وزیراعظم نریندر مودی دو کام بڑی پابندی کے ساتھ کرتے ہیں ایک ہندوستانی عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہر ماہ ریڈیو پر ’من کی بات‘ اور دوسرے ہر سال امریکہ کی یاترا کرکے مہابلی کی چرنوں میں عقیدت کے’ پھولوں کی سوغات‘۔ اس بار جب وہ نہایت سعادتمندی سے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے پروچن سن رہے تھے تو ہوا کا ایک شریر جھونکاان کی تیار شدہ تقریر کے کاغذ لے اڑا۔ قومی سلامتی کے سربراہ اجیت ڈوول نے اس عالمی خطرے کو فوراً بھانپ لیا اوراپنا فرض منصبی ادا کرتے ہوئے کاغذوں کے پیچھے دوڑ پڑے ۔انہیں سمیٹ کر دوبارہ مودی جی کے سامنے رکھ دیا ۔ ڈوول نے سوچا ہوگا اب دوبارہ ہوا کا جھونکا ایسی شرارت نہیں کرے گا اورکرے گا بھی تو مودی جی دوسری بار غافل نہیں ہوں گے لیکن ان کی دونوں توقعات غلط نکلیں۔ پھر سے ہوا کا جھونکا، مودی جی کی غفلت، کاغذات کا بکھرنا اور ڈوول کا دوڑ کر انہیں سمیٹنا۔ یہ سب پھر سے ہوا۔ آج کل قومی سطح پر یہی ہورہا ہے ڈوول کبھی کشمیر کی جانب دوڑ لگاتے ہیں تو کبھی نکسلیوں کے پیچھے بھاگتے ہیں لیکن بکھرنے اور سمٹنے کایہ بے سود سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا اس لیے کہ ملک کی باگ ڈور ایک ایسے رہنما کو تھما دی گئی ہے جو اپنے سامنے پڑے چند کاغذ کو بھی سنبھالنے کی اہلیت نہیں رکھتا ۔ عالمی سطح پر جب قومی رہنماوں کی ملاقات ہوتی ہے تو وہ تنازعات پر گفت وشنید کرکے انہیں سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن مودی اور ٹرمپ دونوں کو اس میں نہ کوئی دلچسپی ہے اور ان میں اس کی صلاحیت ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ وہ دونوں سوشیل میڈیا کے بے تاج بادشاہ ہیں اور ان کو اقتدار میں رکھنے کے لیے ٹویٹر کی فقرہ بازی کافی وشافی ہے۔ ورنہ ان دونوں کے ایجنڈا میں عالمی دہشت گردی کے خلاف دھرم یدھ کے بجائے دیگر اہم اور ضروری موضوعات ہوتے۔
امریکہ میں ڈونالڈ ٹرمپ نے چونکہ اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلم مخالف بیانات دیئے اس لیے ہندو احیاء پرستوں نے ان کی کامیابی کے لیے بڑے یگیہ کیےلیکن ٹرمپ کے اقتدار میں آتے ہی ہندوستانیوں پر نسلی حملے شروع ہوگئے۔ مودی اگر اصلی دیش بھکت ہوتے ان کا شکار ہونے والوں کے اہل خانہ سے مل کر تعزیت کرتے اورامریکہ پر دباو بناتے کہ ان حملوں پر فوراً لگام لگائی جائے لیکن کسی ہندوتوا وادی رہنما سے تو اس کی توقع محال ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ان لوگوں نے غیر ملکی آقاوں کی خلاف جنگ آزادی میں حصہ لینے گریز کیا ۔ مجاہدین آزادی کی جاسوسی کی اوراپنی جان بچانے کے لیے معافی نامہ لکھے ۔ امریکہ میں ہندوستانیوں کے اوپر ہونے والے حملوں کی مخالفت کرنے میں مودی جی کی دشواری یہ بھی تھی کہ جس قدر نفرت انگیز حملے وہاں ہورہے ہیں اس سے زیادہ نفرت کی سیاست ہندوستان کے اندر مسلمانوں ، دلتوں اور عیسائیوں کے خلاف کھیلی جارہی ہے۔ جس وقت مودی جی قصر ابیض میں دعوت کا لطف اٹھارہے تھے جھارکھنڈ کے بیریا ہتیاتند نامی گاوں میں عثمان انصاری کے گھر1000افراد پرمشتمل مشتعل ہندوہجوم نے لاٹھی ڈنڈے سےلیس ہو کر حملہ کردیا تھا۔ اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ انصاری کے گھر کے نزدیک ایک گائے مرگئی تھی۔ جو لوگ گائے کو ماتا کہتے ہیں وہ اس کی دیکھ بھال کرنے کے بجائے آوارہ گھومنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔ گائے اگر وہ کسی مسلمان کے گھر کے پاس دم توڑ دے تو اس پر حملہ کردیتے ہیں۔ گھر کو آگ لگا دیتے ہیں۔ پولس بچانے کے لیے آتی ہے تو پتھراو کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ 50 پولس والے زخمی ہوجاتے ہیں ۔ پولس کو ہوا میں فائرنگ کرنی پڑتی ہے اور اس میں کرشنا پنڈت نامی دہشت گرد زخمی ہوجاتا ہے۔ ایسا تو امریکہ میں بھی نہیں ہوتا۔ کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے؟ بھارتیہ جنتا پارٹی کی ریاست جھارکھنڈ میں پچھلے دنوں ہجوم نے 9 لوگوں کو بچہ چوری کا الزام میں موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ان کے اندر۵ مسلمانوں میں سے4 مویشیوں کے تاجر تھے ۔ جس ملک کے اندر دارالخلافہ سے لوٹنے والےحافظ جنید کو ٹرین سے اتار کر شہید کردیا جاتا ہے اور کوئی گواہ سامنے نہیں آتا۔ اس پر نہ کسی مرکزی وزیر کی زبان کھلتی ہے اور نہ کوئی وزیر اعلیٰ کچھ بولتا ہے اس ملک کا وزیر اعظم کس منہ سے امریکہ پر اعتراض کرنے کی جرأت کر سکتا ہے۔ برطانیہ کی مثال سامنے ہے کہ جب مکرم خان پر نسلی حملہ ہوا تو خود وزیراعظم نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس کو مسلمانوں کے خلاف دہشت گردی قرار دیا اور حملہ آور کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا۔ امریکہ میں صرف مسلمان دہشت گرد ہوتا ہے دیگر حملہ آور مجرم ہوتے ہیں اور ہندوستان کے اندر تووہ دیش بھکت کہلاتے ہیں ۔ ایسے میں مودی جی کس منہ سےنسلی قتل و غارتگری کے خلاف احتجاج کرسکتے تھے۔ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ہندوستانیوں کے لیے تحفظ کے علاوہ دوسرا بڑا مسئلہ روزگار کا پیدا ہوگیا۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے ’امریکہ اول‘ کی پالیسی کے تحت ایچ ون بی بیزا کی شرائط اس قدر سخت کردیں کیں کے اس سے امریکہ میں رہنے والے ہندوستانیوں کا جینا دوبھر ہوگیا۔ یہ ویزا ہندوستانیوں کے معیشت کی ریڑھ کی ہڈی تھی۔اس سے وہاں رہنے والوں کے اہل خانہ کو ملازمت کے حق سے محروم کردیا گیا۔ کم ازکم اجرت میں اس قدر اضافہ کیا گیا کہ صنعتوں کے لیے ہندوستانیوں کے بجائے امریکیوں کو ملازمت پر رکھنا سہل ہوگیا۔ اس سے نہ صرف ہزاروں ہندوستانی بیروزگار ہوگئے بلکہ ہندوستانی سافٹ وئیر کمپنیوں کا بھی قافیہ تنگ ہوگیا اور ان کی تجارت بری طرح متاثر ہوئی ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا اس بار مودی جی سیلیکون ویلی میں جاتے اور ہندوستانیوں کو جمع کرکے ان کا حوصلہ بڑھاتے ۔ ان سے کہتے کہ مایوس ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ ہم’ میک ان انڈیا‘ کے تحت آپ سب کو بھارت میں روزگار فراہم کردیں گے لیکن مودی جی تو اس بار نہ نیویارک گئے اور نہ سیلیکون ویلی ۔ چپ چاپ واشنگٹن سے لوٹ آئے۔ ایچ ون بی ویزا کا نام تک ان کی زبان پر نہیں آیا اور اسی کے ساتھ امریکہ میں رہنے والے ہندوستانیوں کے’ دل کے ارماں آنسووں میں بہہ گئے‘۔ ہندوستان میں مودی جی کے’ من کی بات‘ عام آدمی کے سر کےاوپر سے نکل جاتی ہے امریکہ میں مودی جی کی’ دھن کی بات‘ امریکی سرمایہ داروں کی سمجھ میں نہیں آتی ۔ دوسال قبل مودی جی نے ٹیسلا کار کمپنی کے سربراہ کے ساتھ بجلی کی گاڑی میں سفر کیا تھا اور یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ انہیں لے کر بنگلور آئیں گے جہاں سے بجلی کی گاڑی بننے لگے گی لیکن مودی جی دہلی لوٹے اور ٹیسلا کے سی ای اور ایلون مسک نے چین کا رخ کیا۔ مودی جی ہر بار امریکیوں سے ہندوستان میں آکر سرمایہ کاری کی کی دعوت دیتے ہیں لیکن ان کے کان پر جوں نہیں رینگتی ۔ وہ ہمیشہ ناسازگار تجارتی ماحول کا بہانہ بناکر چین کو ہندوستان پر ترجیح دے دیتے ہیں۔ یہ عجیب منافقت ہے کہ امریکی سیاستداں چین پر ہندوستان کو فوقیت دیتے ہیں اور سرمایہ دار ہندوستان پر چین کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے باوجود سرمایہ دار اور سیاستداں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں ۔ اوبامہ کے زمانے میں ایک لطیفہ مشہور ہوا تھا ۔ امریکہ کی سڑک پر دو فقیر آس پاس بیٹھ کر بھیک مانگ رہے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں گنیش کی مورتی تھی اور دوسرا صلیب تھامے ہوئے تھا۔ راہگیر گنیش کی مورتی کو دیکھ کر آگے جاتے اور صلیب کو دیکھ کر سکہ اچھال دیتے ۔ وہاں سے ایک پادری کا گزر ہوا تو اس سنے گنیش بردار بھکاری سے کہا دیکھو یہ عیسائیوں کا ملک ہے یہاں آپ کو اس مورتی کے ساتھ بھیک نہیں ملے گی۔ یہ لوگ تمہیں جلانے کے لیے تمہارے ہمسایہ کو ملامال کررہے ہیں ۔ پادری کے چلے جانے کے بعد پہلا بھکاری ہس مکھ بھائی اپنے ساتھی من سکھ بھائی سے بولا’ لوسنو‘ ۔ اب یہ پادری ہم کو سکھائے گا کہ دھندہ کیسے کیا جائے ؟پادری کا انطباق اوبامہ جیسے فلسفی پر تو ہوتا تھا لیکن ڈونالڈ ٹرمپ جیسے کائیاں تاجر پر نہیں ہوتا جس نے کروڈوں کا کاروبار کرنے کے باوجود قانونی موشگافی کی مدد سے ٹیکس ادا کرنے سے استثناء حاصل کرلیا۔ مودی جی کا پالہ جب ڈونالڈ ٹرمپ سے پڑا تو ان کے ہاتھ سے کاغذات کے علاوہ طوطے بھی اڑ گئے ۔ اس مشترکہ اعلامیہ کی تجارتی نکات ہندوستان کے لیے قابلِ تشویش ہیں۔ ایک طرف تو ڈونالڈ ٹرمپ نے ہندوستانیوں کو بیروزگار کیا۔ ہندوستانی کمپنیوں کے لیے مشکلات پیدا کیں اور اوپر سے ہندوستان کو ڈرون اور جیٹ ہوائی جہاز فروخت کرکے اپنے لوگوں کو نہ صرف روزگار مہیا کیا بلکہ اپنے سرمایہ داروں کے وارے نیارے کردیئے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے مودی جی کاشکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہم سے بہتر اسلحہ کوئی اور نہیں بناتا اور ہم آپ کے شکر گزار ہیں کہ آپ اسلحہ جات کے لیے ہم پر اعتماد کرتے ہیں۔ ویسے مودی جی واقعی شکریہ کے مستحق ہیں اس لیے کہ سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے کے لیے اس کے دروازے پر جانا پڑتا ہے جبکہ ہندوستانی وزیر اعظم مال خریدنے کے لیے خود ان کے در پر حاضر ہو جاتاہے۔
ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک کامیاب تاجر کی طرح اپنے گاہک کی خوب تعریف کی ۔ جی ایس ٹی کا ذکر کرنے کے بعد کہا کہ ہندوستان کو امریکہ کے ساتھ تجارتی تفاوت کم کرنے کی کوشش کرنا چاہیے ۔ امریکی صنعت کاروں کو ہندوستانی بازار میں اپنا مال بیچنے کے لئےمزید سہولت دینی چاہیے۔ ہندوستان کی درآمد امریکی برآمد کے مقابلے 24 بلین ڈالر کم ہے ۔ امریکی صدر کو اس کا بڑاقلق ہے اس لیے انہوں نے اپریل میں ایسے ممالک کے خلاف 90 دنوں کے اندر تحقیقات کا حکم یہ پتہ چلانے کے لیے دیا کہ وہ کس کس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ان پر سخت کارروائی کی دھمکی دی۔ وہ چاہتے ہیں کہ درآمد و براآمد کے فرق کو کم کرنے کے لیے امریکی مصنوعات ہندوستان میں فروخت ہوں اور اس کے لیے حکومت آسانیاں فراہم کرے لیکن اگر ایسا ہواتو ’میک ان انڈیا ‘ کا شیر کیا گھاس کھائے گا ؟ اور دودھ دے گا؟ اور اگر لوگ شیر کا دودھ پینے لگیں گے تو گئو ماتاکا کیا ہوگا؟یہ مطالبہ شاہد ہے کہ امریکی پادری نہ سہی لیکن سرمایہ دار ضرور ہندوستانی تاجر کے کان کاٹ سکتا ہے۔
ہندوستان کو بہلانے پھسلانے کے لیے پاکستان کو خوب برا بھلا کہا گیا لیکن اس کے عوض ہندوستان سے شمالی کوریا کی مخالفت کرائی گئی۔ یہ مخالفت ہندوستانی معیشت کے لیے نقصان دہ ہے اس لیے کہ ہندوستان شمالی کوریا کو بہت کچھ برآمد کرتا ہے۔ جس کی مالیت 500 ملین ڈالر تک ہے۔ اس سال مئی میں امریکہ کے دباو میں آکر در آمد کو صرف اشیائے خوردنی تک محدود کردیا گیا لیکن اگر اب شمالی کوریا ردعمل میں ہندوستان سے درآمد بند کردے تو یہ خسارے کا سودہ ہوگا۔ اعلامیہ میں چینی سڑک اور سمندروں کا ذکر کرے ہندوستان کو چین سے لڑانے کی کوشش کی گئی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ سکم ّ میں چین نے ہندوستانی بنکر برباد کردیئے اور مانسرور کی یاترا رکوادی ۔ اس طرح گویا امریکہ کی خوشنودی میں قومی مفاد کو بھینٹ چڑھا دیا گیا۔ اس کے بدلےسیدصلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دے کر جھنجھنا پکڑا دیا گیا۔ اس سے قبل امریکہ حافظ سعید اور مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دے چکا ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ اب بھی وہی ہوگا لیکن اس طرح امریکہ ہندوستانی سیاستدانوں کو بہلا تا ہے اور ہمارے سیاستداں اس کی مدد سے عوام کا جذباتی استحصال کرتے ہیں اور دونوں کا فائدے میں رہتے ہیں۔ امریکہ اور ہندوستان کا ماحولیات کے مسئلے پر اختلاف ہے۔ پیرس کے اندر اس معاملے میں امریکہ نے کنیّ کاٹ لی اور ہندوستان نے دستخط کردیئے ۔ ہندوستان میں ماحولیاتی آلودگی کے سبب زراعت متاثر ہورہی ہے کسان خودکشی کررہے ہیں ۔ اپنے آپ کو ہندوستان کا فطری ہم زاد کہنے والے امریکہ نے کیوٹو معاہدے پر ہندوستانی دستخط کودباو میں آکر اور دولت کی لالچ میں کیا جانے والااقدام قراردیا ۔ 56 انچ کی چھاتی والے وزیراعظم نے اس الزام کا جواب دینے کے لیے وزیرخارجہ سشما سوراج کو آگے کردیا ۔ سشما نے کہا یہ الزام غلط ہے یہ ملک پانچ ہزار سال سے ماحولیات کا محافظ ہے اور یہ ہمارے عقائد میں شامل ہے ۔ سشما بیچاری جوش میں یہ بھی بول گئیں کہ امریکہ کو اس طرح کا تبصرہ نہیں کرنا چاہیے اس پر امریکی انتظامیہ چراغ پا ہوگیا اور اس نے کہا ہندوستان ہمیں یہ بتانے کی زحمت نہ کرے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں ۔ یہ ابھی حال کا واقعہ ہے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کا وزیراعظم مودی پر ایک اثر تو یہ ہوا کہ وہ اس بار خوف کے مارے عوام میں جانے کی جرأت نہ کرسکے ورنہ کوئی بعید نہیں تھا کہ میڈیسن چوک جیسے کسی مقام پر اترپردیش میں کامیابی کا جشن منایا جاتا اور بھوجپوری سنگیت سے ساری دنیا کی تفریح کا سامان کیا جاتا۔ سیلیکون ویلی کی مندی کے پیش نظر وہ فیس بک سے اپنا چہرہ چھپا کر لوٹ آئے ۔ ماحول کو خراب ہونے سے بچانے کی خاطر ماحولیات کا ذکر ہی نہیں کیا۔ بس قصر ابیض میں بیٹھ کر اسلحہ اور جہاز خریدے۔ پاکستان کے خلاف اپنی بھڑاس نکالی اور بس ۔ اس فرمانبرداری کے جواب میں امریکہ نے سید صلاح الدین کو عالمی دہشت گرد قرار دے کر مودی جی اور ملک کی عوام کو خوش کردیا۔ اس طرح مودی جی نےفرطِ مسرت میں لپٹ جھپٹ کر رات کا کھانا کھایا اور خوشی خوشی لوٹ آئے۔ اس دورے کا حاصل ’ سچا دوست‘ کا لقب اور ’مشترک اقدار کے حامل‘ ہونے کا درست خطاب ہے۔ اس لیے کہ دونوں رہنما قوم پرست نفرت کی سیاست کرتے ہیں لیکن یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ مودی کی حمایت کرنے والے فرقہ پرست ہندوستانی بھارت میں فسطائیت کے حامی اور امریکہ میں اس کے خلاف ہیں ۔ مودی اور ٹرمپ کی دوستی پر ’چور چور موسیرے بھائی‘ والی کہاوت پوری طرح صادق آتی ہے۔
(مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں)