-
موجودہ صورتحال اور شیعوں کا نقطۂ نظر
- سیاسی
- گھر
موجودہ صورتحال اور شیعوں کا نقطۂ نظر
2082
M.U.H
17/08/2018
1
0
آرایس ایس کی حمایت یافتہ جماعت بی جے پی کے برسر اقتدارآتے ہی جس طرح مسلمانوں کو بانٹنے اور اقلیتوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا ۔بی جے پی اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر مسلمان متحد ہوگئے تو انکی ڈوبتی نیّا کو کھویّا بھی نصیب نہیں ہوگا ۔اس لئے انہوں نے ایسی پالیسی اختیار کی ہے تاکہ مسلمانوں میں انتشار کو فروغ دیا جائے ۔اترپردیش میں بی جے پی کی نمایاں کامیابی کے بعد محسن رضا کو وزارت سونپنا ،سماجوادی پارٹی سے اپنی بدعنوانیوں کی پردہ پوشی کے لئے مفرور بقل نواب کو ایم ایل سی منتخب کرنا اور بے ایمانی کے تالاب میں مسلسل ڈبکیاں لگارہے وزیر وقف وسیم رضوی کو شیعہ قوم کا نمائندہ اور ترجمان بناکر میڈیا کے سامنے پیش کرنا موجودہ حکومت کی منصوبہ بند پالیسی ہے۔وسیم رضوی پر بدعنوانی کے واضح الزامات ہیں مگر چونکہ وسیم رضوی آرایس ایس کے ایجنڈہ پر عمل پیرا ہے اور ایک کٹھ پتلی کی طرح کام کررہاہے اس لئے اسکی تمام تر بدعنوانیوں پر پردہ ڈال دیاگیاہے ۔اب وسیم رضوی کبھی مدرسوں میں دہشت گردی کے فروغ کی بے بنیاد باتیں کررہاہے تو کبھی طلاق کے مسئلے پر اسلامی اسکالر کی طرح اپنی رائے پیش کرتاہے ۔کبھی مدرسوں میں ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ کے نعرے لگانے کا مشورہ دیتاہے تو کبھی بابری مسجد کو شیعہ وقف بورڈ کی ملکیت بتاتے ہوئے اسے رام مندر بنانے کے لئے عطیہ دینے پر اتاولا نظر آتاہے ۔ان سب بیانات کے پیچھے کون ہے یہ سب جانتے ہیں۔وسیم رضوی کے لئے ہی شاید یہ مثل عالم وجود میں آئی تھی کہ ’’سو چوہے کھاکے بلّی حج کو چلی‘‘۔اب تو وسیم رضوی حکومت کی نظر میں ایک ایماندار اور معصوم شخص ہے باالکل وزیر اعظم نریندر مودی جی کی طرح ۔
دوسرے محسن رضا اور بقل نواب کو عہدوں سے نوازنا آرایس ایس کی سازش کا حصہ ہے ۔بی جے پی نے کسی دوسرے فرقے کے مسلمانوں کو قلمدان کیوں نہیں سونپا ؟کیا کسی دوسرے فرقے میں ایسا کوئی نہیں ہے جو قوم و ملت کا سچا خدمتگار ہو؟۔محسن رضا نے اب تک وقف کی فلاح و بہبود کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں یہ بھی روز روشن کی طرح واضح ہے ۔ان سے کوئی امید بھی نہیں رکھنی چاہئے ۔حکومت اوقاف کی حفاظت کے لئے پر عزم کبھی نہیں رہی اور نہ اسکی تحفظ اوقاف میں کوئی دلچسپی ہے ۔محسن رضا سے زیادہ اختیارات تو وسیم رضوی کو حاصل ہیں ۔اگر محسن رضا یہ سمجھ جاتے تو شاید اب تک اپنا استعفیٰ پیش کرچکے ہوتے ۔اللہ جانے وہ اب تک اپنی ہتک عزت پر خاموش کیوں ہیں؟
تیسرے یہ کہ ہمارے بعض نام نہاد اور مفاد پرست مولویوں نے بی جے پی کی حمایت میں ایسے بیانات دیے ہیں کہ جس سے عام مسلمانوں کو یہ یقین ہوگیا کہ شیعہ بی جے پی کے حامی ہیں۔اس سے پہلے بھی شیعوں پر یہ الزامات عائد ہوتے رہے ہیں مگر اس بار تو حد ہوگئی ۔عمامہ پوش بھی بی جے پی کے جھنڈے اٹھاکر زندہ باد کے نعرے لگاتے نظر آئے ۔مسلسل ایسے بیانات منظر عام پر آتے رہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بی جے پی اکلوتی ایسی پارٹی ہے جس نے شیعوں کی مظلومیت کو سمجھا ہے اور انہیں انکے سارے حقوق دیدیے ہیں ،جبکہ ہمارے مولوی صاحبان یہ واضح کرنے میں ناکام رہےہیں کہ بی جے پی نے شیعوں کی ترقی و بہبود کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں؟نریندر مودی سرکار کو پانچ سال مکمل ہورہے ہیں مگر اب تک کوئی ایسا فیصلہ نہیں لیا گیا جسے شیعہ مولوی اپنی قوم میں سربلندی کے ساتھ جاکر بیان کرسکیں ۔اسکے باوجود انکے جھڈے اٹھاکر جے جے کار کرنا چہ معنی دارد؟ہم نے بار ہا یہ کہاہے کہ شیعہ قوم بی جے پی یا کسی ایک جماعت کی حامی نہیں ہے ۔جس طرح عام مسلمان خانوں میں بٹے ہوئے ہیں اسی طرح شیعہ قوم بھی مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہے۔پتہ نہیں مسلمانوں نے یہ کیسے بارآور کرلیا کہ شیعہ بی جے پی پرست ہیں۔باالکل ایسا نہیں ہے ۔
