT کو مجروح کردیا ۔ اگرچہ حالیہ دنوں میںایران کو ایسے پیغامات موصول ہوئے جس میں اشارہ دیا گیا کہ امریکہ مذاکرات کی میز پر واپس آنے کیلئے تیار ہوسکتاہے ، ہم مزید Engagement پر کیسے بھروسہ کرسکتے ہیں ۔
واضح رہے کہ ایران نے سال 2015 میں 6 ملکوں بشمول امریکہ کے ساتھ جامع جوہری معاہدہ پر دستخط کیا تھا لیکن تین سال بعد واشنگٹن نے یکطرفہ طور پر اس معاہدہ کو منسوخ کردیا ۔ دوسری جانب ہم نے نیک نیتی اور اچھے و ارادوں کے ساتھ نئے مذاکرات کیلئے رضامندی ظاہر کی ہم نے دیکھا کہ اس کے بعد ہم کو اس کا صلہ حملوں کی شکل میں دیا گیا اور جوہری اسلحہ سے لیس یعنی دو جوہری طاقتوں نے ایران پر حملہ کیا ۔ اس طرح کی معاندانہ روش کے باوجود ایران ہنوز سفارتکاری میں دلچسپی رکھتا ہے لیکن مزید مذاکرات کے بارے میں شکوک و شبہات کی معقول وجہ ہے ۔ اگر اس مسئلہ کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کی خواہش ہے تو امریکہ ایک منصفانہ معاہدہ کیلئے حقیقی تیاری ظاہر کرے ، واشنگٹن کو یہ بھی اچھی طرح جان لینا چاہیئے کہ حالیہ ہفتوں میں اس کی کارروائیوں نے صورتحال کو تبدیل کردیا ہے ، جہاں تک ایران کا سوال ہے ، ایران خود کو کبھی سرنڈر نہیںکرے گا اور نہ ہی وہ کبھی خود کو حوالے کرنے سے اتفاق کرے گا ۔ ایران ہزار سالہ تہذیب ہے جس نے لاتعداد قبضوں اور قابض طاقتوں پر قابو پایا اور ہر بار مزید طاقتور بن کر ابھرا ہے ۔ ہم نے ہمیشہ امن کو ترجیح دی ہے پھر بھی ہم نے ہی ہمیشہ فیصلہ کیا ہے کہ کب اور کیسے ہمارے لوگوں کے خلاف جارحیت ختم ہو ۔ حالیہ عرصہ کے دوران اسرائیلی حکومت نے ایران کی تاریخ اور طاقت کے بارے میں غلط اندازے قائم کئے اور اس کے جو فیصلے تھے وہ غلط تھے اور وہ اسرائیلی حکومتو ںکی غلطیوں سے پوری طرح ثابت ہوچکا ہے ۔
جنگ کے سائے میں ہونے والے کوئی بھی مذاکرات فطری طور پر استحکام سے عاری ہوتے ہیں اور دھمکیوں کے سائے میں ہونے والی بات چیت بھی کبھی مخلص نہیں ہوتی ۔ سفارت کاری کی کامیابی کیلئے ضروری ہیکہ وہ باہمی احترام کی بنیاد پر کی جائے ۔ ان لوگوں کی مسلسل سازشوں کو برداشت نہیں کیا جاسکتا مسئلہ کے حل سے خوفزدہ ہیں ۔ ویسے بھی امریکی عوام کو یہ جاننے کا پورا پورا حق حاصل ہے کہ آخر کیوں ان کے ملک کو ایک ایسی غیر ضروری اور بلاجواز جنگ کی طرف ڈھکیلا جارہا ہے جو ایک بیرونی حکومت کی خواہش ہے جس کے مفادات اور امریکی مفادات میں کافی فرق پایا جاتاہے، جہاں تک واشنگٹن کا تعلق ہے اسے یہ بھی اچھی طرح جان لینا چاہیئے کہ ہمارے سائنسدانوں اور ان کی کامیابیاں ہمارے لئیے کسی بھی چیز سے زیادہ اہم ہیں ۔ اگر موجودہ حالات کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ٹرمپ نے ’ امریکہ فرسٹ ‘ کا وعدہ کیا اور فی الوقت عملی طور پر یہ وعدہ یا نعرہ ’ اسرائیل فرسٹ ‘ میں تبدیل ہوگیا ہے ۔ نتیجہ میں ہزاروں امریکی زندگیوں کی قربانی اور ہمارے خطے میں امریکی ٹیکس دہندگان کے کھربوں ڈالرس ضائع ہوتے دیکھنے کے بعد ایسا لگتا ہے کہ امریکی عوام اب تھک چکے ہیں اور امن کا راستہ صرف تب ہی ممکن ہے جب امریکہ یہ مانے کہ باوقار و باعزت بات چیت ہی پائیداد امن اور مسائل کے حل کا واحد راستہ ہے ، زور زبردستی نہیں ۔ اب فیصلہ امریکہ کے ہاتھوں میں ہے کہ وہ بالآخر سفارت کاری کو پسند کرے گا یا کسی اور کی جنگ میں خود کو پھنسائے گا ؟ ۔
(بہ شکریہ سیاست ڈیلی)