چوتھے یہ جو دانشور طبقہ ’’موجودہ صورتحال اور شیعوں کا نقطۂ نظر ‘‘واضح کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کازور صرف کررہاہے ،گزشتہ چار سالوں میں مسلمانوں اور اقلیتوں پر قیامت گزرگئی،یہ نام نہاد دانشورطبقہ کہاں تھا ؟اب جب کہ الکشن سر پر ہے یہ گِدھوں کی جماعت ایک جُٹ ہوکر نکل آئی ہے ۔یقیناََ ہم بھی چاہتے تھے کہ ایسا کچھ ہو جس سے مسلمانوں کو یہ یقین دلایا جائے کہ شیعہ قطعی بی جے پی پرست نہیں ہیں اور نا کسی ایک مخصوص جماعت کے حامی ہیں ،مگر یہ نہیں سوچا تھا کہ یقین دہانی کی ایسی صورت نکالی جائے گی ۔پروگرام کے کنوینر خود سیاسی جماعت سے وابستہ شخص ہیں تو پھر ہم یہ کیسے نہ سمجھیں کہ انہیں کسی سیاسی جماعت نے یہ پروگرام کرنے کے لئے نہیں اکسایاہے ۔اسٹیج پر بیٹھے ہوئے اکثردانشور ان کسی نا کسی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں ۔ہمیں بھی بتایا جائے کہ کانگریس ،سماجوادی پارٹی ،بہوجن سماج پارٹی اور دنیا بھر کی سیاسی جماعتوں نے مسلمانوں کے لئے کونسا پہاڑ توڑ کر جوئے شیر نکال دی ہے ۔گجرات میں مسلمانوں کی نسل کشی ہو یا بٹلہ ہائوس انکاوئنٹر ہو ،مظفر نگر فساد ہو یا پھر وہ ہزاروں چھوٹے بڑے فسادات جو تاریخ میں محفوظ ہیں ،کس کی سرپرستی اور نگرانی میں انجام پائے ہیں۔کانگریس نے گجرات فسادات کے مجرموں کے خلاف کیا عملی اقدامات کئے ؟بابری مسجد کا تالا تڑوانے والے آج سیکولر بن کرگھوم رہے ہیں یہ کیسے اور کیوں ہورہاہے ،سمجھنے کی کوشش کریں۔دھوتی کے نیچے آرایس ایس کی چڈھی پہننےوالے سیاسی رہنما مسلمانوں کے لئے’’ملّا ‘‘ بن گئے اور قوم کو گروی رکھ کر اپنا سیاسی مفاد حاصل کرنے والا شخص کو ’’سرسید ثانی ‘‘ کا خطاب دیدیا گیا،یہ دانشور طبقہ کی ہی کرشمہ سازشی ہے۔بابری مسجد مقدمہ کی پیروی کرنے والے ارب پتی ہوگئے اور آج وہی ارب پتی ہمیں یہ سمجھارہے ہیں کہ کونسی پارٹی کی حمایت کرنی چاہئے۔رہنے دیجیے صاحب !منہ مت کھلوائیے ۔
میرے عزیزو!بات صرف اتنی سی ہے کہ قوم میں علماء کے اعتبار کو ختم کرنے کی تیاری ہے ۔یہ کوشش کہیں سازشاََ ہورہی ہے اور کہیں نادانی میں ۔اس قوم کو ختم کرنا آسان ہوتاہے جس کا اپنے علماء سے اعتبار اٹھ جاتاہے ۔چند مولویوں کے بیانات سے یہ اندازہ لگانا کہ پوری قوم کسی ایک جماعت کے ساتھ ہے کہاں کی عقلمندی ہے ۔لیکن چند ریٹائرڈ دانشور،جنہوں نے عہدہ پر رہتے ہوئے کبھی قوم کے بارے میں نہیں سوچا،قوم کی تقدیر کا فیصلہ نہیں کرینگے ۔اس قوم کو مخلصوں کی ضرورت ہے ۔دلالو ں اور مفادپرستوں کی نہیں۔جس قوم کو آزادی کے بعد سے آج تک کوئی مخلص قائد نصیب نہ ہوا ہو اسکے بارے میں یہ سوچنا کہ وہ کسی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ ہے غیرمنطقانہ فیصلہ ہے ۔یہ فیصلہ دانشور طبقہ کررہاہے یہ انکی دانشوری پر سوالیہ نشان ہے ۔بے لگام قوم کو بے ضمیر مولوی نیلام کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ان سے بچانے کے لئے کوئی راہ حل تلاش کریے۔ایسے لوگوں کو متحد کرنے کی ضرورت ہے جو کسی سیاسی جماعت کے ساتھ نہ ہوں۔ورنہ کتنا ہی عظیم دانشور کیوں نہ ہو اگر وہ ایسے سیاسی اجتماعات میں شریک ہوگا اسکی نیت کے اخلاص پر بھی سوال اٹھیں گے ۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔)
(بشکریہ - لیڈر ٹائمز)